حضرت مصلح موعودؓ کے معتمد ساتھی اور فدائی خادم سلسلہ سابق ناظر اعلیٰ ثانی محترم میاں غلام محمد اختر صاحب (قسط دوم۔ آخری)
باکمال اور مہربان شخصیت
معروف شاعراور ادیب جناب ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب میاں غلام محمد اختر صاحب کی شخصیت اور ان کی ہمدردی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ’’میرے گھر کے مقابل پر ایک بزرگ میاں غلام محمد اختر رہتے تھے۔ ریلوے کے ریٹائرڈ افسر تھے اور دبنگ شخصیت کے مالک تھے۔ ایک زمانے میں اُن کے رعب داب اور افسری کا خوب چر چا تھا مگر اب وہ بات نہیں رہی تھی۔ اولاد جوان ہو کر اپنے اپنے گھروں میں خوشحال تھی۔ کچھ عرصے پہلے بیگم داغ مفارقت دے گئی تھیں۔ اب دو کنال کے گھر میں اکیلے رہتے۔ کبر سنی نے اُن کے قویٰ مضمحل کر دیے تھے۔ پیدل چلنے میں بھی دقت محسوس کرتے تھے۔ ہم ان کا چھوٹا موٹا کام کر دیتے تھے خاص طور پر میرے بھائی طارق کے ساتھ اُن کی خوب نبھتی تھی۔ وہ انہیں کھولتے پانی میں انڈا فرائی کر کے دیتا۔ یہ طریقہ انہوں نے ہی بتایا تھا کہ اس سے انڈے کی غذائیت قائم رہتی ہے۔ میں ہفتے میں ایک آدھ باران کے پاس جا بیٹھتا اور وہ اپنی زندگی کے پرانے قصے چھیڑ دیتے۔ ایک دو گھنٹے کی صحبت میں کئی زمانوں کی سیر ہو جاتی۔ اُن کا انداز بیاں بھی خوب تھا، بولتے بولتے تھکن غالب آنے لگتی تو رخصت دیتے۔ کوئی کام ہوتا تو دستک دینے کی بجائے اپنے گھر ہی سے میرے بھائی کا نام لے کر پکارتے اور ہم میں سے کوئی گھر میں ہوتا تو حاضر ہو جاتا۔ بہت کمال کے بزرگ تھے۔مجھے اُن سے مل کر کبھی بوریت محسوس نہیں ہوئی بلکہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر میں سرسبز و شاداب اور تازہ دم ہو جاتا۔ اُن کی مہربان شخصیت سے بہت سوں کو فیض پہنچا۔ کمزور اور غریبوں کی ہرطرح سے مدد بھی کیا کرتے تھے۔ ایک بار میرا بھائی شدید بیمار ہو گیا تب اُن کے تعلقات کام آئے۔ ہسپتال میں علاج معالجے کے سلسلے میں اُنہوں نے نہ صرف مدد کی بلکہ چیف میڈیکل آفیسر سے کہہ کر پرائیویٹ روم کا بندو بست کیا اور طبی عملے کو تاکید سے کہلوایا کہ وہ ہر طرح خیال رکھے۔ یوں ہماری پریشانیاں ہی کم نہیں ہوئیں بلکہ بھائی بھی جلد صحت یاب ہو کے گھر آگیا۔ ہسپتال اور گھر دونوں جگہوں پروہ برابر تیمارداری کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ہمارے درد کو انہوں نے اپنا درد بنالیا تھا۔ یہ ستر کی دہائی کا زمانہ تھا۔میں ایم اے عربی کا امتحان دے کر فارغ تھا ۔ایک روز باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگے تم فارغ ہو عبدالستار سے کیوں نہیں ملتے وہ کسی اخبار میں کام کرتا ہے اس سے ملو وہ ضرور تمہیں کہیں رکھوا دے گا۔ تمہارا میلان بھی لکھنے پڑھنے کی طرف ہے۔ اخبار میں کام کرو گے تو تجربہ بھی حاصل ہوگا اور لکھنا بھی آجائے گا۔ میں نے فوراً ہاں کہہ دی۔ انہوں نے کمال شفقت سے اپنے سگے بھتیجے عبدالستار کے نام ایک رقعہ تحریر کیا اور میرے بارے میں ایک دو جملے لکھ کر بےتکلفی سے انہیں حکم دیا کہ اس نوجوان کو اخبار میں رکھوا دو…میاں غلام محمد اختر نے اپنے جس بھتیجے کو عبد الستار کہہ کر مخاطب کیا تھا وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا ناول نگار، شاعر اور صحافی قمر اجنالوی تھا۔ جو فلموں کے علاوہ ڈائجسٹ رسالوں کی بھی ضرورت تھا، جواس کی کہانی کے انتظار میں رسالے کی اشاعت موخر کرتے تھے۔ میں اُس وقت اُس کے مقام اور مرتبےسے قطعی لاعلم تھا۔ میرا مطالعہ بھی محدود تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میرے سامنے جو شخص بیٹھا ہے وہ کس مرتبے کا ہے اور ادبی دنیا میں اس کی قدرو قیمت کیا ہے۔ قمر اجنالوی نے رقعہ سرسری نظر سے دیکھا اور حامل رقعہ کو انوار قمر کے سپرد کر دیا۔‘‘(کتابی سلسلہ ’’انگارے‘‘ بہاولپور جون ۲۰۲۴ء صفحہ ۶۵)
اختر صاحب کے بارے میں میری والدہ صاحبہ کی یادداشتیں
خاکسارکی والده محترمہ صادقہ ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری محمد صادق صاحب واقف زندگی کی قادیان میں ۲۲؍اپریل ۱۹۳۶ء کو پیدائش ہوئی۔ آپ کی والدہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ (اہلیہ مولوی محمد عبد الله صاحب واقف زندگی سابق مینیجر کریم نگر فارم سندھ) کے چچا محترم میاں غلام محمد اختر صاحب کی فیملی ان دنوں قادیان میں مقیم تھی۔ ریلوے سٹیشن قادیان کے پاس آپ کی کوٹھی تھی۔ پیدائش کی خبر محترم اختر صاحب کی بیٹیوں امة الحبيب صاحبہ اور امة الحميد صاحبہ کو پہنچی تو وہ خوشی کی یہ خبر لے کر دربار خلافت میں حاضر ہو گئیں۔ حضرت صاحبؓ کے ہاں بے تکلفی سے ان کا آنا جانا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کو بتایا کہ ہماری آپا آمنہ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے اس کا نام تجویز فرمادیں۔ حضرت صاحب نے صادقہ نام عطا فرمادیا۔ بچیوں نے کہا کہ صرف صادقہ !! تو اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ صادقہ ثریا رکھ لیں۔ یوں میری والدہ محترمہ کا نام حضرت مصلح موعودؓ نے صادقہ ثریا عطا فرمایا جس کا ذ ریعہ محترم میاں غلام محمد اختر صاحب کی بیٹیاں بنیں۔
والدہ محترمہ بتاتی ہیں کہ ان کی والدہ آمنه بیگم صاحبہ کی شادی ۱۹۳۳ء میں قادیان میں ہوئی۔ ان دنوں آپ کے نانا حضرت میاں دین محمد صاحب (بر ادر اکبر میاں غلام محمد اختر صاحب ) قادیان میں دکان کیا کرتے تھے۔ والد صاحب مولوی محمد عبداللہ صاحب مدرسہ احمدیہ قادیان میں پڑھتے تھے۔ والدہ صاحبہ کی روایت ہے کہ ان کے نانا جان میاں دین محمد صاحب کی مالی حالت ان دنوں اچھی نہ تھی۔ چنانچہ ان کی والدہ کی شادی کے موقع پر سامان جہیز کے برتن جو کہ چینی کے تھےوہ میاں غلام محمد اختر صاحب نے دیے تھے جو غالباً پشاور سے لے کر آئے تھے۔ یہ برتن محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ نے کئی دہائیوں تک سنبھال کر رکھے تھے اور وہ ہمیشہ ذکر بھی کیا کرتی تھیں کہ یہ ان کے چچا اختر صاحب نے دیے تھے۔
والدہ صاحبہ اپنے بچپن کی بعض یادوں کا تذکرہ کرتی ہوئی بتاتی ہیں کہ جب وہ مغلپورہ لاہور میں اپنے نانا حضرت میاں دین محمد صاحب کے ہاں رہتی تھیں جو ریلوے میں ملازم تھے اور میاں غلام محمد اختر صاحب ریلوے میں آفیسر تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے ایک سال وہ اپنے نانا، ماموں قمر اجنالوی اور خالاؤں کے ہمراہ کراچی کی سیر کے لیے گئیں اور ایک سال دہلی اور آگرہ کی سیر کے لیے گئیں۔ آگرہ اور دہلی کی سیر کے دنوں میں اختر صاحب دہلی میں تھے۔ چنانچہ ان کے انتظام کے تحت ہم ایک روز دہلی ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں قیام پذیر رہے۔ اور پھر ہم تین چار دن کے لیے آگرہ چلے گئے۔ آگرہ میں ہمارا انتظام اختر صاحب نے اپنے احمدی دوست سیٹھ اللہ جوایاصاحب کے ہاں کروا دیا۔ یوں ہماری سیر اور سفر کے لیے میاں غلام محمد اختر صاحب سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہے۔یہ اختر صاحب کی اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کی مثال ہے۔
اختر صاحب کی پُر اثر شخصیت
پاکستان باسکٹ بال ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی عبدالرحیم طارق صاحب حال مقیم آسٹریلیا بیان کرتے ہیں کہ ۷۰ء کی دہائی کی بات ہے جب ہم میاں غلام محمد اختر صاحب کے مکان واقع دارالصدرغربی کے سامنے دوسرے محلے سے منتقل ہوئے۔آپ سے تعارف نہ تھا۔ تہجد کے وقت ان کے گھر سے رونے کی آواز ہمارے گھر تک بھی سنائی دے رہی تھی۔ جب معلوم کیا تو پتا لگا کہ یہ میاں غلام محمد اختر صاحب ہیں یہ تہجد کی نماز اتنے درداور الحاح کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ اردگرد گھروں میں بھی ان کے گڑگڑانے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ چنانچہ میں ان کے گھر گیا۔ ان کو اپنا تعارف کروایا کہ ہم آپ کے ہمسایہ میں آئے ہیں۔اس کے بعد سے آپ سے دوستانہ ماحول پیدا ہو گیا اور آپ کی طرف آنا جانا شروع ہو گیا کیونکہ ان میں اتنا پیار اور اپنائیت تھی کہ وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ ہمارا اتنا قریبی تعلق ہو گیا کہ میں ان کے ہاں جاتا اور ان کے لیے ناشتہ بھی بناتا۔ آپ نے مجھے چائے بنانا سکھائی اور پانی میں انڈہ فرائی کرنا بھی آپ ہی نے مجھے سکھایا۔ میں ناشتہ آپ کے ساتھ کرتا اور وہاں وہ مجھے حضرت مصلح موعودؓ کی شفقتوں اور ان کے ساتھ گذرے ہوئےخوبصورت لمحات کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ذات کا ان کے اوپر بہت رعب تھا اور حضرت مصلح موعودؓ آپ کے ساتھ بہت پیار بھی کرتے تھے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ حضرت صاحب کی سیرت کا آپ کی ذات پر گہرا اثر تھا اور آپ ہمدرد، لوگوں کے غم خوار، نماز پنجوقتہ کے وقت پر اور خاص اہتمام کے ساتھ عادی اور مسجد میں پڑھتے۔ تین نمازوں فجر مغرب اور عشاء پر مجھے اونچی آواز دے کر بلاتے اور ساتھ لے کر جاتے تھے۔ فجر کے وقت تو خاص طور پر آپ مجھے جگاتے اور نماز کے لیے بلاتے اور اہل محلہ بھی آپ کی یہ آواز سنتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد مجھے نماز کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ میں اکثر ان کی آواز سے پہلے ہی جاگ چکا ہوتا تھا۔ لیکن وہ آوازدیتے اور گھر سے پہلے ہی نکل آتے تھے۔ پھر میں ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ مسجد انوار دارالصدر شمالی میں جاتا۔ مغرب کی نماز پر بھی ان کے ساتھ جانا اور عشاء کی نماز پر بھی ۔
میں اس وقت ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔وہ میری دنیاوی معاملات میں راہنمائی کرتے اور بتاتے کہ کس طرح انسان ایک کامیاب زندگی گزارتا ہے۔ چونکہ وہ ریلوے میں بہت اعلیٰ منصب پر فائز رہ چکے تھےانہوں نے مجھے دفتری آداب بھی سکھائے۔ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ نماز باجماعت کی پختہ عادت آپ نے مجھے ڈالی۔ آپ کے وجود سے مجھے صحبت صالحین میسر آ گئی اور میں آپ کی نیکیوں کے رنگ میں ڈھلتا چلا گیا۔ آپ کی تہجد کی عادت سے مجھے بھی تہجد پڑھنے کی عادت ہوئی۔آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ صدقہ و خیرات میں آپ کا ہاتھ بہت کھلا تھا۔ چندوں میں بہت باقاعدہ تھے۔ کئی دفعہ مجھے چندہ دےکر بھیجا کہ صدر محلہ کے پاس جائیں اور چندہ دے آئیں۔ ان ایام میں صدر محلہ ماسٹر اللہ بخش (زراعتی) صاحب تھے۔
ذکر الٰہی اور درود شریف کی عادت
عبدالرحیم طارق صاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار گولبازار سے دارالصدر کی طرف ہم پیدل جا رہے تھے۔ اختر صاحب بہت آہستہ آہستہ چلتے تھے میں نے کہا کہ تانگہ لے لیتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ تم نے تانگہ پر جانا ہے تو چلے جاؤ میں پیدل ہی جاؤں گا۔ آپ خاموشی کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے تھے اور گفتگو کم کرتے تھے۔ میں ساتھ چلتا گیا۔ گھر پہنچ کر میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ اتنے خاموش کیوں رہتے ہیں؟آپ نے بتایا کہ میں جب پیدل چل رہا ہوتا ہوں تو میرا وقت ذکر الٰہی اور درود شریف میں گزرتا ہے۔ اس لیے میں اس دوران گفتگو نہیں کرتا۔ تانگے میں سوار ہونا اور اترنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے اور پیدل چلتا ہوں اس سے مجھے ذکر الٰہی اور درود شریف کا موقع مل جاتا ہے۔ اور ویسے بھی چونکہ تانگہ گھر جلدی پہنچا دیتا ہے اس لیے درود شریف کا وقت کم ملتا ہے۔
عشق رسول ؐ
آنحضرتؐ کے ساتھ عشق کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آنحضور ؐکا نام آپ کے سامنے آتا تو ان کی آنکھوں میں ایک نمی نظر آ رہی ہوتی تھی۔آپ کی زبان ذکر الٰہی اور درود شریف کے ورد سے تر رہتی تھی۔عبدالرحیم طارق صاحب نے بیان کیا کہ مزدوروں سے کام کرواتے اور ان کی اجرت ادا کرنے میں وہ طریق اپناتے جو آنحضورؐ نے سکھلایاہے۔ ایک بار آپ کے ہاں مزدور کام کر رہے تھے تو آپ نے مجھے کہا کہ یہ شربت اور برف پڑی ہے آپ یہ شربت بنا کر ان مزدوروں کو پلاؤ۔ میں شربت پلا کر آیا۔ پھر مزدوروں کے کام ختم ہونے کا وقت قریب آیا تو آپ کو دیکھا کہ آپ پیسے گن کر جیب میں ڈال رہے ہیں۔ میں نے کہا ابھی تو ان کا کام باقی ہے ان کو کام کرنے دیں۔ کہتے ہیں جب ان کا کام ختم ہو گا اسی وقت یہ پیسے ان کو دے دینے ہیں اس ارشاد کی روشنی میں کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری ان کو دے دو۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ آپ نے ان کو رقم ان کے کام ختم ہوتے ہی دے دی اور اس کے بعد مزدوروں نے اپنے ہاتھ منہ دھوئے۔ یہ آپ کی عشق رسول ؐکی بھی مثال ہے اور دوسروں کے حقوق بروقت ادا کرنے کی بھی۔
عشق مسیح موعودؑ
عبدالرحیم طارق صاحب آپ کے عشق مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ گولبازار سے دارالصدر گھر آ رہے تھے۔ راستے میں ایک بچہ ملا۔ شکل و صورت سے وہ خاندان حضرت مسیح موعود ؑکا بچہ لگتا تھا۔ آپ اس کو دیکھ کر رک گئے۔ آپ نے ہاتھ میں چھڑی پکڑی ہوئی تھی وہ چھڑی مجھے پکڑائی اور دونوں ہاتھوں سے اس بچے کے ساتھ مصافحہ کیا، گلے لگایا اور پیار کیا۔ میں نے بعد میں پوچھا آپ اس کو جانتے ہیں؟کہتے ہیں کہ نہیں لیکن مجھے اتنا علم ہے کہ یہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کا فرد ہے۔ اورمیرے دل میں ایک عقیدت ہے کہ یہ خاندان نبوت سے تعلق رکھنے والا بچہ ہے۔اس لیے میں اس کو عزت اور پیار کے ساتھ ملا ہوں۔
حضرت مصلح موعودؓ سے عشق اور محبت خلافت
عبدالرحیم طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ عقیدت و محبت آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو تھا۔آپ حضرت مصلح موعودؓکے واقعات سناتے اور جب بھی حضرت مصلح موعود ؓکا تذکرہ آتا تو آپ کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ مجھے یہی سبق دیتے کہ خلافت کے ساتھ پختہ تعلق رکھو گے تو اس کے ساتھ ہی ساری کامیابیاں ہیں۔ ایف ایس سی کے امتحان کے لیے دعا کی خاطر حاضر ہوا اور پھر باسکٹ بال کی پاکستانی ٹیم میں انتخاب کے بعد کیمپ سے واپسی پر دعا کے لیے کہا تو آپ نے یہی کہا کہ خلیفہ وقت کو خط لکھو۔ساری برکتیں اور کامیابیاں خلافت کے ساتھ جڑنے سے وابستہ ہیں یہ میری ہمیشہ راہنمائی کی۔ وہ خود بھی خلافت کے فدائی تھے اور خلفاء کا انتہائی قُرب حاصل کیا تھا اور اپنے مشاہدات برکات خلافت بیان کرتے تھے کہ یہی کامیابی کی کلید ہے۔ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ نزول ملائکہ کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتاتے کہ ہم حضرت مصلح موعود ؓکی تقاریر کے دوران یہ محسوس کرتے کہ آپ کے ساتھ فرشتوں کا سائبان ہے جو جلسہ گاہ میں منڈلا رہا ہے۔ اور آپؓ کے جوش خطابت کے دوران ہمیں لگتا کہ فرشتے ہم پر سایہ فگن ہیں۔
٭ معروف شاعر اور سابق نائب امیر جرمنی چودھری محمد شریف خالد صاحب میرے نام اپنے ایک مکتوب محررہ ۱۴؍ دسمبر ۲۰۲۲ء میں تحریر کرتے ہیں کہ محترم غلام محمد اختر صاحب کا شمار ہمارے بچپن کے دور کے ان بزرگوں میں ہوتا تھا جن پر ہم رشک کرتے تھے۔ ان کا حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓکے خاص الخاص خدام میں شمار ہوتا تھا۔ وہ ریلوے میں بہت اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ اس لیے حضور کے پاکستان میں ریلوے کے سفر کے انتظامات میں وہ اکثر ساتھ ہوتے اس طرح جلسہ سالانہ پر حضور کی حفاظت کے قابل اعتماد خدام میں شمار ہوتے تھے۔ اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری خاص طور پر سٹیج پر ہوتی تھی۔ اپنی ملازمت کی فراغت کے بعد کچھ عرصہ وہ ناظر اعلیٰ ثانی صدر انجمن احمدیہ بھی رہے۔ حضور کو آپ پر بہت اعتماد تھا۔جس کا اندازہ ان کی باتوں سے ہوتا تھا۔حضور کے ذکر پر اکثر آنکھیں نم ہو جاتیں۔ میرے ساتھ بھی ان کا ہمیشہ محبت کا تعلق تھا۔ طبیعت میں سادگی بھی تھی اور صفائی بھی۔ خدمت کے ساتھ تعلق بلا شبہ مثالی تھا۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوئی حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کا ذکر جس محبت سے وہ کرتے تھے وہ قابل رشک تھا۔ اور پھر بڑھاپے میں یہ رنگ عشق کی صورت نظر آتا تھا۔؎
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
٭ عزیزم طلحہ قمر بیان کرتے ہیں کہ مکرم منظور احمد شاد صاحب مرحوم آف کراچی نے یوم مصلح موعود کے موقع پر بیان کیا کہ ایک بار جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر جبکہ حضرت مصلح موعودؓ اختتامی خطاب ارشاد فرما رہے تھے اور حضرت صاحب کی تقاریر لمبی ہوتی تھیں۔ دوران خطاب سٹیج سے حضور کو چٹ دی گئی کہ واپسی ٹرین کا وقت ہونے والا ہے اور بہت سے لوگوں نے اس ٹرین کے ذریعہ اپنی منزل کو لَوٹنا ہے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ کوئی ہے جو اس گاڑی کو روکے۔ اس پر فوراً میاں غلام محمد اختر صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا حضور! آپ تقریر جاری رکھیں گاڑی نہیں جائے گی۔ چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی تقریر مکمل کی۔ منظور شاد صاحب بتاتے ہیں کہ خدام کی ڈیوٹی لگ گئی کہ وہ مسافروں کو ٹرین میں کھانا کھلائیں۔ چنانچہ منظور شاد صاحب بھی ان خدام میں شامل تھے جنہوں نے مسافروں کو ٹرین میں کھانا کھلایا اور اس کے بعد ٹرین روانہ ہوئی۔ یوں احباب نے تقریر بھی مکمل سنی، کھانا بھی کھایا اور ٹرین پر اپنی منزل کو بھی روانہ ہو گئے۔ عزیزم طلحہ قمر کہتے ہیں کہ یہ واقعہ میں نے اپنے نانا ہیڈ ماسٹر محمد صدیق صاحب مرحوم آف بشیر آباد سندھ سے بھی سنا تھا۔
٭ آپ کے بیٹے عبدالحمید اختر صاحب آف ہنوور جرمنی (وفات ۱۰؍ستمبر ۲۰۲۳ء)اپنے والد محترم کی خلافت سے محبت اور عشق کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میری پیدائش جون ۱۹۲۹ء کی ہے۔ پیدائش کا واقعہ بھی ایمان افروز ہے۔ میری ولادت راولپنڈی میں ہوئی۔ ان دنوں میرے والد محترم میاں غلام محمد اختر صاحب ریلوے میں لگیج انسپکٹر کے طور پر راولپنڈی میں تعینات تھے۔ پیدائش والے دن حضرت مصلح موعودؓ کا راولپنڈی میں ورودمسعود تھا۔حضرت صاحب موسم گرما کا کچھ وقت گذارنے کشمیر جارہے تھے اور راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر آپ کے استقبال کے لیے میاں غلام محمد اختر صاحب موجود تھے۔ حضور کی آمد سے پہلے اختر صاحب اپنی اہلیہ کو درد زہ کی حالت میں ریلوے ہسپتال داخل کروا آئے جو ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی تھا۔ کہتے ہیں جب حضرت مصلح موعودؓ کی راولپنڈی اسٹیشن آمد ہوئی اور والد محترم حضرت صاحب کے استقبال کی سعادت حاصل کررہے تھے اسی لمحے ہسپتال سے آدمی اسٹیشن پر آیا اور اس نے بتایا کہ بیٹا پیدا ہوا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسی وقت میرا نام عبدالحمید عطا فرما دیا۔(اخبار الفضل قادیان ۱۸؍جون اور ۲۱؍جون ۱۹۲۹ء کے شمارے میں حضرت مصلح موعودؓ کے سفر کشمیر کا تذکرہ موجود ہے۔)
ہمدردی خلق
عبدالرحیم طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں شدید بیمار ہو گیا اور یہ بیماری ٹائیفائیڈ میں بدل گئی۔ ادویات سے افاقہ نہیں ہورہا تھا۔ میاں غلام محمد اختر صاحب ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب کو ساتھ لے کر ہمارے گھر آئے اور میرا طبی معائنہ کروایا۔ میری حالت دیکھ کر ڈاکٹر قریشی صاحب نے کہا کہ انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کریں۔ چنانچہ ہسپتال لے کر جانے کاانتظام اختر صاحب نے کیا اور ہسپتال میں مجھے پرائیویٹ کمرہ کا انتظام کروا دیا۔ ہم میں تو اتنی طاقت نہ تھی۔یہ سب انتظامات اختر صاحب نے کروائے اور سب اخراجات بھی ادا کیے۔آپ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو ساتھ لے کر آئے کہ اس کا معائنہ کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کے بعد کہا کہ آج کی رات اس کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ نکال گیا تو بہتری کے امکانات ہوں گے آپ بھرپور دعائیں کریں۔ اختر صاحب نے میری صحت کے لیے صدقہ بھی دیا اور میرے کمرے میں کرسی پر بیٹھ گئے اور دعاؤں میں لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور دعاؤں کے طفیل میں روبصحت ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی دعاؤں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی عطا کی۔ انہوں نے میری بیماری کے کل اخراجات خود ادا کیے۔ حضرت صاحب کو بھی دعا کے لیے لکھا ، خود بھی میرے لیے دعائیں کرتے رہے اور دوسرے بزرگان کو بھی دعاؤں کے لیے کہتے رہے۔ یہ سب کچھ ایک ہمدرد انسان ہی کر سکتا تھا۔
انداز تربیت
عبدالرحیم طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ تین چار سال کا عرصہ میں نے آپ کے ساتھ گزارا ہے اور اس عرصہ میں میری روحانی تربیت میں اختر صاحب کا بہت کردار ہے۔ اور آج بھی چالیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد میں ان کی نیک عادات کو اپنانے کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتا ہوں اور نمازوں اور تہجد میں وہی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو میں نے اختر صاحب سے سیکھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں جہاں بھی رہا جماعت سے مضبوط تعلق رکھتے ہوئے خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے۔
آپ فرشتہ سیرت انسان تھے۔ آپ کے اندر اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب، جماعت احمدیہ اور خلافت احمدیہ کی محبت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جب ان کے پاس جانا وہ نماز کی تیاری یانوافل کی تیاری میں مصروف نظر آتے۔ صبح جب جاتا تو وہ چاشت کی نماز پڑھ رہے ہوتے اور ذکر الٰہی سے آپ کی زبان تر رہتی تھی۔
آپ صاف ستھرا لبا س زیب تن رکھتے تھے اور اپنے کپڑے دھوبی سے دھلواتے تھے۔ ایک دفعہ دھوبی آیا اور اس نے کہا کہ آپ کی قمیص گم گئی ہے اور شلوار لے آیا۔ آپ نے کہا کہ اچھا تو پھر یہ شلوار بھی تم ہی رکھ لو۔ اس کو دھلائی کے پورے پیسے دیے۔ اپنی چیز کے گم ہونے پر آپ نے صرف اناللہ پڑھا۔ کچھ عرصہ کے بعد دھوبی دوبارہ آیا تو وہ شلوار قمیص لے آیا کہ آپ کی قمیص مل گئی ہے۔
آپ جب بھی کوئی کام کرتے تو آپ کہتے کہ اس کام سے پہلے دیکھو کہ آنحضورؐ کا اس بارےمیں کیا اسوہ اور ارشاد ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء اس بارے میں کیا بتاتے ہیں اور پھر آپ اس کے مطابق عمل کرتے۔ مجھے بھی سکھاتے کہ اس کے مطابق عمل کریں گے تو اس میں برکت ہو گی۔ایک نصیحت آپ کرتے کہ جب بات کریں تو مختصر کریں لمبی نہ کریں۔ مختصر بات میں غلطی کا امکان کم رہتا ہے۔ جتنی گفتگو لمبی ہو گی اتنی غلطیاں زیادہ ہونے کا احتمال ہے۔
شادی و اولاد
اختر صاحب کی شادی مجیٹھہ ضلع امرتسر میں اپنے خاندان سے باہر ہوئی تھی۔ آپ کی اہلیہ کا نام عزیزہ بیگم صاحبہ تھا جو شادی کے بعد عزیزہ اختر کہلائیں۔ اپنے خاندان میں آپ ’’بیگم‘‘ کے نام سے معروف تھیں۔ آپ غیر از جماعت خاندان سے تھیں۔ شادی کے بعد بیعت کی اور اپنے اخلاص و وفا میں بہت ترقی کی۔اپنے خاندان میں اکیلی احمدی تھیں۔ آپ نےجلد ہی اپنے خاوند کے ہمراہ ہی نظام وصیت میں شمولیت اختیار کی ۔آپ ۶/۱ حصہ کی موصیہ تھیں۔ آپ بہت مہمان نواز خاتون تھیں۔ اختر صاحب ایک لمبا عرصہ لاہور میں رہے۔ اس زمانہ میں آپ کا گھر ایک منی دارالضیافت کا کردار ادا کرتا رہا۔ قادیان سے مرکزی مہمانان اور خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کا آپ کے ہاں آنا جانا اور ٹھہرنا لگا رہتا تھا۔ ان سب مہمانوں کی خدمت اختر صاحب کی اہلیہ کیا کرتی تھیں۔ ان کا زیادہ وقت کچن میں کھانا پکانے اور مہمانوں کی خدمت میں گزرتا تھا۔ میری نانی جان آمنہ بیگم صاحبہ آپ کی چچی تھیں۔ میری نانی سے آپ کا بہت پیار کا تعلق تھا جو آخر تک قائم رہا۔میں نے اپنی والدہ محترمہ اور نانی جان کی زبان سے ان کے لیے ذکر خیر ہی سنا ہے۔ ۱۸؍دسمبر ۱۹۸۱ء کو ۷۸ سال کی عمر میں عزیزہ اختر صاحبہ نے وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیاں اور تین بیٹے عطا فرمائے۔دو بیٹیاں جواں عمری میں وفات پا گئی تھیں۔ بڑی بیٹی امةالحبیب اختر صاحبہ اہلیہ کرنل مبارک احمد صاحب اور چھوٹی بیٹی امة القیوم صاحبہ اہلیہ خواجہ مختار احمد صاحب (برادر اصغر خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ سیالکوٹ) مقیم کینیڈا ہیں۔ بیٹے: عبد الحمید اختر صاحب مرحوم آف ہنوور جرمنی، منور اختر صاحب اور مبشر اختر صاحب۔ اختر صاحب کی بیٹی امة الحمید اختر مرحومہ اہلیہ فضل الرحمان غازی صاحب نے اپنی یادگار ایک بیٹی امةالرشید صاحبہ چھوڑی تھی۔ اس بچی کی پرورش بھی اختر صاحب کے گھر میں ہوئی۔اکثر لوگ انہیں اختر صاحب کی بیٹی ہی سمجھتے ہیں۔ امة الرشید صاحبہ مکرم محمود احمد لون صاحب آف کینیڈا کی اہلیہ ہیں۔
وفات کی خبر
آپ کی وفات کی نمایاں خبر دیتے ہوئے روزنامہ الفضل ربوہ نے لکھا کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قدیمی مخلص خادم محترم میاں غلام محمد اختر صاحب سابق ناظر اعلیٰ ثانی صدر انجمن احمدیہ یکم دسمبر ۱۹۸۳ء سواتین بجے دوپہر ۸۲ سال کی عمر میں اسلام آباد میں انتقال فرما گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم کے صاحبزادے مکرم میاں حمید اختر صاحب جنازہ لے کر جمعہ کے روز ۲؍دسمبر کی صبح ۷ بجے ربوہ پہنچے یہاں بعد نماز عصر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جنازہ پڑھائی اس کے بعد بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔ تدفین مکمل ہونے پر محترم چودھری محمد شریف صاحب فاضل استاد جامعہ نے دعا کرائی۔
مرحوم نے ریلوے میں سینئر پرسنیل آفیسر کے عہدے سے قبل از وقت از خود ریٹائرمنٹ لے کر خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ چنانچہ آپ کو ناظر دیوان، ناظر تجارت، ناظر زراعت اور ناظر اعلیٰ ثانی کے طور پر سالہا سال تک خدمات بجا لانے کی توفیق ملی اس کے بعد بیماری کی وجہ سے سلسلہ کی خدمات سے ریٹائر ہو گئے۔
مرحوم حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے معتمد خصوصی تھے اور جماعتی خدمت میں آنے سے قبل صدر انجمن احمدیہ کے کمیشن کے بھی سیکرٹری رہے تھے۔ باضابطہ خدمات پیش کرنے سے قبل بھی جماعتی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے۔ (روزنامہ الفضل ۵؍دسمبر ۱۹۸۳ء صفحہ ۸) خاکسار آپ کے جنازہ و تدفین میں شریک تھا۔
اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات قبول فرمائے اور آپ کی نسل کو آپ کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔