ایک مثالی احمدی طفل
محمود میاں کی ساتویں سالگرہ گزرے چند روز ہوچکے تھے۔ منتظم صاحب اطفال اورسیکرٹری تجنید اور سائق گھر آئے تھے کہ اسے اگلے سال کی تجنید میں شامل کریں۔ سائق نے اتوار کو اطفال الاحمدیہ کے 10؍نومبر کو ہونے والے پہلے اجلاس کی اطلاع بھی دی۔ وہ بہت پرجوش نظر آرہا تھا کہ اب احمد بھائی کے ساتھ وہ بھی اجلاس میں باقاعدہ شامل ہوگا۔ پہلے کبھی کبھی وہ ساتھ لے جاتے تھے لیکن اب تو اسے لازمی جانا ہوگا۔رات کے کھانے پر وہ احمد کو کہہ رہا تھا کہ اب میں بھی مقابلوں میں حصہ لوں گا۔
احمد جو اسے تنگ کرنے کے موڈ میں تھا کہنے لگا۔ناظم صاحب بہت سخت ہیں اور بہت سارا سبق یاد کرنے کے لیے دیتے ہیں اور یاد نہ کرنے والے کو سزا بھی دیتے ہیں۔
دادی جان جو ان دونوں کی گفتگو کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ بغور سن رہی تھیں انہوں نے فوراً احمد کو اس غلط بات پر ٹوکا۔ احمدبیٹا غلط بات نہیں کرتے۔آپ کے ناظم صاحب تو بہت اچھے انسان ہیں اور بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ آپ محمود کو کیوں ڈرا رہے ہو؟
احمد مسکراتے ہوئے: معذرت دادی جان ! میں محمود کی ٹانگ کھینچنا چاہ رہا تھا۔
محمود: نہیں دادی جان !بھائی نے ٹانگ نہیں کھینچی۔
یہ ایک محاورہ ہے یعنی وہ آپ کو تنگ کرنا چاہ رہے تھے۔ چلیں اگر دونوں نے کھانا ختم کر لیا ہے تو دعا پڑھیں اور ہاتھ دھو کر میرے کمرے میں آئیں پھر مزید بات کرتے ہیں۔ دادی جان نے واش بیسن میں ہاتھ دھوتے ہوئے دونوں کو مخاطب ہوکر کہا۔
جی دادی جان ! احمد اور محمود بیک وقت بولے۔ چند ہی لمحوں بعد وہ دونوں دادی جان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ چکے تھے۔
دادی جان: ہاں جی محمود میاں ماشاء اللہ! آپ خوش تو بہت نظر آرہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ سات سال کی عمر میں اطفال الاحمدیہ میں کیوں شامل کیا جاتا ہے؟
احمد: جی ہاں دادی جان۔ جب میں سات سال کا ہوا تھا تو آپ نے بتایا تھا کہ ایک مسلمان بچہ جب سات سال کا ہوتاہے تو اس کے لیے نماز پڑھنا اور سیکھنا ضروری ہوجاتاہے۔ اور جب وہ دس سال کا ہوتا ہےتو نماز فرض ہو جاتی ہے۔ اور امی ابو سختی بھی کر سکتے ہیں۔
دادی جان: جی ہاں شاباش احمد بیٹا۔ محمود آپ کو بھی اب بہت ذمہ دار طفل بننا ہوگا۔
محمود: ہیں! وہ کیسے ؟
دادی جان: وہ ایسے کہ جیسے آپ سکول جاتے ہیں تو وہاں مختلف مضامین پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ ورزشی مقابلہ جات اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح اطفال الاحمدیہ میں بچوں کے دینی علم کو بڑھانے کے لیے ایک نصاب مقرر ہے جسے یاد کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر بھی ورزشی مقابلہ جات و دیگر غیر نصابی سر گرمیاں بھی کروائی جاتی ہیں جن کا مقصد بچوں کو صحت مند بنانا اور اُن میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دینی علم کو بھی بڑھانا ہے۔ اور بھی بہت سے اچھے کام ہیں جو کہ اب آپ کو باقاعدگی سے کرنے ہوں گے۔
محمود: دادی جان مجھے تو نصاب وقفِ نو یاد ہے۔ میں نے نماز بھی یاد کر لی ہوئی ہے۔
دادی جان: جی ان سب چیزوں کا امتحان بھی تو ہونا ہے ناں! اب آپ کو اور بھی بہت کچھ سکھائیں گے۔
محمود: دادی جان یہ غیر نصابی سر گرمیاں کیا ہوتی ہیں ؟
دادی جان: سرگرمی کہتے ہیں ایکٹیوٹی (activity)کو مطلب یہ کہ ایسی ایکٹیوٹی جو کہ کورس میں شامل نہ ہو۔جیسے تقریری مقابلہ،تلاوت، اذان، نظم پڑھنا اور گیمز میں حصہ لینا وغیرہ۔
محمود: دادی جان ! میرا ایک سوال ہے۔ میں بہت اچھا طفل بننا چاہتا ہوں اس کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے ؟
دادی جان: حضور انورایدہ اللہ نے اس بارے میں فرمایا تھا کہ نماز پڑھو، اللہ میاں سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اچھا بچہ بنائے،اچھا طفل بنائے،اچھا انسان بنائے۔ پڑھائی کرو، ماں باپ کا کہنا مانو، دوسرے بچوں سے لڑائی نہیں کرو،ان سے اچھے اخلاق سے پیش آؤ، اچھی زبان استعمال کرتے رہو، اچھے اخلاق(moral)ہیں تو تم اچھے بچے ہو،اچھے طفل ہو۔ یہی اچھے طفل کی خصوصیات ہیں۔ پھر آپ اپنا چندہ بھی اپنی جیب خرچ سے ادا کریں۔ چند دن پہلے میں نے تحریک جدید کے متعلق آپ کو احمدی بچوں کے واقعات سنائے تھے ناں!
محمود: جی ہاں
دادی جان: وقفِ جدید کا سال بھی ختم ہونے والا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے بچوں کے لیے دفتر اطفال قائم فرمایا تھا۔ اور احمدی بچوں سے توقّع کی تھی کہ وہ اپنے جیب خرچ سے چندہ ادا کریں۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ جب حضورؒ نے بچوں کو تحریک کی تھی تو کئی بچوں نے حضور کی تحریک پر لبیک کہا اور اپنے جیب خرچ میں سے چند آنے، اَٹھنی روپیہ دو روپے وقفِ جدید میں ادا کر دیے۔ حضورؒ نے افریقہ سے ایک بچے عزیزم فرید احمد کا ایک واقعہ سنایا کہ اس نے قصیدہ یا عین فیض اللّٰہ مکمل حفظ کیا تو اسے اس کے والدین نے 50 شلنگ کی رقم انعام میں دی۔
اس کے والدین نے انعام دینےسے پہلے سوچا کہ اسے ترغیب دیں گے کہ ایک حصہ اللہ کی راہ میں ایک حصہ اپنے بہن بھائیوں اور ایک حصہ خود اپنے اوپر خرچ کرے۔ لیکن اس سے بات کرنے سے پہلے ہی عزیزم نے اپنےوالدین سے کہا کہ وہ ساری رقم وقفِ جدید میں دینا چاہتا ہے کیونکہ وقفِ جدید کی مالی مضبوطی کا کام بچوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اس بچے نے وہ ساری رقم وقفِ جدید کے لیے بھجوا دی اور حضور کو ایک خط بھی لکھا جو حضورؒ نے خطبہ جمعہ میں پڑھ کر سنایا تھا۔ (خطبہ جمعہ 29؍ستمبر 1966ء)
احمد: وہ چائے والا واقعہ بھی پھر سنائیں ناں!
دادی جان: چلو میں آپ کو ایک انتہائی دلچسپ واقعہ سناتی ہوں۔یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے بچپن کا واقعہ ہے۔ ایک بار انہیں افسر جلسہ سالانہ حضرت میرمحمد اسحاق صاحبؓ نے مدرسہ احمدیہ میں بھیجا تاکہ پتا چلایا جاسکے کہ سب کارکنوں کو چائے مل گئی ہے کہ نہیں۔اُس وقت جلسے کے دنوں میں کارکنان کو رات کو نو دس بجےکے قریب چائے تقسیم کی جاتی تھی۔اب ایسا اتفاق ہوا کہ جس کارکن کو چائے ملی وہ نسبتاً چھوٹی عمر کا لڑکاتھا۔ وہ چائے لے کر اپنے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس کے ساتھ ٹھہرے ہوئے کسی مہمان نے جو کہ بیمار بھی تھا سمجھا کہ وہ کارکن لڑکا یہ چائے اُس کے لیے لایا ہے تو جھٹ سے وہ مٹی کا برتن جو اس کے ہاتھ میں تھا، اس سے پکڑلیا اور کہا کہ تم بڑے اچھے لڑکے ہو میرے لیے چائے لے آئے ہو۔اب وہ بچہ کیونکہ چھوٹی عمر کا تھا تو ناسمجھی کے باعث یہ کہہ سکتا تھا کہ نہیں یہ تو میرے اپنے لیے ہے مگر اس نے اصل حقیقت کا ذرہ بھر اظہار کیے بغیر انتہائی خوش دلی سے کہا: ہاں آپ بیمار ہیں اس لیے آپ کے لیے لایا ہوں اگر دوائی چاہیے تو وہ بھی لے آتا ہوں۔حضورؒ فرماتے تھے کہ ’’میں جب بھی اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوں بڑا حظ اُٹھاتا ہوں۔‘‘(ماخوذ از خطبات ناصر جلد2صفحہ 439-438)
احمد: دادی جان کیا حضور کو معلوم ہے کہ ہم اطفال بھی ڈیوٹی دیتے ہیں!
دادی جان نے بے ساختہ مسکراتے ہوئے کہا: کیوں نہیں احمد بیٹا! حضور انورایدہ اللہ کے بالکل علم میں ہے۔ حضور انور بچوں کی اس خدمت کو پیار سے دیکھتے ہیں۔ ایک بار فرمایا تھا کہ جب بچے شوق سے اپنی ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔اور جلسہ گاہ میں مہمانوں کو خاموشی اور ایک شوق سے پانی پلا رہے ہوتے ہیں تو غیر مہمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ بلکہ فرمایا تھا کہ جلسے کے دنوں میں بچے ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ 21؍جولائی 2017ء)
احمد: اس سال میں بھی ڈیوٹی دوں گا۔
دادی جان: جی ان شاء اللہ۔ پھر ایک اور بات بھی ہے کہ آپ میں sportsman spirit ہونی چاہیے۔
دادی جان وہ کیا ہوتی ہے؟ محمود دادی جان کو غور سے دیکھتے ہوئے بولا۔
دادی جان: یعنی کہ جب آپ کھیلیں تو آپ میں جیتنے اور ہارنے کا حوصلہ بھی ہو۔ ایک مربی صاحب نے جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے دوران کا واقعہ سنایا کہ ان کے سپورٹس گروپ کا فٹبال کا فائنل میچ تھا اور اس میچ کو جیتنے والے گروپ کی مجموعی طور پر بھی اول پوزیشن بننی تھی۔ میچ کے آخری چند منٹس میں ایک طالب علم سے فاؤل ہوا۔ ریفری کو نظر نہیں آیا تھا۔ دوسری ٹیم نے فاؤل فاؤل کا شور مچا دیا۔ ریفری نے اس طالبِ علم سے پوچھا کہ کیا فاؤل ہوا ہے؟ تو طالب علم نے سچ بولتے ہوئے بتا دیا کہ اس سے فاؤل ہوا ہے۔ اس کے بعد وہ میچ ہار گئے اور ان کے گروپ کی سیکنڈ پوزیشن بنی۔ لیکن اس طالب علم کو جامعہ کی طرف سے خصوصی انعام دیا گیا۔ یوں وہ ہار کر بھی جیت گئے کیونکہ ہر کسی کی توجہ پہلے گروپ کی بجائے اس پر تھی۔ اور اگلے سال ان کے گروپ کو واضح برتری رہی۔
تو یہ ہوتا ہے ایک کھلاڑی کا اخلاق، عزم اور حوصلہ۔ صرف پوزیشن کے لیے مقابلے میں حصہ نہ لیں۔ دوسرے کھلاڑی نے بھی تو تیاری کی ہوتی ہے ناں! اگر آپ کی کسی مقابلہ میں پوزیشن نہ بھی آئے تو بھی آپ کا حوصلہ کم نہ ہو اور اگلی بار مزید محنت کریں۔
محمود: جی دادی جان! میں کوشش کروں گا۔
دادی جان: اگر آپ یہ سب اچھے کام کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ ضرور بہت اچھے طفل بن جائیں گے اور آپ سے اللہ میاں بھی خوش ہوگا اور ہمارے پیارے حضور بھی بہت خوش ہوں گے۔ اب آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ جو باتیں ابھی آپ کو بتائی ہیں آپ ان سب پر عمل کریں گےٹھیک ہے ؟
جی دادی جان !احمد اور محمود نے اپنے ہاتھ دادی جان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے پکا وعدہ کیا۔
دادی جان: شاباش میرے پیارے بچو !
اس کے بعد احمد اور محمود شب بخیر کہتے ہوئے اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔