کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

نعمائے بہشت کی حقیقت(حصہ چہارم)

مختصر یہ کہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا علم نہیں اور وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ کاش وہ ان حالی کیفیات سے واقف ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قدر اور حقیقت ان لوگوں نے سمجھی ہی نہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کی تاثیرات اور ثمراsت بھی باقی نہیں ہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا ثبوت ہی کیا ہے؟ اور اسلام کی فضیلت ہی کیا؟ اور اس شریعت کے اتباع کی حاجت ہی کیا جبکہ اس کے نتائج و برکات ہم کو مل نہیں سکتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک بیہودہ اور کفریہ خیال ہے۔ اسلام کی اتباع کے ثمرات اب بھی اور ہمیشہ مل سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں بخل نہیں اور نہ اس کے ہاں کسی بات کی کمی ہے۔

بعض آدمی اپنی بیوقوفی اور شتاب کاری سے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہم نے ولی بننا ہے۔ میرے نزدیک ایسے لوگ کفر کے مقام پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو سب کو ولی کہتا ہے اور سب کو ولی بنانا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

کی ہدایت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تم منعم علیہ گروہ کی مانند ہو جاؤ۔ جو کہتا ہے کہ میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بخل کی تہمت لگاتا ہے۔ اور اس لیے یہ کلمہ کفر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا سب سے بڑا مقام تو یہ تھا کہ آپ محبوب الٰہی تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی اس مقام پر پہنچنے کی راہ بتائی جیساکہ فرمایا

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32)

یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الٰہی بن جاؤ تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنا لے گا۔ اب غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اتباع محبوب الٰہی بنا دیتی ہے تو پھر اَور کیا چاہیے؟ مگر اصل یہ ہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو شناخت نہیں کیا۔

مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ۔(الانعام:92)

ایسا ہی شیعہ ہیں۔ انہوں نے فقط اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے روپیٹ لینا ہی نجات کے واسطے کافی ہے۔ یہ کبھی ان کو خواہش نہیں ہوتی کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کی اتباع میں ایسے کھوئے جائیں کہ خود حسین بن جاویں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ اس وقت تک نجات نہیں جب تک انسان نبی کا روپ نہ ہو جاوے۔ وہ انسان جو اپنے مراتب اور مدارج میں ترقی نہیں چاہتا وہ مخنثوں کی طرح ہے۔

میں کھول کر کہتا ہوں کہ جس قدر انبیاء و رسل گزرے ہیں۔ ان سب کے کمالات حاصل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے آنے کی غرض اور غایت ہی یہی تھی کہ لوگ اس نمونہ اور اسوہ پر چلیں۔

یہ امور ہیں جن کی وجہ سے ہم کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ موت و حیات مسیح کا مسئلہ تو یونہی راہ میں آگیا۔ بہت سے مصالح الٰہی تھے جو یہ مسئلہ پیش آگیا۔ ورنہ اصل مقاصد اور اغراض ہماری بعثت کے اَور ہیں۔ ہاں یہ مسئلہ چونکہ تعلیم الٰہی کے خلاف تھا۔ اور اس میں توحید کے مصفیٰ چشمہ کو مکدر کرنے والے اجزا موجود تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ کر دیا اور صاف کر دیا کہ سب نبی فوت ہو گئے ہیں۔ مسیح علیہ السلام میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں جو دوسرے نبیوں کو نہ ملی ہو۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر گیا ہے لیکن میں یہ کبھی تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرے نبی جسم کے بغیر آسمان پر گئے ہیں۔ جس قسم کے جسم ان کو عطا ہوئے ہیں وہی جسم مسیح کو دیا گیا ہے اور یہ وہ جسم ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوتا ہے۔یہ پُرانی باتیں ہیں نئی نہیں۔ چونکہ انہوں نے قرونِ ثلاثہ کی باتیں بُھلا دی ہیں اس لیے بار بار کہتے ہیں کہ کیا ہمارے باپ دادے غلطی پر تھے؟ میں نہیں کہتا کہ وہ غلطی پر تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرمایا کہ وہ زمانہ فیج اعوج ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پر بھی کفار ایسا ہی کہتے تھے کہ یہ ہمارے باپ دادوں کے خلاف ہے۔ یہ باپ دادوں کی سند صحیح نہیں ہو سکتی۔ ایک زمانہ قرون ثلاثہ کے بعد گذرا ہے جس کو شیطانی زمانہ کہتے ہیں یہ درمیانی زمانہ ہزار سال کا زمانہ ہے۔ جس قدر خرابیاں اور فسق و فجور پھیلا ہے اس زمانہ میں ہی پھیلا ہے۔ اگر صحابہ کرامؓ ہوتے تو وہ بھی شناخت نہ کر سکتے۔ اس زمانہ کا تو حوالہ دینا ہی عقلمندی نہیں۔ وفات مسیح کا مسئلہ تو ایسا صاف ہو چکا ہے کہ اب کوئی عقل اس کے خلاف تجویز نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ فوت ہو گئے۔ خود مسیح ؑ نے اپنی وفات کا اقرار کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن کو مُردوں میں دیکھا اور پھر صحابہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات پر پہلا اجماع اسی پر کیا اور فیصلہ کر دیا۔ صحابہؓ کا اجماع غلطی پر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہونے کی فضیلت ہے۔

(ملفوظات جلد 8صفحہ 65تا67۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button