قرآن کریم ہر قسم کی تعلیم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے
قرآن کریم نے جب ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ:۳)کا اعلان فرمایا ہے تو ابتدا میں ہی فرما دیا ہے کہ یہ جو ہدایت ہے اور اس قرآن کریم میں جو خوبصورت تعلیم ہے، جو سب سابقہ تعلیموں سے اعلیٰ ہے، یہ صرف انہی کو نظر آئے گی جن میں کچھ تقویٰ ہو گا۔ ہدایت اُنہی کو دے گی جن کے دل میں کچھ خوفِ خدا ہو گا۔ پس یہ لوگ جتنی چاہے دریدہ دہنی کرتے رہیں ہمیں اس کی فکر نہیں کہ اس ذریعہ سے یہ نعوذ باللہ قرآن کریم کی تعلیم کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ قرآن کریم کے اعلیٰ مقام اور اس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ خود ذمہ دار ہے بلکہ یہ دوسری آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں تو مومنوں کو خوش خبری ہے کہ قرآن کریم تمہارے لئے رحمت کا سامان ہے۔ اور ہر لمحہ رحمت کا سامان مہیا کرتا چلا جائے گا۔ تمہاری روحانی بیماریوں کا بھی علاج ہے اور تمہاری جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے، ہر قسم کی تعلیم اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اور اگر اس سے پہلے کی آیت سے اس کو ملا لیں تو حقیقی مومنین کو یہ خوشخبری ہے کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا۔ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(بنی اسرائیل:۸۲) کہ جھوٹ، فریب، مکاری اور باطل نے بھاگنا ہی ہے، یہ اُس کی تقدیر ہے۔ پس یہاں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سروں کی قیمت مقرر کرنے سے یا توڑ پھوڑ کرنے سے یا غلط قسم کے احتجاج کرنے سے قرآن کریم کی عزت قائم نہیں ہو گی بلکہ حقیقی مومن اپنے پر قرآنی تعلیم لاگو کر کے ہی قرآن کریم کی برتری ثابت کر سکتا ہے اور کرنے والا ہو گا۔ وہ اس کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کو دکھا کر حق اور باطل میں فرق ظاہر کریں گے۔ اور جب یہ تعلیم دنیا پر ظاہر ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر مومنوں کے لئے رحمت اور اُن زخمی دلوں پر مرہم رکھنے کا نظارہ دکھائے گی۔ قرآن کریم کی فتح اور مومنین کی فتح ہو گی۔ دنیا کو اس کے بغیراب کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم سے اپنی روحانی اور مادّی ترقی کے سامان پیدا کرے۔ اپنے اوپر یہ تعلیم لاگو کرے۔ پس ہمیں خاص طور پر احمدیوں کو ان لوگوں کے غلیظ اور اوچھے ہتھکنڈوں سے کوئی فکر نہیں ہوتی۔ ہم تو اُس مسیح موعودؑ کے ماننے والے ہیں جس کو اس زمانہ میں قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں دوبارہ پھیلانے کے لئے بھیجا گیا ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۵؍مارچ ۲۰۱۱ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۵؍اپریل ۲۰۱۱ء)