یادِ رفتگاں

مولانا عبد الکریم شرما صاحب مرحوم (سابق مبلغ مشرقی افریقہ)

حضرت مصلح موعود اپنی معرکہ آراء کتاب ‘‘اسلام میں اختلافات کا آغاز’’میں تحریر فرماتے ہیں:


‘‘اقوام کی ترقی میں تاریخ سے آگاہ ہونا ایک بہت بڑا محرک ہوتا ہے اور کوئی ایسی قوم جو اپنی گذشتہ تاریخی روایات سے واقف نہ ہو کبھی ترقی کی طرف قدم نہیں مار سکتی۔ اپنے آباءو اجداد کے حالات کی واقفیت بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔ ’’

(اسلام میں اختلافات کا آغاز ،انوار العلوم جلد 4صفحہ247)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیت مسلمہ کی تاریخ میں بےشمار ایسے وجودوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے بے لوث ہو کر نمایاں خدمات دینیہ بجا لائیں۔ ان کی قربانیوں کا تذکرہ ہمارے ایمان کو تازہ کرتا ہے اور ہمارے دلوں میں خدمتِ دین کا شوق پیدا کرتا ہے۔ ان کی اعلیٰ مثالیں صحیح رنگ میں خدمت کرنے کے راستوں کی نشاندھی بھی کرتی ہیں۔

اس مضمون میں ایک ایسے بزرگ کا ذکرِ خیر کرنا مقصود ہے جن کا نام مولانا عبد الکریم شرما صاحب ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سےمبلغ سلسلہ تھےاورمشرقی افریقہ میں خدمت دین کی توفیق پاتے رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مولانا عبد الکریم صاحب کی وفات کے موقعے پر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍جولائی 2013ء کو ان کی قربانیوں اور خدمتِ دین کے جذبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘پس سارے مبلغین کو اس نہج پر اپنی سوچوں کو لانا چاہیے۔ خدمت کا یہ جذبہ ہو، درد ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہو۔ اللہ تعالیٰ سب مبلغین کو وفا کے ساتھ اپنے وقف کو پورا کرنے کی اور خدمات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شرما صاحب کے بھی درجات بلند فرمائے۔’’آمین۔

ابتدائی زندگی

مولانا عبد الکریم شرما صاحب کی پیدائش 26؍مئی 1918ء محلہ دار الفضل قادیان میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت شیخ عبد الرحیم شرما صاحبؓ (سابق کشن لال)صحابی تھے۔ ہندوؤں سے مسلمان ہو کر صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کے عظیم مرتبے پر فائز ہونے والے اس بزرگ نے سن 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ۔ ان کا ذکر اصحابِ احمد جلد 10 میں موجود ہے۔ مولانا عبد الکریم شرما صاحب کی والدہ کا نام عائشہ بیگم تھا جو حضرت ام المومنین ؓ کی پروردہ تھیں۔ اسی طرح آپ کی دادی کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا نام حمیدہ رکھا۔ ان کا ذکر تابعین اصحاب احمد جلد اوّل میں موجود ہے۔ مولانا عبد الکریم شرما صاحب5 بھائیوں اور 4 بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔

مولانا عبد الکریم صاحب اپنی خود نوشت میں اپنے ننھیال کے بارے میں لکھتے ہیں:

‘‘میرے نانا محترم کرم داد خان صاحبؓ بھی صحابی تھے۔ وہ اعوان قوم سے تعلق رکھتے تھے اور کھاریاں کے نواح میں موضع ڈھینگ کے باشندہ تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان ہجرت کر آئے اور خادمانہ حیثیت سے ‘الدار’کی دربانی کرتے رہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور بعض دوسرے صحابہؓ کی روایات میں ان کا ذکر آتا ہے۔ ان کی وفات غالبًا1904ء میں قادیان میں ہوئی۔ میری نانی سلطان بی بی مرحومہ مُغل قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کو انہوں نے دودھ پلایا تھا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی کئی رضاعی والدائیں تھیں ان میں ایک وہ بھی تھیں۔ میری خالہ رحمت بی بی مرحومہ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب نے دودھ پیا تھا۔ وہ آپ ؓ کی ہمشیرہ تھیں۔وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔’’

(ایک عاجز بندہ کی داستانِ حیات، غیر مطبوعہ)

مولانا عبد الکریم شرما صاحب نے بنیادی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ مولوی فاضل اور میٹریکولیشن کے بعد آپ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ اس دوران آپ کودفتر الفضل میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ سن 1939ء کی خلافت جوبلی میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو ان نوجوانوںمیں منتخب کیا جنہیں لوائے احمدیت کی پاسبانی کا شرف حاصل ہوا۔آپ نے 26سال کی عمر میں اپنی زندگی وقف کی۔ سن 1942ءسے لے کر 1946ءتک آپ نے برٹش آرمی میں سروس کی۔ جنگ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر آپ فوراً قادیان آگئے اور افریقہ کی روانگی کے لیے تیاریاں شروع کر دیں۔یکم جنوری1948ء کو آپ پانچ مبلغین کے قافلہ میں مشرقی افریقہ کے لیے روانہ ہوئے اور کُل29سال وہاں خدمت دین میں مشغول رہے۔ 1961ء میں جب مشرقی افریقہ 3 ممالک میں منقسم ہوا تو آپ امیر اور مشنری انچارج یوگنڈا مقرر ہوئے۔ اسی طرح آپ کو دو بار بطور امیر و مشنری انچارج کینیا کی حیثیت سے خدمت کرنے کی توفیق ملی۔افریقہ میں قیام کے دوران آپ 3 بار ربوہ آئے اور ان موقعوں پر آپ کو بطور قائد ایثار مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 1978ء سے لے کر اپنی وفات تک آپ یو کے میں رہے۔ اس دوران10سال آپ کو نیشنل عاملہ میں خدمت کرنے کا موقع ملا۔ آپ سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری تربیت کی خدمت پر ماموررہے۔آپ مجلس انتخاب خلافت کے بھی رکن تھے۔

زندگی وقف کرنے کا واقعہ

مولانا عبد الکریم شرما صاحب اپنی خود نوشت میں زندگی وقف کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘میں مدرسہ احمدیہ کی چوتھی یا پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ بعض وجوہ کی بنا پر میرا دل مدرسہ سے اچاٹ ہوگیا۔ میں چاہتا تھا کہ مدرسہ چھوڑ کر ہائی سکول میں تعلیم حاصل کروں۔ انہیں دنوں میرے دو کلاس فیلو جو حضرت مولانا محمد ابراھیم صاحب بقاپوریؓ کے فرزند تھے مدرسہ احمدیہ کو چھوڑ کر ہائی سکول چلے گئے اس وجہ سے بھی میں پُر شوق ہوگیا۔ میں نے ایک دو مرتبہ اس خواہش کا اظہار حضرت والد صاحب سے کیا لیکن انہوں نے توجہ نہ دی۔ ایک دن ہم صحن میںچولہے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں نے ان سے بہت اصرار کیا اور کہا آپ نے دوسرے بھائیوں کو تو ہائی سکول میں داخل کروایا ہے مجھے کیوں مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتے ہیں؟ والد صاحب نے فرمایا دیکھو!میں ہندوؤں سے مسلمان ہوا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے اسلام کی نعمت سے مجھے نوازا۔ لیکن میں افسوس کرتا ہوں کہ میں اسلام کی کوئی خدمت نہ کر سکا۔ میرے دل میں خواہش ہے کہ میرا بیٹا خدمت کرے اس نیت سے میں نے تمھیں مدرسہ احمدیہ مین داخل کروایا تھا کہ دینی علوم حاصل کرکے اس قابل ہو جاؤ کہ خدمت اسلام کر سکو لیکن تم کہتے ہو کہ میں مدرسہ احمدیہ میں نہیں پڑھنا چاہتا۔ وہ دل گیر ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور کمرہ میں جا کر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ جس جذبہ سے انہوں نے بات کہی اور جو کیفیت اس وقت ان کی ہوئی اس کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ رات کو نیند نہیں آئی والد صاحب کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ صبح میں نے عہد کیا کہ والد صاحب کی خواہش کے مطابق مدرسہ احمدیہ میں تعلیم جاری رکھوں گا اور زندگی بھی وقف کروں گا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے جب وقفِ زندگی کی تحریک فرمائی تو میں نے حضور کی خدمت میں خط لکھ کر درخواست کی کہ حضور ازراہِ کرم میرا وقف منظور فرمائیں۔ کچھ عرصہ بعد دفتر کی طرف سے جواب ملا کہ آپ کا نام نوٹ کر لیا گیا ہے۔’’

(ایک عاجز بندہ کی داستانِ حیات، غیر مطبوعہ)

فوج میں بھرتی

مولانا عبد الکریم شرما صاحب نے وقف کرنے کے بعد جوانی میں کچھ سال فوج میں بھی گذارے۔ یہ جنگ کا زمانہ تھا۔ بعد ازاں جب مرکز کی طرف سے تبلیغِ دین کے لیے بلاوا آیاتو اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:

‘‘تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میں بیمار ہوگیا اس لیے اس وقت خدمت کے لیے نہیں بلایا گیا۔ کچھ عرصہ بعد میں فوج میں ملازم ہوگیا۔ 1945ء میں مَیں لورالائی (بلوچستان)میں متعین تھا میری اہلیہ میرے ساتھ تھیں اور حاملہ تھیں۔ وضع حمل کے دن قریب تھے ان کو کھانسی کا شدید دورہ پڑتا تھا۔ شام کو ڈاک آئی اس میں دفتر تحریکِ جدید کی چٹھی تھی جس میں لکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشرقی افریقہ بھجوانے کا ارشاد فرمایا ہے۔ جنگ چونکہ اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لیے فوج سے ریلیز لے کر قادیان آجاؤ۔ میری اہلیہ چارپائی پر کروٹ لیے لیٹی ہوئی تھیں۔ میں گھر آکر ان کی پشت کی طرف چار پائی پر بیٹھ گیا۔ ڈاک چار پائی پر رکھ دی اور خود الفضل کا پیکٹ کھول کر پڑھنے لگا۔ میری اہلیہ نے چٹھی اٹھا کر پڑھی۔ ان کے ہلنے سے مجھے محسوس ہوا کہ وہ رو رہی ہیں۔ مَیں نے خیال کیا کہ اچانک معلوم کرکے کہ مجھے افریقہ بھجوانے کے لیے بلایا جا رہا ہے شاید ان کو صدمہ ہوا ہےآہستہ آہستہ دل اطمینان پکڑ لے گا کچھ دیر کے بعد انہوں نے کروٹ بدل کر منہ میری طرف کیا اور کہا مجھے چٹھی پڑھ کر قلق ہواتھا کہ میں اس حالت میں ہوں اور بیمار ہوں۔ آپ خلیفۃ المسیح کی آواز پر لبیک کہیں اور بے فکر ہوکر خدمت کے لیے جائیں انشاء اللہ آپ مجھے اس عہد پر ثابت قدم پائیں گے۔اگلے دن میں نے کمانڈنگ آفیسر کو کہہ کر ہیڈ کوارٹر کو ریلیز کرنے کے لیے درخواست کی اور رخصت لے کر فیملی کو قادیان چھوڑنے کے لیے چلا گیا ۔وہاں سے جبل پور اپنے سینٹر گیا۔ کچھ عرصہ ریلیز ہونے میں لگا۔ واپس آیا تو وضع حمل کا وقت آچکا تھا اور بیٹا پیدا ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے عبد الولی نام رکھا۔ لڑکے کی ولادت کے بعد اہلیہ کی بیماری نمایاں ہوگئی معلوم ہوا کہ ٹی بی ہے۔ علاج کے لیے ان کو لاہور لے گیا اور گلاب دیوی ہسپتال میں جو ٹی بی کا ہسپتال تھا ان کو داخل کروا دیا۔ ادھر وکالت تبشیر نے مشرقی افریقہ کے مشن کو انٹری پرمٹ بھجوانے کے لیے لکھا اور پاسپورٹ بنوانے کے لیے کارروائی شروع کر دی۔’’

(ایک عاجز بندہ کی داستانِ حیات، غیر مطبوعہ)

یہاں فوج کے زمانہ کا ایک پُر لطف واقعہ کا ذکر موزوں ہوگا جس سے مولانا شرما صاحب کی حاضر جوابی کا پتہ چلتا ہے۔ ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے شرما صاحب سے بطور مزاح کہا کہ ہندوستانی بھی ایک عجیب قوم ہے ہر ایک کےمختلف رنگ ہیں۔ جنوب کے رہنے والے کالے ہیں اور شمال کے گورے اورکچھ گندمی۔ جبکہ انگریز چاہے کہیں بھی رہتے ہوں سب گورے ہیں۔ آپ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ گھوڑوں کے رنگ مختلف ہوتے ہیں کچھ سرخ کچھ سفید کچھ کالے لیکن گدھے کا رنگ ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ سن کر وہ انگریز لاجواب ہوگیا۔

فوج کے زمانہ کا ایک اَور واقعہ یہاں درج کرتا ہوں ۔ ایک دفعہ ایک بالا آفیسر کوارٹرزکا معائنہ کرنے آیا۔ جب وہ مولانا صاحب کے کمرے میں آیا تو دیکھا کہ انہوں نے جوتے بڑی صفائی اور سلیقے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وہ از راہِ تفنن کہنے لگا کہ کیا آپ نے جنگ کے بعد جوتوں کی دکان کھولنی ہے؟شرما صاحب نے بتایا نہیں، بلکہ اس جنگ کے بعد میں نے ایک اَور جنگ لڑنی ہے۔ اس جنگ کے نتیجہ میں دنیا میں امن نہیں آسکتا، لیکن جس جنگ کا میں سپاہی ہوں اس کے ذریعہ دنیا میں سلامتی پھیلے گی۔ وہ آفیسر یہ جواب سن کر بڑا حیران ہوا۔ ساتھ والے نے بتایا کہ دراصل یہ صاحب احمدیہ مشنری ہیں اور بعد میں انہوں نے تبلیغ کے میدان میں جانا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ انگریز آفیسر بڑا خوش ہوا اور وہاں سے چلا گیا۔ جب وہ معائنہ سے فارغ ہو کر گاڑی میں بیٹھنے لگا تو دیکھا کہ پیچھے کوئی تیزی سے سائیکل پر سوار ہو کر اس کی طرف آرہا ہے۔ اس نے گاڑی والے کو ذرا روکا۔ جب سائیکل قریب آیا تو دیکھا کہ شرما صاحب آرہے ہیں اور ہاتھ میں ایک کتاب بھی پکڑی ہوئی ہے۔آپ نے سائیکل سے اتر کر اس کے پاس آکر کتاب پیش کی اور کہنے لگے:

May I please start that war from today?
یہ کتاب حضرت مصلح موعودؓ کا خطاب Ahmadiyyat – the True Islamتھی۔ اس انگریز آفیسر نے بڑی خوشی سے کتاب وصول کی اور اس وعدے کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوا کہ وہ ضرور اسے پڑھےگا۔

افریقہ کےلیے روانگی

یکم جنوری 1948ء کو رتن باغ لاہور سے پانچ مبلغین کا قافلہ افریقہ کے لیے روانہ ہوا۔ ان میں سے تین نے مغربی افریقہ جانا تھا اور مولانا محمد منور صاحب اور مولانا عبد الکریم شرما صاحب نے مشرقی افریقہ جانا تھا۔ ‘‘داغِ ہجرت’’کے بعد یہ مبلغین کا پہلا قافلہ تھاجو حضرت مصلح موعودؓ نے روانہ فرمایا۔جب سمندری جہاز ارضِ بلال کے ساحل کے قریب آیا، تو مولانا عبد الکریم شرما صاحب اپنی اس وقت کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

‘‘دار السلام میں جہاز جب بندر گاہ میں داخل ہو رہا تھا۔ اس وقت صبح کا وقت تھا۔ میں نے دُور سے کشتیاں جہاز کی طرف آتی دیکھیں۔ ان میں افریقی سوار تھے۔ جونہی میری نظر ان پر پڑی میرے دل میں دعا کی تحریک پیدا ہوئی۔ میں نے ایک کونے میں جاکر نہایت الحاح اور درد سے دعا کی کہ الٰہی میں ان لوگوں کے لیے یہاں آیا ہوں ان کی محبت میرے دل میں بھر دے اور ان کی خدمت اور خیر خواہی کی مجھ کو توفیق دے۔ افریقہ میں قیام کے دوران میری یہی کیفیت رہی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ عاجز کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی تھی جسے قبولیت کا شرف حاصل ہوا۔’’

(ایک عاجز بندہ کی داستانِ حیات، غیر مطبوعہ)

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مولانا عبد الکریم شرما صاحب کو میدانِ عمل میں نمایا ں خدمات کی توفیق ملی۔سکولز اور societies میں لیکچرز اور مناظرات، ہر طبقہ کے لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں اور سوال و جواب، نئی جماعتوں کا قیام ، مقامی معلمین کی تیاری وغیرہ تمام امور آپ احسن رنگ میں بجا لاتے رہے۔ آپ کو ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر کی اشاعت اور اس کی ہر طبقہ میں تقسیم کے علاوہ یوگنڈا زبان میں ترجمہ و تفسیر القرآن پر کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مقامی اخبارات میں آپ کے مضامین انگریزی اور سواحیلی زبان میں چھپتے رہے۔

مولانا صاحب کی میدان عمل میں مصروفیات سے متعلق ایک حوالہ تاریخِ احمدیت سے پیش ہے:
‘‘عربوں نے سلطان زنجبار کی سالگرہ خاص اہتمام سے منائی۔ نیز زنجبار کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ سلطان کے نمائندے کی حیثیت سے ممباسہ آیا۔ اس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں جناب شرما صاحب بھی مدعو تھے۔ انہوں نے شہزادہ صاحب کو دوران ملاقات جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا۔نیز لٹریچر بھی ارسال کیا ۔جولائی سے ستمبر تک کے عرصہ کی رپورٹ میں آپ نے قریباً سترہ سو میل سفرکرکے متعدد مقامات کا دورہ کیا۔ سمالی لینڈ کے قریب لاموں عربوں کا ایک پرانا قصبہ ہےجس کے قاضی اور بعض علماء سے ملاقاتیں کیں۔ نیز عربی اور سواحیلی لٹریچر تقسیم کیا ۔ عربوں کا ایک اور اہم قصبہ مالنڈی ہے۔ وہاں آپ نے عرب معززین سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لٹریچر دیا۔ نیز اباضی فرقہ کے ایک عالم اور لیجسلیٹو کونسل کے ایک معزز صومالی ممبر سے تبادلہ خیالات کیا۔ آپ کی مساعی سے چالیس افریقن داخل احمدیت ہوئے۔’’

(تاریخ احمدیت جلد 20صفحہ 535)

جنّوں کو نکالنا

افریقی ممالک میں اسلامی آداب کو متعارف کروانا اور انہیں رائج کرنا یہاں کے لوکل رسم و رواج کے باعث ایک بہت بڑا کام ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے یہ کام مبلغین احمدیت نے بخوبی سر انجام دیا ہے۔اس سلسلہ میں ایک واقعہ مولانا عبد الکریم شرما صاحب بیان کرتے ہیں کہ

‘‘کینیا میں Yaala میں کچی سڑک سے ذرا ہٹ کرپیراماؤنٹ چیف کی کورٹ تھی۔ ایک دفعہ تبلیغ کی غرض سے کسی جگہ جا رہا تھا۔ پیراماؤنٹ چیف نے اوپر کی پہاڑی سے مجھے دیکھ لیا اور ایک لڑکے کے ذریعہ مجھے بلوا بھیجا۔ جب میں ان سے ملا تو وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ جنّوں پر کس طرح قابو پا لیتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ مَیں تو جنّوں کو مانتا ہی نہیں نہ جنّوں کو نکالتا ہوں۔ وہ اصرار کرنے لگے کہ آپ کے پاس ضرور کوئی منتر ہے۔ اور مجھے پتہ ہے کہ آپ جنّ نکال سکتے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ یہاں ہمارے علاقہ میں ایک لڑکا اسماعیل اوگینڈو رہتا تھا۔ آپ نے اس کا جنّ نکالا ہے اور اب وہ آپ کے معلم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں اسماعیل اوگینڈو ان کے علاقہ میں بدمعاش گردانا جاتا تھا۔ لوگ اس کے مظالم سے تنگ آچکے تھے۔ اسے بار بار قید کی سزا دی گئی لیکن جب وہ قید کاٹ کر باہر آتا تو پہلے سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھاتا۔ لوگوں کی زندگی اس نے اجیرن بنا دی تھی۔ انتہائی سفّاک اور شر پسند انسان تھا۔ لیکن جب سے آپ نے اسے احمدی بنایا ہے اور معلم بنا کر واپس ہمارے علاقہ میں بھیجا ہے اس جیسا فرشتہ صفت انسان دنیا میں کبھی نہیں دیکھا۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ضرور آپ کو جنّ نکالنے آتے ہیں۔

مولانا عبد الکریم صاحب شرما نے بتایا کہ اس وقت ان کے پاس ایک بیگ تھا جس میں قرآن کریم اور بائبل تھی۔میں نے پیراماؤنٹ چیف کو بتایا کہ جب یہ قرآن کریم نازل ہوا ۔ عرب ہر قسم کی بدیوں اور گناہوں میں مبتلا تھے۔ ذراذرا سی بات پر لڑائیاں ہوتی تھیں۔ قتل و غارت گری کو بہادری قرار دیتے اور اپنی بدمعاشی اور بے حیائی کے کاموں پر فخر کرتےتھے۔ عورتوں کا ذکر جو عرب زیادہ عریانی سے کرتا وہی معاشرہ میں بڑا اور قابل فخر سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے چیف کو بتایا کہ اس قرآن کریم نے ان پُشتوں کے بگڑے ہوئے عربوں کو باخدا انسان بنا دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس قرآن کریم کا سواحیلی زبان میں ترجمہ جماعت احمدیہ نے کروایا ہے۔ اور آپ نے چیف کو دعوت دی کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔’’

ایک سبق آموز واقعہ

اپنی خود نوشت میں ایک سبق آموز واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ایک دفعہ کلمن جارو کے علاقہ میں تبلیغ کے لیے آیا ہوا تھا۔ جس دن واپس ہوااس دن بہت بارش ہوئی افتاں و خیزاں سڑک تک پہنچا۔ گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ دور سے ایک کار آتی نظر آئی۔ قریب پہنچی تو دیکھا کہ اس پر یونین جیک لہرا رہا ہے، بہت مایوسی ہوئی کہ کار سرکاری نکلی۔ اس میں پراونشل کمشنر جا رہے تھے۔ کار پاس سے گزر گئی ۔ تھوڑے فاصلہ پر جاکر رُک گئی۔ پھر واپس آئی اور میرے قریب ٹھہر گئی۔ شوفر باہر نکلا اور اس نے کار کا دروازہ کھولا۔ پراونشل کمشنر نے کہا اندر آجاؤ۔ مجھے تأمل ہوا میری شلوار، کوٹ اور جوتے کیچڑ سے لت پت تھے اور بھیگا ہوا بھی تھا۔ کمشنر صاحب نے بھانپ لیا کہ مجھے تأمل کس وجہ سے ہو رہا ہے۔ کہنے لگے کوئی حرج نہیں آجاؤ۔ میں کار میں جاکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اروشہ پہنچ کر وہ گورنمنٹ ہاؤس میں اتر گئے اور شوفر کو کہا کہ شیخ کو گھر پہنچا آؤ۔ میں نے یہ واقعہ اس لیے لکھا ہے کہ سبق حاصل ہو۔ احمدی نسلیں خدا تعالیٰ کے فضل سے آئندہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہونگی۔ مجھے امید ہے کہ احمدیت کی تربیت کے نتیجہ میں وہ سلطنت برطانیہ کے شریف النفس حکام سے کہیں بڑھ کر شفیق اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والے ہوں گے۔

مولانا عبد الکریم شرما صاحب کی مشرقی افریقہ میں اعلیٰ خدمات دینیہ کے باعث وہاں کےلوکل احمدی تا دیر انہیں یاد کرتے رہے ۔اکثر انہیں لندن میں بھی ملنے آتے اور خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ چنانچہ ممباسہ کے ایک دوست A.M Gakuriya نے ایک خط میں مولانا صاحب کی خدمات کو سراہا اور دعا ئیں دیں۔ اس کے جواب میں شرما صاحب نے لکھا۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ْ نحمدہ و نصلي علی رسولہ الکریم

پیارے بھائی،

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ آپ کا خط پا کر بے حد خوشی ہوئی۔ الحمد للہ آپ مع فیملی خیریت سے ہیں۔ میں مشرقی افریقہ میں قریبًا 29سال رہا ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت کے نا اہل اور کوتاہ پاتا تھا۔ رات دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلتی تھی اور اپنی کمزوریوں اور نااہلیوں کو سوچ کر بے کل ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کو مدد کے لیے پکارتا تھا۔ اور اگلے دن کا پروگرام بنایا کرتا تھا۔
برّ اعظم افریقہ کو جس نے تاریک بر اعظم کہا ہے، غلط کہا ہے۔ افریقیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خصوصیات عطا فرمائی ہیں جن سے بہت سی اقوام جو اپنے آپ کو مہذب سمجھتی ہیں نابلد ہیں افریقہ ایسی Virginlandہے کہ یہ بر ّاعظم نورِ اسلام سے منوّر ہو کر جلد اوجِ کمال کو پہنچے گا۔
اللہ تعالیٰ اقوامِ عالم کو باری باری ابھرنے اور اپنے جوہر دکھانے کا موقع دیتا آیا ہے اب افریقی اقوام کی باری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ‘‘کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کیے جائیں گے” مجھے یقین ہے کہ یہ الہام افریقیوں کے حق میں احمدیت کے ذریعہ پورا ہوگا۔ اس کے آثار خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ میں ایک عاجز اور نالائق بندہ ہوں۔ برائے کرم میرے حق میں دعائیں کرتے رہیں۔ اب بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا مجھ کو حاصل ہو۔

والسلام

خاکسار

عبد الکریم شرما

(دور درویشی اور درویش صفحہ 28)

خاکسار جو کہ مولانا عبد الکریم شرما صاحب کا نواسہ ہے عرض کرتا ہے کہ جامعہ احمدیہ یوکے میں زیرِ تعلیم ہونے کے دوران محترم ناناجان مرحوم کی خدمت میں باقاعدگی سےہر چھٹی کے دن حاضر ہوتا تھا۔ بے شک آپ خدا تعالیٰ سے گہری محبت رکھنے والے ایک نہایت ہمدرد اور شفیق بزرگ تھے۔ خدا داد رعب آپ کو حاصل تھا۔ اسی طرح سوال و جواب کا آپ کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا۔ نہایت مہمان نواز تھے۔ خلیفہ وقت کا ذکر نہایت محبت بھرے انداز سے کیا کرتے تھے اور باوجود صحت کی خرابی کے ہمیشہ یہ خواہش رہتی کے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے ایک نہایت فعّال زندگی خدمتِ دین میں گزاری اور آپ کی صحبت نے خاکسار کے دل پر ایک بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر ہزاروں رحمتیں برسائے اور جنت الفردوس میں اپنے حضور جگہ دے۔ آمین

اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولانا عبد الکریم شرما صاحب نے خدمتِ دین میں ایک بھرپور زندگی گزاری اور ان کی زندگی میں بےشمار دلچسپ اور ایمان افروز واقعات پیش آئے۔ خاکسار کی خواہش ہے کہ محترم ناناجان مرحوم کے حالاتِ زندگی کو بسط کے ساتھ شائع کیا جائے۔ اس سلسلہ میں قارئین الفضل سے عاجزانہ درخواست ہے کہ جہاں آپ محترم ناناجان کی بلندئ درجات کے لیےدعا کریں وہاں اگر آپ کے پاس اس حوالہ سے مفید معلومات موجود ہوں تو درج ذیل ای میل ایڈریس پر خاکسار کو ارسال کرکے ممنون کریں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

[email protected]

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button