تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۵۸) میرا دین (حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان رضی اللہ عنہ )
برصغیر اور پھر دنیا کے مذہبی، سیاسی،انتظامی، حکومتی اورآئینی افق پر روشن ستارے کی طرح چمکنے والے حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک طویل عمر پائی اور بے شمار دنیاوی اعزازات اور موقر خطابات کے حامل بنے، لیکن تمام عمر آپؓ جس لمحے پر نازاں رہے وہ مہدی آخر الزمان حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوة والسلام کی دستی بیعت کامبارک موقع تھا۔
آپؓ کی دانائی، علمیّت، ثقاہت،زبان دانی اور سادگی و عاجزی کا سارا جہاں معترف تھا، لیکن پاکستان کے بعض ناخلف شہری آپ سے نالاں ہی رہے،بلکہ دشمنی اور ایذا رسانی کا کوئی بھی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، حالانکہ آپؓ نے ہی بے انتہاخدمت اور کوشش کرکے اس نوزائیدہ مملکت کو قدموں پر کھڑا ہونے کی راہ دکھائی تھی۔
تاریخ پاکستان کے مطابق ۱۹۵۳ء کے فسادات اور شورش میں آپ کو ملک کے وزیر خارجہ کے عہدہ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور ۱۹۷۴ء میں تو احسان فراموشی کی انتہا کرتے ہوئے ایک نہایت غیر ضروری آئینی ترمیم کرکے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا گیا تو حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کے خلاف جھوٹ بولنے اور پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا، ایسے میں ۱۹۷۵ء میں حضرت چودھری صاحبؓ کی طرف سے زیر نظر بیان سامنے آیا۔
مکرم ثاقب زیروی صاحب کی ادارت میں تیار ہونے والے ہفت روزہ لاہور، کے مورخہ ۱۷؍فروری ۱۹۷۵ء کے شمارہ میں شائع ہونے والے اس مضمون کو مکرم مجیب الرحمٰن صاحب، ایڈووکیٹ راولپنڈی نے ایس۔ ٹی۔ پرنٹرز، گوالمنڈی،راولپنڈی سے کتابی شکل میں طبع کروایاتھا۔ جو محض ایک درجن صفحات پر مشتمل ہے اور کاتب کی لکھائی میں تیار شدہ اس کتاب میں ذیلی عناوین قائم کرکے قاری کے لیے مزید آسانی پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آپؓ نے اس کتاب کے صفحہ اول پر توحید و رسالت کے اقرار سے بات شروع کرتے ہوئے اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں پر پختہ یقین کا اعادہ فرمایا اور خیر و شر، خداکی قدرت، قبضہ، انتظام و انصرام کائنات، اور اس کے وسیع ترین علم اور اس کے قرب کے اعلیٰ ترین مدارج پر اپنا غیر متزلزل ایمان بتایا۔
صفحہ نمبر ۲ پر آفرینش کا مقصد بتاتے ہوئے لکھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے…انسان اپنے تئیں اپنے ظرف کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنائے۔‘‘اس کے بعد’’حضورﷺ کی بعثت سے پہلے‘‘کا عنوان بناکر ان مختص بالقوم اور مختص بالزمان انبیاء، ان کی اقوام اور تعلیمات پر روشنی ڈالی۔
آگے چل کر بتایا کہ ’’قرآن کریم تمام صداقتوں پر حاوی‘‘ ہے۔ لکھا کہ ’’ قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں، قرآن کریم کی تعلیم میں کسی قسم کی خامی یا کمی نہیں اور قرآن کریم کی کوئی ہدایت کوئی حکم (امر و نہی) زائد یا بے ضرورت نہیں۔‘‘
لکھا کہ ’’ میرا محکم و پختہ یقین ہے کہ قرآن کریم میں اور رسول اللہ ﷺ کے نمونے میں ہر نوع کی تمام وہ ہدایت موجود ہے جس کی بنی نوع انسان کے کسی حصے کو کسی وقت بھی ضرورت پیش آسکتی ہے…‘‘
آنحضورﷺ کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ’’ میں پختہ ایمان رکھتا ہوں کہ رسول اکرم ﷺ ابتدائے آفرینش ہی سے خاتم النبیینؐ ہیں… اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں مختلف پہلوؤں سے واضح فرمایا ہے۔ ‘‘
اس کے بعد آپؓ بعض فارسی اشعار بطور مثال لائے ہیں۔ اور صفحہ ۵ پر اس حقیقت کی کسی قدر مختصر تشریح بھی پیش کی ہے۔ اور آگے چل کر ’’ایک روحانی نظام ‘‘ کے عنوان کے تحت سلسلہ انبیاء اوران کی لائی ہوئی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی حقیقت بیان فرمائی ہے۔
پھر قرآن کریم کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی غالب حکمت کے مطابق اور رسول کریم ﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق امت مسلمہ میں ایک مصلح کے ظہور کے مقدر ہونے کا بتایا اور لکھا کہ ’’ جو بوجہ فنا فی الرسولؐ ہونے کے ظلی طور پر حضور ﷺ کا روحانی عکس ہو، حضورؐ کی پیش گوئیوں میں اُس وجود کا نام مسیح اور مہدی بھی فرمایا گیا ہے، اس وجود کو ظلی طور پر حضورؐ کی نبوت کے عکس میں بھی ملبوس ہونا تھا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جہاں اس مسیح کا ذکر فرمایا ہے، اس کے ساتھ ہر بار ’’نبی اللہ‘‘کا لقب بھی شامل ہے۔
ایسے نبی کا امت مسلمہ میں ظہور ختم نبوت کی مہر کو توڑنے والا نہیں۔ رسول اکرم ﷺ کے فیضان نبوت کے جاری رہنے کا مظہر ہے‘‘
صفحہ ۶ پر شوکت و تحدی سے مخالفین کو بتایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تعلیم، آپ کی تمام ہدایات، آپ کی تمام جدوجہد، آپ کی ساری سعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور حضورؐ کے دین کے باغ کی سرسبزی… اور اس کی شوکت ہی کے لئے وقف تھی…۔‘‘ اس کے بعد آپؓ منظوم فارسی کلام میں سے بعض مثالیں لائے ہیں۔
صفحہ ۷ پر حضرت مسیح موعودؑکی متابعت کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’حقیقت یہ ہے اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اور اس کو گواہ رکھ کر پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھ ایسے عاجز، نابکار، گنہگار، غافل انسان کو جو محبت اور عشق…۔ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ وہ محض اور خالصة حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی متابعت کا نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال ذرہ نوازی سے مجھے بخشاہے…‘‘
اس کتاب کے صفحہ ۸ پر آپؓ نے حضرت مسیح موعود کے کلام (نثر و نظم ) سے رسول کریم ﷺ کے درجات عالیہ کی تفاصیل اور تشریحات اور پھر حضورﷺ سے مسیح موعود علیہ السلام کے عاشقانہ فریفتگی کا والہانہ اظہارکا تذکرہ اور نمونہ درج فرمایا ہے۔
اس کے بعد لکھا کہ ’’ یہ مختصر بیان میرے دین اور عقائد کا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے قرار دیا ہے کہ یہ دین اور عقائد رکھتے ہوئے میں پارلیمنٹ کے اراکین کی کثرت کے نزدیک آئین اور قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہوں۔ میں اس کا جواب یہی دے سکتا ہوں :؎
بعد ا ز خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
پاکستان کی پارلیمنٹ کی اس قرار داد سے پہلے اور بعد اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور محبت کا دعوی کرنے والوں میں سے بعض نے جماعت احمدیہ کے اراکین کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا،اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے اپنےدشمنوں سے بھی روا نہیں رکھا۔ اس کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں کیونکہ اس کی تفصیل نہ صرف تمام پاکستان میں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک میں مشتہر ہوچکی ہے۔ اور ابھی ان کارروائیوں اور ایسی تحریکوں کا اختتام ہوتا نظر نہیں آتا۔ طرح طرح کے مطالبات حکومت سے کئے جارہے ہیں جنہیں دہرانا میرا مقصود نہیں لیکن ان کے متعلق میں اتنا ضرور واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ آئین پاکستان کے فقرہ نمبر ۲۰ کی رو سے مجھے اپنے دین کے اعلان، اس دین پر عامل ہوئے،عامل رہنے اور اس کی اشاعت و تبلیغ کا حق حاصل ہے، اور جیسے میں بیان کر چکاہوں میرے دین کا خلاصہ یہ ہے:لاالہ الااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ میرے دین کا نام پارلیمنٹ خواہ کچھ تجویز کرے میراحق ہے کہ میں اپنے دین کا(جسں طور پرمیں اس پر ایمان رکھتا ہوں) آزادانہ اعلان کر دوں اور اس پر عمل کروں اور اس کی اشاعت کروں۔
مثلاً میں قرآن کریم کے اللہ تعالے کا کلام ہونے پر محکم یقین رکھتا ہوں، قرآن پاک کی تلاوت کرنا، اس کے علوم کی اشاعت کرنا، اس کے احکام و نواہی اور اس کی ہدایت پر عمل کرنے کی تلقین کرنا،اور خودان پر عامل ہونا اور عامل رہنا(جس قدر کہ اللہ تعالے توفیق عطا فرمائے ) میرے دین کا حصہ ہے مجھے اس سے روکا نہیں جاسکتا۔
میرے دین میں جو عبادات مقرر ہیں ان کو اخلاص نیت سے اور سنوارکر ادا کرنا میرے دین کا جزو ہے۔ نمازوں کے لئے جہاں تک ہو سکے مسجدوں میں حاضر رہنا۔ باجماعت نماز ادا کر نا۔ نماز کے تمام ارکان کو پورا کرنا۔ مثلاً اذان، اقامت،قیام،رکوع اور سجدہ وغیرہ یہ سب میرے دین کا جزو ہیں۔ اسی طرح مساجد تعمیر کرنا اور مساجد کی تعمیر میں حصہ لینا بھی میرے دین کا جزو ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی کے متعلق مزاحم ہوتا ہے تو وہ آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
یہی صورت باقی سب ارکان سے اسلام اور احکام (اوامر و نواہی) کی ہے۔ ان تمام کی پابندی اور ان پرعمل میرا جزوِ ایمان ہے اور ان کی کما حقہ ادائیگی کا مجھے آئین کی رُوسے پورا حق حاصل ہے۔ ‘‘
اس کے بعدکتاب میں صفحہ ۱۰ پر ’’مجھے یقین ہے‘‘ کے عنوان کے ماتحت لکھا ہے کہ ’’اگر باوجود آئین کی واضح دفعات کے شرارت پسند عناصر کی طرف سے ایسی کارروائیوں کا اعادہ ہو جن سے پاکستان بلکہ تمام دنیا کے شرفاء(جن تک ان باتوں کاعلم پہنچا ہے) اپنے دلوں میں بیزاری محسوس کرتے ہیں تو بھی مجھے یقین ہے کہ جیسے جماعت احمدیہ نے پچھلے سال کے آخری سات ماہ میں اپنے صبر اور استقامت کا ثبوت دیا ہے۔ آئندہ پیش آمدہ حالات میں بھی وہ اپنا ایسا ہی کردار قائم رکھیں گے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی اپنے دل میں کسی انسان کے متعلق دشمنی،حقارت یا نفرت کے جذبات محسوس نہیں کئے۔ اسے بھی میں اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم شمار کرتا ہوں۔ یہی حالت اس وقت میرے دل کی ہے۔میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ جب تک وہ مجھے مہلت دیتا چلا جائے وہ اپنے فضل سے اس حالت کو بھی قائم رکھے۔ اگر ایسے حالات پھر پیدا ہو جائیں جن میں ہماری جانیں، عزتیں، آبروئیں، ہمارے اموال اور ہماری املاک خطرے میں پڑ جائیں، تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ایسے امتحان میں جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ثابت قدمی کا ثبوت پیش کرتی جائے گی اور درپیش حالات سے کسی قسم کی گھبراہٹ میں مبتلا نہیں ہوگی… ‘‘
اپنا بیان ختم کرتے ہوئے آپؓ نے لکھا کہ جان اور مال، عزت اور آبرو، اولاد اور عزیز دوست اور متعلقین یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور اس کی امانت ہیں۔ مومن ان سب کا امین ہے۔ اللہ تعالیٰ جب بھی ان امانتوں میں سے کوئی یا ساری طلب کرے تو مومن کی یہ شان نہیں کہ اس کو امانت ادا کرنے میں کسی قسم کا تأمل ہو، اس نے خود ہمیں اس ادائیگی پر ہر وقت تیار رہنے کا بہت پہلے سے حکم دے رکھا ہے: وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ۙ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ (سورہ البقرہ آیات ۱۵۶ تا ۱۵۸)‘‘
الغرض اس کتاب میں حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کی تحریرکی سلاست و روانی کا نمونہ بھی موجود ہے اور اس مربوط اور مدلل بیان کا مطالعہ جہاں پرلطف ہے اوروہاں ایمان افروز بھی ہے، کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مخلص صحابی نے تاریخ انسانی کے اس عجیب ترین سیاسی اور آئینی دور میں اپنی شان اور شناخت کوعظیم مومنانہ شان کے ساتھ سربلند رکھا۔
آپؓ نے اس کتاب میں احمدیوں کے لیے خلافت احمدیہ کی زرّیں ہدایات کا خلاصہ پیش کیا ہے اور احمدی مسلمانوں کو آئین کی رو سے غیر مسلم قرار دینے کا دینی، آئینی، تاریخی اور عقلی پہلووں سے جائزہ لیتے ہوئے درست ترین راہنمائی فرمائی ہے۔