خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ اکتوبر 2024ء

مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح ہے جو اس مسجد کے ذریعے سے پیدا کی جائے گی دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں مدد دے گی اور وہ دن جلد آئیں گے جب لوگ جنگ و جدال کو ترک کر کے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے (حضرت مصلح موعودؓ)

جماعت احمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ جماعت کی مساجد لوگوں کے چندوں اور قربانیوں سے تعمیر ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو انگلستان میں بھی جماعت کی قربانی کی وجہ سے درجنوں مسجدیں بن چکی ہیں اور مغربی ممالک میں بھی بےشمار مساجد تعمیر ہو گئی ہیں

اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کاشکار ہو جائیں گے (حضرت مسیح موعودؑ)

چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ ہیں جو باقاعدہ مبلغ بن کےیہاں آئے اور سب سے پہلا پھل بھی آپ کو ملا جن کا نام مسٹر کوریو تھا جو ایک جرنلسٹ تھے

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوجب لندن میں مسجد کی جگہ خریدے جانے کی اطلاع ملی تو اس وقت آپؓ ڈلہوزی میں تھے۔ آپؓ نے وہاں بڑا فنکشن کیا اور پھر وہاں مسجدفضل کے نام سے اس مسجد کا نام بھی معین فرمایا اور اس کے بعد چندے کی تحریک ہوئی تاکہ مسجد کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی ہو سکے

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ لندن میں ورودِ مسعود کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ  کو ایک رؤیا پہلے سے دکھلایا گیا تھا کہ وہ سمندر کے کنارے انگلستان کے ایک مقام پر اترے ہیں اور ایک لکڑی کے کُندے پر پاؤں رکھ کر ایک کامیاب جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کر رہے ہیں کہ آواز آئی: ولیم دی کنکرر(William the Conqueror) ۔ گویا انگلستان کی روحانی فتح حضورؓ کے ورودِ انگلستان کے ساتھ مقدر تھی جو اب ظہور میں آئی

ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اس تبلیغ کو، اس پیغام کو جو اسلام کا پیار اور محبت اور امن سے رہنے کا پیغام ہے صلح اور آشتی کا پیغام ہے

دنیا کو بتائیں اور آشنا کریں اور پھیلائیں کہ یہی انسان کی بقاکا ضامن ہے اس کے علاوہ کوئی اَور چیز نہیں ورنہ آئندہ نسلیں تباہی اور بربادی کے گڑھے میں گرتی چلی جائیں گی اور ان جنگوں کی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپاہج اور لنگڑی اور لولی پیدا ہوں

صرف یہی مسجد نہیں بلکہ ہر احمدی کو ہر جگہ ہر مسجد کو آباد کرنے اور اس کے حق کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی عبادتوں کے حق کو پورا کرنے والے ہوں

مسجد فضل لندن کے سنگِ بنیاد پر ایک صدی مکمل ہونے کے حوالے سے مساجد کی اہمیت اور مقاصد نیز مسجد فضل کی تاریخ کا مختصر بیان

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍اکتوبر 2024ء بمطابق 18؍اخاء 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

کل یوکے جماعت

مسجد فضل کے سو سال مکمل ہونے پر ایک تقریب

منعقد کر رہی ہے جس میں غیر، مہمان، ہمسائے وغیرہ بھی مدعو کیےگئےہیں۔

مسجد فضل کی ایک تاریخی حیثیت ہے

اس لحاظ سے کہ یہ جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد ہے جو عیسائیت کے گڑھ میں بنائی گئی تھی اور پھر یہاں سے اسلام کی حقیقی تعلیم اور تبلیغ لوگوں میں وسیع پیمانے پر شروع ہوئی۔ آج ہمیں ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے لیکن حیرت ہے کہ اس خود کاشتہ پودے کے ذریعہ سے ان لوگوں کی، مغرب میں رہنے والے لوگوں کی مذہب کی کمزوریاں ان کے ممالک میں ظاہر کر کے اسلام کی خوبصورتی کی تبلیغ کی جارہی ہے اور ان اعتراض کرنے والوں کو تو یہ توفیق نہیں ملی کہ اس طرح تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ہاں مسجد فضل کی تعمیر سے پہلے ووکنگ (Woking) میں ایک مسجد بنائی گئی تھی اور اس کو بنانے والے مشہور مستشرق جی ڈبلیو لائٹنر (G W Leitner)تھے جو لاہور میں اوریئنٹل کالج کے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ پھر انگلستان واپس آگئےاور اٹھارہ سو نواسی(1889ء) میں ووکنگ کے علاقے میں ایک مسجد تعمیر کروائی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ یہ وہی سال ہے جب جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام عمل میں آیا اور بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جماعت احمدیہ کا آغاز فرمایا۔ ان مشہور پروفیسر صاحب نے مشرقی علوم کا ایک ادارہ بھی اس کے ساتھ قائم کیا تا کہ مسلمان دینی علم بھی حاصل کر سکیں اور اپنی عبادت بھی کر سکیں۔ یہ مسجد جو بنائی گئی اس میں ایک خطیر رقم والیہ بھوپال بیگم شاہ جہاں نے دی تھی اور انہی کے نام پر اس کا نام بھی ہے۔ بہرحال ان پروفیسر صاحب کی 1899ء میں وفات ہو گئی اور یہ مسجد بھی مقفل ہو گئی۔ اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں خواجہ کمال الدین صاحب یہاں آئے۔ انہوں نے اسے کھلوانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے اور انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ اب اس مسجد کا ایک ٹرسٹ بنایا گیا ہے جس کا مجھے نگران بنایا گیا ہے اور پھر دوبارہ اس میں عبادت شروع ہوئی۔ جب یہ کھولی گئی اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب کے ساتھ چودھری ظفر اللہ خان صاحب بھی اس مسجد میں گئے۔ وہاں جا کر انہوں نے نفل پڑھے۔ بڑی دعائیں کیں۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے مبلغین کی تحریک کی لیکن فنڈز مہیا نہیں ہو سکتے تھے لیکن بہرحال کسی طرح کوشش کر کے چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ یہاں بھجوائےگئےاور انہوں نے پھر خواجہ صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ کام کیا۔ پھر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد خواجہ صاحب نے خلیفة المسیح الثانی کی بیعت نہیں کی تو اس پر چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ انہیں چھوڑ کر دوسری جگہ چلےگئے۔ بہرحال یہ ووکنگ کی مسجد تھی لیکن

باقاعدہ کسی مسلمان فرقے یا جماعت احمدیہ کی طرف سے جو مسجد ہے وہ مسجد فضل ہی ہے جو بنائی گئی۔

بیشک آج انگلستان میں بھی، لندن میں بھی اور مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کی بہت ساری مساجد ہیں لیکن لندن میں پہلی مسجد ہونے کا اعزاز مسجد فضل کو ہی حاصل ہے۔ لیکن جو مساجد یہاں ہیں وہ بھی اسلام کی وہ خوبصورت تعلیم دنیا میں نہیں پھیلا رہیں یا مغربی ممالک میں نہیں پھیلا رہیں جس سے پیار، محبت اور صلح اور آشتی کا پیغام ہر ایک کو پہنچتا ہو جس طرح کہ جماعت احمدیہ کی مساجد سے جا رہا ہے اور پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ باقی مغربی دنیا کی جو مساجد ہیں وہ بعض حکومتوں کی مدد سے یا بعض اسلامی حکومتوں نے بھی تھوڑی سی مدد کی ہے تو وہ تعمیر کی گئی ہیں یا ان کے اخراجات چل رہے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ جماعت کوئی فنڈ نہیں لیتی بلکہ ان مساجد کو تو اب بھی حکومتی فنڈ ملتے ہیں اور یہاں مسلمانوں کی جو تنظیمیں بنی ہوئی ہیں ان کو حکومت کی طرف سے یہاں انگلستان میں بھی فنڈ ملتے ہیں۔

جماعت احمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ جماعت کی مساجد لوگوں کے چندوں سے اور قربانیوں سے تعمیر ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو انگلستان میں بھی جماعت کی قربانی کی وجہ سے درجنوں مسجدیں بن چکی ہیں اور مغربی ممالک میں بھی بیشمار مساجد تعمیر ہو گئی ہیں۔

بہرحال

آج مسجد فضل کے حوالے سے ہی مَیں کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں اور اس ذکر کی اہمیت کا اظہار اس وقت ہو گا یا ہم جو تقریب سو سال پورے ہونے پر کر رہے ہیں، اس کا فائدہ تب ہو گا جب ہم مسجد کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے جو کہ اس کی آبادی کا حق ہے۔ اپنی حالتوں کو بدلنے کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں بڑھنے کا حق ہے اپنی نسلوں کو مسجد سے جوڑنے کا حق ہے۔

ہم نے اسلامی حقوق پورے کرنے ہیں۔ پس اسے ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے کہ صرف ایک فنکشن کر کے یا چراغاں کر کے خوش نہ ہو جائیں بلکہ اس مسجد کے حق کو پورا کریں۔ اس کی تاریخ کو دیکھیں اور اس تاریخ پر غور کریں پھر اپنی حالتوں پر غور کریں۔ اس حوالے سے

بنیادی بات

جو پہلے میں کہنی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اسلام کے مغرب میں پھیلنے کے بارے میں بہت کچھ بیان فرمایا ہے۔ یہی چیز ہے جو ہماری تبلیغی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔ ایک جگہ اسلام کے مغرب میں پھیلنے کے بارے میں ایک رؤیا کے حوالے سے آپؑ بیان فرماتے ہیں کہ ایسا ہی طلوعِ شمس جو مغرب کی طرف سے ہو گا ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیامیں ظاہرکیا گیا ہے وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغرب جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منور کیے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصہ ملے گا۔(ماخوذ از ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 376، 377۔ ایڈیشن 1984ء)بڑی تحدّی سے آپؑ نے فرمایا، اس لیے ہمیں امید رکھنی چاہیے انشاء اللہ تعالیٰ ان ممالک میں بھی اسلام پھیلے گا۔ پھر آپؑ کی ایک اور پیشگوئی ہے ۔آپ فرماتے ہیں:مَیں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیترکے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا۔سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ

اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کاشکار ہو جائیں گے۔

درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو۔ فرمایا کہ نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے۔ اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔(ماخوذ از ازالۂ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377۔ ایڈیشن 1984ء)یعنی مغربی ممالک کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔

پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد، خواہش اور دعا اور خوشخبری اور یہ ہے وہ کام جس کو جاری رکھنے کے لیے آج جماعت احمدیہ انگلستان میں بھی اور برطانیہ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی، امریکہ میں بھی اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا رہی ہے اور مسجد فضل کی ابتدا بھی اسی غرض کو پورا کرنے کے لیے ہوئی تھی۔

جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ ووکنگ کی مسجد میں پہلے خواجہ کمال الدین صاحب آئے تھے لیکن حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد خلافت کی بیعت انہوں نے نہیں کی اور اس وجہ سے چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ جو اس وقت ان کے ساتھ تھے انہوں نے بھی ان کے ساتھ اکٹھا کام کرنے میں دقت محسوس کی اور علیحدہ ہو کر پھر ایک دوسری جگہ آ کر جماعت احمدیہ کی تبلیغ کا کام شروع کر دیا اور پیغام پہنچانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر ان کو کامیابیاں بھی ہوئیں۔ غرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ

چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ ہیں جو باقاعدہ مبلغ بن کےیہاں آئے اور سب سے پہلا پھل بھی آپؓ کو ملا جن کا نام مسٹر کوریو تھا جو ایک جرنلسٹ تھے۔

یہ مسلمان ہوئے اور اس کے بعد پھر ایک درجن سے زائد لوگ احمدی مسلمان ہوئے۔ چودھری صاحب کی تبلیغ زیادہ تر لیکچروں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ آپ اسلام کا پیغام اس طرح پہنچایا کرتے تھے کہ مختلف جگہوں پر کلبوں میں اور سوسائٹیوں میں جا کے تقریر کیا کرتے تھے پھر یہاں قادیان سے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کو واپس بلا کے قاضی عبداللہ صاحبؓ کو مبلغ بنا کے بھیجا۔ انہوں نے یہاں کچھ عرصہ کام کیا اور یہ قاضی صاحبؓ بھی صحابی تھے اور ان حالات میں جبکہ جنگ شروع ہو چکی تھی یہ بڑا مشکل کام تھا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی تھی۔ تبلیغ کا کام بہت مشکل تھا لیکن یہ لوگ تبلیغ کا کام کرتے رہے۔ قاضی صاحب کے زمانے میں مشن کو ایک مستقل جگہ بنانے کی غرض سے سٹار سٹریٹ کا مکان کرائے پر لیا گیا۔ پھر تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ قاضی صاحبؓ کے یہاں ہوتے ہوئے ہی حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو مبلغ کے طور پر بھجوایا۔ انہوں نے 1917ء سے جنوری 1920ء تک یہاں قیام کیا۔ 1919ء میں دوبارہ چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کو اور مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو یہاں بھجوایا گیا اور ان دونوں نے بے لوث کام کیا اور احمدیت کی تبلیغ کی۔ 1920ء میں چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ کو حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ انگلستان میں کوئی زمین خریدیں جہاں مسجد بنائی جائے اور ایک باقاعدہ مشن ہاؤس بنا کے وہاں کام شروع کیا جائے جس کے لیے پھر کوشش ہوئی اور دوہزار دو سو پاؤنڈ سے اوپر کی رقم سے پٹنی کے علاقے میں یہ جگہ خریدی گئی۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوجب یہ اطلاع ملی تو اس وقت آپ ڈلہوزی میں تھے۔ آپ نے وہاں بڑا فنکشن کیا اور پھر وہاں مسجدفضل کے نام سے اس مسجد کا نام بھی معین فرمایا اور اس کے بعد چندے کی تحریک ہوئی تا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی ہو سکے۔

یہ قطعہ زمین ایک یہودی سے حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ نے خریدا تھا۔ جیسا کہ ہمیں پتہ ہے جس میں اب تو نئی تعمیر ہو چکی ہے لیکن اس وقت ایک مکان تھا اور تقریباً ایک ایکڑ کے قریب زمین تھی۔ پھر تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس مسجد کی مزید کس طرح آگے پیشرفت ہوئی، تعمیر کس طرح ہوئی کہ 1924ء میںنمائش کے دوران بعض معززین کو یہ خیال آیا کہ اس عالمگیر نمائش کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف مذاہب کی بھی نمائش کی جائے اور عیسائی مذہب کو الگ رکھ کر جس کے حالات سے اہل مغرب خود ہی واقف ہیں دوسرے مذاہب کے بارے میں معلومات لی جائیں اور ان کے نمائندوں کو لندن بلا کر ان کے لیکچر دلوائے جائیں۔ اس کے لیے انہوں نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو بھی جو اس وقت یہاں مبلغ تھے جماعت احمدیہ کی طرف سے لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا۔ مولانا نیر صاحب نے قادیان اطلاع کی۔ اس پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے اس کو قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں سے کوئی نمائندہ ہم بھیجیں گے جو اسلام کی خوبیاں بیان کرے اور ساتھ ہی آپ نے خود، حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ایک مضمون لکھنا شروع کر دیا جس میں اسلام کی خوبیاں بیان کی گئیں اور حقیقی تعلیم بیان کی گئی اور یہ لیکچر کے لیے بڑی ضخیم کتاب بن گئی جو آپ نے لکھ کے دی جو احمدیت یا حقیقی اسلام کے نام سے اب شائع بھی ہو چکی ہے۔ بہرحال اس کے بعد جماعتی نمائندگان کی شوریٰ بلائی گئی جس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت عبدالرحیم صاحب دردؓ نے تجویز کی کہ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ حضرت خلیفة المسیح خود وہاں جائیں بجائے اس کے کہ کسی نمائندے کو بھیجا جائے اور چند رفقاء بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آپ خود انگلستان تشریف لے جائیں گے۔ دمشق اور مصر وغیرہ کے دورے کرتے ہوئے یورپ پہنچیں گے اور اپنے ساتھ چند افراد کو لے کے جائیں گے جن میں چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ بھی شامل تھے۔ یہ دونوں حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اورچودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ یہاں اپنے خرچ پہ آئے تھے۔ اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنا خرچ خود دیا تھا۔ بہرحال حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ دمشق اور مصر سے ہوتے ہوئے اٹلی اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس کے راستے سے انگلستان پہنچے۔ 22 اگست 1924ء کو یہاں پہنچے اور یہاں بھی

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ورود مسعود کے متعلق حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو ایک رؤیا پہلے سے دکھلایا گیا تھا کہ وہ سمندر کے کنارے انگلستان کے ایک مقام پر اترے ہیں اور ایک لکڑی کے کُندے پر پاؤں رکھ کر ایک کامیاب جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کر رہے ہیں کہ آواز آئی: ولیم دی کنکرر(William the Conqueror) ۔ گویا انگلستان کی روحانی فتح حضور کے ورود انگلستان کے ساتھ مقدر تھی جو اب ظہور میں آئی۔

اخبارات نے حضورؓ کے سفر اور انگلستان پہنچنے کو بڑا نمایاں طور پر شائع کیا اور آپؓ وہاں پہنچ کر پھر لندن وکٹوریہ سٹیشن پر اترے۔ پورٹ سے پھر وہاں وکٹوریہ گئے۔ یہاں آپ اترے۔ یہاں سے آپ اور آپ کی جماعت سینٹ پال کے عظیم الشان اور انگلستان کے سب سے بڑےگرجے کے سامنے پہنچے اور اس کے بعد اس کے سامنے ٹھہر کر آپ نے خدائے ذوالجلال سے اسلام اور توحید کی فتح کی دعا کی اور پھر آپ اپنے قافلے کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ آپ کی رہائش کے لیے ایک اچھی جگہ کا پہلے سے ہی انتظام کر لیا گیا تھا۔جو عمارت کرائے پر لی گئی تھی اس جگہ ایک بڑا گھر تھا۔ مذہبی کانفرنس کے مضمونوں اور پرائیویٹ ملاقاتوں اور پبلک لیکچروں اور اس دوران میں کابل سے یہ خبر بھی ملی تھی کہ نعمت اللہ خان صاحب شہید کو سنگسار بھی کیا گیا تھا ۔ تو اس کے واقعات کی وجہ سے جماعت احمدیہ کو کافی شہرت ملی اور کافی اخباروں میں اس کا چرچا ہوا۔ بہرحال ان فنکشنوں کے بعد مسجد کے سنگِ بنیاد رکھنے کی باری آئی اور یہ کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت شاندار اور پراثر طریقے سے ہوا۔

مسجد کے بارے میں تاریخ

میں یہ لکھا ہے کہ اگرچہ ولایت میں تبلیغی سلسلہ جاری ہوتے ہی حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد کے وجود میں لانے کا خیال پیدا ہو گیا تھا کیونکہ وہاں بار بار مکانوں کے بدلنے سے تبلیغ کے اثر کو سخت نقصان پہنچتا تھا کہ بہرحال جماعت کا ایک مرکز ہونا چاہیے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ گھر کرائے پہ لیتے جائیں تو اس کی وہ باقاعدگی نہ رہنے سے اتنا اثر نہیں ہوتا ۔ اس لیے آپ کا خیال تھا کہ مرکز بہرحال ہونا چاہیے مگر یہ کام بظاہر مشکل نظر آتا تھا اس کے لیے کوئی عملی تدبیر 1919ء تک پید انہیں ہو سکی۔ روپے کی فراہمی اور لندن میں موجود زمین کا ملنا جو کافی ہو اور شرفاء کے محلے میں ہو اور ایسی ہو کہ جس میں قانونی طور پر کوئی شرط اور پابندیاں عائد نہ ہوں اور یہ بات لندن کے مکانات اور قطعات اراضی خریدنے میں اور اس پر حسب منشاء عمارت بنانے میں بڑی سخت روک تھی۔ یہ ساری شرائط بھی پوری ہوں۔ پھر اس کی تعمیر و نگرانی پر سب سے بڑھ کر لوگوں کی توجہ کو اس طرف کھینچنا یہ وہ سب امور تھے جو اس کے راستے میں حائل تھے لیکن خدا نے ہر انتظام بہترین طریق پر اور بہترین صورت میں پورا کر دیا۔ سب سے پہلے روپے کی فراہمی تھی وہ اس طرح ہوئی کہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ایک زمانہ ایسا آیا کہ پاؤنڈ کا نرخ گرنا شروع ہوا۔

جب پاؤنڈ کی قیمت بہت زیادہ گر گئی تو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دل میں اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی تحریک بڑے زور سے پیدا ہوئی

اور آپ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور 6 جنوری 1920ء کو آپ اس خیال کے تحت ظہر کی نماز پڑھا کر واپس جا رہے تھے کہ وہاں اس وقت مسجدمیں بعض لیٹ آنے والے نمازی نماز پڑھ رہے تھے جن کی وجہ سے رستہ رکا ہوا تھا تو آپ وہاں رک گئےاور پھر وہیں بیٹھ گئےاور وہاں بیٹھ کر آپ نے ناظر بیت المال کو فرمایا کہ اس وقت چودہ پندرہ ہزار روپیہ قرض لے کر انگلستان بھیج دیا جائے اور آجکل کیونکہ ریٹ گر رہا ہے تو روپیہ تبدیل ہونے سے کافی پاؤنڈ مل جائیں گے۔ ناظر بیت المال نے بھی یہ لکھا۔ لیکن اس کے بعد جب آپؓ گھر تشریف لائے اور اس تحریک کو تحریر میں آخری شکل دی تو پھر آپ نے بجائے چودہ پندرہ ہزار کے تیس ہزار رقم لکھ دی اور پہلے یہ تھا ناںکہ قرض بھیجو آپ نے بجائے قرض کے چندہ کا لفظ لکھ دیا۔ حضورؓ فرماتے تھے کہ گویا خود بخود ہی ایسا ہو گیا۔ یہ تحریک لکھ کر اس روز عصر کے وقت ناظر بیت المال کو دے دی اور آپ نے انہیں فرمایا کہ اس کے لیے مغرب کے بعد لوگوں کو جمع کیا جائے۔ مسجدمبارک میں وہاں گنجائش بہت کم تھی اور اعلان کے لیے وقت بھی تھوڑا تھا مگر پھر بھی حضورؓ کی اس پہلی تحریک پر چھ ہزار چندہ جمع ہو گیا۔ دوسرے دن مستورات میں تحریک فرمائی پھر اس دن عصر کے وقت مردوں کے درمیان مسجد اقصیٰ میں دوبارہ اور بالآخر 9جنوری 1920ء جمعہ کے دن خطبہ میں عام اعلان کیا۔ اور دس، گیارہ جنوری تک صرف قادیان کا چندہ ہی بارہ ہزار تک پہنچ گیا اور اس غریب جماعت نے، قادیان کے لوگوں نے بڑی قربانی کر کے چندہ اکٹھا کیا۔

حضورؓ نے فرمایا کہ

اس غریب جماعت سے اس قدر چندہ کی وصولی خاص تائیدِ الٰہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس وقت چندہ کے ساتھ شامل ہے۔

آپ نے فرمایا کہ لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھااور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہو۔ سب مرد عورتیں نشہ سے چُور ہوکر، قربانی کے جذبہ سےسرشار ہو کر چندے دے رہے تھے۔ ایک بچہ غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا تھا اس نے کہا میں نے ساڑھے تیرہ روپے جوڑے ہیں۔ اس زمانے میں تو ساڑھے تیرہ روپے کی کچھ نہ کچھ قیمت تھی اور جو ریٹ گرا تھا اس کے مطابق بھی ایک ڈیڑھ پاؤنڈ تو ہو گا ہی۔ بہرحال کہتا ہے ساڑھے تیرہ روپے جوڑے ہیں اور چندہ میں بھجوا رہا ہوں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ پتہ نہیں کن امنگوں کے ماتحت اس بچےنے وہ پیسے جمع کیے ہوں گے لیکن مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان امنگوں کو بھی قربان کر دیا۔

بہرحال اس قربانی میں لوگ بیشمار بڑھتے چلےگئے۔ پھر آپ نے باہر گورداسپور لاہور وغیرہ میں تحریک کی اور خیال تھا کہ تیس ہزار روپیہ ان تین ضلعوں سے پورا ہو جائے گا۔ اس کے بعد پھر آپ نے کہا کہ مجھے ڈر ہوا کہ باقی جماعتوں کو شکوہ نہ ہو تو پھر میں نے اس کو مزید بڑھا دیا اور رقم بھی بڑھا کر ایک لاکھ کر دی تا کہ لوگ ثواب میں شامل ہوں بلکہ ایک شخص نے حضرت مصلح موعودؓ کو یہ لکھا کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے جو میں کوئی بزنس کر رہا ہوں۔ اس کے شکریہ میں مَیں ولایت میں احمدیہ مسجد بنانے پر جس قدر خرچ ہوگا سارا خرچ خود کروں گا۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا کہ میں نے اس کی اجازت تو نہیں دی کیونکہ میںکسی کو بھی محروم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بہرحال یہ رقم اکٹھی ہونا شروع ہوئی، جمع ہوئی اور یہ رقم بینک آف انڈیا کے ذریعہ سے انگلستان بھجوائی گئی جو تین ہزار چار سو اڑسٹھ پاؤنڈ بنتی ہے۔ اندازہ لگا لیں آج کے اپنے حالات کا اور اس وقت کے حالات کا۔ روپوں میں باون ہزار روپیہ بن جاتی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر یہ رقم جمع ہو گئی پھر بعد میں مزید رقم بھیجی گئی اور اس طرح ان دنوں میں پاؤنڈ کی قیمت بھی دوبارہ گر گئی جس سے تھوڑے روپوں میں ،کم روپوں میں زیادہ پاؤنڈ مل گئے۔ پندرہ روپے سے چھ روپے پہ پاؤنڈ آ گیا پھر۔ بہرحال اس مسجد کی تعمیر اور سنگِ بنیاد کا جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے یہاں آنے سے آغاز بھی ہوا۔

19؍اکتوبر 1924ء اتوار کے دن اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس وقت تاریخ میں لکھا ہے کہ اٹھارہ اکتوبر 1924ء کے روز اخبار نے لکھا تھا کہ 19 اکتوبر کے موسم کی پیشگوئی یہ تھی کہ موسم عمدہ رہے گا اور سورج نکلے گا مگر خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو غلط ثابت کر دیا اور اپنی ہستی کا ایک کھلا کھلا ثبوت دیا اور صبح سے بارش شروع ہوگئی۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ بڑا اچھا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں جو لوگ آئیں گے افتتاح کے لیے وہ اخلاص سے ہی آئیں گے۔ کل بھی بارش کی پیشگوئی ہے اب دیکھیں پیشگوئی پوری ہوتی ہے کہ نہیں۔ بہرحال آپ نے فرمایا کہ جو لوگ آئیں گے اخلاص سے آئیں گے اور انشاء اللہ یہ تقریب کامیاب ہو گی۔ چھوٹا خیمہ یعنی مارکی لگائی گئی تا کہ مارکی میں بیٹھ کے لوگ پروگرام آرام سے سن سکیں اور دیکھ سکیں۔ مختلف لوگوں کو دعوتی کارڈ بھیجےگئےتھے۔ پارلیمنٹ کے ممبران تھے، لیڈر تھے، سیاستدان تھے، ڈپلومیٹس تھے۔ مختلف قسم کے لوگ شامل تھے۔ تھوڑا وقت تھا اس لیے خیال تھا کہ بہت کم لوگ آئیں گے لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں مہمان آگئے۔ مختلف ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے اور یہ تقریب ہرلحاظ سے کامیاب ہوئی۔ اس تقریب کے وقت جہاں سنگ بنیاد نصب کرنا تھا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں کھڑے ہوئے اور آپ کے کھڑے ہونے پر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے دو سورتوں کی، اللیل کی اور اعلیٰ کی تلاوت کی۔

اس کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے خطاب فرمایا اور آپؓ نے فرمایا کہ

آج ہم ایک ایسے کام کے لیے جمع ہوئے ہیں جو اپنی نوعیت میں بالکل نرالا ہے یعنی ایک ایسی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے جو محض اس ہستی کو یاد کرنے اور اس کے حضور میں اپنی عبودیت کا اظہار کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے جو سب دنیا کی پیدا کرنے والی ہستی ہے۔

خواہ وہ کسی ملک کے رہنے والے ہوں اور کسی حکومت کے ماتحت بستے ہوں یا کوئی زبان بولتے ہوں وہاں جاکر ایک ہو جاتے ہیں۔ وہ ہستی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے حضور میں کُل انسان بڑے اور چھوٹے، کالے اور گورے، مشرقی اور مغربی کا سوال ہی نہیں رہتا کیونکہ جوں جوں اس کے نزدیک چلا جایا جاتا ہے اختلاف مٹتے جاتے ہیں اور اتحاد بڑھتا جاتا ہے۔ پس

جس عمارت کی بنیاد رکھنے کے لیے ہم لوگ آج جمع ہوئے ہیں وہ اتحاد اور اتفاق کا ایک نشان ہے اور اپنے وجود سے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ہمارا مبدا اور مرجع ایک ہے۔

پس ہمیں آپس کے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑنا اور فساد کرنا نہیں چاہیے۔ اور پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ اختلاف تو ہوتے رہتے ہیں اور اختلاف تو دنیا میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اختلاف نہ ہوں یہ تو اچھی بات ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اختلافات رحمت کا نشان ہوتے ہیں۔ نقصان نہیں دیتے۔ لیکن جو بُری چیزہے وہ عدمِ برداشت ہے۔اختلاف ہو جائے اور پھر برداشت نہ ہو۔ یعنی اتفاق کی حد سے بڑھی خواہش۔ یعنی ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں اس سے اتفاق کیا جائے۔ اختلاف نہ ہو صرف اتفاق ہی ہو۔ یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ اختلافات بھی ترقی کی نشانی ہیں اور اگر یہ چیز انسان میں پیدا ہو جائے تو پھر کامیابیاں بہت قریب ہو جاتی ہیں۔ پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ قوتِ برداشت انسان میں ہونی چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اختلاف تو بُری چیز ہے اگر اختلاف بُری چیز ہے تو پھر برداشت کے کیا معنی ہیں۔ برداشت تو اسی وقت ہوگا جب اختلاف ہو گا۔ برداشت ہوتا ہی اس وقت ہے جب کسی چیز سے اختلاف ہو۔ تب انسان برداشت کرے اور غلط رنگ میں کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

آپؓ نے یہ فرمایا کہ پس جس چیز کی دنیا کو ضرورت ہے وہ برداشت ہے یعنی لوگ اختلافِ عقیدہ اور اختلافِ اصول رکھتے ہوئے پھر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے ساتھ رہیں۔ بیشک ہر ایک شخص کا حق ہے کہ وہ دوسروں کو اس امر کی طرف بلائے جسے وہ اس کے لیے اچھا سمجھتا ہے کیونکہ بغیر تبلیغ کے علوم کی ترقی نہیں ہو سکتی مگر جس چیز کا کسی کو حق نہیں وہ یہ ہے کہ دوسرے کے دل کے بدلنے سے پہلے اس کی زبان اور اس کے اعمال کو بدلنا چاہے یا بعض امور میں اس سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے اس کو تکلیف دینے کی کوشش کرے۔زبردستی کرنی، زبان اور اعمال کو بدلنا یہ چیز غلط ہے۔ دل بدلنا چاہیے۔ اگر زبردستی کی ہے تو یہ غلط ہے۔ پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ مسجد اس قسم کی روح پیدا کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے اور اسلام نے مسجد کا نام بیت اللہ رکھا ہے یعنی ایسا گھر جس میں انسان کا حق نہیں کہ وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے اس سے کسی کو نکال سکے یا کسی کو تکلیف دے سکے کیونکہ یہ اس کا گھر نہیں بلکہ خدا کا گھر ہے۔ لیکن پاکستانی ملّاں آجکل یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہماری مرضی ہے ہم جو مرضی کہیں اور احمدیوں پر مسجدوں میں جانا بھی تنگ کیا گیا ہے۔ بہرحال آپ نے فرمایا کسی انسان کا گھر نہیں ہے یہ خدا کا گھر ہے جو اسی طرح اس کے دشمن کا خدا ہے جس طرح اس کا خدا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ (البقرہ :115) یعنی اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائے جانے والے گھر سے لوگوں کو روکے اور اس کی عبادت نہ کرنے دے۔

یہ ظلم آجکل پاکستانی ملاں اسلام کے نام پہ کر رہا ہے۔ بہرحال آپؓ نے فرمایا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ یمن کے مسیحیوں کا ایک وفد حاضر ہوا۔ آپؐ سے باتیں کر رہا تھا کہ نماز کا وقت آ گیا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ باہر جا کر نماز پڑھ لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہر جا کر نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری مسجد میں نماز پڑھ لو۔

قرآن کریم کے حکم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ اسلامی مساجد کا دروازہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہے اور اسلامی مساجد مختلف مذاہب کے لوگوں کو متحد کرنے کا نقطہ ٔمرکزی ہیں۔

اور پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ اس روح کے ساتھ اور انہی جذبات کے ساتھ جو بیان کیے ہیں ہم نے یعنی جماعت احمدیہ نے اس مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا ہے اور اس کا میں افتتاح کر رہا ہوں اور آج اس سے پہلے کہ مَیں اس کا سنگ بنیاد رکھوں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے تا کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں متوجہ ہوں۔ اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتا ہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لیے مقرر کریں اور بشرطیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس مسجد کو بناتے ہیں اور

مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح ہے جو اس مسجد کے ذریعے سے پیدا کی جائے گی دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں مدد دے گی اور وہ دن جلد آئیں گے جب لوگ جنگ و جدال کو ترک کر کے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے

اور سب دنیا اس امر کو محسوس کرے گی کہ جب سب بنی نوع انسان کا خالق ایک ہی ہے تو ان کو آپس میں بھائیوں اور بہنوں سے بھی زیادہ محبت اور پیار سے رہنا چاہیے اور بجائے ایک دوسرے کی ترقی میں روک بننے کے ایک دوسرے کو ترقی کرنے میںمدد دینی چاہیے کیونکہ جس طرح باپ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچے آپس میں لڑتے رہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی مخلوق آپس کے جنگ و جدال میں مشغول رہے۔

پھر آپؓ نے فرمایا ایک خدا تعالیٰ سے دُوری کی وجہ سے آپس میں جنگیں ہوتی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بانیٔ جماعت احمدیہ کو اسی غرض کے لیے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دوری کی وجہ سے جنگیں ہوتی ہیں اور سب کو اکٹھا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کریں اورباہمی اختلافات کو دور کریں اور آپس میں اتحاد اور محبت پیدا کریں۔ پس جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تمام نسلی جنگوں اور سیاسی جنگوں کو مٹانے میں کوشاں رہے گی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہر ملک کے مختلف مذاہب کے جو نیک دل لوگ ہیں ان کوششوں میں اس کے مددگار ہوں گے کہ امن قائم کیا جائے اور اس کے آثار بھی آپ نے فرمایا نظر آ رہے ہیں جیسا کہ اس وقت (وہاں مختلف لوگ آئے ہوئے تھے) آپ نے فرمایا کہ مختلف اقوام کے معزز لوگ آج اس اجتماع میں ہیں اس سے ظاہر ہے کہ ہم اکٹھے ہو رہے ہیں اور آج سو سال بعد اس زمانے میں بھی ہم نے یہی دیکھا ہے کہ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سارے لوگ، مختلف قوموں کے لوگ، مختلف مذاہب کے لوگ جب آتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے پلیٹ فارم پر ہم سب ایک ہو جاتے ہیں۔

اس مسجد میں جیسا کہ آپ نے جو یہاں مسجد میں جانے والے ہیں، مسجد فضل کے نماز پڑھنے والے جو ہیں انہوں نے دیکھا بھی ہو گا کہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ایک تختی بھی نصب کی تھی جس پر یہ لکھا ہوا ہے کہ میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض سے کہ خدا کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج بیس ربیع الاول 1343ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لیے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات کےپھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز اورنائب محمد علیہ الصلوٰة والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے روحانی سورج کا کام دے۔ اے خدا ایسا ہی کر۔ 19؍اکتوبر1924ء

یہ تمام تحریر لکھی ہوئی ہے۔ آپ پڑھ رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دعاؤں کے ساتھ اس مسجد فضل کی بنیاد رکھی گئی اور مختلف اخباروں نے اس کی بہت زیادہ اشاعت کی اور حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر کے مختلف حوالے اپنے اخباروں میں شائع کیے اور جماعت کے کام کو بڑا سراہا۔ میں نے جو بعض باتیں بیان کی ہیں وہ آپ کی تقریر میں سے مختصر خلاصہ بیان کیا ہے ۔تفصیل کافی ہے۔ بہرحال جنہوں نے پڑھنا ہے وہ اصل سے پڑھ سکتے ہیں۔

آخر یہ مسجد تعمیر ہوئی اور دو سال کے بعد 1926ء میں اس کا افتتاح ہوا۔ اس کا افتتاح کرنے تو شاہ فیصل نے آنا تھا جو کہ (اس وقت) شہزادہ فیصل تھے، ان کے والد نے کہا تھا جائیں اور ان کو آنے کی اجازت مل گئی تھی لیکن پھر مسلمانوں کے ردّعمل کی وجہ سے بادشاہ نے ان کو روک دیا اور پھر شیخ عبدالقادر صاحب نے اس کا افتتاح کیا اور انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں بتایا کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن باوجود اس کے ہم اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں اختلافات سے بالا ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ بہرحال یہ ان کا حوصلہ اور کھلا دل ہے جس کا انہوں نے اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اس کی جزا دے۔

(ماخوذ از تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ 9 تا 14، 18 تا 35، 45تا 48، 78،52مینیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 377، 406)

(https://shahjahanmosque.org.uk/the-mosque/history/explore/)

بہرحال یہ تھی مختصر تاریخ جو مسجد فضل کی تھی اور یہی اس مسجد کے بنانے کی وجہ تھی کہ مغرب میں اشاعتِ اسلام ہو۔ پس آج ہم جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ سو سال پورا ہونے پر تقریب منعقد کر رہے ہیں تو یہ تقریب کوئی دنیاوی مقصد کے لیے نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات اور باتوں سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے کلام سے اور باتوں سے میں نے بتایا ہے کہ یہ مسجد تو وہ جگہ ہے جہاں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیے لوگ اکٹھے ہوں اور خدائے واحد کی عبادت کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ اپنی روحانی اصلاح بھی کریں اور اپنے اعلیٰ اخلاق کو بھی بلند کریں۔ اس زمانے میں جبکہ لوگ خدا کو بھول رہے ہیں مسجد کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق انسان کی پیدائش کا مقصد عبادت ہے اور اسی سے ہم دور جا رہے ہیں۔ پس آج ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اپنے ماحول میں بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اپنی نسلوں کو بھی اس بات کی طرف توجہ دلائیں کہ حقیقی زندگی اور ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اس کی مخلوق کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس کے حکموں پر چلنے والے ہوں تبھی ہم دنیا کو امن اور صلح اور آشتی کے ساتھ کامیابی سے چلا سکتے ہیں اور اس میں زندگی گزار سکتے ہیں ورنہ یہاں فسادوں اور جھگڑوں کے علاوہ کچھ نہیں جس کے نظارے ہم آجکل دیکھ رہے ہیں۔ پس اس مقصد کو ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہ دوسروں کے لیے پسند کرو۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہٖ حدیث 13)

تو اس تعلیم کی رو سے

ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اس تبلیغ کو، اس پیغام کو جو اسلام کا پیار اور محبت اور امن سے رہنے کا پیغام ہے ،صلح اور آشتی کا پیغام ہے دنیا کو بتائیں اور آشنا کریں اور پھیلائیں کہ یہی انسان کی بقاکا ضامن ہے اس کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ورنہ آئندہ نسلیں تباہی اور بربادی کے گڑھے میں گرتی چلی جائیں گی اور ان جنگوں کی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپاہج اور لنگڑی اور لُولی پیدا ہوں۔

پس اس لحاظ سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے کہ اس مسجد کے حق کو پورا کرنے والے ہوں اور ہر مسجد کے حق کو پورا کرنے والے ہوں۔

صرف یہی مسجد نہیں بلکہ ہر احمدی کو ہر جگہ ہر مسجد کو آباد کرنے اور اس کے حق کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اپنی عبادتوں کے حق کو پورا کرنے والے ہوں۔

اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے حق کو پورا کرنے والے ہوں اور تبلیغ اسلام کا حق ادا کرنے والے ہوں اور حقیقی معنوں میں وہ مسلمان بن جائیں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اس زمانے میں آپ کے غلام صادق کو بھیجا تا کہ اسلام کی نشأة ثانیہ کا دور دوبارہ شروع ہو اور دنیا میں اسلام اور خدائے واحد کی حکومت قائم ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

الفضل انٹرنیشنل ۸؍ نومبر ۲۰۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button