دار التبلیغ ایران کا قیام ۱۹۲۴ء اورایران میں خدمات بجالانے والےبعض مبلغینِ کرام کا مختصر تعارف
مولوی صدر الدین صاحب ایک علمی شخصیت تھے، ایران میں تبلیغی خدمات کے ساتھ ساتھ تحریری خدمات بھی سر انجام دیں۔ آپ بہائیت اور شیعہ ازم کا اچھا مطالعہ رکھتے تھے۔ ایران جانے سے پہلے بھی آپ کی اس تحریری قابلیت کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے
آج سے ایک صدی قبل کے تاریخ احمدیت کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو ۱۹۲۴ء کے اہم واقعات میں سے ایک احمدیہ دار التبلیغ ایران کا قیام بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس دار التبلیغ کی بنیاد حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانویؓ نے رکھی جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر ۱۹۲۴ء میں ایران پہنچے۔ ان کے بعد دو اور صحابہ ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایران جانے کی توفیق ملی پھر تحریک جدید کے تحت تین مبلغین وقتاً فوقتاً ایران میں خدمات بجا لاتے رہے اور ۱۹۵۵ء تک ایران میں اسلام احمدیت کا دار التبلیغ مصروف عمل رہا۔ ذیل میں ایران میں تبلیغِ احمدیت کی خدمت سر انجام دینے والوں کا مختصر احوال پیش ہے۔
حضرت شہزادہ عبدالمجید لدھیانوی رضی اللہ عنہ
حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحب رضی اللہ عنہ محلہ اقبال گنج لدھیانہ کے رہنے والے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہؓ میں سے تھے، ۳۱۳؍ کبار صحابہؓ کی فہرست میں آپ کا نام سینتالیسویں نمبر پر درج ہے۔ احمدیت پر آپ کی ایمانی مضبوطی کا ثبوت آپ کے ایک خط محررہ ۶؍جون ۱۸۹۸ء سے عیاں ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘میں درج فرمایا ہے، اسی کتاب میں حضرت اقدسؑ نے آپ کے متعلق تحریر فرمایا ہے: ’شہزادہ عبدالمجید خان صاحب …. اول درجہ کے خیرخواہ اور دوست ہیں اور بذات خود نیک چلن اور راست گو اور متقی آدمی ہیں۔‘‘(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۲۳)
تبلیغِ اسلام احمدیت کی غرض سے ایران جانے والے آپ پہلے احمدی تھے جو جولائی ۱۹۲۴ء میں قادیان سے ایران کے لیے روانہ ہوئے جبکہ محترم مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا (وفات:۷؍فروری ۱۹۸۲ء) بھی تبلیغ اسلام کے لیے بخارا روانہ ہو رہے تھے۔ چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں: ’’یہ عاجز اور مولوی محمد امین صاحب مجاہد بروز ہفتہ دار الامان سے بحکم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بعزمؓ بخارا روانہ ہوئے۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی جناب شہزادہ عبد المجید صاحب بھی تھے جنہوں نے برائے تبلیغ ایران کے دار الخلافہ طہران جانا تھا۔ ہم تینوں کوئٹہ سے بمقام دُزداب جہاں ایران کی حد شروع ہوتی ہے، ریل کے ذریعہ پہنچے۔ دُزداب سے مشہد تک جو چھ سو میل کا جنگل ہے جس کو ہم نے پینتالیس یوم میں طے کیا اور وہ بھی کچھ پیادہ پا چل کر اور کچھ اونٹ اور گدھے پر سوار ہوکر اور کچھ باربرداری کے اُس گڈے پر جو مشہد اور دُزداب کے درمیان مال لانے اور لے جانے کے لیے آتا جاتا رہتا ہے… ایک بار ایک منزل سے چھپن میل تک پانی نہ تھا … ہم نے کچھ راستہ پیدل ہی طے کیا آخر میرے رفیق شہزادہ صاحب پیاس کو برداشت نہ کر سکے اور وہیں راہ میں لیٹ گئے اور مَیں لیٹا تو نہیں مگر پانی کے نہ ہونے کے باعث سخت گھبرایا اور طبیعت بے چین ہوگئی مگر پھر بھی چلتا رہا۔ اتنے میں دیکھا کہ ایک شخص جو سامنے سے اونٹنی پر سوار بڑی تیزی سے آ رہا تھا اُس کے پاس پانی موجود ہے… وہ سوار تیزی سے شہزادہ صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں بھی پانی پلایا اور اپنے ساتھ اونٹنی پر سوار کر کے منزل پر لایا جہاں کہ پانی تھا۔ اس طرح یہ سخت دشوار منزل اللہ کے فضل و کرم سے طے ہوئی۔ الغرض ۱۶؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ہم تینوں آدمی مشہد جو ایران کا ایک بڑا شہر ہے، پہنچے … پانچ چھ دن کے بعد شہزادہ عبدالمجید صاحب جو ہمارے امیرِ سفر تھے، طہران پایہ تخت ایران کی طرف روانہ ہوگئے۔‘‘ (آپ بیتی از مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا صفحہ ۱، ۲۔ ایڈیشن اول)
آپ نے بڑھاپے اور اخراجات کی مشکلات کے باوجود وطن سے دُور بڑی جواں مردی اور استقلال سے اپنے فریضۂ تبلیغ کو نبھایا اور خلافت اور احمدیت کے ساتھ نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص کا نمونہ دکھاتے ہوئے مسیح محمدیؐ کا پیغام پہنچایا۔ تہران میں آپ کی مثالی خدمات کا تذکرہ محترم مرزا برکت علی صاحب آف ابادان (وفات: ۱۲؍دسمبر ۱۹۶۶ء) نے الفضل ۳۱؍مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۷ پر شائع کیا۔ آپ نے ۲۳؍فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں ہی وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ۲۳؍مارچ ۱۹۲۸ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’شہزادہ عبدالمجید صاحب …افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شجاع کی نسل سے تھے۔ آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے۔ میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا، انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا، رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود اُن کے حصہ میں جتنا آیا، وہ ان کے پاس تھا اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جاؤں گا۔ اس وقت میں ان کو بھیج نہ سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کوبھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ وہ ایک غیرملک میں جا رہے تھے … انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی، نا معلوم کس طرح گذارہ کرتے رہے۔ پھر مجھے اتفاقًا پتا لگا، ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا چونکہ میرے پاس ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں تھے اس لئے خط نہ لکھ سکا … ابھی پرسوں ترسوں اطلاع ملی کہ آپ یکم رمضان کو فوت ہوگئے …. جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ایوب انصاریؓ دفن ہوئے … میں سمجھتا ہوں اسی طرح یہ ایران کے لیے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی… میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا…‘‘(خطبات محمود جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۳، ۳۴۴)
حضرت میر مہدی حسین صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ سید کھیڑی (Saidkari) نزد راجپورہ ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے۔ ۱۸۶۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۴ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے جس کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کر کے قادیان آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بےپناہ خدمت کی توفیق پائی۔ نہایت ہی مخلص اور درویش منش بزرگ تھے۔ ۱۹۳۴ء میں آپ نے تبلیغ احمدیت کے لیے ایران جانے کا ارادہ فرمایا، اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے قلم سے آپ کے نام ہدایات تحریر فرمائیں اور لکھا: ’’آپ نے ایران جانے کا ارادہ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا فرما کر اس کے نیک نتائج پیدا کرے۔ اس موقعہ پر میں چند امور کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں۔‘‘یہ زریں ہدایات تاریخ احمدیت جلد ۶صفحہ نمبر ۲۲۶ ،۲۲۷ پر درج ہیں۔ اخبار الحکم آپ کی روانگی کی خبر دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے مخلص صحابہ میں سے تھے، ۲۹؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو ایران کی طرف اپنے اخراجات پر تبلیغ کے لئے روانہ ہوگئے ہیں۔ اسٹیشن پر اُن کے احباب اور مخلصین کا خاصہ اجتماع تھا۔ دعا ہے کہ خدا اُن کو کامیاب کرے۔‘‘ (الحکم ۷؍نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۸) آپ براستہ کراچی بحری جہاز سے ایران کی بندرگاہ ابادان پر اترے جہاں احمدی احباب آپ کے استقبال کے لیے موجود تھے، اُن سے تحریک جدید کے اعلان کی اطلاع ملی، آپ کے پاس اُس وقت ۴۹ روپے باقی تھے وہ سب کے سب آپ نے سیکرٹری مال کو دے دیے۔ (آپ اغلبًا ایران کے اسی شہر میں رہے۔) قبولِ احمدیت سے قبل چونکہ آپ شیعہ مذہب سے وابستہ تھے اس لیے آپ کو مرثیے وغیرہ یاد تھے اور فارسی بھی بڑی روانی سے بولتے تھے اس لیے میل ملاقات میں آپ کو آسانی رہتی تھی۔ بہرکیف آپ بہت تھوڑا عرصہ ایران رہے اور چند ماہ بعد مئی ۱۹۳۵ء میں واپس کراچی پہنچ گئے جہاں ایک دو دن قیام کے بعد قادیان تشریف لے آئے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحہ ۲۲۹، ۲۳۰)
حضرت بابو فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ (بیعت: ۱۹۰۵ء۔ وفات:۱۴؍دسمبر ۱۹۵۹ء) ضلع گورداسپور کے باشندے تھے اور ریلوے میں ملازم تھے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں سندھ میں مقیم تھے جہاں سے بیعت کا شرف پایا۔ ۱۹۲۸ء میں قادیان تک ٹرین جاری ہونے پر آپ قادیان کے اولین سٹیشن ماسٹر مقرر ہوئے۔ آپ کے دل میں اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لیے بے پناہ تڑپ تھی، یہی وجہ ہے کہ ارتداد علاقہ ملکانہ کے وقت اپنے خرچ پر وہاں گئے اور تبلیغ میں حصہ لیا۔ تحریک جدید کے آغاز پر حضرت مصلح موعودؓ کے فرمان کہ ’’احمدی احباب غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کے لیے نکل جائیں‘‘ آپ نے ریٹائرمنٹ سے پہلے پانچ سو روپیہ قرض لے کر ۱۹۳۷ء میں تبلیغ کے لیے ایران کا سفر کیا اور آنریری طور پر کئی مہینے وہاں قیام کیا۔ قیامِ ایران کے واقعات میں آپ نے بتایا کہ ایک دن طہران میں ایک مجلس میں مَیں تبلیغ کر رہا تھا اور مَیں نے جب یہ بات بیان کی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام ہی امت محمدؐیہ کے مسیح موعود اور مہدی معہود ہیں اور مَیں نے آپؑ کو خود دیکھا ہے تو مجلس سے ایک آدمی اٹھا اور میرے قریب آکر اس نے پوچھا ’’آغا! آن مسیح موعودو مہدی شما خودیدی‘‘ تو مَیں نے جواب دیا ’’خود دیدم‘‘ تو پھر اس ایرانی شخص نے میری آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا، کیا آپ نے اپنی ان آنکھوں سے مسیح موعود کو دیکھا ہے؟ تو وہ شخص محبت اور عشق سے میرے کندھوں کو چومنے لگا۔ (اصحاب احمد جلد سوم صفحہ ۶۱ حاشیہ و ۶۳ حاشیہ)
محترم مولانا شیخ عبدالواحد صاحب
محترم مولانا شیخ عبد الواحد صاحب ۱۱؍مئی ۱۹۱۱ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ضلع گورداسپور سے تھا اور آپ کے والد حضرت شیخ عبدالحق صاحبؓ (وفات: ۲۷؍دسمبر ۱۹۵۷ء) سابق معاون ناظر ضیافت قادیان مخلص صحابہ میں سے تھے۔ آپ واقفِ زندگی تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آپ کو چین جانے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ ۱۶؍جنوری ۱۹۳۶ء کو چین روانہ ہوئے جہاں تین سال خدمات سر انجام دینے کے بعد ۶؍مارچ ۱۹۳۹ء کو واپس قادیان پہنچے۔ ۱۹۴۵ء میں آپ کو ایران بھجوایا گیا، قادیان سے روانگی کی خبر دیتے ہوئے اخبار الفضل لکھتا ہے: ’’آج شام کی ٹرین سے شیخ عبدالواحد صاحب مولوی فاضل ایران کے لیے روانہ ہوئے، انہیں الوداع کہنے کے لیے بہت سے احباب اسٹیشن پر موجود تھے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بھی از راہ شفقت و نوازش تشریف لے گئے اور اپنے خادم کو شرف مصافحہ اور معانقہ بخشا۔ کئی ایک دوستوں نے پھولوں کے ہار مولوی صاحب کے گلے میں ڈالے۔‘‘ (الفضل ۲۰؍جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ۱) آپ کے ایران کے قیام کے دوران ہی محترم مولانا صدرالدین صاحب بھی بطور مبلغ ایران بھیجے گئے۔ ایران میں آپ کی تبلیغی و تربیتی کاوشوں کا اندازہ آپ کی ایک ماہ کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپ نے ماہ دسمبر ۱۹۴۶ء کی رپورٹ میں لکھا: ’’گذشتہ ماہ پچاس افراد کے پاس پہنچ کر تبلیغی ملاقاتیں کی گئیں اور سلسلہ کی کتب مطالعہ کے لیے دی گئیں۔ درس کے طور پر مجالس منعقد کی گئیں۔ اس کے علاوہ تجارتی اور علمی تعلقات بڑھانے کے لیے بہت سے لوگوں سے ملا۔ اس کوشش میں اس عاجز کو ۲۸۰ میل موٹر پر اور پیدل سفر کرنا پڑا اور ۹ رات اپنے مکان سے باہر رہنا پڑا۔ موسم سرما ہونے کی وجہ سے اور سخت سرما کے مقابلہ کا پورا سامان نہ ہونے کی وجہ سے راتوں کو سونے کی بجائے ڈاک وغیرہ کا کام ہی کرتا رہا کیونکہ سردی کی وجہ سے نیند نہ آتی تھی اس کی وجہ سے اکثر دوسرے دن بیمار ہو جاتا رہا۔ عرصہ زیر رپورٹ میں ۷۰ خطوط تبلیغی، تربیتی، تنظیمی ایران کی جماعتوں اور بیرونجات و مرکز میں لکھے… مقامی اخبارات کے لیے تین مضامین بھی لکھے… حضرت سیدنا المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کی تصنیف لطیف ’’دعوۃ الامیر‘‘ کا درس شروع کیا ہوا ہے… دعاؤں سے مدد فرمائیں کہ یہ اسلام کے بچے زندگی کا دودھ پی لیں۔ آمین۔‘‘ (الفضل ۲۶؍جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۵) اسی رپورٹ میں آپ نے حاجی آقا محمد عبداللہ صاحب نامی ایک دوست کی بیعت کا ذکر بھی کیا۔
ایران کے بعد آپ کی تقرری جزائر فجی میں ہوئی جہاں آپ کو نمایاں خدمات سر انجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ ۱۹۶۰ء تا ۱۹۶۸ء فجی میں رہے۔ آپ فجی کے پہلے مشنری تھے۔ آپ نے ۲؍اپریل ۱۹۸۳ء کو بعمر ۷۱ سال وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
محترم مولوی صدر الدین صاحب
مولوی صدر الدین صاحب ولد حضرت میاں خیر الدین صاحبؓ قادیان سے متصل گاؤں قادرآباد کے رہنے والے تھے۔ آپ ۱۹۱۸ء میں پیدا ہوئے۔ حصولِ تعلیم کے بعد اپنی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کر دی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو تبلیغ اسلام احمدیت کے لیے ایران جانے کا حکم فرمایا اور آپ مورخہ ۱۱؍جون ۱۹۴۶ء کو تبلیغ کے لیے قادیان سے ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ (الفضل ۱۲؍جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۱)
مولوی صدر الدین صاحب ایک علمی شخصیت تھے، ایران میں تبلیغی خدمات کے ساتھ ساتھ تحریری خدمات بھی سر انجام دیں۔ آپ بہائیت اور شیعہ ازم کا اچھا مطالعہ رکھتے تھے۔ ایران جانے سے پہلے بھی آپ کی اس تحریری قابلیت کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے مثلاً’’حدیث أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ سے شیعہ صاحبان کا غلط استدلال‘‘ کے عنوان سے آپ کا مضمون دو قسطوں میں اخبار الفضل ۱۱ اور ۱۲؍ نومبر ۱۹۴۶ء کے پرچوں میں شائع شدہ ہے۔
آپ نے براہین احمدیہ جلد اوّل کا فارسی ترجمہ کرنے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی و عربی کلام سے منتخب حصہ پر مبنی کتاب ’’گلدستہ بہار‘‘، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیکچر جلسہ ۱۹۰۶ء کے فارسی ترجمہ بعنوان ’’حقیقت اسلام‘‘، مسجد فضل لندن کے متعلق فارسی کتاب ’’اولین مسجد اسلامی در لندن‘‘ اور ’’افضل الانبیاء‘‘ نامی کتب تالیف کیں۔ بہائیت کے ردّ میں ایک کتاب ’’نعمت الہام و باب و بہا‘‘ لکھی۔ (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۷۳۔ نیو ایڈیشن) اسی طرح بہائیت کے ردّ میں ایک کتاب ’’شمشیر برّاں‘‘ بھی لکھی جو جنوری ۱۹۴۸ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب آپ نے ایران کے ایک بہت بڑے عالم عبدالحسین آیتی یزدی (وفات: ۱۹۵۲ء) کو بھی بھیجی جنہوں نے اس کتاب کو بہت پسند کیا اور اس کے متعلق اٹھارہ اشعار پر مشتمل ایک نظم لکھی۔ آپ کی یہ کتاب ایران میں بہت مقبول ہوئی۔ (الفضل ۳۰؍مئی ۱۹۵۶ء صفحہ ۴) آپ کے بھائی عبدالمنان شاہد صاحب مربی سلسلہ ایک جگہ اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’خاکسار نے قادیان میں ۱۹۴۶ء کے اوائل میں ایک خواب دیکھی کہ قصرِخلافت کے قریب ایک کوٹھے پر برادرم مولوی صدر الدین صاحب کو میں زور زور سے آوازیں دے رہا ہوں ’’مشن سنگھ! مشن سنگھ!‘‘ …. میں نے بھائی صاحب موصوف کو یہ خواب سنایا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس کی تعبیر معلوم نہیں، آپ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھیں … جواب میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کی طرف سے یہ خط آیا کہ حضور نے خواب کی یہ تعبیر فرمائی ہے: ’’مشن تبلیغ۔ سنگھ شیر۔ تبلیغ کا شیر۔ خدا ایسا ہی کرے۔‘‘ …یہ تعبیر میں نے مولوی صدر الدین صاحب اور اپنی والدہ صاحبہ کو سنائی … بظاہر بھائی صاحب کے تبلیغ کا شیر بننے کا امکان نظر نہ آتا تھا … محترم بھائی صاحب سلسلہ کی طرف سے تبلیغ کی خاطر ایران بھیجے گئے اور وہاں پر آپ نے ایک کتاب شمشیر براں لکھی جس پر ایک ایرانی عالم نے محترم بھائی صاحب کے لیے شیر کا لفظ استعمال کیا اور کہا
ایا در بیشۂ حق شیر غرّاں
الا اے صاحب شمشیر برّاں
ترا شمشیر حق برّندہ تَر باد
گلویت در سبق غرّندہ تَر باد
یعنی اے حق کی جھنگی میں دھاڑنے والے شیر! اے کتاب شمشیر براں کو تصنیف کرنے والے! خدا کرے کہ تیری حق کی تلوار اور بھی زیادہ کاٹنے والی ہو۔ خدا کرے کہ تیرا گلا پہلے سے بھی بڑھ کر دھاڑنے والا ہو۔ (الفضل ۱۳؍جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۵)
ہندوستان اور پاکستان کے الگ ہونے پر پنجاب اور بالخصوص قادیان میں بلوائیوں کے ہاتھوں رونما ہونے والے خونی حالات کی رپورٹنگ آپ نے طہران سے شائع ہونے والے اخبار ’’اخبار دنیائے اسلام‘‘ میں شائع کرائی۔ (تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحہ ۲۶۱، ۲۶۲)
آپ قریباً آٹھ سال ایران میں خدمات دینیہ بجا لاتے رہے۔ آپ ۳۰؍جولائی ۱۹۵۳ء کو بذریعہ بحری جہاز ایران سے کراچی پہنچے جہاں سے یکم اگست کو ربوہ کے لیے روانہ ہوئے۔ (الفضل ۲؍اگست ۱۹۵۳ء صفحہ ۱) ربوہ میں بھی آپ مختلف حوالوں سے خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ آپ کی رہائش احمد نگر میں تھی۔ آپ نے ۲۸؍جنوری ۱۹۸۷ء کو بعمر ۶۹؍ سال وفات پائی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍فروری ۱۹۸۷ء کے آخر میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’….. مولوی صدر الدین صاحب جو سابق مبلغ ایران تھے، ان کی اطلاع ملی ہے لاہور سے۔ ہارٹ اٹیک ہوا ہے ان کو، وفات پاگئے۔ فارسی میں انہوں نے بہائیوں کے خلاف خصوصیت کے ساتھ بہت اچھی کتابیں لکھیں تھیں جو اُس زمانے میں جب انہوں نے یہ لکھیں تو کافی ایران میں شہرت پاگئیں تھیں اور بڑے اچھے اچھے تبصرے ان پر لکھے گئے …‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۰؍فروری ۱۹۸۷ء۔ خطبات طاہر جلد ۶صفحہ ۱۳۵)
محترم مولانا عبدالخالق صاحب
محترم مولوی عبدالخالق صاحب ولد حضرت حافظ احمدالدین صاحب چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ آپ ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے اور حصولِ تعلیم کے بعد زندگی وقف کر کے مبلغین تحریک جدید میں شامل ہوئے۔ آپ کی پہلی تقرری مغربی افریقہ میں ہوئی اور آپ ۲۳؍نومبر ۱۹۴۴ء کو اپنے دو دیگر مبلغ ساتھیوں کی معیت میں قادیان سے روانہ ہوئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خود ایک مجمع کثیر کے ساتھ ان مجاہدین اسلام کو دعاؤں کے ساتھ روانہ فرمایا۔ مغربی افریقہ سے واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد آپ کی تقرری ایران میں ہوئی اور آپ مورخہ ۲۵؍مارچ ۱۹۵۰ء کو لاہور ریلوے سٹیشن سے بذریعہ پاکستان میل روانہ ہوئے، آپ کے ساتھ پروفیسر سعود احمد صاحب واقف زندگی بھی تھے جو احمدیہ کالج کماسی (گھانا) میں خدمت کے لیے جا رہے تھے۔ (الفضل ۲۶؍مارچ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱) آپ ایران میں چند سال مقیم رہے۔ ربوہ واپس آنے کے بعد آپ کو جامعہ احمدیہ میں فارسی کے پروفیسر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ آپ نے ۲۵؍ جنوری ۱۹۹۱ء کو بعمر ۸۲؍ سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔