تقدیر الٰہی (قسط 8)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
تقدیر کے ساتھ مخفی اسباب
دوسری صورت تقدیر کے ظاہر ہونے کی یہ ہے کہ اس کے لیے اسباب پیدا تو کیے جاتے ہیں لیکن وہ بہت مخفی ہوتے ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے یا بہت غور نہ کیا جاوے ان کا پتہ نہیں لگتا اور اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بلا اسباب کے ظاہر ہوئی ہے۔ مگر درحقیقت اس کا ظہور اسباب کی مدد سے ہی ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی کا دشمن ہو اور اس کو ہر طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہو کسی وقت اسے اتفاقاً ایسا موقع مل جائے کہ وہ چاہے تو اسے ہلاک کر دے۔ لیکن باوجود دیرینہ خواہش کے وہ اس وقت اپنے دشمن کو چھوڑ دے۔ اب بظاہر تو یہ سلوک اس شخص کا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سبب ظاہر نہیں۔ لیکن ممکن ہے کہ سبب موجود ہو۔ مثلاً یہ کہ ڈر غالب آگیا ہو کہ کوئی مجھے دیکھتا نہ ہو۔ یا یہ کہ اس کے رشتہ داروں کو شک گزر گیا تو وہ مجھ سے بدلہ لیں گے یا اور کوئی ایسا ہی سبب ہو جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر پیدا کر دیا ہو۔
چنانچہ قرآن کریم میں اس کی ایک مثال موجودہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کے مخالفین کہتے ہیں۔
وَلَوْ لَا رَھْطُکَ لَرَجَمْنٰکَ(ھود:92)
یعنی اگر تیری جماعت نہ ہوتی تو ہم تجھے ضرور رجم کر دیتے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود خواہش کے حضرت شعیب ؑ کو رجم نہیں کرتے تھے کیونکہ ڈرتے تھے کہ آپؑ کے رشتہ دار ناراض ہو کر بدلہ لیں گے۔ لیکن جب تک انہوں نے خود اس بات کو ظاہر نہیں کیا لوگوں کو تعجب ہی ہوتا ہوگا کہ کیوں یہ لوگ جوش دکھا کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے ظاہر کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ تقدیر بھی ایک خاص سبب کے ذریعہ ظاہر ہو رہی تھی۔ اس جگہ یہ شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ یہ تقدیر خاص کیونکر ہوگئی۔ جس کے رشتہ دار زیادہ ہوتے ہیں لوگ اس سے ڈرتے ہی ہیں۔ کیونکہ یہ جو کچھ ہوا عام قانون قدرت کے ماتحت نہیں ہوا بلکہ تقدیر خاص کے ماتحت ہی ہوا۔ کیونکہ حضرت شعیبؑ کا دعویٰ تھا کہ وہ نبی ہیں اور اس دعویٰ کے ساتھ ہی انہوں نے دنیا کو ببانگ دہل کہہ دیا تھا کہ وہ کامیاب ہوں گے اور ان کا دشمن ان پر قدرت نہیں پاسکے گا۔ پس ان کے دشمن کا ان پر قدر ت نہ پانا عام قانون قدرت کا نتیجہ نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ خاص تقدیر تھی اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دشمنوں کے ہاتھ کو روک رہا تھا۔ خصوصاً جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت شعیبؑ کے رشتہ دار خوددشمنوں کے ساتھ ہی تھے اور ان کے مرید نہ تھے۔ اور یہ بھی کہ بہت دفعہ بڑے بڑے بادشاہوں کو لوگ قتل کر دیتے ہیں اَور کسی سے نہیں ڈرتے تو اور بھی روشن ہو جاتا ہے کہ یہ تقدیر خاص ہی تھی۔
اس قسم کی تقدیر کی مثال رسول کریم ﷺ کی زندگی میں جنگ احزاب میں ملتی ہے۔ جنگ احزاب کے وقت آپؐ کے دشمنوں نے بڑے زور شور سے حملہ کی تیاری کی تھی۔ مگر باوجود ان کی تمام کوششوں کے ان سے کچھ نہ بنا۔ وہ اس موقع پر دس ہزار کا لشکر لائے تھے اور ایسی خطرناک صورت ہوگئی تھی کہ مسلمانوں کے لیے باہر نکل کر پاخانہ پھرنے کی بھی جگہ نہ رہی تھی۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس وقت کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَاؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا۔ اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا۔ ہُنَالِکَ ابۡتُلِیَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا۔ وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا۔(الاحزاب:10تا 13)
یعنی اے مومنو! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب کہ بہت سے لشکر تم پر حملہ آور ہوئے۔ پس ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر بھیجے جن کو تم نہیں دیکھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتا تھا۔ ہاں یاد کرو! جب کہ دشمن تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی آگیا اور جب کہ تمہاری نظریں کج ہوگئیں اور دل خوف کے مارے مونہہ کو آتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اس موقع پر مومنوں کی سخت آزمائش ہوئی اور وہ خوب ہلائے گئے۔ اور یاد کرو! جب کہ منافق اور روحانی بیمار بھی باوجود اپنی بزدلی کے کہہ اٹھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے صرف جھوٹا وعدہ کیا تھا۔
اس آیت سے ثابت ہے کہ غزوۂ احزاب کے وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ایسے سامانوں سے مدد کی تھی جن کو وہ نہیں دیکھتے تھے اور ایسی حالت میں مدد کی تھی جب کہ منافق جو طبعاً ڈرپورک ہوتا ہے مسلمانوں کی جاتی طاقت کو دیکھ کر دلیر ہوگیا تھا اور کہنے لگ گیا تھا کہ مسلمانوں کے خدا اور ان کے رسول ہم سے جھوٹ بولتے رہے تھے۔
غزوۂ احزاب میں ایسے مخفی ذرائع سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کی تھی کہ خود مسلمان حیران رہ گئے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ عین ان دنوں میں جب کہ دشمن اپنے زور پر تھا اور مسلمانوں کا احاطہ کیے ہوئے تھا ایک روز رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے آواز دی کہ کوئی ہے؟ ایک صحابیؓ نے کہا ۔ مَیں حاضر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تم نہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد آواز دی۔ پھر وہی صحابی بولے کہ حضور میں حاضر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور۔ پھر آپؐ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ کوئی ہے؟ اسی صحابیؓ نے جواب دیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ خندق)آپؐ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ دشمن بھگا دیا گیا۔ تم جا کر دیکھو اس کی کیا حالت ہے۔ وہ جب گیا تو دیکھا کہ صاف میدان پڑا ہے اور دشمن بھاگ گیا ہے۔ (الخصائص الکبریٰ مؤلفہ جلال الدین عبد الرحمان بن ابی بکرالسیوطی جلد 1 صفحہ 230 پر ذکر ہے کہ حضرت حذیفہ دشمن کی خبر لانے کے لیے گئے تھے۔)بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت جاگ رہے تھے مگر شدت سردی سے بولنے کی طاقت نہ پاتے تھے۔
اب بظاہر دشمن کے بھاگنے کے کوئی اسباب نظر نہیں آتے اور اس وقت صحابہؓ بھی حیران تھے۔ مگر جیسا کہ بعد میں بعض لوگوں کے اسلام لانے سے ثابت ہوا اس کے بھی اسباب تھے مگر بہت مخفی اور وہ یہ کہ دشمن اچھے بھلے رات کو سوئے تھے کہ ایک قبیلہ کے سردار کی آگ بجھ گئی۔ عرب میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس کی آگ بجھ جائے اس پر مصیبت آتی ہے۔ اس سردار کے قبیلہ نے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ آخر یہ صلاح ہوئی کہ ہم اپنا خیمہ اکھاڑ کر کچھ دور پیچھے جا لگائیں اور کل پھر لشکر میں آملیں گے۔ یہ صلاح کر کے جب وہ پیچھے جانے لگے تو ان کو دیکھ کر دوسرے قبیلہ نے اور ان کو دیکھ کر تیسرے نے حتیٰ کہ اس طرح سب نے واپس جانا شروع کر دیا اور ہر ایک نے یہ سمجھا کہ دشمن نے شب خون مارا ہے۔ یہ سمجھ کر ہر ایک نے بھاگنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ ابوسفیان جو لشکر کا سردار تھا وہ سراسیمگی کی حالت میں بندھی ہوئی اونٹنی پر سوار ہو کر اسے مارنے لگ گیا کہ چلے۔ جب سب بھاگ گئے اور آگے جا کر ایک دوسرے سے پوچھا تو انہیں معلوم ہوا کہ یونہی بھاگ آئے ہیں۔
غرض احزاب کے بھاگنے کے اسباب تو موجود تھے مگر نظر آنے والے نہیں تھے بلکہ مخفی تھے۔ قرآن کریم میں یہی تشریح آئی ہے کہ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا۔ ایسے لشکر جو نظر نہیں آتے تھے اور مخفی تھے۔
ادھر رسول اللہ ﷺ کے کسی اور کو بلانے کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہ آپؐ مسلمانوں کو بتائیں کہ خدا ہی ہے جو تمہیں کامیابی دیتا ہے ورنہ تمہاری تو یہ حالت ہے کہ سردی کے مارے زبانیں اس قدر خشک ہوگئی ہیں کہ محمد (ﷺ) بلاتا ہے اور تم اس کی آواز کا جواب نہیں دے سکتے۔ ادھر خدا کی یہ قدرت نمائی ہے کہ اس نے تمہارے اتنے بڑے دشمن کو بھگا دیا ہے۔
تقدیر خاص بلا اسباب
اس تقدیر خاص کے علاوہ جس کے ظہور کے لیے اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرماتا ہے ایک تقدیر وہ بھی ہے جو بلااسباب کے ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں۔
(1)اول وہ تقدیر جس کا ظہور درحقیقت بلااسباب کے ہی ہوتا ہے۔ مگر کسی خاص حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اسباب کو بھی شامل کر دیتا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت صاحبؑ کو الہام ہوا کہ احمدیوں کو بالعموم طاعون نہیں ہوگی۔ مگر اس کے ساتھ ہی آپؑ نے یہ بھی کہا کہ جرابیں پہنیں، شام کے بعد باہر نہ نکلیں اور کونین استعمال کریں یہ اسباب تھے۔ مگر حقیقی بات یہی ہے کہ یہ تقدیر بغیر اسباب کے تھی۔ کیونکہ جرابیں اور دستانے زیادہ پہننے والے تو اَور لوگ بھی تھے۔ پھر زیادہ دوائیاں استعمال کرنے والے بھی اَور لوگ تھے۔ احمدیوں کے پاس کوئی زیادہ اسباب نہ تھے کہ وہ طاعون سے محفوظ رہتے۔ دراصل جرمز (GERMS)کو حکم تھا کہ احمدیوں کے جسم میں مت داخل ہوں۔ مگر ساتھ ہی احمدیوں کو بھی حکم تھا کہ اسباب کو اختیار کرو۔ وجہ یہ کہ یہ حکم دشمن کے سامنے بھی جانا تھا اور ایمان اور عدم ایمان میں فرق نہ رہ جاتا۔ اگر بغیر ان اسباب کے احمدی طاعون سے محفوظ رہتے یا اگر اس حکم میں استثنائی صورتیں پیدا ہی نہ ہوتیں تو سب لوگ احمدی ہو جاتے اور یہ ایمان ایمان بالغیب نہ ہوتا۔
(2)دوسری قسم اس تقدیر کی وہ ہے جس میں اسباب موجود بھی نہیں ہوتے اور ساتھ شامل بھی نہیں کیے جاتے۔
یہ تقدیر صرف نبیوںؑ اور مومنوں کے سامنے ظاہر ہوتی ہے۔ دوسروں کے سامنے نہیں ہوتی۔ کیونکہ دوسروں کے سامنے اگر یہ تقدیر ظاہر ہو تو وہ ایمان حاصل کرنے کے ثواب سے محروم رہ جائیں۔ لیکن مومن جو ایمان بالغیب لاچکتے ہیں ان کو ایمان بالشہادۃ اس تقدیر کے ذریعہ سے دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ خاص طور پر ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔
اس قسم کی تقدیر کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں آپ کے کرتہ پر چھینٹے پڑنے کا واقعہ ہے۔ ایک دفعہ آپؑ نے رؤیا میں دیکھا کہ میں خدا کے سامنے کچھ کاغذات لے کر گیا ہوں اور ان کو خدا کے سامنے پیش کیا ہے۔ خدا نے ان پر دستخط کرتے وقت قلم چھڑکا ہے اور اس کے قطرے میرے کپڑوں پر پڑے ہیں۔ حضرت صاحبؑ کو جب یہ کشف ہوا۔ اس وقت مولوی عبداللہ صاحب سنوری آپؑ کے پاؤں دبا رہے تھے۔ دباتے دباتے انہوں نے دیکھا کہ حضرت صاحبؑ کے ٹخنے پر سرخ رنگ کا چھینٹا پڑا ہے۔ جب اس کو ہاتھ لگایا تو وہ گیلا تھا۔ جس سے وہ حیران ہوئے کہ یہ کیا ہے؟ میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کو خیال نہ آیا کہ یہ چھینٹے غیرمعمولی نہ تھے بلکہ کسی ظاہر سبب کے باعث تھے۔ انہوں نے کہا مجھے اس وقت خیال آیا تھا اور میں نے ادھر ادھر اور چھت کی طرف دیکھا تھا کہ شاید چھپکلی کی دم کٹ گئی ہو اور اس میں سے خون گرا ہو مگر چھت بالکل صاف تھی۔ اور ایسی کوئی علامت نہ تھی جس سے چھینٹوں کو کسی اَور سبب کی طرف منسوب کیا جاسکتا۔ اس لیے جب حضرت صاحبؑ اٹھے تو اس کے متعلق میں نے آپؑ سے پوچھا۔ آپؑ نے پہلے تو ٹالنا چاہا۔ لیکن پھر ساری حقیقت سنائی۔
تو خدا نے اس طرح خاص تقدیر کو بلا کسی سبب کے ظاہر کیا مگر ایک نبی اور اس کے متبع مولوی عبداللہ صاحبؓ کے سامنے۔ کیونکہ وہ ایمان بالغیب لاچکے تھے اور اب ان کو ایمان بالشہادۃ عطا کرنا مدنظر تھا۔
غرض مومنوں کے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی تقدیر بلااسباب کے بھی ظاہر کرتا ہے تا خدا تعالیٰ کی قدر ت کا ثبوت ان کو ملے۔ لیکن کافر کا یہ حق نہیں ہوتا کہ اس کو اس قسم کا مشاہدہ کرایا جائے۔
رسول کریم ﷺ جو سب نبیوں کے سردار تھے اور ہیں، آپؐ کی زندگی میں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جب آپؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور کفار مکہ نے آپؐ کا تعاقب کیا اور غار ثور تک پہنچ گئے جہاں آپؐ حضرت ابوبکرؓ سمیت پوشیدہ تھے۔ جو کھوجی کفار کے ساتھ تھا اس نے کہہ دیا کہ یہاں تک آئے ہیں آگے نہیں گئے مگر باوجود اس کے زور دینے کے کسی کو توفیق نہیں ملی کہ گردن جھکا کر دیکھ لے۔ حالانکہ جو لوگ تین میل تک تعاقب کر کے گئے تھے اور تلاش کرتے کرتے پہاڑ پر چڑھ گئے تھے ان کے دل میں طبعاً خیال پیدا ہونا چاہیے تھا کہ اب یہاں تک آئے ہیں تو جھک کر دیکھ لیں کہ شاید اندر بیٹھے ہوں۔ مگر عین موقع پر پہنچ کر بھی کسی نے گردن جھکا کر غار کے اندر نہ دیکھا۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ غار کا منہ اس قدر چوڑا تھا کہ اگر وہ لوگ جھک کر دیکھتے تو ہمیں دیکھ سکتے تھے۔ پس یہ الٰہی تصرف تھا جو ان کے قلوب پر ہوا اور بظاہر اس کے لیے کوئی سامان موجود نہ تھے۔
یہ تقدیر کی قسم بہت کم ظاہر ہوتی ہے اور اس پر آگاہی صرف مومنوں کو دی جاتی ہے تا ان کا ایمان بڑھے۔ غار ثور والے واقعہ میں بھی گو کفار وہاں موجود تھے مگر ان کو یہ نہیں معلوم ہوا کہ محمد ﷺ وہاں موجود ہیں اور وہ آپؐ کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس بات کا علم صرف آنحضرت ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کو تھا۔
رسول کریم ﷺ کا پانی بڑھانا بھی اس قسم کی تقدیر کی ایک مثال ہے۔ آج کل کے لوگ اس نشان کا انکار کر دیں تو کر دیں لیکن حدیثوں میں اس کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے کہ کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ مگر یہ نشان مسلمانوں ہی کے سامنے ہوا تھا کیونکہ اگر کفار کے سامنے ایسا نشان ظاہر ہوتا تو یا وہ ایمان بالغیب سے محروم رہ جاتے یا ایسے کھلے نشان کو دیکھ کر بھی ساحر ساحر کہہ کر ایک عاجل عذاب کے مستحق ہو جاتے جو خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے منافی تھا۔
……………………………………………………………(باقی آئندہ)