تقدیر الٰہی (قسط 7)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
تقدیر کا ظہور
یہ معلوم کرلینے کے بعد کہ تقدیر کی کس قدر اقسام ہیں اس بات کا معلوم کرنا ضروری ہے کہ خاص تقدیر کے ظہور کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟ اس بات کے نہ سمجھنے کے باعث سے ہی بعض لوگ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں خدا کراتا ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ہر ایک شخص سے جبراً کام نہیں کراتا۔ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے نزول کے لیے خاص شرائط ہیں۔ درحقیقت یہ دھوکا عُجب سے پیدا ہوا ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں جن سے خدا کام کراتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے خاص حکم خاص ہی لوگوں کے لیے ہوتے ہیں خواہ وہ خاص طور پر نیک ہوں خواہ وہ خاص طور پر بد۔
تقدیر خاص کی تفصیل
مختصر طور پر تقدیر کی اقسام بیان کرنے کے بعد اب میں کسی قدر ان کی تفصیل بیان کرتا ہوں لیکن چونکہ تقدیر عام خاص قواعد کے ماتحت ہوتی ہے اس لیے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں تقدیر خاص کی ہی تفصیل بیان کرنی کافی ہوگی۔
تقدیر خاص دو قسم کی ہوتی ہے۔ بعض اصولی قواعد کے ماتحت خدا تعالیٰ کی طرف سے احکام جاری ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ ایک قاعدہ خدا تعالیٰ نے مقرر کر چھوڑا ہے کہ نبی اور نبی کی جماعت اپنے دشمنوں پر غالب آئے گی۔ چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔(المجادلۃ:22)
اللہ تعالیٰ نے فرض کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول دشمنوں پر غالب آئیں گے۔ اور فرماتا ہے۔
وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔(الروم:48)
یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم مومنوں کی مدد کریں۔
اب جب کہ انبیاؑء اور ان کی جماعتوں کو اپنے دشمنوں پر فتح ہوتی ہے تو اس کو عام شرعی تقدیر کے ماتحت نہیں لاسکتے کیونکہ یہ خاص حکم ہے جو ایک خاص اصل کے ماتحت جاری ہوتا ہے اور بسا اوقات امور طبعیہ اس کے مخالف پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ دوم وہ تقدیر خاص کہ وہ خاص خاص حالات اور خاص اشخاص کے لیے جاری ہوتی ہے اور کسی اصولی قاعدہ کے ماتحت نہیں ہوتی۔ اس کی مثال وہ وعدہ ہے جو رسول کریم ﷺ سے فتح مکہ کے متعلق کیا گیا۔ رسول کریم ﷺ کے لیے یہ بات تو عام قانون کی رو سے ہی مقدر تھی کہ آپؐ دشمنوں پر غالب ہوں مگر خدا تعالیٰ نے یہ قانون نہیں بنایا کہ جہاں کوئی نبی پیدا ہو وہاں وہ بادشاہ بھی ہو جائے مگر رسول کریم ﷺ کے لیے یہ خاص حکم جاری کیا گیا کہ آپؐ اول مکہ سے ہجرت کریں اور پھر اس کو فتح کر کے وہاں کے بادشاہ بنیں۔ یہ خاص رسول کریم ﷺ کے لیے حکم تھا اور ایسا حکم تھا کہ جب یہ جاری ہوگیا تو خواہ دنیا کچھ کرتی اور ساری دنیا آپؐ کو مکہ کا بادشاہ بننے سے روکنا چاہتی نہ روک سکتی۔ نادان کہتے ہیں کہ چوری خدا کراتا ہے۔ ہم کہتے ہیں چوری تو ایسا فعل ہے کہ اس سے لوگ روک بھی سکتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ جو کچھ کراتا ہے اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ رسول کریم ﷺ کو مکہ میں وحی ہوئی۔
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ (القصص:86)
یعنی وہ پاک ذات جس نے تجھ پر قرآن نازل کیا ہے ضرور تجھے مکہ میں پھر لوٹانے والا ہے۔ اس میں دو پیشگوئیاں تھیں۔ اول یہ کہ مکہ سے نکلنا پڑے گا اور دوسری یہ کہ پھر واپس آنا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کوئی اس میں روک نہ بن سکا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے یہ تقدیر خاص جاری ہوئی کہ ان کے دشمن کے سارے پلوٹھے مارے جائیں گے۔ تو یہ عام تقدیر تھی کہ انبیاؑء غالب ہوں گے مگر یہ کہ فلاں کس طرح غالب ہوگا اور فلاں کس طرح۔ یہ خاص تقدیر تھی۔
اسی طرح حضرت صاحبؑ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ قادیان کی ترقی ہوگی اور حضرت صاحبؑ نے لکھا ہے کہ دس دس میل تک اس کی آبادی پھیل جائے گی اور آپ جانتے ہیں کہ آج جہاں لیکچر ہو رہا ہے یہ جگہ اس جگہ سے جہاں پہلے لیکچر ہوتے تھے قریباً ایک میل پرے ہے تو نبیوں کا جیتنا اور غالب ہونا ایک عام تقدیر ہے جو بعض اصولی قواعد کے ماتحت جاری ہوتی ہے مگر ان کے جیتنے کا طریق ایک خاص تقدیر ہے جو ہر زمانہ کے حالات سے متعلق ہے وہ کسی ایک قاعدہ کے ماتحت جاری نہیں ہوتی۔ مثلاً حکم ہوگیا کہ حضرت مرزا صاحبؑ جس جگہ میں رہتے تھے اس کو بڑھا دیا جائے۔ اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ آج کل بڑے بڑے شہروں کا رواج ہو رہا ہے اور بڑے شہر دنیا کا فیشن ہوگئے ہیں۔ سو اس زمانہ کے لیے خدا تعالیٰ نے یہی تقدیر خاص ظاہر کی ہے۔
تقدیر کا تعلق اسباب سے
اب میں بتاتا ہوں کہ تقدیر جاری کس طرح ہوتی ہے۔ کیا خدا ایک شخص کی نسبت کہتا ہے کہ جل جائے تو وہ کھڑے کھڑے جل جاتا ہے اور وہیں اس کو آگ لگ جاتی ہے یا اس کے لیے کچھ سامان پیدا ہوتے ہیں؟
اس کے لیے یاد رکھنا چاہیے کہ تقدیر اور اسباب کا تعلق بھی کئی طرح ہوتا ہے۔
(1)تقدیر اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ اسباب شامل ہوتے ہیں۔ تقدیر عام طبعی ہمیشہ اسی طرح ظاہر ہوتی ہے جیسے آگ کا لگنا۔ آگ جب لگے گی انہی سامان کی موجودگی میں لگے گی جن کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ خاصہ پیدا کیا ہے کہ وہ آگ پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آگ کی چنگاری کسی ایسی چیز کو لگ جاوے جو جلنے کی قابلیت رکھتی ہے یا یہ کہ دو ایسی چیزوں میں کہ جو دونوں یا دونوں میں سے ایک جلنے کے قابل ہو رگڑ پیدا ہو کر آگے نکل آوے یا دو سخت رگڑنے والی چیزوں کے پاس کوئی ایسی شَے ہو جو جلنے کی قابلیت رکھتی ہے۔ تقدیر خاص دو طرح ظاہر ہوتی ہے۔
(1)(الف)تو اسی طرح کہ اسباب اس کے ساتھ ہوں۔
(ب) اس طرح کہ اسباب اس کے ساتھ نہ ہوں۔
وہ تقدیر خاص جس کے ساتھ اسباب شامل ہوتے ہیں آگے کئی طرح ظاہر ہوتی ہے۔
i۔ یہ کہ اسباب نظر آتے ہیں اور پتہ لگ جاتا ہے کہ اس امر کے یہ اسباب ہیں اور ان میں تقدیر کا پہلو بہت مخفی ہوتا ہے۔ یہ آگے پھر کئی طرح ظاہر ہوتی ہے۔
ii۔ اسباب بد کے مقابلہ میں اسباب نیک پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کسی گاؤں میں تھا جہاں کے نمبردار نے مخالفت کی وجہ سے اسے تکلیف دینی شروع کی۔ اب خدا نے کسی وجہ سے (وہ وجہ کیا ہے اس کے متعلق آگے بیان کروں گا) یہ فیصلہ کیا کہ اس بندہ کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس کے لیے ایک طریق یہ ہے کہ تحصیلدار کے دل میں خدا تعالیٰ اس کی محبت ڈال دے اور وہ اس سے دوستانہ میل ملاقات شروع کر دے۔ یہ دیکھ کر نمبردار خود بخود اس کی مخالفت سے باز آجائے گا کہ اس کا تو تحصیلدار سے تعلق ہے کہیں مجھ پر مقدمہ نہ دائر کر دے۔
(2)یہ کہ جو اسباب بد ہوتے ہیں وہ نیک ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کا کوئی مخالف اس سے دشمنی کرتا ہے اور اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دے کہ وہ مخالف دوست بن جائے جیسا کہ حضرت صاحبؑ کے ساتھ ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے وقت ہوا ہے۔ جس نے آپ کے خلاف سازش کا مقدمہ دائر کروا دیا تھا جب یہ مقدمہ ہوا ہے اس وقت ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کپتان ڈگلس صاحب تھے۔ یہ صاحب شروع شروع میں سخت متعصب تھے اور گورداسپور آتے ہی انہوں نے کئی لوگوں سے سوال کیا تھا کہ ایک شخص یہاں مسیحیت اور مہدویت کا دعویٰ کرتا ہے کیا اس کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا گیا؟ ایسے شخص کو تو سزا ہونی چاہیے تھی کیونکہ ایسا دعویٰ مخل امن ہے۔ چونکہ یہ مقدمہ خاص اہمیت رکھتا تھا اس لیے انہی کی عدالت میں پیش ہوا۔ اور انہوں نے اپنے مخفی تعصب کے ماتحت جو پہلے سے ان کو تھا پہلے حکم دینا چاہا کہ بذریعہ وارنٹ حضرت صاحبؑ کو گرفتار کرا کے منگوایا جاوے۔ مگر پولیس افسران نے اور ان کے عملہ کے آدمیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ایک بڑی اور معزز جماعت کے لیڈر ہیں۔ ان سے اس طرح کا سلوک فتنہ پیدا کرے گا۔ پہلے پیشی پر ان کو یونہی بلوایا جاوے پھر مقدمہ کے حالات دیکھ کر آپ جو حکم چاہیں دیں۔ اس پر انہی لوگوں کے مشورہ سے ایک پولیس افسر کو حضرت صاحبؑ کے بلانے کے لیے بھیج دیا گیا اور وہ آکر اپنے ساتھ حضرت صاحب کو لے گیا۔ لیکن وہی افسر جو کہتا تھا کہ ابھی تک مرزا صاحبؑ کو سزا کیوں نہیں دی گئی خدا تعالیٰ نے اس کے دل پر ایسا تصرف کیا کہ اس کے اندر کچھ عجیب تغیر پیدا ہوگیا اور اس نے ڈائس پر کرسی بچھا کر حضرت صاحبؑ کو اپنے ساتھ بٹھوایا اور جب آپؑ عدالت میں پہنچے تو کھڑے ہو کر اس نے مصافحہ کیا اور خاص عزت سے پیش آیا۔ شاید کوئی کہہ دے کہ بعض چالاک انسان ظاہر میں اس لیے محبت سے پیش آتے ہیں کہ آخر نقصان پہنچائیں اسی لیے اس نے اس طرح کیا۔ لیکن آگے دیکھیے جب مقدمہ شروع ہوا تو باوجود اس کے کہ مقابلہ میں انگریز پادری تھا اور مقدمہ کوئی معمولی نہیں بلکہ قتل کا مقدمہ تھا اور وہ بھی مذہبی گواہ موجود تھے ملزم مُقر تھا مگر اس نے بیان سن سنا کر کہہ دیا کہ میرا دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ مقدمہ سچا ہو۔ اب بتاؤ دل پر کون حکومت کر رہا تھا ؟ وہی جس کا نام خدا ہے۔ ورنہ اگر کپتان ڈگلس صاحب کا اپنا فیصلہ ہوتا تو ظاہر پر ہوتا۔ مگر ظاہری تمام حالات کو خلاف پا کر بھی وہ کپتان پولیس کو کہتے ہیں کہ جاؤ اس ملزم سے پوچھو حقیقت کیا ہے؟ وہ آکر کہتے ہیں کہ ملزم بیان دیتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ چکا ہوں وہی صحیح ہے۔ اس پر بھی کپتان ڈگلس کہتے ہیں میرا دل نہیں مانتا۔ پھر کپتان پولیس جاتے ہیں اور وہ پھر یہی کہتا ہے مگر ادھر یہی جواب ہے کہ دل نہیں مانتا۔ اس پر کپتان پولیس کو بھی خاص خیال پیدا ہوا اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ ملزم کو بجائے پادریوں کے پاس رکھنے کے پولیس کی حراست میں لیا جائے تاکہ سازش کا شبہ نہ رہے۔ اور جب اس پر عمل کیا گیا تو ملزم فوراً صاحب کے پاؤں پر گر پڑا اور اس نے سب حقیقت بیان کر دی اور بتا دیا کہ مجھے فلاں پادری سکھایا کرتے تھے اور بعض احمدیوں کے نام جن کو یہ ساتھ پھنسانا چاہتے تھے جب مجھے یاد نہ رہتے تھے تو یہ میری ہتھیلی پر پنسل سے وہ نام لکھ دیتے تھے تا عدالت میں مَیں ہتھیلی کو دیکھ کر اپنی یاد تازہ کر لوں۔ اس طرح ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے خود ایک مجرم کے دل کو پھیر کر اس کے مونہہ سے حق کہلوا دیا اور دوسری طرف خود ڈپٹی کمشنر کے دل کو پھیر دیا۔ جو پہلے مخالف تھا موافق ہوگیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ حضرت صاحبؑ بالکل بری ہیں کہا کہ اگر آپؑ چاہیں تو ان لوگوں پر جنہوں نے آپؑ کے خلاف منصوبہ کیا تھا مقدمہ کر سکتے ہیں۔ یہ تقدیر خاص تھی مگر کس طرح ظاہر ہوئی۔ اس طرح کہ جو اسباب بد تھے ان کو خدا تعالیٰ نے نیک کر دیا۔ اور جو سزا دینے کا ارادہ رکھتا تھا اسی نے کہا کہ میرا دل نہیں مانتا کہ مرزا صاحب پر یہ الزام سچائی سے لگایا گیا ہو۔
(3)تیسرا طریق تقدیر کے جاری ہونے کا یہ ہے کہ اسباب بد کے بداثر سے اسباب ہی پیدا کر کے اسے بچا دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی کو قتل کرنے کے لیے اس کے گھر آتا ہے اور اس پر تلوار بھی چلاتا ہے۔ اور تلوار اس پر پڑتی بھی ہے مگر اُچٹ جاتی ہے اور ٹھیک طور پر لگتی ہی نہیں یا درمیان میں کوئی اور چیز آجاتی ہے اور وہ اس کے اثر سے محفوظ رہتا ہے۔ اس واقعہ میں اسباب تو بد ہی رہے۔ نیک نہیں ہوگئے۔ مگر ان کے اثر سے انسان بچ گیا۔
(4)چوتھے تقدیر اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اسباب بد کے مقابلہ میں سعی نیک کی توفیق مل جاتی ہے۔ مثلاً دشمن حملہ کرتا ہے۔ اس کے حملہ سے بچنے کا ایک تو یہ ذریعہ تھا جو میں پہلے بتا چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی اور طاقتور انسان کو اس کی حفاظت کے لیے کھڑا کر دیتا ہے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ خود اسی کو اس کے مقابلہ کی طاقت عطا کر دیتا ہے اور اسی طرح سعی نیک کی توفیق دے کر ان بداسباب کے اثر سے اسے بچا لیتا ہے جو اس کے خلاف جمع ہو رہے تھے۔
یہ چار طریق ہیں جن میں تقدیر خاص اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اسباب کے ذریعہ ہی سے تقدیر عام کو ٹلایا جاتا ہے اور اسباب نظر بھی آتے ہیں۔
………………………………………………………(باقی آئندہ)