متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(عابد وحید خان۔ انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس)

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز

(دورہ ٔجرمنی و بیلجیم ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ چہارم)

حضورِانور سے ملاقات کے بعد احمدیوں کے جذبات

(گذ شتہ سے پیوستہ)ایک تیرہ سالہ نوجوان عاصم نے جو حضورِانور سے ملاقات کے لیے آیا تھا مجھے بتایا کہ حضورِانور سے ملاقات سے قبل وہ پُرجوش تو تھا ہی لیکن گھبرایا ہوا ہونے کے ساتھ ساتھ شدید بھوک بھی محسوس کررہا تھا! آخری بات نے مجھے حیران کر دیا اور مَیں اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ بعدازاں عاصم نےبتایا کہ جیسے ہی مَیں نے حضورِانور سے ملاقات کی تو احساس ہوا کہ مجھے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ حضورِانور بےحد محبّت کرنے والے اور مہربان ہیں۔ تاہم میری بھوک برقرار رہی اور اب بھی محسوس ہورہی ہے۔ اس پر مَیں دوبارہ ہنس دیا اور اس کی حالت پر اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے انٹرویو کو مختصر کر دیا تاکہ وہ کچھ کھا پی لے۔ بعدازاں مَیں نے اس گفتگو کا احوال حضورِانور کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ایک ایسی بات تھی جو مجھے پہلے کبھی سننے کو نہیں ملی تھی۔ حضورِانور نے اس بات کو سماعت فرمایا اور لڑکے کی سچائی اور معصومیت پر مسکرا دیے۔

ایک پشیمان نوجوان

مَیں ایک نوجوان سے بھی ملا کہ جس نےحضورِانور سے ملاقات کے دوران ندامت اور پچھتاوے کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ میرے دل میں بہت زیادہ پچھتاوا ہے کیونکہ مَیں وقفِ نو سکیم کا حصّہ تھا، لیکن گھر میں مختلف مسائل تھے، میرے والدین اَن پڑھ تھے اور ان کے درمیان کچھ ازدواجی مسائل بھی تھے۔ جب مَیں بڑا ہوا تو کوئی ایسا نہیں تھا جو میری راہنمائی کرتا اور مَیں نے کبھی وقفِ نَو کی اصل قدر و منزلت کو پہچانا ہی نہیں۔

نتیجۃً مَیں غلط راستے پر چل پڑا اَور مجھے اس پر بہت افسوس ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مَیں نے حضورِانور کو مایوس کیا ہے، اس لیے آج ملاقات میں مَیں ان سے معافی مانگنا چاہتا تھا۔ مَیں ان سے عرض کرنا چاہتا تھا کہ اگرچہ اب مَیں وقفِ نَو کے لائق نہیں ہوں، حضورِانور دعا کریں کہ مَیں پھر بھی عاجزی اور اخلاص کے ساتھ جماعت کی خدمت کر سکوں۔ اگر ممکن ہو تو آپ براہ کرم میری شرمندگی اور پچھتاوے کو میرے پیارے خلیفہ تک پہنچا دیں۔

نوجوان خادم نے مزید کہا کہ برائے کرم میرے جذبات کو اپنی ڈائری یا کسی اور جگہ پر شیئر کریں تاکہ دوسرے واقفینِ نَو یہ جان سکیں کہ وہ کتنے خوش نصیب ہیں اور انہیں میری طرح اپنے وقف کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔

جب وہ نوجوان چلا گیا تو مَیں نے سوچا کہ حضورانور نے بارہا فرمایا ہے کہ وقفِ نَو ہونا کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے جسے نبھانا ضروری ہے اور اس کے لیے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں۔اس نوجوان نے وقفِ نَو کی اہمیت کو ایک تلخ طریقے سے سیکھا۔ جب ہماری بات چیت ختم ہوئی تو مَیں نے امید کی کہ مجھے دوبارہ اس خادم سے ملنے کا موقع ملےگا۔ مَیں چاہتا تھا کہ مَیں اس کے ساتھ رابطے میں رہوں اور کسی بھی طرح سے اس کی مدد یا راہنمائی کر سکوں۔ مَیں نے پوچھا کہ کیا وہ جلسہ سالانہ پر آ رہا ہے؟ جواب میں اس نے کہا کہ جی ہاں! عابد صاحب، مَیں ضرور وہاں شامل ہوں گا، میری ڈیوٹی بیت الخلا صاف کرنے کی ہے اور مَیں بہت خوش ہوں اور فخر محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے یہ خاص ڈیوٹی سونپی گئی ہے۔ برائے کرم دعا کریں کہ مَیں اسے بہترین طریقے سے انجام دے سکوں۔

گروپ ملاقاتیں

مورخہ ٥؍ ستمبر٢٠١٨ءکی صبح حضورِانور نے احمدی خواتین و حضرات کے ساتھ الگ الگ گروپ ملاقاتیں کیں، جن میں سینکڑوں مَرد اور درجنوں خواتین نے پہلی مرتبہ حضورِانور سے گروپ ملاقات کے ذریعے ملنے کی سعادت حاصل کی۔

گروپ ملاقات کے دوران حضورِانور سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے والے ایک شخص ستائیس سالہ ارسلان طارق تھے، جو حال ہی میں ربوہ سے جرمنی منتقل ہوئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ٢٠١٧ء میں جرمنی آئے تھے جب ان کی اہلیہ اپنے پہلے بچے کے ساتھ حاملہ تھیں۔

اگرچہ یہ بہت مشکل تھا کہ اپنی حاملہ اہلیہ کو چھوڑ کر آئیں، لیکن انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کی خاطر یہ فیصلہ ایک ساتھ مل کر کیا۔

ارسلان طارق نے کہا کہ جب میری اہلیہ حاملہ ہوئیں تو ہم نے دعا کی اور فیصلہ کیا کہ مَیں پاکستان چھوڑ کر ایسے ملک چلا جاؤں، جہاں ہمارے مستقبل میں بچے کھل کر اپنے آپ کو احمدی مسلمان کہہ سکیں، جلسہ سالانہ میں شرکت کر سکیں، ڈیوٹیاں دے سکیں اور احمدیت کے فخریہ سفیر بن سکیں۔

ارسلان نے مجھے بتایا کہ جرمنی پہنچنے کے بعد انہیں ایک مقامی ریستوران برگر کنگ میں ملازمت مل گئی۔ تاہم بعد میں انہیں پتا چلا کہ حضورِانور نے جماعت کو ہدایت فرمائی ہے کہ ان لوگوں سے چندہ نہ لیا جائے جو ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں سُور کا گوشت یا شراب فروخت کی جاتی ہے۔کسی اور کام کا انتظام کیے بغیر ارسلان صاحب نے فوراً اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

اپنے فیصلے کی وجوہات اور اس کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے ارسلان نے بتایا کہ چونکہ مَیں نے بغیر پیشگی نوٹس کے استعفیٰ دیا، اس لیے مجھے اپنی ملازمت کے آخری دنوں کی تنخواہ بھی نہیں ملی، لیکن مَیں نہیں چاہتا تھا کہ مَیں ایک لمحہ بھی ایسے کسی کام میں گزاروں جو میرے خلیفہ کی ناپسندیدگی کا موجب بنے۔ کچھ دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں اس کام کو فی الوقت جاری رکھوں جب تک کہ مجھے کوئی دوسرا کام نہ مل جائے، لیکن مَیں بھلا کیوں چاہوں گا کہ مَیں ان لوگوں میں شامل ہوں جن سے جماعت چندہ نہ لے! مَیں بے روزگار اور غریب رہنا توپسند کروں گا، بجائے اس کے کہ مجھے ایسی تنخواہ ملے جو برکت سے خالی ہو۔

ارسلان نے مزید کہا کہ آج مجھے اس چھوٹی سی قربانی کے بدلے میں اتنا بڑا انعام ملا ہے کہ جتنا مَیں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ مجھے سب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ حضورِانور کے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی مجھے گہری بے تابی کا احساس ہوا اور جب حضورانور مسجد میں داخل ہوئے تو مَیں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ ٹیلی ویژن پر حضورانور کو دیکھنا آپ کے وقار، وجاہت اور جلال کی مکمل عکاسی نہیں کرتا۔ پہلی مرتبہ حضورِانور کی آواز براہ ِراست سننا وہ چیز ہے جو مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ حضورِانور نے ہم سب کو فرداً فرداً آگے آنے اور ملاقات کرنے کی دعوت دی، لیکن مجھے ایسا لگا کہ جیسے حضورِانور محض مجھ سے ہی مخاطب ہوں۔ حضورِانور کی موجودگی میں میرا اِیمان تازہ ہوا اور میرا یقین مزید پختہ ہوا کہ حضورِانور عصرِ حاضر میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی نمائندے ہیں۔

ایک اَور شخص جنہیں حضورِانور سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا، وہ سینتیس سالہ مزمل حسین تھے جو اصل میں سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں احمدی مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر انہیں بارہا ملازمت سے نکال دیا گیا، جب بھی ان کے مالک کو پتا چلتا کہ وہ احمدی ہیں یا ان کے ساتھی تو وہ برتن یا پلیٹیں پھینک دیتے جن سے مزمل نے کھانا کھایا ہوتا، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ پلید ہیں۔

انہوں نے کبھی انتقام یا بدلہ لینے کا سوچا تک بھی نہیں اور اس غیر معمولی استقامت کا اظہار جماعت کی اطاعت کی وجہ سے تھا۔

مزمل نے کہا کہ مجھے کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ مَیں ظلم و ستم کا بدلہ لوں کیونکہ جماعت نے پاکستان میں ہمیں بتایا تھا کہ حضورِانور نے ہمیں صبر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور ہمیں ان لوگوں کے لیے دعا کرنی چاہیے جو ہمیں ستاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔

مزمل نے مزید کہا کہ وہ تمام مواقع جب مجھے کافر کہا گیا، میری یادوں میں نقش ہیں، لیکن اب مجھے حقیقی آزادی حاصل ہے اور آج مَیں نے دنیا کے سب سے عالی مرتبت انسان سے ملاقات کی ہے۔ حضورِانور اتنے مصروف ہیں پھر بھی انہوں نے ہم سب سے ازراہِ شفقت ملاقات کرنے کے لیے وقت نکالا۔ وہ فرشتہ صفت اور برگزیدہ دکھائی دیتے ہیں اور ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مَیں ان لمحات کو کبھی نہیں بھولوں گا۔

(مترجم:قمر احمد ظفر۔انتخاب:مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button