الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ نواب منصورہ بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے حضرت سیّدہ نواب منصورہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
حضرت سیّدہ مہرآپا بیان فرماتی ہیں کہ مجھے عزیزہ محترمہ سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو دیکھنے کا اتفاق 1944ء کے دوران ہوا۔ہم لوگ اکثر حضرت ابا جان مرحوم کے ساتھ قادیان سے باہر ہی رہا کرتے تھے۔ سال میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر دوچار دن کے لیے آتے اور پھر انہی کے ساتھ واپس (اباجان کی سروس کے سلسلہ میں )چلے جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ قادیان میں میری جان پہچان اور بےتکلّفی صرف چند اعزاء تک ہی محدود تھی۔
میری شاد ی کے بعد (1944ء کے دوران) جب ہم ڈلہوزی سے واپس آئے تو محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ مرحومہ مجھے ملیں اور کہنے لگیں: یوں تو میں نے آپ کو دیکھا ہوا تھا۔لیکن شادی کے بعد آپ سے ملنے اوردیکھنے کا شوق تھا۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی ہے اور اس خوشی نے ممانی مریم (حضرت سیّدہ امّ طاہر مرحومہ)کی یاد کو بھی تازہ کر دیا ہے۔
ان ایّام میں محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ خاصی کمزور سی لگ رہی تھیں۔ غالباً بیمار تھیں اور زیرعلاج تھیں۔
مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع غالباً 1948-49ء میں ملا۔کیونکہ دونوں طرف کی اپنی اپنی نوعیت کی مصروفیت چند لمحوں کی ملاقات کے سوازیادہ وقت کی اجازت نہ دیتی ان کا آنا اور ملنا جلنا بھی کبھی کبھی ہوتا۔ادھرمیرا حال بھی یہی تھا۔ مجھے گھریلو فراغت کبھی میسرآجاتی تو کبھی کبھار ان کے پاس کالج چلی جاتی۔عزیزہ محترمہ ان دنوں میں بھی (کالج کے زمانہ میں) اتنی مصروف کار ہوتیں کہ میںاس غیر معمولی مصروفیت کو دیکھ کر حیران رہ جاتی۔کیونکہ میں یہ چاہا کرتی کہ جب کبھی کبھار ہم ملتے ہیںتو یہ آرام سے بیٹھ کر کوئی بات کریں۔ مَیں ان کی ہر وقت کی غیر معمولی مصروفیت کو دیکھ کر انہیں ازراہ مذاق Busy Bee کہا کرتی۔
حقیقت یہی ہوتی تھی کہ جب بھی میں نے انہیں دیکھا وہ کچھ نہ کچھ کر ہی رہی ہوتیں۔چونکہ صفائی کا خیال غیر معمولی حد تک تھااس لیے تقریباً ہر چھوٹا بڑا کام وہ خود اپنے ہی ہاتھ سے کیا کرتیں۔سیّدی (حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ)کا ذاتی کام تو ہمیشہ ہی سے وہ اپنے ہی ہاتھ سے کرنے کی عادی تھیں۔ شروع کالج کے زمانہ سے لے کر اب تک یہی حال تھا۔ سیّدی کے معاملے میں اس قدر حساس تھیں کہ اگر آپؒ کو گھر واپس آنے میں ذرا دیر لگ جاتی تو بےچین ہوجاتیں۔ ایک دفعہ رتن باغ لاہور میں سیّدی غالباً شکار کو گئے یا کسی اَور کام سے گئے اور جو وقت واپسی کا انہوں نے بتایا تھا اس میں غالباً ایک آدھ گھنٹہ تاخیر ہو گئی۔ اس دوران مَیں نے محترمہ مرحومہ کو اس قدر بےچین اور پریشان پایا کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ مَیں نے دو چار دفعہ ان کی تسلی کے لیے کہا کہ جب باہر جاتے ہیں تو کچھ زائد وقت لگ ہی جایا کرتا ہے، آپ اس قدر پریشان کیوں ہو رہی ہیں وغیرہ؟ مجھے کہنے لگیں: یہ اس طرح دیر نہیں کیا کرتے، وقت پر آ جایا کرتے ہیں۔
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ سیّدی آگئے اور تاخیر کی وجہ معذرت کے ساتھ بتائی۔ تب ان کو سکون ملا۔
رتن باغ میں ہمارے قیام کے دوران ایک پریشان کُن واقعہ پیش آیا (یہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کی اسیری کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے)جس سے ہم لوگ جو وہاں مقیم تھے سخت پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔مَیں پہروں یہ سوچا کرتی کہ اس غیرمعمولی پریشانی سے منصورہ بیگم کا کیا حال ہو رہا ہو گا! اور قسم قسم کے وہم میں مبتلا رہتی۔ مجھے لگتا تھا کہ ہم لوگ جو اس قدر پریشانی میں ہیں تو منصورہ بیگم اس پریشانی کو کیسے برداشت کررہی ہوں گی وغیرہ۔ جب اﷲ تعالیٰ نے فضل کر دیااور اس پریشانی کو دُور کیا تو بوقت ملاقات منصورہ بیگم سے میرا پہلا سوال یہی تھا کہ آپ نے اس خبر کو سن کر کیا کیا اور آپ کا کیا حال ہوا؟ تو مجھے پورے سکون سے جواب دیا کہ یہ سب تکا لیف اﷲ تعالیٰ کی راہ میں آئی تھیں،مجھے خدا تعالیٰ پر پورا بھروسا تھاکہ اس کا انجام بخیر ہو گا اس لیے اﷲ تعالیٰ نے خود ہی تسلی دی اور مطمئن کیا ہوا تھا۔اور اس کے علاوہ ماموں جان (سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ)کا میرے نام پیغام میرے ہرطرح کے سکون کے لیے کافی تھا۔
مَیں نے دیکھا کہ یہ بات کہتے وقت ان کے چہرے پر واقعی ایک غیر معمولی سکون اور خوشی و چمک تھی۔ یہ بات مَیں بغیر مبالغہ کے ایک ایک لفظ صحیح کہہ رہی ہوں۔ کیونکہ اُس وقت مَیں دونوں رنگ الگ الگ اپنی جگہ پر بیک وقت دیکھ رہی تھی۔ بیوی ہونے کی حیثیت سے محبت و فدائیت بھی اور پھر اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا منشاء اور اس کا اپنے خاص بندوں سے وہ پیار و رحم کا سلوک اور اس کے وہ معجزے بھی جو اس نے اپنے خاص بندوں کی تائید و نصرت اور رحمت کے پنہاں رکھے ہوئے ہیں جن کے شیریں ثمر اس کے بندے صبرو آزمائش کے بعد جا کر دیکھتے ہیں اور وہ خداتعالیٰ کی رحمتِ بےپایاں کو مخصوص طور پر جذب کرلیتے ہیں۔ منصورہ بیگم کو اس طرح ہشاش بشاش دیکھنا میرے لیے حقیقت میں معجزہ اور ازدیادِایمان کا باعث تھا۔ میں سوچتی تھی کہ و ہ منصورہ بیگم جو ایک لمحہ کی دیر سویر کو برداشت نہ کر سکتی تھیں۔ کئی دن سیّدی سے الگ رہنا ان کے لیے کیونکر اور کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔لیکن اس کے پیچھے وہ جذبۂ ایمان و یقین کار فرما تھا جس نے ان کو غیرمعمولی تسلی و تسکین دے رکھی تھی اور جو واقعی قابل رشک تھا۔
ان کی طبیعت غیرمعمولی حساس تھی۔اگر ان کو ذاتی اور حتمی طور پر کوئی بات پتا چل جاتی تو ان کے رویّے سے ضرور اس کا اظہار ہو جاتا۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی علالت اور علاج کے پیش نظر ہم لوگوں کو اچانک بیرون پاکستان جانا پڑا اور اس سلسلہ میں کچھ دیرکراچی رکنا پڑا تاکہ باہر جانے کی تیاری کے متعلق کاغذات وغیرہ مکمل ہو جائیں۔ بچوں کی اکثریت ہمارے ساتھ تھی۔ عزیزہ منصورہ بیگم مرحومہ اور عزیزہ محمودہ بیگم (بیگم ڈاکٹر مرزامنور احمدصاحب)بھی کراچی قیام کے دوران ہمارے ساتھ رہیں۔ ایک دن مَیں نے سنا منصورہ بیگم اپنی بہن (بیگم میاںڈاکٹر مرزا منور احمدصاحب)کو کہہ رہی تھیں کہ اس اچانک باہر جانے کی تیاری میں ممانی بشریٰ (خاکسار)کی تو کوئی بھی ،کسی قسم کی تیاری نہیں ہے۔ ان کے ایک دو دوپٹے لے کر ہم چُن کر ٹانک دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں نے مجھ سے دوپٹے لے کر ٹانکے۔ اور یہ ایک خاص جذبۂ احساس ہی تھا جس کے تحت ان کو یہ خیال آیا کہ یہ اس طور پر مصروف رہی ہے کہ اپنے دو چار سفری کپڑے بھی تیار نہ کر سکی۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ مجھے ان چیزوں کا خیال تک نہ تھا نہ کوئی دلچسپی تھی کیونکہ سیّدنامصلح موعودؓ کی غیر معمولی علالت کی پریشانی ا س قدر تھی کہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس وقت کے ان کے اس احساس نے مجھے اس قدر متأثر کیا کہ آج تک میں وہ کیفیت بھول نہیں سکی۔
عزیزم عمر(ابن ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب)کی بارات لاہور جا رہی تھی۔ہم لوگ سب تیار ہو کر اکٹھے ہوئے۔مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگیں:ممانی بشریٰ چوڑیاں پہنیں۔آپ دونوں یہ کیا کرتی ہیں کہ تمام چوڑیاں بلکہ انگوٹھیاں بھی پہننی چھوڑ دیں۔ آپ ابھی پہنیں (آپ دونوں سے ان کی مرادخاکسار اور آپا جان امّ متین صاحبہ تھیں۔) چنانچہ ان کی پہنائی ہوئی چوڑیاں آج تک مَیں پہنے ہوئے ہوں۔
جب کبھی بھی میرا ان سے ملنا ہوتا، ہمیشہ یہ کہتیں: ’’ممانی بشریٰ! ضرور میرے لیے دعا کرتی رہیں اور بچوں کے لیے بھی۔ آپ تو آتی ہی نہیں اور میرا یہ حال ہے کہ مَیں بھی نکل نہیں سکتی۔‘‘ میرا جواب یہی ہوتا کہ منصورہ بیگم! میرا وقت نکلنے کا صبح دس گیارہ بجے تک ہوتا ہے کیونکہ اس وقت طبیعت نسبتاً بہترہوتی ہے ا س کے بعد طبیعت گر جاتی ہے۔ مَیں شام کو کہیں آ جا نہیں سکتی۔ شام کو آپ کے ہاںسب اکٹھے ہوتے ہیں۔ مَیں بیماری کی وجہ سے زیادہ بیٹھ نہیں سکتی اور نہ اُس وقت آسکتی ہوں۔اُدھر آپ مجبور کہ آپ کو صبح صبح اس قدر کام ہوتا ہے کہ آپ آرام سے بیٹھ کر دو چار باتیں بھی نہیں کرسکتیں۔کیسی مجبوریاں ہیں جو اپنی اپنی جگہ دونوں کی درست ہیںوغیرہ۔اور اس طرح دن گزرتے چلے گئے۔
عزیزہ محترمہ منصورہ بیگم اپنے بڑے رشتوں کے احترام کا بہت خیال رکھتی تھیں۔یہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی اعلیٰ تربیت کا نتیجہ تھا۔ بہرحال آپ نے ہمیشہ اس کی رعایت رکھی۔ ہم دونوں میں سے کسی کو آتے دیکھ کر کھڑی ہوجاتیں مصروفیت کے باوجود فوراً توجہ دیتیں اور اچھی جگہ پر بیٹھنے کی طرف راہنمائی کرتیں۔
جب مَیںنے نئے گھر میں شفٹ ہونا تھا تو منصورہ بیگم سیّدی (حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ)کے ہمراہ آئیں اور دعاؤں کے ساتھ مجھے موجودہ گھر میں ان الفاظ کے ساتھ شفٹ کیا کہ ’’مہر آپا!گھبرائیں نہیں ہم آتے رہیں گے، خداتعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔‘‘ اور مَیں نے دیکھا کہ میرے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
منصورہ بیگم کو جب کبھی نماز پڑھتے مجھے دیکھنے کا اتفاق ہوا آپ الگ تھلگ نماز پڑھ رہی ہوتیں اور بڑے انہماک سے رکوع و سجود ہوتے، اہتمام اور سنوار کر نماز پڑھتیں۔
گذشتہ عید کی دعوت پر جب مَیں گئی تو میں نے منصورہ بیگم کو کہا کہ مجھ میں آنے کی ہمت نہ تھی میری طبیعت غیر معمولی خراب ہی چلی آرہی ہے۔ لیکن پھر خیال آیا تھوڑی دیر کے لیے چلی جاؤں۔ اب یہاں آکربڑی محظوظ ہوئی ہوں، بڑا لطف آیا، واپس جا نے کو جی نہیں چاہ رہا مگر مجبوراً جلدی جا رہی ہوںکیونکہ زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتی۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گی یہ نیکی جاری و ساری رکھیں یعنی آپ ایسی دعوتیں ضرور کرتی رہیں رونق میں میرا دل بہل گیا۔ میری یہ بات سن کرہنس پڑیں اور خوش ہو کر مجھے کہا کہ آپ دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے خوشیاں دکھاتا رہے اور میں اسی طرح دعوتیں کرتی رہوں۔ میں نے تو آپ کی تکلیف کے خیال سے آپ کے لیے خاص طور پر چوکہ اور گاؤ تکیہ بھی لگوادیا تھاتاکہ آپ کو بیٹھنے میں دقّت نہ ہو۔…
لیکن کون جانتا تھا کہ یہ منصورہ بیگم کے ہاتھ کی آخر ی دعوت ہو گی۔
ان کی تقریر کا موضوع اکثر و بیشترخلافت سے وابستگی، اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت اور اسلامی شعار کو اپنانا ہوتا تھا۔ آپ کی آخری تقریر بھی انہی موضوعات کا محور تھی۔ اسلامی پردہ اور تربیتِ اولاد ان کا خاص موضوع تھا۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جون 2014ء میں عبدالصمد قریشی صاحب کی ایک غزل شائع ہوئی ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
دل کے جذبوں کی وفاؤں پہ بِنا رکھیں گے
ہر گھڑی پیشِ نظر صدق و صفا رکھیں گے
ہم نبھائیں گے محبت کے تقاضوں کو ہمیش
ذکر کو وردِ زباں صبح و مسا رکھیں گے
ہم نے جس در سے سبھی دل کی مرادیں پائیں
لوگ اُس در سے ہمیں کیسے جدا رکھیں گے
خوگر جبر مرا خون بہانے والے
کب تلک ظلم و ستم جوروجفا رکھیں گے
اہلِ ایمان پہ کب تک یہ ستم ڈھائیں گے
اَور کیا جرمِ محبت میں سزا رکھیں گے
روز اس گھر سے قیامت کا گزر ہوتا ہے
کیا یوں ہی اہلِ جنوں حشر بپا رکھیں گے