اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو (منظوم کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشکِ تتار
نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار
جس نے نفسِ دوں کو ہمت کرکے زیر پا کیا
چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفند یار
گالیاں سن کر دُعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار
تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہر گھڑی
چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار
چپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم
دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کردیں حالِ زار
دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو
شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار
افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے
یہ خیال اللہ اکبر کس قدر ہے نابکار
خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر
جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار
پاک دل پر بدگمانی ہے یہ شقوت کا نشاں
اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار
جب کہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں
پھر مجھے کہتے ہیں کاذب دیکھ کر میرے ثمار
کیا تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھ کر اندھی ہوئی
کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو کہ ہے روزِ شمار
(براہینِ احمدیہ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 144۔۱۴۵)