متفرق

وَرم کی ممکنہ وجوہات اور احتیاطیں

ورم ایک سوجن ہے جو جسم کے ٹشوز میں پھنسے ہوئے لیکوئیڈ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ تکلیف کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ورم اس وقت ہوتا ہے جب آپ کی خون کی چھوٹی نالیوں سے قریبی ٹشوز میں اضافی لیکوئیڈ خارج ہوتا ہےجس سے ٹشو پھول جاتا ہے۔ اسے طبی اصطلاح میں ایڈیما (Edema)کہتے ہیں۔ یہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے اور ایک چھوٹے سے حصے یا پورے جسم کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کے اسباب میں بیماریاں، ادویات ، الرجی ، حمل، انفیکشن، اور بہت سے دوسرے طبی مسائل شامل ہیں۔ متوازن خوراک اور ورزش جیسے روز مرہ کے معمولات میں تبدیلیوں سے اس کا علاج ممکن ہے۔ذیل میں ورم کی چند ممکنہ وجوہات اور علاج درج ہیں۔

خون میں البیومن(Albumin) کی کم مقدار: خون میں موجود پروٹین البیومن کی کمی ورم کا سبب بن سکتا ہے، طبی زبان میں اسے (Hypoalbuminemia) کہتے ہیں۔

الرجک ردّ عمل: ورم اکثرالرجی کے ردّعمل کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ الرجک ردّ عمل ایک مدافعتی نظام کی غیر معمولی جواب دہی ہے جس میں جسم کسی غیر مہلک مادے (جسے الرجن کہا جاتا ہے) کے خلاف شدت سے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ ردّ عمل عام طور پر ورم کا باعث بنتا ہے۔

دل کی کمزوری : جب دل کمزور ہو جاتا ہے اور خون کو کم مؤثر طریقے سے پمپ کرتا ہے، تو لیکوئیڈ آہستہ آہستہ بنتا ہے، جس سے ٹانگوں میں ورم پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر جسم میں سیال (fluid) کی پیداوار تیزی سے بڑھ جائے تو یہ پھیپھڑوں میں پانی (pulmonary edema) بھرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔

جگر کی بیماری: جگر کی شدید بیماری، جیسے سروسس (Cirrhosis) خون میں البیومن اور دیگر پروٹین کی سطح کو کم کرتا ہے۔ پیٹ میں لیکوئیڈ کا اخراج ہوتا ہے اور ٹانگوں میں ورم کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

گردے کی بیماری: گردے کی ایک بیماری جسے نیفروٹک سنڈروم (Nephrotic Syndrome) کہتے ہیں ٹانگوں میں شدید ورم اور بعض اوقات پورے جسم میں ورم کا سبب بن سکتا ہے۔

حمل: حمل کے دوران ٹانگوں کا ہلکا ورم عام ہے۔ لیکن حمل کی زیادہ پیچیدگیاں جیسے ڈیپ وین تھرومبوسس (Venous Thrombosis) اور پری لیمپسیا (Pre-eclampsia) بھی ورم کا سبب بن سکتے ہیں۔

ذیابیطس: ذیابیطس کی کچھ پیچیدگیوں میں شامل ہیںدل کی بیماری ، گردوں اور جگر کی شدید ناکامی، یہ پیچیدگیاں اور ذیابیطس کے لیے مخصوص دوائیں، ورم کا باعث بن سکتی ہیں۔

غذائی عوامل: غذائی عوامل کی ایک بڑی تعداد بھی ورم کا سبب بنتی ہے۔ جیسے، بہت زیادہ نمک کا استعمال ، غذائیت کی کمی، جس میں خون میں پروٹین کی کم سطح کے نتیجے میں ورم پیدا ہوسکتا ہے۔ وٹامن بی ون، بی 6 اور بی 5 کی کم مقدار شامل ہے۔

ورم سے بچائو کے ممکنہ ٹوٹکے

چہل قدمی اور ورزش : روزانہ کم از کم ۲۰؍سے ۳۰؍ منٹ تک چہل قدمی کریں اور پھردس منٹ کے لیے ہلکی پھلکی ورزش بھی کریں۔اِس عمل سے عموماً جسم متورّم نہیں ہوتا اور اگر ورم آ بھی جائے، تو جلد ہی ختم ہو جاتا ہے۔

مصالحوں کے استعمالمیں احتیاط:روزمرّہ کے کھانوں کی تیاری میں مصالحوں کے استعمال میں احتیاط کریں نیز ہلدی، اکیل کوہستانی (روزمیری)، دارچینی، زیرے اورادرک کے استعمال سے جسم میں ورم شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔غذاؤں میں ان مصالحوں کے استعمال سے صحت کو دیگر فوائد بھی ہوتے ہیں۔

ہفتہ وارروزہ رکھنا: ہفتے میں ایک یا دو دن روزہ رکھنے سے بھی ورم کم ہو جاتا ہے۔بعض محققین نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ دس سے بارہ گھنٹے کے وقفے سے غذا کھانا صحت مند رہنے کی ضمانت ہے۔علاوہ ازیں ہفتے میں ایک سے دو دن روزہ رکھنے سے ورم سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

سبزیوں کا استعمال:جسم متورم ہونے کی صورت میں پالک اور بندوپھول گوبھی کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا سبزیاں بدن میں عملِ تکسید (Oxidation Process) کو روکتی اور ورم کم کرتی ہیں۔

متوازن غذا: چَھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی، سُرخ گوشت اور تلی ہوئی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بدن میں ورم بڑھتا ہے، جب کہ اس کے برعکس بغیر چَھنے آٹے کی روٹی، پتّے والی یا خول بند سبزیوں جیسے کہ مٹر، لوبیا، مسور کی دال اور مچھلی کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے۔سلاد میں ٹماٹر اور بلیو بیری کا استعمال بڑھانا چاہیے جبکہ کہ چائے کے وقفے میں خُشک پھل، بادام، اخروٹ اور کاجو وغیرہ کا استعمال بھی صحت کے لیے مفید رہتا ہے۔

وزن کم کرنا: جسم میں ورم کم کرنے کے لیے سادہ، متوازن اور کم چکنائی والی غذائیں کھائیں۔باقاعدگی سے خالی پیٹ صبح و شام چہل قدمی اور ہلکی پُھلکی ورزش کریں ۔

سبز چائے کا استعمال: ناشتے میں بھی سبز چائے کا استعمال کریں، کیونکہ اس میں پایا جانے والا کیمیائی جز پولی فینول (Polyphenols) جسم میں پائے جانے والے نقصان دہ آزاد خلیوں کو تلف کرتا ہے۔یہ آزاد خلیے جسم میں ورم کو بڑھاتے ہیں، جبکہ کافی کا استعمال بھی ورم کم کرتا ہے۔

(نوٹ: اس مضمون میں عمومی معلومات دی گئی ہیں۔ قارئین اپنے مخصوص طبی حالات کے پیش نظر اپنے ڈاکٹر یا جی پی (GP)سے مشورہ کریں۔)

(حافظ محمد طلحہ ملک۔یوکے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button