بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۸۴)
٭…قسطوں پر کوئی چیز خریدی جائے اور قسطوں کی رقم اصل رقم سے زیادہ ہو تو کیا یہ سود کے دائرے میں شامل ہوگی؟
٭…کیا خاوند کا اپنی سابقہ بیگم کی تعزیت وصول کرنا جائز ہے؟
٭…مسح کرتے وقت گردن پر ہاتھ پھیرنے کا کیا حکم ہے؟
٭…روزہ میں سرمہ لگانے کے بارے میں راہنمائی
٭…حضور ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا اظہار اس لامتناہی کائنات پر کیسے ہو گا؟
سوال: کیرالہ انڈیا سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ اگر قسطوں پر کوئی چیز خریدی جائے اور قسطوں کی رقم اصل رقم سے زیادہ ہو تو کیا یہ سود کے دائرے میں شامل ہو گی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: نقد اور قسطوں میں اشیاء کی خرید و فروخت میں اشیاء کی قیمت میں کمی بیشی کے ہونے میں کوئی ہرج نہیں اور قسطوں میں کچھ زائد قیمت وصول کرنا سود کے ضمن میں نہیں آتا۔ کیونکہ اس صورت میں دکاندار کو قسطوں میں چیزیں خریدنے والوں کا باقاعدہ حساب رکھنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ انہیں ان کی قسطوں کی ادائیگی کے لیے یاد دہانیاں بھی کروانی پڑیں، جس پر بہرحال اس کا وقت صرف ہو گا اور دنیاوی کاموں میں وقت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے چنانچہ ملازمت پیشہ لوگ اپنے وقت ہی کی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی پیش ہوا۔ چنانچہ اخبار بدر نے یہ اعلان شائع کیا کہ اخبار کی قیمت اگر پیشگی وصول کی جاوے تواخبار کے چلانے میں سہولت ہوتی ہے۔جو لوگ پیشگی قیمت نہیں دیتے اور بعد کے وعدے کرتے ہیں ان میں سے بعض توصرف وعدوں پر ہی ٹال دیتے ہیں اوربعض کی قیمتوں کی وصولی کے لیے بار بار کی خط و کتابت میں اوران سے قیمتیں لینے کے واسطے یادداشتوں کے رکھنے میں اس قدر دقت ہوتی ہے کہ اس زائد محنت اور نقصان کو کسی حد تک کم کرنے کے واسطے اورنیزاس کا معاوضہ وصول کرنے کے واسطے اخبار بدر کی قیمت ما بعد کے نرخ میں ایک روپیہ زائد کیا گیا ہے۔ یعنی مابعد دینے والوں سے قیمت اخبار بجائے تین روپے کے چار روپے وصول کیے جائیں گے۔اس پر ایک دوست لائل پور نے دریافت کیا ہے کہ کیا یہ صورت سود کی تو نہیں ہے؟ چونکہ یہ مسئلہ شرعی تھا۔ اس واسطے مندرجہ بالا وجوہات کے ساتھ حضرت اقدس ؑکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کا جواب جو حضرت نے لکھا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
السلام علیکم۔میرے نزدیک اس سے سودکو کچھ تعلق نہیں۔ مالک کا اختیار ہے کہ جو چاہے قیمت طلب کرے خاص کر بعد کی وصولی میں ہرج بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اخبار لینا چاہتا ہے۔ تو وہ پہلے بھی دے سکتا ہے۔ یہ امر خود اس کے اختیار میں ہے۔ والسلام مرزا غلام احمدؐ(اخباربدرقادیان نمبر۷ جلد ۶، مورخہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۴)
پس اقساط کی صورت میں اشیاء کی فروخت پر دکاندار کا کچھ زائد قیمت وصول کرنا جائز ہے اور یہ سود کے زمرہ میں نہیں آتا۔
سوال: جرمنی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میرے خاوند کی سابقہ بیگم کا جس سے ان کے تین بچے ہیں کچھ دن پہلے انتقال ہو گیا ہے۔ کیا میرے خاوند کا اپنی اس سابقہ بیگم کی تعزیت وصول کرنا جائز ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایت فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: کسی انسان کی وفات پر عام طور پر لوگ اس فوت ہونے والے شخص کے دُور نزدیک کے رشتہ داروں، اس کے عزیزوں،یہاں تک کہ اس کے دوستوں اور تعلق داروں سے بھی تعزیت کرتے ہیں۔ اور اس تعزیت کے کرنے اور تعزیت وصول کرنے میں شریعت نے محرم یا غیرمحرم ہونے کی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اس لیے آپ کے خاوند کے ساتھ اگر کسی نے ان کی سابقہ بیگم کی وفات پر جو ان سے ایک عرصہ قبل خلع لے چکی تھی، تعزیت کرلی ہے اور آپ کے خاوند نے اس تعزیت کا جواب دے دیا ہے تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ وفات پانے والی اس خاتون سے آپ کے خاوند کے تین بچے بھی ہیں، اس لیے بچوں کی ماں کی حیثیت سے ان کی وفات پر آپ کے خاوند نے اگر کسی شخص کی تعزیت قبول کرلی ہے تو اس میں اعتراض اور ممانعت کی کوئی بات نہیں۔
سوال: بیلجیم سے ایک مربی صاحب نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں یہ استفسار بھجوایا کہ وضو کرتے وقت سر کے مسح کے بارے میں بعض جماعتی کتب میں گردن پر ہاتھ پھیرنے کا ذکر ملتا ہے اور بعض جگہ نہیں ملتا، درست طریق کیا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: وضو کے دوران سر کے مسح کے بارے میں احادیث میں مختلف طریق بیان ہوئے ہیں جیسا کہ آپ نے بھی اپنے خط میں ان احادیث کو درج کیا ہے۔ چنانچہ کسی جگہ سر کے اگلے اور پچھلے حصہ کے مسح کا ذکر ہے۔(صحیح بخاری کتاب الوضوء بَاب مَنْ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ) اور کسی جگہ سر کے اگلے حصہ سےمسح شروع کر کے پیچھے گدی تک ہاتھ لے جانے اور پھر انہیں واپس لانے کا ذکر ہے۔(صحیح بخاری کتاب الوضوء بَاب مَسْحِ الرَّأْسِ كُلِّهِ)بعض احادیث میں کانوں کے اندر اور باہر مسح کا بھی ذکر ہے۔اور بعض احادیث میں کنپٹیوں پر مسح کرنے کا بھی ذکر آیا ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ بَاب صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
ان احادیث کی بناپر علماء و فقہاء کے نزدیک سر کا مسح کرنا ضروری ہے لیکن سر کے کتنے حصہ کا مسح کیا جائے اس بارے میں ان میں اختلاف ہے۔ حضرت امام بخاریؒ اور حضرت امام مالک کے نزدیک پورے سر کا مسح ضروری ہے جبکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ اور حضرت امام شافعیؒ سر کے ایک حصہ کے مسح کو کافی سمجھتے ہیں۔ (شرح صحیح بخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ جلد اوّل صفحہ ۲۷۴)
اسی طرح سر کے مسح میں گردن کو شامل کرنے کے بارے میں بھی فقہاء میں اختلاف پایا جاتاہے۔ چنانچہ احناف کے نزدیک گردن کا مسح کرنا مستحب ہے۔ جبکہ باقی تین ائمہ حضرت امام مالکؒ حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک گردن کا مسح مستحب نہیں ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وضو کی تفصیل اور حکمت بیان کرتے ہوئے سر کے مسح کے بارے میں فرماتے ہیں:ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک مسح کیا جاتا ہے اور پھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانوں کے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے اور انگوٹھوں کو کانوں کی پشت پر پھرایا جاتا ہے تا کہ کان کی پشت بھی گیلی ہو جائے…سر کی گرمی خیالات کو بہت پراگندہ کر دیتی ہے اس وجہ سے سر کا مسح رکھا گیا ہے جو سر کو ٹھنڈا کر کے سر کی گرمی کو دُور کرتا اور خیالات کے اجتماع میں ممد ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر جلد اوّل صفحہ ۱۶۰,۱۵۹مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء)
میرے نزدیک احادیث میں جو گدی پر مسح کرنے کا ذکر آیا ہے وہ دراصل گردن ہی کا مسح ہے۔ اس لیے چاہے کوئی سر کے اگلے حصہ سے مسح شروع کر کے پیچھے گدی یعنی گردن تک ہاتھوں کو لے جائے اور پھر کانوں کے اندر اور باہر کی طرف انگوٹھے اور انگلی کے ساتھ مسح کرلے۔ یا جس طرح بعض کتب میں کچھ تفصیل کے ساتھ مسح کا ذکر ہے، اس طرح ہاتھوں کے سامنے والے حصہ سے سر کا مسح کرے، شہادت کی انگلیوں کو کانوں کے اندر اور انگوٹھوں کو کانوں کی پشت پر پھیرے اور آخر میں ہاتھوں کی پشت کو گردن پر پھیر کر گردن کا مسح کرے، ان میں سے جس طریق کو بھی وہ اپنائے گا اس کے سرکا مسح ہو جائے گا۔
سوال: کینیڈا سے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ روزہ میں سرمہ لگانے کی بابت ایک عورت نے ان سے کہا کہ وہ ربوہ میں جمی پلی ہیں لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ روز ہ میں سرمہ نہ لگایا جائے اور الاسلام پر بھی ایک مضمون موجود ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ عورت سرمہ لگا سکتی ہے۔ جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے، رات کے وقت لگا سکتا ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے کہ مرد اور عورت کے روزہ کی حالت میں سرمہ لگانے میں کوئی فرق ہے یا دونوں کے لیے ایک ہی حکم ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مربی سلسلہ ہیں، سات سال آپ نے جامعہ میں تعلیم حاصل کی اور کئی سال سے آپ بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ان تمام حوالہ جات جن کا آپ نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے، انہیں پڑھنے کے بعد بھی آپ کا ایک خاتون کی بلادلیل بات کی بنا پر اس مسئلہ کے بارے میں اپنی غیر یقینی حالت کا اظہار کرنا قابل تعجب بات ہے۔
آپ کو تو پورے یقین کے ساتھ یہ بات بیان کرنی چاہیے تھی کہ اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مسئلہ پر دو ٹوک جواب عطا فرما دیا ہے، جس کی حدیث نبویہﷺ سے بھی تائید ہوتی ہے کہ روزہ دار (چاہے عورت ہو یا مرد دونوں )کو روزہ کی حالت میں سرمہ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ اور یہی جواب میں بھی پہلے دے چکا ہوں جو بنیادی مسائل کے جوابات میں شائع ہو چکا ہے۔
باقی جہاں تک الاسلام کی ویب سائیٹ پر کسی مضمون میں بغیر کسی دلیل کے اس موقف کے برعکس بات بیان ہونے کا ذکر ہے تو وہ موقف نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور نہ آپؑ کے کسی خلیفہ کا ہے اور نہ ہی مفتی سلسلہ کا فتویٰ ہے۔ اگر کسی نے اپنے مضمون میں کوئی ایسی بات لکھ دی ہے تو وہ اس کی ذاتی رائے تو ہو سکتی ہے، جماعتی موقف قرار نہیں پاتا۔
بہرحال الاسلام کی ویب سائٹ کی انتظامیہ کو میں اس بارے میں ہدایت کر رہا ہوں کہ وہ اس غلطی کو درست کریں۔ اسی طرح فقہ احمدیہ میں بھی اس مسئلہ کے بارے میں غلط جواب درج ہے۔ جس کی درستی کے بارے میں متعلقہ شعبہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے۔
دراصل فقہ احمدیہ میں کئی ایسی باتیں درج ہو گئی ہیں جن کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ اسی لیے فقہ احمدیہ کی نظر ثانی کروائی جا رہی ہے۔ جب فقہ احمدیہ کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع ہو گا تو انشاء اللہ اس عبارت کو بھی ٹھیک کر دیا جائے گا۔
سوال: ناروے سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ حضورﷺ کے رحمۃللعالمین ہونے کا اظہار اس لامتناہی کائنات پر کیسے ہوگا۔اور یہ اظہار قیامت سے پہلے ہو گا یا اس کے لیے دنیا اور آخرت کا یہ نظام دوبارہ قائم ہوگا۔ اور اگر یہ اظہار فرشتوں کے ذریعہ ہو گا تو اس میں آپﷺ کی شان کس طرح ثابت ہوگی؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۴؍ اپریل ۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب:اس دنیا میں آپﷺکی رحمت وشفقت کا اظہاراپنوں، پرایوں، انسانوں، جانوروں یہاں تک کہ نبات اور جمادات، درختوں اور پہاڑوں ہر قسم کی مخلوق خدا پر ہوا، جس کے بیان سے احادیث اور سیرت کی کتب بھری پڑی ہیں۔ اور اخروی زندگی میں آپﷺ کی رحمت کے اظہار کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفاعت کا حق عطا فرمایا۔ نیز قیامت کے دن تمام بنی نوع انسان کے لیے آپؐ کی رحمت و شفقت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے، جس میں یہ ذکر ہے کہ پریشانی اور تکالیف میں پڑے ہوئے لوگ اس دن حضرت آدم پھرحضرت نوح پھر حضرت ابراہیم پھر حضرت موسیٰ اور پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پاس جا کر کہیں گے کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مشکل میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آ لیا ہے، کیا آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کریں گے؟لیکن یہ تمام انبیاء کوئی نہ کوئی اپناعذر بیان کردیں گے۔ تب لوگ حضورﷺ کے پاس آئیں گے اور حضورﷺ ان لوگوں کی تکلیف دیکھ کر اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں گے اور ان لوگوں کی شفاعت کر کے انہیں ان تکالیف سے نجات دلائیں گے۔ (صحیح بخاری کتاب تفسیربَاب ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا)
پس دنیا و آخرت دونوں جہانوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم بھی دیا اور ان میں حضورﷺ کی رحمت و شفقت کے بارے میں ہمیں خبر بھی دی ہے۔ باقی آئندہ زمانہ میں کائنات کے راز جب انسان پر منکشف ہوں گے، ان میں اگر کسی نئے جہان یا کسی نئی مخلوق کی دریافت ہوئی تو اس وقت ہی آنحضورﷺ کی رحمت و شفقت کا اس نئے جہان اور اس نئی مخلوق پر پرتَو کا انسان کو علم ہو سکے گا۔ اسی لیے میں نے آپ کے ملک کی لجنہ اور ناصرات کے ساتھ اپنی Virtual ملاقات میں کہا تھا کہ جب دوسرے Planets پر ہماری رسائی ہوجائے گی جہاں آبادی ہے اور جب ہم وہاں آنحضورﷺ کا پیغام پہنچا دیں گے تو آپﷺ کی رحمت میں وہ Planet بھی شامل ہو جائیں گے۔ابھی تو ہم اپنی زمین پر ہی حضورﷺ کا پیغام صحیح طور پر نہیں پہنچا سکے اور دوسرے Planets کی باتیں کر رہے ہیں۔ پس حضورﷺ رحمۃ للعالمین ہیں وہاں تک جہاں آپ کا پیغام پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کا اظہار ساری کائنات میں جو ہزاروں لاکھوں Galaxies ہیں ان سب میں موجود ہے۔ لیکن حضورﷺ کا پیغام ابھی صرف اسی زمین پر ہے اور جب آپﷺ کا پیغام دوسری جگہوں پر پہنچ جائے گا تو وہاں پر بھی آپؐ کی رحمت کا پرتَو شروع ہو جائے گا۔
پھر آنحضورﷺ کی لائی ہوئی شریعت بھی ایک لحاظ سے آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا اظہار ہے کیونکہ ایسی مکمل اور دائمی شریعت نہ پہلے کسی نبی کو ملی اور نہ آئندہ قیامت تک کسی کو مل سکتی ہے اور چونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا تعالیٰ نے لے رکھی ہے اس لیے جہاں جہاں اس شریعت میں بیان تعلیم پہنچے گی وہاں وہاں حضورﷺ کی رحمت سے مخلوق مستفید ہوتی رہے گی۔
حضورﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک نہایت اعلیٰ نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے نبی! ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور آپؐ کا رحمۃللعالمین ہونا صفت رحمانیت کے لحاظ سے ہی درست ہوسکتا ہے کیونکہ رحیمیت تو صرف مومنوں کے ایک جہان کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۱۱۸ حاشیہ )
رحمانیت اور رحیمیت کی صفات میں فرق یہ ہے کہ صفت رحمانیت کے تحت انسان، جانور، چرند، پرند، درخت، ہوا، پہاڑ، گویا کہ کائنات کی کسی بھی چیز کے ساتھ جو رحمت کا سلوک ہوتا ہے، جس میں اس مخلوق کے کسی فعل یا کسب کا کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ بغیر کسی معاوضہ کے وہ رحمت جاری ہوتی ہے۔ جیسے انسان کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش سے لاکھوں سال پہلے زمین اور اس کے ماحول کو پیدا فرمایا۔ یا ماں کے پیٹ میں اس رِحم کو بنایا جس میں اس کی پیدائش کی ابتدا ہونی ہوتی ہے۔ جبکہ صفت رحیمیت کے تحت وہ رحم آتا ہے جو کسی کے کسب یا فعل کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ جیسے ایک انسان کوئی نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد سے یہ مضمون بھی واضح ہو گیا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی صفت ساری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے اور کائنات کا ہر ذرہ بغیر کسی کسب یا عمل کے اللہ تعالیٰ کی اس ربوبیت سے حصہ پا رہا ہے، اسی طرح آنحضورﷺ کی رحمت بھی ساری کائنات پر محیط ہے، جہاں جہاں کوئی انسان، چرند، پرند، پہاڑ، درخت، نباتات، جمادات گویا کہ کائنات کا کوئی بھی ذرہ اس رحمت سے مستفید ہونا چاہے وہ آپؐ کی صفت رحمانیت کے تحت اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ جبکہ آپ کی رحیمیت کی صفت کے تحت جاری ہونے والی رحمت آپ کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں مخلوق کو حاصل ہوتی رہے گی۔ جہاں جہاں آپ کی لائی ہوئی تعلیم کا پیغام پہنچے گا اور وہاں کی مخلوق اس پر عمل کرے گی تو وہ بھی آپ کی رحمت سے حصہ پاتی رہے گی۔