الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

تین شہدائے احمدیت کا تذکرہ

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جولائی 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب نے تین شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے کیا ہے۔ ان میں سے محترم داؤد خان صاحب شہید کا ذکرخیر قبل ازیں الفضل ڈائجسٹ میں کیا جاچکا ہے۔ دیگر دو شہداء کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

حضرت مولوی عبدالغفور صاحبؓ شہید

ضلع ہزارہ کی تحصیل مانسہرہ کے حضرت مولوی عبدالغفور صاحبؓ دس برس کی عمر میں قادیان پہنچے اور 1906ء میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپؓ کو قادیان سے اس قدر محبت اور عقیدت ہو گئی کہ اپنے بڑے بھائی حضرت حکیم نظام جان صاحبؓ کو بھی آنے کی ترغیب دی جس پر حکیم صاحبؓ مستقل ہجرت کرکے قادیان ہی کے ہوگئے۔

حضرت مولوی صاحبؓ کا معمول تھا کہ روزانہ اذان سے پہلے اٹھتے اور اپنے ملازم کو ہمراہ لے کر دریا سے پار چکیوں پر چلے جاتے تھے۔ نماز فجر وہیں ادا کرتے اوراسی عرصہ میں ان کا سات سالہ بچہ عبداللطیف چائے لے کر وہاں پہنچ جاتا۔ دونوں ناشتہ کرتے اور زمین کی دیکھ بھال کے بعد اپنے گائوں لَوٹ آتے۔

21؍ستمبر کی صبح آٹھ بجے آپ اپنے بچے عبداللطیف کو لے کر اپنے گھرسے پن چکیوں کی نگہداشت کے لیے نکلے۔ چار فرلانگ تک گئے تھے کہ ایک کمین گاہ سے دونوں پر بندوق کافائر کیا گیا۔ اور پھر دونوں کو کلہاڑی سے شہید کر دیا گیا۔ ظالم قاتل بھاگ گئے اور بے گوروکفن لاش کی نگرانی آپ کاگھریلوکتا کرتارہا جو کبھی آپ کی نعش کی طرف جاتا اورکبھی ان کے بچے کی نعش کی طرف جاتا تھا۔

حضرت مولوی عبدالغفور صاحبؓ نے اپنے پیچھے ایک بیوہ، تین لڑکے اور تین لڑکیاں یادگارچھوڑیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان سب کے خاندان گواہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کتنے فضل نازل فرمائے ہیں۔ دنیا تو ان واقعات کو بھول سکتی ہے مگر خدا کبھی نہیں بھولتا اور اپنے بے شمارانوار کے ذریعے ان کی اولاد در اولاد پر ثابت کرتا چلاجاتا ہے کہ تم جو کچھ دنیا میں پا رہے ہو اور جو آخرت میں پاؤگے و ہ تمہارے بزرگ شہداء کی برکت ہے۔
…………………………………………………………………………

محترم ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب شہید

ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کے والد خان میر خان صاحب افغان تھے اور حضرت مصلح موعود ؓکے ایک جانثار محافظ تھے۔ لیکن صرف حفاظت کا ہی نہیں بلکہ بہت سے دوسرے کام سامان وغیرہ بھی خود اٹھا اٹھا کر گاڑیوں میں رکھنا اور بچوںکی بھی حفاظت کرنا، ان کی بھی دلداری کرنی۔ غرضیکہ حضرت مصلح موعود ؓکے پہرہ داروں میں سے خان میر ایک بے مثل پہریدارتھے۔

ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کی بیگم مریم سلطانہ صاحبہ بیان کرتی ہیںکہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ ضلع کوہاٹ کے علاقہ ٹل میں مقیم تھی جہاں کوئی اَور احمدی گھرانہ نہ تھا۔ 1956ء میںوہاں مخالفت کی آگ بہت بھڑکی اور 29؍جون کو مخالفین میرے خاوند کو دھوکہ دے کر ایک مریض کے علاج کے لیے پانچ چھ میل دُورعلاقہ غیر میں لے گئے۔ یہ دھوکہ ایک مُلّاں نے دیا اور وہاں لوگوں کے سامنے غضبناک ہوکر چِلّایا کہ یہ قادیانی ڈاکٹر ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اسے گولی نہ ماروں اوروہیں گولی مار کر شہید کردیا۔

شہید مرحوم کی اہلیہ کو خبرملی تو بڑی بہادری اور ہمت کرکے ، بچوں کو خدا کے سپرد کرکے، اپنے میاں کی نعش لینے کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ جس قسم کے حالات تھے نعش کاملنا ممکن نظرنہیں آتاتھا لیکن آپ لاش کی تلاش میں سرگرداں پھرتی رہیں۔ کہتی ہیں کہ میں لاش تلاش کرتی پھرتی تھی اور شہر کے لوگ میرے شوہر کے قتل پر خوشیاں منارہے تھے۔ میں نے صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ پھرکوئی میرے غم میں شریک نہ تھا۔ آخر انہوں نے یعنی مریم نے لاش حاصل کر ہی لی اور ٹرک کا انتظام بھی خود ہی کیا۔ بڑ ی بہادرخاتون تھیں ، خود اکیلے ہی یہ سارے کام کیے۔ ٹرک کاانتظام کر کے اس میں لاش رکھ کر چاروں بچوں کوہمراہ لے کرربوہ روانہ ہوگئیں۔ کہتی ہیں میں آہوں اور سسکیوں میں زیر لب دعائیں کرتی رہی اور اس دوران ان کے شوہرکی دکان بھی لوٹ لی گئی۔ قاتل وہاں دندناتا پھرتاتھا لیکن کوئی اسے پکڑنے والا نہ تھا لیکن خدا کی پکڑ سخت ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے شہیدمرحوم کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ مَیں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ احمدیوں کوشہید کرنے والے ظالم لوگوں کی خبر تو لے کر دیکھیں کہ حکومت کی پکڑ سے تو وہ بچ گئے لیکن ان پر خدا کی کیسی پکڑ آئی۔ ایک خاندان کے متعلق جس نے بہت ظالمانہ طریق پر ایک احمدی کو مارا تھا اس کے متعلق معلوم ہواکہ وہ سارا خاندان ایک حادثے میں بس میںجل کر مرگیا اور یہ شخص جو دندناتا پھرتاتھا یہ پاگل ہو گیا اور دیوانگی کی حالت میں گلیوں میں نیم برہنہ پھرتا رہا اورکچھ عرصہ نظرآنے کے بعد کہیں ہمیشہ کے لیے گم ہوگیا۔ اسی طرح وہ مُلّاں جو مریض دکھانے کے بہانے ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کو بلانے آیاتھا وہ بھی اپنے بھائی کے ہاتھوں بیوی بچوںسمیت قتل ہوگیا۔ تو اللہ کی پکڑ ڈھیل تو دکھاتی ہے مگر بہت سخت ہوا کرتی ہے۔

………٭………٭………٭………

طارق بن زیاد اور فتح ہسپانیہ

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جولائی 2011ء میں مکرم فرہاد احمد ایاز صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جو طارق بن زیاد اور فتح ہسپانیہ کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے۔

ہسپانیہ کا فاتح اور اس کا پہلا والی طارق بن زیادہ بن عبداللہ تھا جس نے مختصر سی فوج کے ساتھ یورپ کی عظیم سلطنت سپین (اندلس) کو فتح کیا اور اس ملک میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ ایک متّقی، فرض شناس اور بلند ہمّت انسان تھا۔ حسن اخلاق کی بِنا پر عوام اور سپاہی اُس کا احترام کرتے تھے۔

طارق بن زیادہ کی تعلیم و تربیت مولیٰ بن نُصَیر جیسے ماہر حرب اور عظیم سپہ سالار کی نگرانی میں ہوئی۔ وہ غیرمعمولی ذہین، دُوربین اور مستعد قائد ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے اُسے طنجہ کا والی مقرر کیا گیا۔

چونکہ افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا نیز دوسرے محرکات کی بِنا پر موسیٰ بن نُصَیر نے جولائی 710ء میں وہاں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے چار صد مجاہدین کی ایک جنگی مہم بھیجی جن کا قائد طریف بن مالک تھا۔ یہ دستہ جس جگہ اُترا اُس کا نام جزیرۂ طریف (Tarif) پڑگیا۔ طریفؔ نے جزیرہ خضراء پر حملہ کرکے اُسے فتح کرلیا۔ جس کے بعد موسیٰ بن نُصَیر نے طارق بن زیادہ کو سات ہزار سپاہی دے کر ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ اس فوج میں بربروں کی تعداد زیادہ تھی۔
طارق بن زیادہ کا یہ لشکر 5رجب 92 ہجری کو جس ساحل پر اُترا وہی بعد میں جبل الطارق (Gibralter) کہلایا۔ طارق نے یہیں اپنے تاریخی خطبہ میں جہازوں کو جلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے سامنے فتح ہے اور پیچھے موت۔ جلد ہی طارق کے فوجی دستوں نے قرب و جوار کے علاقے فتح کرکے فوج کے لیے سامانِ رسد حاصل کیا۔ ان علاقوں کے گورنر تدمیر (Theodomir) نے بادشاہ راڈرک (Roderic) کو اطلاع دی تو راڈرک ایک لشکر جرار لے کر مقابلے کے لیے آیا اور دریائے رباط کے کنارے خیمہ زن ہوا۔ اسی اثناء میں موسیٰ بن نُصَیر کی بھیجی ہوئی مزید پانچ ہزار سپاہ کی کمک بھی آپہنچی۔ جنگ آٹھ روز شدّت کے ساتھ جاری رہی جس کے بعد راڈرک بھاگ نکلا اور ہسپانوی فوج کو شکست ہوگئی۔ اس کے بعد طارق بن زیاد کو سارے سپین پر قبضہ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔

موسیٰ اور طارق کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے حکم دیا کہ دونوں دارالخلافہ (دمشق) پہنچ جائیں۔ چنانچہ موسیٰ نے اپنے بہادر اور قابل بیٹے کو ہسپانیہ کا والی بنایا اور خود طارق کے ہمراہ 95 ہجری (بمطابق 714ء )میں کثیر مال غنیمت لے کرہسپانیہ سے دمشق پہنچا جہاں دونوں عظیم فاتحین کی عسکری زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور وہ گمنامی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگریہ فاتحین دمشق کے دربار کی غیردانشمندانہ مداخلت سے آزاد ہوتے تو آج شاید یورپ میں اسلامی تاریخ مختلف ہوتی۔

………٭………٭………٭………

محترمہ عتیقہ الطاف شاہ صاحبہ

ماہنامہ ‘‘مصباح’’ ربوہ اگست 2011ء میں محترمہ عتیقہ الطاف شاہ صاحبہ کا ذکرخیر اُن کی بیٹی کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ مرحومہ نوماہ تک کینسر کے مرض کی تکلیف صبر اور حوصلے سے برداشت کرنے کے بعد 71 سال کی عمر میں امریکہ میں انتقال کرگئیں۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے بڑے بھائی ضیا ءحسین شاہ صاحب (چیف ایڈیٹر مسلم ٹائمز آن لائن) نے 1983ء میں بیعت کی۔ ہمارے والد کٹر سنّی تھے اور پیری فقیری پر بھی اعتقاد تھا۔ بیٹے کا احمدی ہونا اُن کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ اگر کبھی کسی بحث میں امّی جان احمدیوں کے مؤقف کی حمایت کرتیں تو ابّاجی کہتے کہ اپنے بیٹے کا ہی ساتھ دینا!۔ امّی کہتیں مَیں تو صرف سچائی کا ساتھ دیتی ہوں۔ امّی جان اکثر چھپ کر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تفسیرکبیر پڑھا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ابّا نے امّی سے بحث کے دوران کافی ناراض ہوکر سخت الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ تُو اپنے بیٹے کے گھر چلی جا۔ امّی چپ کرکے کمرے سے باہر آگئیں اور یہ عہد کیا کہ ہرگز کہیں نہیں جاؤں گی۔ اُس دن کے بعد ابّاجی میں جانے کیا تبدیلی آئی کہ انہوں نے پھر کبھی امّی سے اس معاملے میں سخت کلامی نہیں کی۔

اپریل 2005ء میں امّی جان اپنے بیٹے کے ہاں امریکہ میں قیام پذیر تھیں۔ ایک دن اپنی بہو کے ساتھ کار میں کہیں جارہی تھیں کہ اچانک اُنہیں آسمان پر حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر نُور کی طرح چمکتی ہوئی نظر آئی۔ اس کو اللہ کی طرف سے نشان سمجھتے ہوئے آپ نے بیعت کرلی۔ وہ ہمیشہ یہ دعا کرتی رہیں کہ وہ ہمارے ابّاجی کو بھی احمدیت کی سچائی کا کوئی نشان دکھائیں۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ابّاجی نے بھی ایک نشان دیکھ کر بیعت کرلی۔

امّی جان نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے اپنے عزیزوں کو اپنے احمدی ہونے کا بتادیا تھا۔ چنانچہ وفات کے بعد اُنہیں Pittsburg کے احمدیہ قبرستان میں دفن کیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

امّی جان نے ایک نہایت بامقصد زندگی گزاری۔ فجر کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی تفسیر لگالینا اُن کا معمول تھا۔ اپنی اولاد بلکہ اولاد کی اولاد کی بھی تربیت کی۔اُن کی پڑھائی میں مدد کرتیں۔ انہیں اردو سکھاتیں۔ لوگوں کے بارے میں اچھا گمان کرتیں کبھی تجسس یا بدظنّی نہ کرتیں۔

………٭………٭………٭………

ایک حکایت

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ اگست 2011ء میں بوستانِ سعدیؒ سے ایک حکایت پیش کی گئی ہے کہ ترک بادشاہ تکش کو اپنے ایک غلام پر بہت اعتماد تھا۔ ایک دن اُس نے غلام سے کوئی بات کہی اور تاکید کی کہ کسی کو نہ بتائے۔ غلام نے ایک سال کے بعد بادشاہ کا راز اپنے ایک معتمد ساتھی کو بتادیا۔ اُس نے کسی اَور سے ذکر کیا اور یوں وہ بات جسے تکش چھپانا چاہتا تھا سارے شہر میں مشہور ہوگئی۔ بادشاہ کو علم ہوا تو اُس نے غصّہ میں حکم دیا کہ اُن سارے غلاموں کو قتل کردیا جائے جنہوں نے افشائے راز میں حصہ لیا ہے۔ یہ دیکھ کر ایک دانا غلام نے بادشاہ سے عرض کیا کہ حضور والا! ہم یقینا ًگناہ گار ہیں کہ شاہی راز کی حفاظت میں ناکام رہے۔ لیکن اصل میں تو سب سے پہلے یہ گناہ خود حضور سے سرزد ہوا ہے۔ جس راز کی حفاظت خود حضور نہ کرسکے اُس کی حفاظت ہم ادنیٰ غلام کس طرح کرسکتے تھے۔

………٭………٭………٭………

ماہنامہ ‘‘مصباح’’ ربوہ اکتوبر 2011ء میں عشق حقیقی میں کہی گئی درج ذیل مختصر نظم شاملِ اشاعت ہے:

یہ کیا مناظر دکھاتے ہیں آپ
ہنساتے ہیں کچھ کچھ رُلاتے ہیں آپ

کبھی آس کی لَو بڑھاتے ہیں آپ
کبھی یاس میں چھوڑ جاتے ہیں آپ

کبھی رہتے ہیں جان بن کر میری
کبھی مجھ سے دامن چھڑاتے ہیں آپ

شبِ تار میں تھام کر میرا ہاتھ
اندھیروں سے مجھ کو بچاتے ہیں آپ

جو بحرِ گناہ میں لگوں ڈُوبنے
کنارے لگانے کو آتے ہیں آپ

سدا ساتھ دیں کب یہ فانی وجود
سدا ساتھ لیکن نبھاتے ہیں آپ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button