خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍اکتوبر۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: آج بھی بدر کے فوری بعد ہونے والے بعض واقعات کاآنحضرت ﷺ کی سیرت کے حوالے سے ذکرکروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرتﷺکےدامادحضرت ابوالعاص ؓکےقبولِ اسلام کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو یوں لکھا ہے کہ ’’ن قیدیوں میں جو سریہ بطرف عِیص میں پکڑے گئے ابوالعاص بن الربیع بھی تھے جو آنحضرت ﷺ کے داماد تھے اورحضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔اس سے قبل وہ جنگِ بدر میں بھی قید ہوکر آئے تھے مگر اُس وقت آنحضرت ﷺ نے انہیں اِس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ مکہ پہنچ کر آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کو مدینہ بھجوادیں۔ ابوالعاص نے اس وعدہ کو تو پورا کر دیا تھا مگر وہ خود ابھی تک شرک پرقائم تھے۔جب زید بن حارثہؓ انہیں قید کر کے مدینہ میں لائے تورات کاوقت تھا مگر کسی طرح ابوالعاص نے حضرت زینبؓ کو اطلاع بھجوا دی کہ میں اس طرح قید ہو کر یہاں پہنچ گیا ہوں۔ تم اگرمیرے لئے کچھ کرسکتی ہو تو کرو۔ چنانچہ عین اس وقت کہ آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ صبح کی نماز میں مصروف تھے (حضرت)زینبؓ نے گھر کے اندر سے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ ’’اے مسلمانو! مَیں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے۔‘‘ آنحضرت ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔’’جو کچھ زینب نے کہا ہے وہ آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا۔ واللہ! مجھے اس کا علم نہیں تھا۔‘‘یہ بات میرے علم میں نہیں تھی’’مگر مومنوں کی جماعت ایک جان کاحکم رکھتی ہے اگران میں سے کوئی کسی کافر کوپناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے‘‘ پھر آپؐ نے (حضرت)زینبؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں‘‘ اور جو مال اس مہم میں ابوالعاص سے حاصل ہوا تھا وہ اسے لوٹا دیا۔پھر آپؐ گھر میں تشریف لائے اوراپنی صاحبزادی زینبؓ سے فرمایا ’’ابوالعاص کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو۔مگر اس کے ساتھ خلوت میں مت ملو کیونکہ موجودہ حالت میں تمہارا اس کے ساتھ ملنا جائز نہیں ہے۔‘‘ چند روز مدینہ میں قیام کرکے ابوالعاص مکہ کی طرف واپس چلے گئے مگر اب ان کا مکہ میں جانا وہاں ٹھہرنے کی غرض سے نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت جلد اپنے لین دین سے فراغت حاصل کی اور کلمہ ٔشہادت پڑھتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ جس پر آپؐ نے حضرت زینبؓ کو ان کی طرف بغیر کسی جدید نکاح کے لوٹا دیا… بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس وقت حضرت زینبؓ اورابوالعاص کا دوبارہ نکاح پڑھا گیا تھا مگر پہلی روایت زیادہ مضبوط اورصحیح ہے۔‘‘
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوالعاص ؓکےمتعلق آنحضرتﷺکی خوشنودی کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابوالعاص کے متعلق آنحضرت ﷺ کی خوشنودی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس طرح لکھا ہے: ’’آنحضرتﷺکے داماد ابوالعاص بن الربیع حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتہ دار یعنی حقیقی بھانجے تھے اور باوجود مشرک ہونے کےان کا سلوک اپنی بیوی سے بہت اچھا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بھی میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ اس جہت سے ابوالعاص کی بہت تعریف فرمایا کرتے تھے کہ اس نے میری لڑکی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ ابوالعاص حضرت ابوبکرؓکے عہد خلافت میں ۱۲ھ میں فوت ہوئے مگر ان کی زوجہ محترمہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئیں۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے غزوہ سویق کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: اس کی تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ ’’بدر کے بعد ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مقتولین بدر کا انتقام نہ لے لے گا کبھی اپنی بیوی کے پاس نہ جائے گا اورنہ کبھی اپنے بالوں کوتیل لگائے گا۔ چنانچہ بدرکے دوتین ماہ بعد ذوالحجہ کے مہینہ میں ابوسفیان دوسومسلح قریش کی جمعیت کواپنے ساتھ لے کر مکہ سے نکلا اورنجدی راستہ کی طرف سے ہوتا ہوا مدینہ کے پاس پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کراس نے اپنے لشکر کوتومدینہ سے کچھ فاصلہ پر چھوڑا اور خود رات کی تاریکی کے پردہ میں چھپتا ہوا یہودی قبیلہ بنونضیر کے رئیس حُیی بن اَخْطَب کے مکان پر پہنچا اوراس سے امداد چاہی مگر چونکہ اس کے دل میں اپنے عہدوپیمان کی کچھ یاد باقی تھی اس نے انکار کیا۔‘‘اس نے کہا ہمارا عہد ہے میں نہیں بتا سکتا تمہیں، نہ پناہ دے سکتا ہوں۔ ’’پھرابو سفیان اسی طرح چھپتا ہوا بنونضیر کے دوسرے رئیس سلام بن مشکم کے مکان پر گیا اوراس سے مسلمانوں کے خلاف اعانت کا طلب گار ہوا۔ اس بدبخت نے کمال جرأت کے ساتھ سارے عہدوپیمان کوبالائے طاق رکھ کر ابوسفیان کی بڑی آؤ بھگت کی اوراسے اپنے پاس رات کو مہمان رکھا اور اس سے مسلمانوں کے حالات کے متعلق مخبری کی۔ صبح ہونے سے قبل ابوسفیان وہاں سے نکلا اوراپنے لشکر میں پہنچ کر اس نے قریش کے ایک دستے کو مدینہ کے قریب عریض کی وادی میں چھاپہ مارنے کے لئے روانہ کردیا۔ یہ وہ وادی تھی جہاں ان ایام میں مسلمانوں کے جانور چراکرتے تھے اورجو مدینہ سے صرف تین میل پر تھی اور غالباً اس کا حال ابوسفیان کوسلام بن مشکم سےمعلوم ہوا ہو گا۔ جب قریش کا یہ دستہ وادی عریض میں پہنچا توخوش قسمتی سے اس وقت مسلمانوں کے جانور وہاں موجود نہ تھے، البتہ ایک مسلمان انصاری اوراس کا ایک ساتھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ قریش نے ان دونوں کو پکڑ کر ظالمانہ طورپر قتل کر دیا۔ اورپھر کھجوروں کے درختوں کو آگ لگاکر اوروہاں کے مکانوں اور جھونپڑیوں کو جلا کر ابوسفیان کی قیام گاہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔ ابوسفیان نے اس کامیابی کواپنی قسم کے پورا ہونے کے لئے کافی سمجھ کر لشکر کو واپسی کا حکم دیا۔ دوسری طرف آنحضرت ﷺ کو ابوسفیان کے حملہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐ صحابہ ؓکی ایک جماعت ساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے مگر چونکہ ابوسفیان اپنی قسم کے ایفاء کومشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایسی سراسیمگی کے ساتھ بھاگا کہ مسلمان اس کے لشکر کو پہنچ نہیں سکے اوربالآخر چند دن کی غیر حاضری کے بعد آنحضرت ﷺ مدینہ واپس لوٹ آئے‘‘ انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ’’اس غزوہ کو غزوۂ سویق کہتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ابوسفیان مکہ کوواپس لوٹا تو تعاقب کے خیال کی وجہ سے کچھ تو گھبراہٹ میں اور کچھ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے وہ اپنا سامانِ رسد جوزیادہ ترسویق یعنی ستو کے تھیلوں پرمشتمل تھا راستہ میں پھینکتا گیا تھا۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسلمانوں کی پہلی عیدالاضحی کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کے ضمن میں یوں لکھا ہے کہ ’’اسی سال ماہ ذی الحجہ میں دوسری اسلامی عید یعنی عیدالاضحی شروع ہوئی جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کوتمام اسلامی دنیا میں منائی جاتی ہے۔ اس عید میں علاوہ نماز کے جو ہر سچے مسلمان کی حقیقی عید ہے ہرذی استطاعت مسلمان کے لئے واجب ہوتا ہے کہ اپنی طرف سے کوئی چوپایہ جانور قربان کرکے اس کا گوشت اپنے عزیزواقارب اوردوستوں اور ہمسایوں اوردوسرے لوگوں میں تقسیم کرے اور خود بھی کھائے …چنانچہ عیدالاضحی کے دن اوراس کے بعد دودن تک تمام اسلامی دنیا میں لاکھوں کروڑوں جانور فی سبیل اللہ قربان کئے جاتے ہیں اوراس طرح مسلمانوں کے اندر عملی طورپر اس عظیم الشان قربانی کی یاد زندہ رکھی جاتی ہے جوحضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسمٰعیلؑ اورحضرت ہاجرہؑ نے پیش کی اور جس کی بہترین مثال آنحضرتﷺ کی زندگی تھی اور ہر ایک مسلمان کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے آقا ومالک کی راہ میں اپنی جان اور مال اور اپنی ہر ایک چیز قربان کردینے کے واسطے تیار رہے۔ یہ عیدبھی عیدالفطر کی طرح ایک عظیم الشان اسلامی عبادت کی تکمیل پرمنائی جاتی ہے اوروہ عبادت حج ہے۔‘‘
سوال نمبر۶:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت فاطمہؓ کےغلام طلب کرنے پر انہیں آنحضرت ﷺ کی نصیحت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ آنحضرت ﷺ کی سیرت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت فاطمہؓ نے شکایت کی کہ چکّی پیسنے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ اسی عرصہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ غلام آئے۔ پس آپؓ آنحضرتؐ کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپؐ کو گھر پر نہ پایا۔ اس لئے حضرت عائشہ ؓکو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دے کر گھر لوٹ آئیں۔ جب آنحضرت ﷺ گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے جنابؐ کو حضرت فاطمہؓ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپؐ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ میں نے آپؐ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر لیٹے رہو۔ پھر ہم دونوں کے درمیان آ کر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپؐ کے قدموں کی خنکی میرے سینہ پر محسوس ہونے لگی۔ جب آپؐ بیٹھ گئے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں کوئی ایسی بات نہ بتا دوں جواس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونتیس۳۴ دفعہ تکبیر کہو اور تینتیس۳۳ دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس۳۳ دفعہ الحمد للہ کہو۔ پس یہ تمہارے لئے خادم سے اچھا ہو گا۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺاموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکّی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپؐ نے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجّہ کیا۔آپؐ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہؓ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لئے آپؐ کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہؓ میں تقسیم کرنے کے لئے آتے تھے اور حضرت علیؓ کا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہؓ بھی اس کی حق دار تھیں لیکن آپؐ نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال میں سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کودے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لئے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے‘‘ لیکن بدقسمتی سے آجکل کے بادشاہ، مسلمان بادشاہ تو پھر بھی جائز ہی سمجھتے ہیں۔ ’’پس احتیاط کے طور پر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو ان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپؐ کے پاس اس وقت بغرض تقسیم آئیں کوئی نہ دی۔‘‘