کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام
‘‘مرتبہ شہادت سے وہ مرتبہ مراد ہے جبکہ انسان اپنی قوّت ایمان سے اِس قدر اپنے خُدا اور روزِجزا پر یقین کر لیتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔ تب اس یقین کی برکت سے اعمال صالحہ کی مرارت اور تلخی دُور ہو جاتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی ہر ایک قضاء و قدر بباعث موافقت کے شہد کی طرح دِل میں نازل ہوتی اور تمام صحنِ سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے۔ اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ سو شہید اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قُوّتِ ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو۔ اور اُس کے تلخ قضاء و قدر سے شہد شیرین کی طرح لذّت اٹھاتا ہے۔ اور اِسی معنے کی رو سے شہید کہلاتا ہے۔ اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لیے بطور نشان کے ہے۔ … شہید کا کمال یہ ہے کہ مصیبتوں اور دکھوں اور ابتلاؤں کے وقت میں ایسی قُوّتِ اخلاقی اور ثابت قدمی دکھلاوے کہ جو خارق عادت ہونے کی وجہ سے بطور نشان ہو جائے۔’’
(ضمیمہ تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 420-421 و 516)