یادِ رفتگاں

خالدِ احمديت حضرت ملک عبدالرحمان صاحب خادمؒ

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ یوکے)

تابعین اصحابِ احمدؑ وہ خوش قسمت وجود ہيں جنہوں نے حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے صحابہؓ  کی صحبت پائی اور ان کی نيکی کے نور سے نہ صرف اپنی زندگياں روشن کيں بلکہ حضرت مسیح موعود عليہ السلام اور آپؑ کے اصحاب ؓکی سيرت پر عمل کر کے عشق و وفا کی وہ داستانيں رقم کیں جو بعد ميں آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہيں۔ خاکسار آج خالدِ احمديت حضرت ملک عبدالرحمان خادم صاحبؒ کا ذکر ِخير کرنا چاہتا ہے جن کا شمار جماعت احمديہ کے اولين دَور کے تابعين ميں ہوتا ہے۔

حضرت ملک عبدالرحمان خادم صاحبؒ ايک نيک،مخلص اور بلند پايہ مناظر ہونے کے ساتھ ساتھ ايک نہايت ايماندار اور قابل قانون دان بھی تھے۔ حضرت خادم صاحبؒ کے خاکسار کے ددھيال کے ساتھ بہت گہرے و قريبی تعلقات تھے۔ حضرت خادم صاحبؒ امير جماعت احمديہ گجرات اور خاکسار کے پڑدادا جان حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ نائب امير جماعت احمديہ گجرات تھے۔ حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ نے آپؒ کو اپنا بيٹا بنايا ہوا تھا اور دادا جان محترم ملک بشارت ربانی صاحب ان کو اپنا بڑا بھائی کہتے تھے۔ حضرت ملک عطاءاللہ صاحب کی بيٹی امۃالرشيد صاحبہ کے نکاح کے موقع پر حضرت خادم صاحبؒ نے آپؓ کے داماد محترم میر محمد سعید صاحب (جو حضرت میر محمد سعید صاحبؓ حیدرآبادی کے پوتے تھے) سے مخاطب ہو کر فرمايا: تم خوش قسمت ہو کہ تمہاری اس خاندان ميں شادی ہو رہی ہے يعنی اس حد تک وہ ايک دوسرے کو جانتے تھے۔ حضرت خادم صاحبؒ کے بارے ميں جو واقعات ذيل ميں بيان کيے جا رہے ہيں وہ خاکسار کے دادا جان محترم ملک بشارت ربانی صاحب اور آپ کی ہمشیرہ امۃالحی صاحبہ نے روايت کيے ہيں۔

حضرت خادم صاحبؒ کے مختلف مذاہب کے بارے ميں وسيع علم رکھنے کی وجہ سے مخالفين آپؒ کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے۔ اس سلسلے ميں ايک دلچسپ واقعہ دادا جان بيان کرتے تھے کہ جب آپ لاہور ميں تعليم حاصل کر رہے تھے تو اُس زمانے میں حضرت خادم صاحبؒ بھی لاہور ہوتے تھے اور دونوں کی رہائش لاہور کے احمديہ ہوسٹل ميں تھی۔ ايک دفعہ دادا جان کسی کام سے گجرات آئے ہوئے تھے۔ ايک روز آپ کو پتا چلا کہ شام کے وقت جماعت کے شديد مخالف مولوی لعل حسين اختر صاحب کا جلسہ چوک نوابشاہ گجرات ميں ہونے والا ہے۔ دادا جان بھی چونکہ مخالفين کے اعتراضات کے جواب ديتے رہتےتھے لہٰذا وہ چند احمدی احباب کے ساتھ اس جلسہ ميں شريک ہوئے۔ مولوی صاحب سمجھ رہے تھے کہ حضرت خادم صاحبؒ اس وقت لاہور ميں ہيں گجرات ميں نہيں۔کيونکہ وہ آپؒ کے علم و دلائل کا سامنا نہيں کر سکتے تھے انہوں نے بڑی ترنگ ميں آکرپنجابی ميں آواز لگائی: اوئے کتھے اے مرزائياں دا خادم؟ بڑا بنيا پھردا اے، آئے ميرے مقابلے تے (مرزائيوں کا خادم کہاں ہے؟ بڑا بنا پھرتا ہے، آئےميرے مقابلے پر)۔ دادا جان نے بيان کيا کہ ہم ميں سے کسی کو بھی نہيں پتا تھا کہ حضرت خادم صاحبؒ چادر اوڑھ کر منہ چھپائے اسٹيج کے قريب ہی بيٹھے ہوئے ہيں۔ مولوی صاحب کی بات ختم ہوتے ہی حضرت خادم صاحبؒ نے چادر الٹائی اور چھلانگ لگا کر اسٹيج پر چڑھ گئے اور کہا: لو ميں آ گيا ہوں۔ مولوی صاحب نے يہ ديکھا تو گھبرا گئے۔ اس زمانے ميں بڑی بڑی پيٹرو ميکس لالٹينیں ہوتی تھيں جو روشنی دينے کے لیے لگائی جاتی تھيں۔ اس وقت مولوی صاحب کے ہاتھ ميں چھڑی تھی۔ انہوں نے حضرت خادم صاحبؒ کو ديکھتے ہی چھڑی مار کر لالٹين کو توڑا اور چھلانگ لگا کر اندھيرے ميں بھاگ گئے۔ دادا جان کہتے تھے کہ حضرت خادم صاحبؒ کے علم کا مخالفين پر اتنا رعب و دبدبہ تھا۔

حضرت خادم صاحبؒ کو بچپن سے ہی دينی علوم پر بہت وسيع عبور تھا۔ ايک مرتبہ ايک غير از جماعت مولوی گجرات کی احمديہ مسجد ميں مناظرے کے لیے آيا۔ اس زمانے ميں گجرات کے امير جماعت حضرت چودھری احمد دين صاحبؓ ايڈووکيٹ ہوتے تھے۔ آپؓ نے حضرت خادم صاحبؒ کو اس مولوی کے اعتراضات کا جواب دينے کے لیے سامنے کر ديا۔ حضرت خادم صاحبؒ کی عمر ا س وقت بمشکل پندرہ سولہ سال تھی۔ مولوی نے آپؒ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی عالمِ دين نہيں رہا جو اس بچے کو آگے کر ديا ہے جس کی ابھی مو نچھيں بھی نہيں آئيں ؟ حضرت چودھری احمد دين صاحبؓ نے فرمايا: پہلے اس سے تو مقابلہ کر لو پھر عالمِ دين بھی تمہارے سامنے لے آئيں گے يعنی اس بچے کا اتنا علم ہے کہ يہ اکيلا ہی تمہارے لیے کافی ہے۔ اسی طرح حضرت خادم صاحبؒ کی وفات پر مولوی محمود شاہ گجراتی لاوڈ سپيکر پر يہ اعلان کرتا رہا کہ آج مرزائيوں کا شير فوت ہو گيا ہے۔

ايک دفعہ لاہور ہائی کورٹ اور حضرت چودھری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کے گھر کے قریب ايک جلسہ منعقد کيا گيا۔ايک مسلمان نے جو مسیحی ہو گيا تھا آ کر تقرير کرنی شروع کی ا ور مسلمانوں کو مخاطب کر کے اعتراض کيا کہ تم لوگوں کو کون  سی عربی زبان بولنی آتی ہے؟ تھوڑی بہت عربی بول ليتے ہو۔ حضرت خادم صاحبؒ بھی اس جلسہ ميں موجود تھے۔ اس کی بات سن کر آپؒ اٹھے اور آدھے گھنٹے تک اس کے اعتراض کا جواب عربی زبان ميں ديتے رہے۔ آپؒ کی بات مکمل ہونے کے بعد سب مسلمانوں ميں اتنی خوشی کی لہر دوڑی کہ جو لوگ وہاں موجود تھے انہوں نے حضرت خادم صاحبؒ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ تقرير سننے کا مزا آ گيا ہے۔ آپ نے تو کمال کر ديا ہے۔

آپؒ بہت قابل، زيرک اور ذہين انسان تھے۔ايک دفعہ مولوی بشير احمد صاحب سيالکوٹی کے ساتھ مناظرہ تھا۔ دس پندرہ احباب جماعت کے علاوہ خاکسار کے دادا جان بھی وہاں موجود تھے۔ مولوی صاحب نے اعتراض کيا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ميں اپنے والدين کی خاتم الاولاد ہوں، ميرے بعد کبھی کوئی اور بچہ پيدا نہيں ہوا۔ اسی طرح خاتم النبیین ؐ کا بھی يہی مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور نبی نہيں ہو گا۔حضرت خادم صاحبؒ مسکرا پڑے اور فرمايا کہ مرزا صاحبؑ نے يہ کہا ہے کہ ميں اپنے والدين کے لیے خاتم الاولاد ہوں يہ تو نہيں کہا کہ ميرے ہاں کوئی اولاد نہيں ہو گی۔ جو ان (حضرت مسیح موعود عليہ السلام) کی اولاد ہو گی وہی بڑے مرزا صاحب (حضرت مسیح موعود عليہ السلام کے والد ماجد ) کی ہو گی يعنی جو بھی آئندہ بچہ پيدا ہو گا وہ آپؑ کے ذريعے ہوگا۔ آپؑ کے والدين کی نسل آپؑ کے بھائی بہن کے ذريعے نہيں چلے گی بلکہ آپؑ کے ذريعے جاری رہے گی۔خاتم النبیین ؐکا بھی خاتم اولاد کی طرح يہی مطلب ہے کہ اب جو بھی نبی آئے گا وہ حضرت نبی کريم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی امتی ہو گا۔ باہر کی کسی امت کا نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کے لیے نہيں آ سکتا۔

امام الصلوٰۃ کے علاوہ حضرت خادم صاحبؒ جماعت احمديہ گجرات کی مسجد ميں قرآن مجيد کا درس بھی ديا کرتے تھے۔ لاہوری جماعت کے ايک دو وکيل بھی مسجد ميں آکر آپؒ کا درس سنا کرتے تھے۔ آپؒ ايک انتہائی قابل قدر شخصيت ہونے کے باوجود عاجزی و انکساری کا پيکر تھے۔ ايک روز نماز کے وقت حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ اور دوسرے احمدی احباب مسجد ميں آپؒ کے انتظار ميں بيٹھے ہوئے تھے کہ آپؒ آ کر نماز پڑھائيں۔ کچھ دير کے بعد آپؒ تشريف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز ادا کرنے کے بعد حضرت ملک عطاءاللہ صاحبؓ نے آپؒ سے پوچھا خادم! تم کہاں تھے ؟ ميں پريشان ہو رہا تھا کيونکہ نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ ميں نماز پڑھانے ہی لگا تھا کہ تم آ گئے۔ آپؒ نے انہيں بتايا کہ اصل ميں بات يہ ہے کہ راستے ميں دو آدميوں نے مجھے مذہبی بحث ميں الجھا ليا تھا۔ميں نے انہيں بتايا کہ ميرے پاس اتنی لمبی بحث کا وقت نہيں اور ميں سيدھا مسجد پہنچا ہوں۔ آپ نماز پڑھا ديتے ميں آ کر آپ کے پيچھے نماز پڑھ ليتا۔ آپ ميرے والد کی طرح ہيں اگر آپ ڈانٹنا چاہتے ہيں تو بے شک ڈانٹ ليں۔آپؓ نے کہا اچھا کوئی بات نہيں اگلی بار ميں نماز پڑھا دوں گا۔۱۹۵۳ء کے احمدی فسادات کے دوران ہنگامے پورے پنجاب میں پھيل جانے کے باوجود اس طرح شدت سے گجرات ميں پيش نہيں آئے۔ اس کی ايک وجہ حضرت خادم صاحبؒ کے گجرات شہر کے کچھ سرکردہ احباب کے ساتھ گہرے تعلقات و مراسم تھے اس لیے شر پسندوں کو فساد کرنے کی اتنی جرأت نہيں ہوئی۔حضرت خادم صاحبؒ احمدی احباب جماعت کے قانونی معاملات ميں ان کے مقدمات کی پيروی بھی کرتے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدرد ی رکھتے تھے۔ لوگوں کی ملازمت کے معاملے ميں اگر آپؒ کچھ مدد کر سکتے تو ضرور کرتے۔ آپؒ مقامی مشاعروں ميں بھی حصہ ليتے تھے۔ ۱۹۵۷ء ميں آپؒ نے ۴۷ سال کی عمر ميں وفات پائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بہشتی مقبرہ ربوہ ميں آپؒ کی تدفين ہوئی۔ اللہ تعالیٰ حضرت خادم صاحبؒ کو جنت الفردوس ميں جگہ عطا فرماۓ اور ہميں اپنے ان بزرگوں کی نيکياں جاری رکھنے والا بنائے۔آمين ثم آمين

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button