خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ ستمبر 2024ء
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاںنثار صحابہ کا بھی آپؐ سے عشق و وفا کا عجیب رنگ تھا۔ کس طرح وہ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ اپنی ذات پر ان سب کو ترجیح دے رہے تھے۔ ایسے شجاع کہ اپنی جان کا کوئی فکر نہیں، اہلِ مدینہ کا فکر ہے اور اس کے لیے اکثر خود جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں اور کبھی بظاہر آرام کرنے کے لیے خیمے میں تشریف لاتے بھی ہیں تو اس کا اکثر حصہ خدا کے حضور سربسجود ہو کے، دعائیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
غزوۂ احزاب کے دوران پیش آنے والے بعض واقعات کا بیان
لجنہ اماء اللہ اور مجلس انصاراللہ (یوکے) کو سالانہ اجتماعات کے دوران پر دعاؤں میں وقت گزارنے اور درود شریف کا ورد کرنے کی تلقین
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ستمبر 2024ء بمطابق 27؍تبوک 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جیسا کہ میں نے گذشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ان حالات کا ذکر فرمایا ہے جو
جنگِ احزاب
میں پیش آئے۔ اس کی تفصیل بیان کرتا ہوں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ مدینہ کا ایک کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلے ، کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے، اس لیے فوج یکدم حملہ نہیں کر سکتی تھی۔ پس انہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی‘‘ یعنی کافروں نے ’’کہ کسی طرح یہود کا تیسرا قبیلہ جو ابھی مدینہ میں باقی تھا اور جس کا نام بنو قریظہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے۔ چنانچہ مشورہ کے بعد حُیَی ابن اخطَب جو جلاو طن کردہ بنو نضیر کا سردار تھا اور جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اسے کفار کی فوج کے کمانڈر ابوسفیان نے ا س بات پر مقرر کیا کہ جس طرح بھی ہو بنوقریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرو۔ چنانچہ حیی ابن اخطب یہودیوں کے قلعوں کی طرف گیا اور اس نے بنوقریظہ کے سرداروں سے ملنا چاہا۔ پہلے تو انہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن جب اس نے ان کو سمجھایا کہ اِس وقت سارا عرب مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے آیا ہے اور یہ بستی سارے عرب کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کر سکتی اِس وقت جو لشکر مسلمانوں کے مقابل پر کھڑا ہے اس کو لشکر نہیں کہنا چاہئے بلکہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر کہنا چاہئے تو اِن باتوں سے اس نے بنو قریظہ کو آخر غداری اور معاہدہ شکنی پر آمادہ کر دیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کفار کا لشکر سامنے کی طرف سے خندق پار کرنے کی کوشش کرے اور جب وہ خندق پار ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو بنوقریظہ مدینہ کی دوسری طرف سے مدینہ کے اس حصہ پر حملہ کردیں گے جہاں عورتیں اور بچے ہیں جو بنو قریظہ پر اعتبار کر کے بغیر حفاظت کے چھوڑ دیئے گئے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی مقابلہ کی طاقت بالکل کچلی جائے گی‘‘ وہاں سے حملہ کیا جائے۔ ’’اور ایک ہی دم میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب مار دئیے جائیں گے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر اِس تدبیر میں تھوڑی بہت کامیابی بھی کفار کو ہو جاتی تو مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ حفاظت کی باقی نہیں رہتی تھی۔
بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ ان کی طرف سے ہو کر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا۔ اسی وجہ سے ان کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا۔
بنو قریظہ اور کفار نے بھی اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ جب بنو قریظہ کفار کے ساتھ مل گئے تو وہ کھلے بندوں کفار کی مدد نہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ مسلمان مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کا بھی کوئی سامان کر لیں۔‘‘ بڑی ہوشیاری دکھائی انہوں نے۔ ’’جو بنو قریظہ کے علاقہ کے ساتھ ملتی تھی۔‘‘ یعنی ادھر سے حملہ نہ ہو جائے۔ یہ خیال نہ آ جائے مسلمانوں کو۔’’ یہ تدبیر نہایت ہی خطرناک تھی۔ مسلمانوں کو غافل رکھتے ہوئے کسی ایسے وقت میں بنو قریظہ کا دشمن کے ساتھ جا ملنا جبکہ اسلامی فوج پر کفار کی فوج کا زبردست دھاوا ہو رہا ہو مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کو جس طرف بنو قریظہ کے قلعے واقعہ تھے بالکل ناممکن بنا دیتا تھا۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ272-273)بلکہ صرف حفاظت ہی نہیں جو ناممکن بنائی جاتی۔ اس کا تو سوال ہی نہیں بلکہ حملے کا خطرہ بھی بہت بڑھ گیا تھا۔
بہرحال ان حالات میں مسلمانوں کی فکر قدرتی تھی اور اس کے سدِّباب کے لیے بھی کوشش ضروری تھی۔ اس کے لیے مدینہ کی حفاظت کے لیے پانچ سو افراد کا تعین کرنے کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس کی تفصیل سیرت نگاروں نے یوں بیان کی ہے کہ بنو قریظہ کے معاہدہ توڑنے کی خبر مسلمانوں تک پہنچ گئی تو ان کا خوف بڑھ گیا اور ان کو عورتوں ا ور بچوں کی فکر ہونے لگی اور مسلمانوں کی حالت ویسی ہو گئی جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَمِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَاِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَبَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا (الاحزاب :11) جب وہ تمہارے پاس تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل اچھلتے ہوئے ہنسلیوں تک جا پہنچے اور تم لوگ اللہ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان تو دشمن کے سامنے تھے اور مختلف جگہوں پر باری باری خندق کا پہرہ دیتے تھے۔ وہ وہاں سے نہیں ہٹ سکتے تھے ۔ سیرت نگاروں نے خندق کے آٹھ مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں پہرہ دیا جاتا تھا اور ان سب کا نگران حضرت زبیر بن عوامؓ کو بنایا گیا تھا۔
بنو قریظہ چونکہ اب معاہدہ ختم کر کے محاصرہ کرنے والے قبائل کے ساتھ مل چکے تھے اور ان کی بابت خبریں ملنے لگیں کہ وہ کسی بھی وقت مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سَلَمَہ بن اسلم ؓکو دو سو افراد کے ساتھ اور حضرت زید بن حارثہؓ کو تین سو افراد کے ساتھ مدینہ کی حفاظت کے لیے بھیجا اور فرمایا کہ رات کے وقت وہ مختلف جگہوں پر پہرہ دیں اور وقتاً فوقتاً تکبیر یعنی اللہ اکبر کے نعرے لگاتے رہیں۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4صفحہ384-385 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمﷺ صفحہ288جلد10مطبوعہ المرکز الاسلامی للدراسات بیروت2006ء)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’اس وقت مدینہ کا مطلع ظاہری اسباب کے لحاظ سے سخت تاریک وتار تھا۔ شہر کے چاروں طرف ہزارہا خونخوار دشمن ڈیرہ ڈالے پڑے تھے جو ہر وقت اس تاک میں تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر ان کو ملیامیٹ کر دیں۔ شہر میں مسلمانوں کے پہلو میں غدّار بنوقریظہ تھے جن کے سینکڑوں مسلح نوجوان اپنی ذات میں ایک جری لشکر سے کم نہ تھے اور جو جس وقت چاہتے یا موقعہ پاتے عقب کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اور مسلمان خواتین اور بچے جوشہر میں تھے وہ تو گویا ہر وقت ان کا شکار ہی تھے۔ اس صورت حال نے جس کی حقیقت کسی سمجھدار شخص پر مخفی نہیں رہ سکتی تھی کمزور مسلمانوں میں سخت پریشانی اور سراسیمگی پیدا کر دی اور منافق طبع لوگ تو برملا کہنے لگے کہ مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا (الاحزاب :13)۔ یعنی ’’معلوم ہوتا ہے کہ خدا اوراس کے رسول کے وعدے مسلمانوں کی فتح وکامرانی کے متعلق یونہی جھوٹے ہی تھے‘‘۔ بعض منافقین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر یہ کہنا شروع کیا کہ یارسول اللہ! شہر میں ہمارے مکانات بالکل غیر محفوظ ہیں آپ اجازت دیں تو ہم اپنے گھروں میں ٹھہر کر ان کی حفاظت کریں۔ جس کے جواب میں خدائی وحی نازل ہوئی کہ وَمَا ہِىَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا (الاحزاب: 14)۔ یعنی ’’یہ غلط ہے کہ ان لوگوں کو اپنے گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا خیال ہے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ میدان کارزار سے بھاگنے کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘ مگر
یہی وقت مخلص مسلمانوں کے ایمان کے اظہار کا تھا۔ چنانچہ قرآن فرماتا ہے وَلَمَّا رَاَی الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِــيْمًا ۔ (الاحزاب : 23) جب مومنوں نے کفار کے اس لاؤلشکر کودیکھا توانہوں نے کہا کہ یہ تو سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے وعدوں کے مطابق ہے اور خدا اور رسول ضرور سچے ہیں۔
پس اس حملہ سے بھی ان کے ایمان وتسلیم میں زیادتی ہی ہوئی مگر موقعہ کی نزاکت اور حالات کے خطرناک پہلو کا سب کو یکساں احساس تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا۔ ہُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا۔ (الاحزاب : 11۔ 12) یعنی ’’یاد کروجبکہ کفار کا لشکر تمہارے اوپر اور تمہارے نیچے کی طرف سے ہجوم کرکے تم پر آگیا۔ جبکہ گھبراہٹ میں تمہاری آنکھیں پتھرانے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم لوگ (اپنے اپنے رنگ میں یعنی کوئی کسی رنگ میں اور کوئی کسی رنگ میں) خدا کے متعلق مختلف خیالات میں پڑ گئے۔ وہ وقت واقعی مومنوں کے لیے ایک سخت امتحان کا وقت تھا اور مسلمانوں پر ایک نہایت شدید زلزلہ وارد ہوا تھا۔‘‘
ایسے خطرناک وقت میں مسلمانوں کی قلیل جمعیت جن میں بعض کمزور طبیعت لوگ اور بعض منافق بھی شامل تھے کیا مقابلہ کر سکتی تھی۔ ان کے پاس تو اتنے آدمی بھی نہ تھے کہ کمزور مواقع پر خاطر خواہ پہرے کا انتظام کر سکیں۔ چنانچہ دن رات کی سخت ڈیوٹی نے مسلمانوں کو چُور کر رکھا تھا۔ دوسری طرف بنو قریظہ کی غداری کی وجہ سے شہر کی گلی کوچوں کے پہرے کو زیادہ مضبوط کرنا بھی ضروری تھا تا کہ مستورات اور بچے محفوظ رہ سکیں۔ کفار کے سپاہی مسلمانوں کو ہر رنگ میں پریشان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کبھی وہ کسی کمزور جگہ پر یورش کرکے جمع ہوجاتے اور مسلمان اس کی حفاظت کے لیے وہاں اکٹھے ہونے لگتے اور جس پر وہ فوراً رخ پلٹ کر کسی دوسرے موقعہ پر زور ڈال دیتے اور مسلمان بیچارے بھاگتے ہوئے وہاں پہنچتے۔ کبھی وہ ایک ہی وقت میں دودوتین تین جگہوں پر دھاوا کر کے پہنچتے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی جمعیت منتشر ہو کر ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی اور بعض اوقات حالات بہت نازک صورت اختیار کرلیتے اور قریب ہوتا کہ کسی کمزور موقعے سے فائدہ اٹھا کر لشکر کفار حدود شہر کے اندر داخل ہو جاوے۔ ان دھاووں کا مقابلہ مسلمانوں کی طرف سے عموماً تیروں کے ذریعہ کیا جاتا تھا مگر بعض اوقات کفار کے سپاہی یہ طریق اختیار کرتے کہ ایک دستہ تو مسلمانوں پر تیروں کی باڑ مار مار کر انہیں پیچھے رکھتا اور دوسرا دستہ یورش کرکے خندق کے کسی کمزور حصہ پر دھاوا کرکے آجاتا اور اسے کود کر عبور کرنا چاہتا۔ یہ طریقِ جنگ صبح سے لے کر شام تک بلکہ بعض اوقات رات کے حصوں میں بھی جاری رہتا تھا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ585-586)
تاریخ میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان سے صلح کے بارے میں بھی صحابہؓ، خاص طور پر انصار سے پوچھا۔
چنانچہ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’یہ دن مسلمانوں کے لیے نہایت تکلیف اور پریشانی اور خطرے کے دن تھے اور جوں جوں یہ محاصرہ لمبا ہوتا جاتا تھا مسلمانوں کی طاقتِ مقابلہ لازماً کمزور ہوتی جاتی تھی اور گو ان کے دل ایمان واخلاص سے پُر تھے مگر جسم جومادی قانونِ اسباب کے ماتحت چلتا ہے مضمحل ہوتا چلا جا رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات کو دیکھا تو آپؐ نے انصار کے رؤساء سعدبن معاذ اورسعد بن عُبَادہ کوبلا کر انہیں سارے حالات جتلائے اور مشورہ مانگا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے اور ساتھ ہی اپنی طرف سے یہ ذکر فرمایا کہ اگر تم لوگ چاہو تویہ بھی ہو سکتا ہے کہ قبیلہ غَطَفَان کو مدینہ کے محاصل میں سے کچھ حصہ دینا کرکے اس جنگ کو ٹال دیا جاوے۔ سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے یک زبان ہوکر عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ! اگرآپ کواس بارہ میں کوئی خدائی وحی ہوئی ہے تو سرِتسلیم خم ہے۔ اس صورت میں آپؐ بے شک خوشی سے اس تجویز کے مطابق کارروائی فرمائیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں نہیں۔ مجھے اس معاملہ میں وحی کوئی نہیں ہوئی۔ میں تو صرف آپ لوگوں کی تکلیف کی وجہ سے مشورہ کے طریق پر پوچھتا ہوں۔‘‘سَعْدَین یعنی دونوں، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ نے جواب دیا کہ ’’پھر
ہمارا یہ مشورہ ہے کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں کبھی کسی دشمن کوکچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہوکر کیوں دیں۔ واللہ ہم انہیں تلوار کی دھار کے سوا کچھ نہیں دیں گے۔‘‘
اب تو جنگ ہی ہے۔ ’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوانصار ہی کی وجہ سے فکر تھاجومدینہ کے اصل باشندہ تھے اور غالباً اس مشورہ میں آپ کامقصد بھی صرف یہی تھا کہ انصار کی ذہنی کیفیت کاپتہ لگائیں کہ کیا وہ ان مصائب میں پریشان تو نہیں ہیں۔ اور اگر وہ پریشان ہوں تو ان کی دلجوئی فرمائیں۔ اس لیے آپ نے پوری خوشی کے ساتھ ان کے اس مشورہ کو قبول فرمایا‘‘یعنی سعدین کے مشورہ کو ’’اور جنگ جاری رہی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ589-590)
جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ
باوجودیکہ خندق ایک مضبوط دفاعی دیوار کے طور پر کام تو دے رہی تھی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ مسلمان پوری طرح محفوظ و مامون تھے۔
اوّل تو منافقین اور خاص طور پر بنو قریظہ جیسے جنگجو لوگ مدینہ کے اندر ہی موجود تھے اور معاہدہ ختم کرنے کے بعد وہ ایک خطرناک دشمن کے طور پر سامنے تھے۔ دوسری طرف خندق کے باوجود بعض جگہیں ایسی تھیں کہ وہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ تھااور اس جگہ دشمن کے خندق عبور کر کے اندر آنے کے امکانات تھے۔ اس پریشان کن صورتحال کے پیش نظر جگہ جگہ مسلسل پہرا دیا جا رہا تھا اور اس پہرے میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفسِ نفیس موجود ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود نگرانی بھی کر رہے ہوتے اور صحابہ کی ڈھارس بھی بندھا رہے ہوتے اور یہ سارا عمل دن کو بھی جاری رہتا اور رات کو بھی جاری رہتا اور مدینے کی یہ راتیں سخت سردی کی راتیں تھیں اور بھوک کی مشکلات اس کے علاوہ تھیں۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کے شگاف تک پہرہ دینے جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سردی تکلیف دیتی تو میرے پاس تشریف لاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گرم ہو جاتا تو پھر خندق کے شگاف کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے مجھے ڈر ہے کہ لوگ اس طرف سے آ سکتے ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح آرام فرما رہے تھے اور اتنا تھکے ہوئے تھے کہ فرمایا کہ کاش کوئی نیک آدمی آج رات اس جگہ کا پہرہ دیتا تو اسی دوران جب آپؐ نے یہ بات فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیاروں کی آواز سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ تو سعد بن ابی وقاصؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! میں سعد ہوں۔ آپؐ کی حفاظت کے لیے پہرہ دینے آیا ہوں تو آپؐ نے اپنی حفاظت کے بجائے فرمایا آپ فلاں جگہ جاؤ۔ وہاں خندق کا ایک حصہ کمزور ہے وہاں پہرہ دو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ کا بھی آپؐ سے عشق و وفا کا عجیب رنگ تھا۔ کس طرح وہ اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ اپنی ذات پر ان سب کو ترجیح دے رہے تھے۔ ایسے شجاع کہ اپنی جان کا کوئی فکر نہیں، اہلِ مدینہ کا فکر ہے اور اس کے لیے اکثر خود جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں اور کبھی بظاہر آرام کرنے کے لیے خیمے میں تشریف لاتے بھی ہیں تو اس کا اکثر حصہ خدا کے حضور سربسجود ہو کے، دعائیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کے موقع پر موجود تھی اور ہم شدید سردی میں تھے۔ مَیں نے ایک رات دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اپنے خیمہ میں جتنی اللہ تعالیٰ نے چاہا نماز پڑھی یعنی جس حد تک ممکن تھا بہت لمبی نماز پڑھی۔ پھر کچھ دیکھا تو خیمے سے باہر تھوڑی دیر تشریف لے گئے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سنا۔ یہ مشرکین کے شہسوار خندق کو پار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پھر عَبَّاد بِن بِشْر ؓکو آواز دی تو انہوں نے کہا لبیک! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ کوئی اَور بھی ہے۔ اس نے کہا جی ہاں۔ میرے ساتھ میرے چند ساتھی ہیں اور آپ کے خیمے کے ارد گرد پہرہ دے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھیوں کو لے جاؤ اور خندق کا چکر لگاؤ۔ یہ مشرکین کے شہسوار خندق کاچکر لگا رہے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم پر غفلت میں حملہ کریں۔ انہوں فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ فَادْفَعْ عَنَّا شَرَّھُمْ، وَانْصُرْنَا عَلَیْھِمْ، وَاغْلِبْھُمْ، فَلَا یَغْلِبُھُمْ اَحَدٌ غَیْرُکَ۔ اے اللہ! ہم سے ان کا شر دور کر دے اور ان کے خلاف ہماری مدد کر اور ان کو مغلوب کر۔ تیرے علاوہ کوئی ان کو مغلوب نہیں کر سکتا۔ عَبَّاد اپنے ساتھیوں کے ساتھ گئے تو ابو سفیان بن حَرْب اپنے ساتھیوں کے ساتھ خندق کی تنگ جگہ کا چکر لگا رہا تھا۔ مسلمانوں کو ان کا پتہ چل گیا تو ان کو پتھر اور تیر مارنے شروع کیے جس وجہ سے وہ اپنی جگہوں پر واپس چلے گئے یعنی دشمن وہاں سے پھر لَوٹ گیا۔ حضرت عَبَّادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ
اللہ تعالیٰ عَبَّاد بن بِشْر پر رحم کرے۔ وہ تمام صحابہ کرام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے ساتھ زیادہ رہتے تھے۔ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دیتے تھے۔
(سبل الھدی والرشاد جلد4صفحہ374-375 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یہ حال تھا کہ آپؐ سردی میں رات کو اٹھ اٹھ کر اس جگہ جاتے اور اس کا پہرہ دیتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے تو واپس آکر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اس شگاف کی حفاظت کے لیے چلے جاتے۔ اِس طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہوگئے اور رات کے وقت فرمایا کاش! اِس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو میں آرام سے سو جاتا۔ اتنے میں باہر سے سعد بن وقاص کی آواز آئی۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا آپؐ کا پہرہ دینے کو۔ آپؐ نے فرمایا مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے جاؤ اور اس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں۔ چنانچہ سعدؓ اس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور آپ سو گئے۔
(عجیب بات ہے اس کی وضاحت ایک جگہ یہ کی گئی ہے کہ جب آپ شروع شروع میں مدینہ تشریف لائے تھے اور خطرہ بہت بڑھا ہو اتھا تب بھی سعدؓ پہرہ دینے کے لیے تشریف لائے تھے۔) اِنہی ایام میں آپ نے ایک دن کچھ لوگوں کے اسلحہ کی آواز سنی اور پوچھا کون ہے؟ تو عَبَّاد بن بشیر‘‘ حضرت مصلح موعودؓ نے یہاں عَبَّاد بن بشیر لکھا ہے۔ کیونکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ عَبَّاد بن بشیر، اس لیے انوار العلوم کی جلد بیس میں یہ نام عَبَّاد بن بشیر ہی لکھا گیا ہے جو سہو کتابت ہے بہرحال۔ انوار العلوم میں اس عبارت کا حوالہ سیرت الحلبیہ سے لیا گیا ہے اور سیرت حلبیہ میں ان کا نام عَبَّاد بن بِشْر لکھا ہے۔ یہ وضاحت میں اس لیے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ پھر بعد میں مجھے لکھ دیتے ہیں کہ فلاں جگہ تو یوں لکھا تھا آپ نے یہ کہا ہے۔ اصل کیا ہے؟ تو بہرحال عَبَّاد بن بِشْر اصل نام ہے جو ہو سکتا ہے غلطی سے عَبَّاد بن بشیر لکھا گیا ہو۔سہو کتابت ہے یا حضرت مصلح موعودؓ نے غلطی سے یہ فرمایا ہے۔ بہرحال آپ کہتے ہیں کہ عَبَّاد بن بشیر نے کہا میں ہوںیعنی عَبَّاد بن بِشْر نے کہا۔ تو آپ نے فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ انہوں نے کہا ایک جماعت صحابہ کی ہے جو آپؐ کے خیمہ کا پہرہ دینے کے لیے آئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اِس وقت مشرکین خندق پھاندنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں جاؤ اور ان کا مقابلہ کرو۔ میرے خیمہ کو رہنے دو۔
(ماخوذ از دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ279)
(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ 25 مطبوعہ دار المعرفہ بیروت)
اس جنگ کے دوران
حضرت صفیہؓ کی بہادری کا واقعہ
بھی ملتا ہے۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اور پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلبؓ دیگر عورتوں کے ساتھ ایک قلعہ میں تھیں جس کو فَارِعْ کہا جاتا تھا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی، ان کی پھوپھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز رشتہ دار اور دوسری عورتیں بھی وہاں اس قلعہ میں تھیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ وہاں کے نگران تھے۔ جب بنو قریظہ نے عہد شکنی کا اعلان کیا تو اب وہاں کے یہودی بھی کسی نہ کسی رنگ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہو گئے۔ حضرت صفیہؓ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ دس یہودی آئے۔ وہ ہمارے قلعہ کے گرد چکر لگانے لگے جیسے کسی موقع کی تلاش میں ہوں کہ کب اور کہاں سے اس کے اندر جایا جا سکتا ہے۔ اتنے میں ایک یہودی قلعہ کی دیوار کے بالکل قریب آیا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے حَسَّان کو کہا کہ اے حَسَّان! ادھر جاؤ اور اس یہودی کا مقابلہ کرو تو اس نے کہا اے عبدالمطلب کی بیٹی! اللہ کی قسم !آپ جانتی ہیں کہ میں ایسا آدمی نہیں ہوں۔ اگر مجھ میں یہ ہمت ہوتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتا۔ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں جب حسّان نے یہ کہا تو میں نے وہاں سے ایک لکڑی پکڑی، قلعہ سے اتری اور اس کے، اس آدمی کے سر پر جو چکر لگا رہا تھا وہ لکڑی اتنے زور سے ماری کہ اس کا سر پھاڑ دیا جس سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ میں واپس آگئی اور حسان کو کہا کہ نیچے اتر کر اس کا سامان وغیرہ تو لے آؤ یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے وہ بطور غنیمت کے تم لے آئو۔ حسّان نے کہا اے عبدالمطلب کی بیٹی! مجھے اس کے سامان کی کوئی ضرورت نہیں۔ تو مَیں نے کہا اس کا سر کاٹ کر یہود پر ہی پھینک دو تا کہ وہ ڈر جائیں اور پھر ادھر کا رخ نہ کریں۔ حضرت حسانؓ کہنے لگے کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے تو صفیہ نے اس کا سر کاٹ کر یہود کی طرف پھینک دیا۔ (پھر خود گئیں، سر کاٹا اس آدمی کا اور دیوار کے پار پھینک دیا۔) اس پر یہود خوفزدہ ہو گئے اور کہنے لگے ہم جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے یقیناً ان کے ساتھ یہاں محافظ موجود ہیں اور وہ لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے غنیمت میں سےحضرت صفیہؓ کے لیے حصہ مقرر کیا جیسے مردوں کے لیے حصہ مقرر کیا جاتا ہے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ371-372 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
سیرت خاتم النبیینؐ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’شہر میں مستورات اوربچوں کایہ حال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عموماً شہر کے ایک خاص حصہ میں جوایک گونہ قلعہ کارنگ رکھتا تھا جمع کروادیا۔ مگران کی خاطر خواہ حفاظت کے لیے کافی مسلمان فارغ نہیں کیے جاسکتے تھے اور خصوصاً ایسے اوقات میں جبکہ میدانِ جنگ میں دشمن کے حملوں کا زیادہ زور ہوتا تھا مسلمان خواتین اور بچے قریباً بالکل غیر محفوظ حالت میں رہ جاتے تھے اور ان کی حفاظت کے لیے صرف ایسے مرد رہ جاتے تھے جو کسی وجہ سے میدان جنگ کے قابل نہ ہوں۔ چنانچہ کسی ایسے ہی موقعہ سے فائدہ اٹھا کر یہودیوں نے شہر کے اس حصہ پر حملہ آور ہوجانے کی تجویز کی جس میں مستورات اور بچے جمع تھے اور جاسوسی کی غرض سے انہوں نے اپنا ایک آدمی اپنے آگے آگے اس محلہ میں بھیجا۔ اس وقت اتفاق سے عورتوں کے قریب صرف ایک صحابی حسان بن ثابت شاعر موجود تھے جو دل کی غیر معمولی کمزوری کی وجہ سے میدانِ جنگ میں جانے کے قابل نہیں تھے۔ عورتوں نے جب اس دشمن یہودی کوایسے مشتبہ حالات میں اپنے جائے قیام کے آس پاس چکر لگاتے دیکھا تو صفیہ بنت عبدالمطلب نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں، حسان سے کہا کہ یہ شخص معاند یہودی ہے اور یہاں جاسوسی اور شرارت کے لیے چکر لگا رہا ہے۔ اسے قتل کردو تاکہ واپس جاکر وہ کسی فتنہ کاموجب نہ بنے۔ مگر حسان کو اس کی ہمت نہ ہوئی جس پر
حضرت صفیہ نے خود آگے نکل کر اس یہودی کامقابلہ کیا اور اسے مار کر گرا دیا اور پھر انہی کی تجویز سے یہ قرار پایا کہ اس یہودی جاسوس کا سر کاٹ کرقلعہ کی اس سمت میں گرا دیا جاوے جہاں یہودی جمع تھے تاکہ یہودیوں کومسلمان عورتوں پرحملہ آور ہونے کی ہمت نہ پڑے اور وہ یہ سمجھیں کہ ان کی حفاظت کے لیے اس جگہ کافی مرد موجود ہیں۔
چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی اوراس موقعہ پر یہودی لوگ مرعوب ہوکر واپس چلے گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ590-591)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کو بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’بنو قریظہ اس بات کی تاک میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو ابھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں۔ چنانچہ ایک دن بنو قریظہ نے ایک جاسوس بھیجا تاکہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا کافی تعداد سپاہیوں کی ان کی حفاظت کے لیے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں وہ خاص خاص خاندان جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیئے گئے تھے اس کے پاس اس جاسوس نے آکر منڈلانہ اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ مسلمان سپاہی کہیں اِردگرد میں پوشیدہ تو نہیں ہیں۔ وہ ابھی اسی ٹوہ میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اس وقت صرف ایک ہی مسلمان مرد وہاں موجود تھا اور وہ بھی بیمار تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا اور چاروں طرف دیکھتا پھر تاہے۔ پس یہ یقیناً جاسوس ہے تم اس کا مقابلہ کرو ایسا نہ ہو کہ دشمن پورے حالات معلوم کرکے اِدھر حملہ کر دے۔ اس بیمار صحابی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک بڑا بانس لے کر اس شخص کا مقابلہ کیا اور دوسری عورتوں کی مدد سے اس کو مارنے میں کامیاب ہو گئیں۔ آخر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنو قریظہ کا جاسوس تھا۔ تب تو مسلمان اَور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینہ کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں۔ مگر سامنے کی طرف سے دشمن کا اتنا زور تھا کہ اب وہ اس طرف کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اور … بارہ سو سپاہیوں میں سے پانچ سو کو عورتوں کی حفاظت کے لیے شہر میں مقرر کر دیا اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ بیس ہزار لشکر کے مقابلہ کے لیے صرف سات سو سپاہی رہ گئے۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ274-275)
حضرت علی ؓکا عمرو بن عَبْدِ وُدّ عَامِرِی کو قتل کرنے کا واقعہ
بھی ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ کفار کے لشکر نے جب مدینہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو ان کے رؤساء نے اس امر پر اتفاق کیا کہ مل کر حملہ کیا جائے۔ وہ خندق میں کوئی ایسی تنگ جگہ تلاش کرنے لگے جہاں سے وہ اپنے گھڑ سوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تک پہنچا دیں۔ آخر وہ لوگ ایسے تنگ مقام پر پہنچے جس سے مسلمان غافل تھے تو عِکْرِمہ بن ابوجہل، نَوفَل بن عبد اللہ اور ضِرَار بن خَطَّاب اور ھُبَیْرَہ بن ابووَہْب اور عمرو بن عَبدِ وُدّ نے اس جگہ سے خندق کو پار کر لیا۔ عَمرو بنِ عَبدِ وُدّ ایسا بہادر تھاکہ عرب میں ایک ہزار مردوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ یہ جنگِ بدر میں زخمی ہوا تھا اور انہی زخموں کی وجہ سے وہ جنگِ احد میں شامل نہیں ہو سکا تھا اور اس نے یہ قسم کھائی تھی کہ اپنے سر پر تیل نہیں لگائے گا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل نہ کر لے۔ اس نے بڑے متکبرانہ انداز سے آواز لگائی۔ خندق کراس (cross) کر کے وہاں آ کے اس نے نعرہ لگایا، اونچی آواز لگائی، مسلمانوں کو للکارا کہ اے جنت کی خواہش کرنے والو آؤ !کہ مَیں تمہیں جنت میں پہنچا دوں یا تم مجھے جہنم میں بھیج دو۔ جب اس کے مقابل پر کوئی نہ کھڑا ہوا تو حضرت علی ؓنے اٹھنا چاہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر انہیں بٹھا دیا کہ علی، مقابل پر عمرو بن عبد ودّ ہے لیکن
جب اس نے دوسری یا تیسری بار آواز دی تو حضرت علیؓ اٹھے۔ پھر آپؐ نے نہیں روکا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا عمامہ ان کے سر پر باندھا اور اپنی تلوار عنایت فرمائی اور دعا دیتے ہوئے مقابلے پر بھیج دیا۔
حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر عمرو سے کہا۔ میں نے سنا ہے کہ تم نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ اگر قریش میں سے کوئی شخص تم سے دو باتوں کی درخواست کرے گا تو تم ان میں سے ایک بات ضرور مان لو گے۔ عمرونے کہا ہاں۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ پھر میں پہلی بات تم سے یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر خدائی انعامات کے وارث بنو۔ عمرو نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ اگر یہ بات منظور نہیں ہے تو پھر آؤ میرے ساتھ لڑنے کو تیار ہو جاؤ۔ اس پر عمرو ہنسنے لگا اور کہنے لگاکہ مَیں نہیں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے یہ الفاظ کہہ سکتا ہے۔ پھر اس نے حضرت علی ؓکا نام و نسب پوچھا اور ان کے بتانے پر کہنے لگا کہ تمہارا باپ میرا دوست تھا۔ اس لیے تم چلے جاؤ کسی بڑے کو بھیجو۔ حضرت علی ؓکو اس نے کہا کہ بھتیجے تم ابھی بچے ہو میں تمہارا خون نہیں گرانا چاہتا۔ اپنے بڑوں میں سے کسی کو بھیجو۔ حضرت علیؓ نے کہا تم میرا خون نہیں گرانا چاہتے مگر مجھے تمہارا خون گرانے میں تامل نہیں ہے۔ اس پر عمرو جوش میں اندھا ہو کر اپنے گھوڑے سے کود پڑا اور اس کی کونچیں کاٹ کر اسے نیچے گرا دیا۔ گھوڑے کو مار دیا اور مقابلے پہ نیچے آ گیا اور پھر ایک آگ کے شعلے کی طرح دیوانہ وار حضرت علی ؓکی طرف بڑھا اور اس زور سے حضرت علیؓ پر تلوار چلائی کہ وہ ان کی ڈھال کو قلم کرتی ہوئی ان کی پیشانی پر لگی اور انہیں کسی قدر زخمی کیا مگر ساتھ ہی
حضرت علیؓ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ایسا وار کیا کہ وہ دشمن اپنے آپ کو بچاتا رہ گیا اور حضرت علی ؓکی تلوار اسے شانے پر سے کاٹتی ہوئی نیچے اتر گئی اور عمرو تڑپتا ہوا گرا اور جان دے دی۔
بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ دو باتوں کی بجائے انہیں یہ کہا تھا کہ تین باتوں میں سے ایک ضرور مان لیتے ہو اور پہلی بات یہ تھی کہ تم واپس چلے جاؤ۔ جب حضرت علیؓ نے اس کو فرمایا تھا تو ان میں یہ بات بھی تھی کہ واپس چلے جاؤ۔ جس پر اس نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ پھر یہ تھا کہ مسلمان ہو جاؤ اور تیسرا تھا کہ اچھا پھر مقابلے کو آ جاؤ۔ عمرو کے قتل ہونے پر اس کے باقی ساتھی دہشت زدہ ہو کر اپنے گھوڑوں پر بھاگ گئے۔ حضرت زبیرؓ نے ان کا پیچھا کیا اور نوفل بن عبداللہ کو مار گرایا۔ اس طرح ان میں سے ایک اور ھُبَیرہ بن ابو وہب، یہ حضرت علیؓ کی بہن ام ہانی کا شوہر تھا پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ گھوڑے کی ہنسلی کی ہڈی کٹ گئی۔ ایک دوسری روایت کے مطابق عمرو کی ہلاکت کے بعد ھُبَیرہ اور ضِرار بن خطاب نے حضرت علیؓ پر حملہ کر دیا لیکن جوابی حملے پر یہ دونوں بھاگ گئے بلکہ ھُبَیرہ تو اپنی زرہ چھوڑ کر بھاگا حالانکہ ھُبَیرہ قریش کا بہترین گھڑ سوار سمجھا جاتا تھا۔
ایک روایت کے مطابق ضِرار بن خطاب جو کہ حضرت عمر کا بھائی تھا (سیرت حلبیہ میں ضِرار بن خطاب کو حضرت عمر بن خطاب کا بھائی لکھا گیا ہے لیکن مصنف کوسہوہواہے۔ یہ ان کا بھائی نہیں تھا۔)یہ جب بھاگا تو حضرت عمر ؓنے اس کا تعاقب کیا۔ ضِرار اچانک رکا اور حضرت عمرؓ پر نیزے سے حملہ کرنے کو تھا کہ رک گیا اور حملہ نہیں کیا۔ بس حضرت عمرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ عمر! میرا یہ احسان یاد رکھنا کہ مَیں نے تم پر حملہ نہیں کیا۔ لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓنے بھی اس احسان کو کیا یاد رکھا ہو گا۔ ضِرار کا کیا احسان تھا ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ احسان اس پر ہوا اور شاید حضرت عمر کی یہ دعا ہی تھی جو اس کو لگی کہ آخر فتح مکہ کے موقع پر یہی ضِرار اسلام لے آئے اور پھر اسلامی جنگوں میں بھرپور شرکت کی اور خوب بہادری کے جوہر دکھائے اور جنگِ یمامہ میں شہادت پائی۔ بعض کے نزدیک شہادت نہیں پائی بلکہ دیر تک زندہ رہے اور اسلام پر وفات ہوئی۔
عمرو بن عَبدِ وُدّ کے قتل ہونے کے بعد کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ وہ اس کی لاش دس ہزار درہم کے بدلے میں خرید لیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسے لے جاؤ ہم مُردوں کی قیمت نہیں کھاتے۔
بعض روایات کے مطابق نوفل بن عبداللہ الگ ایک موقع پر مارا گیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک روز وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر دوڑا تا کہ خندق کو پھلانگ جائے مگر گھوڑا خندق کو پار نہ کر سکا اور سوار سمیت خندق میں گر گیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا کیونکہ خندق میں گر کر اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے صفحہ 588-589)
( البدایہ و النھایہ جلد 2جزء4 صفحہ 115 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الہدیٰ جلد 4 صفحہ 377-378 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت الحلبیہ جلد 3 صفحہ20 دار المعرفہ بیروت)
(طبقات الکبریٰ جزء 2 صفحہ283 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(غزوہ احزاب ازباشمیل صفحہ 225 نفیس اکیڈمی کراچی)
(الاصابہ فی تمییزالصحابہ جلد03صفحہ 392دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1995ء)
(السيرة النبوية لابي الحسن الندوي (جزء اول صفحہ 353) از مکتبۃ الشاملۃ)
مشرکین نے اس کی لاش لینے کے لیے اپنا وفد بھیجا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیت کی پیشکش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں اس کی دیت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم تمہیں اس کو دفن کرنے سے نہیں روکتے۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ380 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نوفل کے قتل کے واقعہ کو بھی اس طرح بیان فرمایا ہے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’دشمن جو خندق پر حملہ کر رہا تھا بعض وقت وہ اس کے پھاندنے میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن کفار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے لیکن مسلمانوں نے ایسا جان توڑحملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے ان کے لیے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ اسی وقت خندق پھاندتے ہوئے کفار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا۔ یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفار نے یہ خیال کیا کہ اگر اس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لیے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ اِس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپ کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان لوگوں کا تو خیال یہ تھا کہ شاید جس طرح ہم نے مسلمان رؤساء بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان احد کی جنگ میں کاٹ دئیے تھے اِسی طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک، کان کاٹ کر ہماری قوم کی بے عزتی کریں گے۔ مگر اسلام کے احکام تو بالکل اور قسم کے ہیں۔ اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ کفار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا۔ اِس لاش کو ہم نے کیا کرنا ہے۔ یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلہ ہم تم سے کوئی قیمت لیں۔ اپنی لاش‘‘ جو اس آدمی کی ہے ’’بڑے شوق سے اٹھا کر لے جاؤ۔ ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ277-278)
تو بہرحال اس کی مزید تفصیلات بھی آگے چلیں گی۔ انشاء اللہ۔
اس ہفتے آج سے لجنہ اور انصار کے اجتماع بھی شروع ہو رہے ہیں۔ خدام کو جس طرح میں نے کہا تھا، ان دونوں کو بھی
لجنہ کو بھی، انصار کو بھی یہی کہتا ہوں کہ ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں میں بہت وقت گزاریں۔ درود پڑھنے کی طرف توجہ رکھیں۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے اور اجتماع کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ صرف تفریحی پروگراموں میں یاباتوں میں وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ بابرکت فرمائے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء