الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم چودھری محمد صفدر گھمن صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ۱۶؍جنوری ۲۰۱۴ء میں مکرم ابن کریم صاحب کے قلم سے محترم چودھری محمد صفدر گھمن صاحب کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔

محترم چودھری محمد صفدر گھمن صاحب بھاری جسم، دراز قد اور بڑی بڑی آنکھیں غرضیکہ ایک بارعب اور دبنگ شخصیت کے حامل شخص تھے۔ آپ سے ذاتی تعلق اس وقت بنا جب آپ کا پوتا عزیزم محمد اطہر مدرسۃالحفظ میں میرا شاگرد بنا۔ بعد ازاں یہ بچہ رحمۃللعالمین ایوارڈ میں دوم رہا اور مبلغ پندرہ ہزار روپے انعام کا حقدار ٹھہرا۔ اس بچے کا والد اور محترم چودھری صاحب کا سعادت مند بیٹا حیدر گھمن اپنے والد کی شدید علالت کی وجہ سے کویت سے بہت اچھے روزگار کو خیرباد کہہ کر آگیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کی غیرموجودگی میں مرحوم نے اپنے پوتے کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا چنانچہ صبح تین بجے خود اٹھتے تو اُس کو بھی اٹھالیتے اور تہجد کے نوافل کے بعد قرآن یاد کرنا اُس بچے کا معمول بنا دیا۔

مرحوم کا تعلق چک نمبر ۴۱؍جنوبی ضلع سرگودھا سے تھا۔ زرخیز زمین کے مالک تھے جس میں بارہ ایکڑ پر اعلیٰ قسم کے کینو کا باغ تھا۔ احمدی ہونے کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ نڈر اور بہادر انسان تھے۔ ظاہری ہیئت بھی آپ کو عام آدمی سے ممتاز کر دیا کرتی تھی چنانچہ اکثر بڑے خطرے والی جگہوں پر مکرم امیر صاحب آپ کو بھجوا کر مطمئن ہو جایا کرتے تھے بلکہ تخت ہزارہ یا اَور مختلف جگہوں پر جہاں شدید مخالفت ہوتی تھی وہاں بھی بھجوایا جاتا تھا۔

جب حکومت نے ظالمانہ قوانین بناکر آپ کی ۳۱؍ایکڑ زرخیز زمین چھین لی جس میںکئی ایکڑ پر کینو کے باغات تھے تو اپنے بیٹے کے جذبات میں آنے پر یہی فرمایا کرتے یہ سختیاں جس کی خاطر برداشت کر رہے ہیں اس کی جزا بھی وہی دیتا ہے اور رزق بھی اسی کے پاس ہے۔ بہرحال آزمائش اس قدر شدید تھی کہ زرعی زمین کے بعد آپ کو اپنا گھر بھی عدالتی حکم پر چھوڑنا پڑا لیکن آپ نے نہ خود آہ کی اور نہ اپنے بچوں کو آہ بھرنے دی۔ چنانچہ ربوہ آکر کرائے کے مکان میں آبسے۔ یہاں خلافت کی برکت سے ان کا خوف خداتعالیٰ نے امن میں بدل دیا۔ کچھ تھوڑی سی زمین جو بچ رہی تھی گاؤں کے ایک نوجوان نے اصرار کرکے لی کہ مَیں اس پر سبزی کاشت کروں گا۔ خداتعالیٰ نے اس زمین میں اتنی برکت ڈالی کہ تمام اخراجات نکال کر دونوں گھرانوں کو پہلے ہی سال چالیس چالیس ہزار روپے کی بچت ہو گئی۔ اس حیرت انگیز خدائی نصرت پر آپ نے اپنے بیٹے کو یاد دلایا کہ اس خدا نے ہمیں نہیں چھوڑا جس کی خاطر ہم نے اپنے حق چھوڑ دیے تھے اور جو رزق اُس نے دینا ہے وہ دیتا ہی رہتا ہے۔

جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نظام وصیت کی نئے سرے سے یاددہانی کروائی تو آپ نے بھی لبّیک کہا۔ پہلی زمین کے چھن جانے کے بعد اسی علاقے میں آپ نے پندرہ ایکڑ زمین خرید لی تھی، اس کا حساب کتاب کرکے چھ لاکھ روپے کا حصہ جائیداد اپنی اولاد کے ذریعے ادا کردیا۔

آپ کی شادی محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ سے ۱۹۴۷ء میں ہوئی۔ شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پہلا بیٹا عطا فرمایا جو قریباً ڈیڑھ سال کا ہوکر اچانک وفات پاگیا۔ پھر بیٹی اور ایک اَور بیٹا عطا ہوا۔ ۱۹۶۰ء میں وہ بیٹا بھی شدید بیمار ہوا اور حالت بگڑ گئی تو محترم چودھری صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ مَیں خدا کے حضور بچے کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ تو نہیں بچے گا مگر اس کا نعم البدل دیا جائے گا۔ چنانچہ وہ بچہ بھی اگلے روز فوت ہوگیا۔ اس کڑی آزمائش کے دو مہینے بعد حیدر گھمن صاحب کی پیدائش ہوئی جنہیں مرحوم اکثر پیار سے نعم البدل کہہ کر پکارتے تھے۔

محترم چودھری صاحب کو علاقے کے غرباء کے لیے ایک ایسی خدمت کی توفیق ملی کہ آج بھی اُن غرباء کی نسلیں ان کو دعائیں دیتی ہیں۔ ۱۹۷۰ء میں گورنمنٹ نے بےگھروں کے لیے پانچ مرلہ سکیم شروع کی، گاؤں میں شاملاٹ کی دس ایکڑ زمین موجود تھی۔ آپ نے انتظامیہ سے بار بار مل کر یہ زمین بےگھروں کو دینے کی طرف توجہ دلائی۔ لیکن دوسری زمیندار پارٹیاں اس پر راضی نہ تھیں۔ آخر آپ نے انتظامیہ سے کہہ کر اس زمین کی بولی لگوائی۔ دوسرے زمیندار بھی مدمقابل تھے۔ بولی پر بولی لگتی گئی اور آخر آپ نے سب سے زیادہ رقم دے کر یہ زمین لے لی۔ پھر آپ نے ایک سکول ٹیچر، ایک دھوبی اور ایک عیسائی یعنی تین افراد کی کمیٹی بنا دی اور ان کو ہدایت کی کہ بےگھروں کو افراد کی مناسبت سے تین مرلے، پانچ مرلے اور دس مرلے دیتے جاؤ۔ آپ کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ اسی جگہ میرا موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا۔ ایک دکان پر مَیں نے پنکچر لگوایا تو نوجوان نے پیسے نہ لیے۔ وہاں موجود ایک بزرگ نے کہا یہ اس علاقے کی تیسری نسل ہے مگر چودھری محمد صفدر کے اس احسان کو نہیں بھولی جو اس نے بےگھروں کو گھروں والے بنا دیا تھا۔ ایک اَور بزرگ نے کہا کہ وہ سرگودھا کا سکندراعظم تھا۔

محترم چودھری صاحب کا خاندان نامور سیاسی گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کے ایک بھائی مکرم محمداعظم صاحب گھمن آف سمبڑیال ایم پی اے بھی رہ چکے تھے۔

………٭………٭………٭………

محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ

مکرمہ صفیہ بشیر سامی صاحبہ کی کتاب ‘‘میری پونجی’’ کا تعارف رسالہ ‘‘انصارالدین’’ جنوری فروری ۲۰۱۴ء میں خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اس کتاب میں کئی مرحومین کا ذکرخیر شامل ہے جنہیں مختلف حیثیتوں سے دینی خدمات کی توفیق عطا ہوتی رہی۔ ان میں محترم شیخ محمد حسن صاحب بھی شامل ہیں جنہیں خلافتِ ثانیہ میں بیعت کرنے کی سعادت ملی تو پھر ساری عمر خدمت خلق اور خدمت دین کرتے گزار دی۔ سالہاسال مشرقی افریقہ میں بھی مقیم رہے اور پھر برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ لمبا عرصہ شعبہ ضیافت یوکے، الفضل انٹرنیشنل اور دیگر شعبہ جات میں بھی اعزازی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔

مؤلفہ کتاب اپنی والدہ محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد حسن صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ ۱۹۱۳ء میں ہرسیاں میں حضرت میاں فضل محمدصاحبؓ اور حضرت برکت بی بی صاحبہؓ کے ہاں پیدا ہوئیں جو ۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعودؑکی بیعت سے مشرف ہوچکے تھے۔ یہ خاندان ۱۹۱۷ء میں ہجرت کرکے قادیان آبسا۔ گھر کا ماحول بہت سادہ، دیندار اور علم پرور تھا۔ کُل پانچ بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ بڑے بھائی محترم مولانا عبدالغفور ابوالبشارت صاحب سلسلہ کے جید مناظراور مبلغ تھے۔ ایک بھائی مکرم صالح محمد صاحب افریقہ میں تاجر مبلغ رہے۔ ایک بھائی مکرم میاں عبدالرحیم دیانت صاحب قادیان میں درویش رہے۔

محترمہ حلیمہ بیگم صاحبہ نے پرائمری سکول تک تعلیم پائی۔ آپ بہت تقویٰ شعار، خدا سے پیار کرنے والی بےحد صابر شاکر تھیں چنانچہ اپنے حسن سلوک سے اور بار بار اپنے جذبات قربان کرکے دوسروں کی مدد کرتے ہوئے اپنے سسرال والوں کے دل جیت لیے جن کی اکثریت احمدی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے اکثر نے قادیان کی زیارت بھی کرلی۔

ربوہ کا ابتدائی دَور تھا جب ہمارے ابّا مشرقی افریقہ چلے گئے تو فیملی ربوہ منتقل ہوگئی جہاں بےحد مشکلات تھیں جن کا امّی نے دعا اور جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ خود محنت کرکے زمین خرید کر چھوٹا سا مکان بنوایا۔ غیرآباد جگہ میں ساری رات جاگ کر پہرہ دیتیں۔ بہادر اتنی تھیں کہ سانپ بچھو تو اُن کے لیے معمولی بات تھی جن کو بےدھڑک مار دیتی تھیں۔

ہمسایوں کا اتنا خیال رکھتیں کہ پکانے سے پہلے ہی یہ سوچ کر کھانا بنتا کہ ہمسایوں کا بھی حق ہے۔ نلکے سے پانی بھرنے سے کبھی کسی کو نہیں روکا۔ قرآن مجید کی عاشق تھیں، خود بھی تلاوت کرتیں اور بچوں کو بھی تلقین کرتی رہتیں۔ بےشمار بچوں میں قرآن کریم کی نعمت بانٹی۔ اپنے خاوند کو بھی قرآن کریم آپ نے ہی پڑھایا۔ بیماروں کی عیادت کرنا، کسی کی وفات پر دلجوئی کرنا اور مالی یا دیگر مدد کرنا فرض سمجھتیں۔ کبھی کسی کو قرض دیتیں تو پھر کبھی واپسی کا تقاضا نہ کرتیں۔ سب کے وقار کا خیال رکھتیں۔ نام کی طرح دل کی بھی بہت حلیم تھیں ، دکھ تو کسی کا بھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ کئی ضرورتمندوں کو مہینوں گھر پر رکھا اور اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا۔

ربوہ کے شروع کے دنوں میں جب جمعدارنی ٹوکری اٹھائے گھر گھر صفائی کرتی تو ایک بار جب ہماری جمعدارنی امید سے تھی تو امّی اُس کے لیے باقاعدگی سے کھانے کی کوئی اچھی چیز نکال کر رکھتیں۔ بالکل آخری دنوں میں تھی تو ایک دن وہ ٹوکری اٹھانے لگی مگر وہ اُس کو سنبھال نہ سکی اور ساری کی ساری ٹوکری اس کے اوپر گر گئی۔ وہ پوری کی پوری گند سے بھر گئی۔ امّی نے اُس کو خود نہلایا اور اپنے کپڑے اُس کو پہنائے۔ گرم گرم چائے بنا کر دی اور بھائی کو اُس کے گھر بھیجا کہ کوئی آکر اُسے لے جائے۔

اُس نامساعد دَور میں بھی گھر میں بجلی کا پنکھا لگا ہوا تھا۔ محلہ کی عورتیں اکثر آتیں اور امی اپنی سہیلیوں کو بھی بلالیتیں کہ دوپہر پنکھے کے نیچے گزارو۔ گھر میں فریج تھا۔ برف بناکر کئی لوگوں میں تقسیم کرتیں۔ جمعہ کی دوپہر ٹھنڈا پانی حمام میں ڈال کر باہر رکھ دیتیں۔ ۱۹۷۴ء کے فسادات کی وجہ سے کئی رشتہ دار دو ماہ تک بھی آپ کے ہاں ٹھہرے رہے۔

ابا جان ۱۷؍سال ا فریقہ میں رہے۔ چھ سات سال بعد آیا کرتے۔ اس زمانہ میںبھی باپ کی غیرموجودگی میں بچوں کو پالنا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ بچوں کی تربیت کا خیال، ان کی پڑھائی اور باہر کی دنیا سے محفوظ رکھنا وغیرہ۔بےجا روک ٹوک نہیں کرتی تھیں مگر دین کے معاملہ میں نرمی نہیں کی۔ نماز اور جماعتی پروگرام میں کبھی ناغہ نہ ہونے دیتی تھیں۔

ابا جان ۱۹۶۹ء میں لندن آ گئے اور امی بھی ۱۹۷۴ء میں یہاں آگئیں۔ یہاں بھی دل بھر کر جماعتی کاموں میں حصہ لیا۔ جمعہ باقاعدگی سے ادا کرتیں۔ پردہ کی اتنی پابند تھیں کہ زندگی کے آخر ی دَم تک بر قعہ پہنا۔ وصیت تیسرے حصہ کی کی ہوئی تھی۔ ایک بار آپ کے گھر میں چوری ہوگئی اور چور ہر قیمتی چیز لے گئے۔ کچھ روز بعد صفائی کرتے ہوئے ایک گٹھڑی میں بندھا ہوا آپ کو اپنا اور اپنی بہو کا زیور مل گیا۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اسلام آباد مرکز کی زمین خریدنے کے لیے چندہ کی تحریک کی ہوئی تھی۔ دونوں نے وہ سارا زیور اُس تحریک میں دے دیا۔

امّی اباجان کی بہت خدمت گزار تھیں۔ ہر کام اُن کی رضامندی سے کرتیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی بےحد عزت اور خدمت کی، باہمی تعاون، محبت، ہمدردی، احترام و تکریم اور ایثار کا ایک نمونہ بنے رہے۔ ایک جواں سال بیٹی کی وفات کے غم نے دونوں کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا۔

امّی مختصر بیماری کے بعد ۷؍ستمبر۲۰۰۱ء بروز جمعہ وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردخاک ہوئیں۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ ۱۷؍مئی۲۰۱۴ء میں مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

رہا واسطہ میرا کرب وبلا سے
مری عمر گزری ہے دکھ سہتے سہتے
میرا تو خدا کی پناہ ہے ٹھکانہ
سکوں مل رہا ہے وہاں رہتے رہتے
کِیا یاد ہم نے ہمیشہ خدا کو
مریں گے اسی کو خدا کہتے کہتے
لگائے جو بحرِ محبت میں غوطے
تُو پہنچا ہے مومن کہاں بہتے بہتے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button