الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳؍ اپریل ۱۹۹۲ء سے ایک اقتباس پیش کیا گیا ہے۔
حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کی وفات پر آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں کہ آپ کی پیدائش ۲۱؍جنوری ۱۹۳۶ء کو ہوئی اور اس لحاظ سے مجھ سے تقریباً آٹھ برس چھوٹی تھیں۔ ہماری شادی ۱۹۵۷ء میں غالباً ۱۷؍دسمبر کو ہوئی اور ایک لمبا عرصہ باوجود بعض اختلافات کے انہوں نے بڑے صبر کے ساتھ مجھ سے گزارا کیا۔ ہمارے والدین نے ہمیں بچپن میں بہت ہی سادہ حالت میں رکھا اور نہایت غریبانہ حالت میں زندگی بسر ہوئی۔ باوجود اس کے کہ وہ ساری ضرورتیں بھی پوری ہوتی رہیں جو امیروں کے بچوں کو ان معنوں میں نصیب ہوتی ہیں کہ پہاڑوں پر جانا اور شکار وغیرہ تاکہ کسی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوں لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے بالارادہ ہمیں Tough بنانے کی کوشش کی اور سادہ زندگی کی جو تعلیم دوسروں کو دیتے تھے اپنے گھر میں بھی یہی تعلیم عملاً جاری کی۔ اِن کے ہاں معیارِ زندگی ہمارے ہاں سے بہت اونچا تھا۔ جب ایک واقفِ زندگی کے ساتھ بیاہی گئیںجس کا روز مرّہ کا گزارہ بھی بہت ہی معمولی تھا تو بہت تکلیف میں وقت کاٹالیکن بڑے ہی صبر کے ساتھ۔ کبھی مطالبےنہیں کیے۔ساری زندگی میں مجھ پر یہ بوجھ نہیں ڈالا کہ وہ لاؤ جو تمہارے پاس نہیں ہے۔
قادیان کی بات ہے کہ جب میں نے ان کے ساتھ شادی کا پیغام دینے کا فیصلہ کیا۔حضرت فضلِ عمرؓ کی عادت تھی کہ بیٹوں سے بھی پوچھا کرتے تھے اور بیٹیوں سے بھی پوچھا کرتے تھے۔اپنی مرضی نہیں ٹھونستے تھے۔لیکن اگر کوئی غلط فیصلہ ہو تو سمجھا دیا کر تے تھے۔ اس طرح بہت ہی اعلیٰ پاکیزہ افہام و تفہیم کے ما حول میں سب کے رشتے طے ہوئے۔ مَیں نے جب استخارہ کیا تو رؤیا کی حالت میں ان الفاظ میں خدائی خبر ملی کہ ’’تیرے کام کے ساتھ اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔‘‘ اس وقت مجھے بڑا تعجب ہوا کہ میرے کون سے کام ہیں۔وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ آئندہ خدا تعالیٰ مجھ سے کیا کام لے گا۔لیکن اس میں یہ عجیب پیغام تھا کہ عملاً کاموں میں ان کو شرکت کی اتنی توفیق نہیں ملے گی لیکن میرے تعلق کی وجہ سے خدا ان کو میرے کاموں میں شریک فرما دے گا۔
۱۹۹۱ء میں قادیان جانے سے دو تین ہفتے پہلے اچانک ان کی حالت بگڑی ہے تو مَیں نے ان کو کہا کہ مَیں ٹھہر سکتا ہوں لیکن ساری دنیا سے احمدی آرہے ہیں خصوصاًپاکستانی بڑی محبت اور شوق سے آرہے ہیں اور ہندوستان کے کونے کونے سے احمدی آرہے ہیں لیکن آپ کا فیصلہ ہے آپ بتا ئیں کہ آپ ٹھہریں گی یا جانا چاہیں گی؟ انہوں نے کہا: مَیں جاؤں گی۔چنانچہ یہ جو قربانی تھی اس نے قادیان کا تاریخی جلسہ ممکن بنا دیا اور یہ احسان مجھ پر بہت بھاری ہے۔
ایک خاص بات جو میرے دل کو بہت ہی بھائی، وہ یہ تھی کہ ایک دفعہ میں نے کہا کہ بی بی میں آپ کے لیے بہت دُعا کررہا ہوں، آپ کو تصور نہیں ہے کہ کس طرح کر رہا ہوں۔ تو کہتی ہیں صرف میرے لیے نہ کریں، ساری دنیا کے بیماروں کے لیے کریں۔ میں نے کہا کبھی ہواہی نہیں کہ تمہارے لیے کروں اور توجہ پھیل کر ساری دنیا میں بیماروں تک نہ پہنچے۔ اس پر چہرے پربڑا ہی اطمینان آیا۔
ابتدامیں آپ کا لجنہ وغیرہ سے کوئی ایسا تعلق نہیں تھا لیکن میرے کاموں میں بہت ہی بوجھ اٹھایا کیونکہ میرے تعلقات بہت زیادہ وسیع تھے اورہر وقت مہمانوں کا آنا جانا رہتا اور گھر میں میٹنگز ہوتیں۔ میرابےوقت سفر پر روانہ ہونا کہ رات کو آجائوں گالیکن وہاںسے آگے بنگال چلاگیا۔ کئی دفعہ دو دو، تین تین ہفتے بعد لَوٹا لیکن کبھی عدِم تعاون کا اظہار یا شکوہ نہیں کیا کہ یوں چلے جاتے ہیں اور بتاتے بھی کچھ نہیں۔
سلسلہ کے بعض کاموں کا مَیں گھر میں اشارۃًبھی ذکر نہیں کرتا تھا۔ اس پر یہ شکوہ کبھی کیا کرتی تھیں کہ باقیوں کو پتہ ہے آپ مجھ سے ہی صرف راز رکھتے ہیں۔ مَیں نے کہاکہ مَیں پسند نہیں کرتا کہ جماعتی ذمہ داریوں کا گھر والوں سے ذکر کروں۔ اس طرح پھرگھروں کے دخل شروع ہو جاتے ہیں اور پھر تبصرے اور بہت سی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ تو اس بات کو پھر ہمیشہ قبول کیے رکھا اور وفات تک کبھی جماعتی کاموں میں دخل اندازی کی کوشش کی نہ جستجو کی نہ مشورے دیے۔
رفتہ رفتہ احمدی خواتین سے تعلق بہت بڑھ گیا اور خاص طور پر ترکِ وطن کے بعد بہت وسیع تعلق ہواہے۔ بہت ہی انکساری کے ساتھ خواتین سے ملتی تھیں اور یہ خوبی فطرتاً ودیعت ہوئی تھی اس میںکوئی تکلّف نہیں تھا۔خاص طور پر کہا کرتی تھیں کہ انگلستان کی خواتین کے بہت ہی احسانات ہیں۔
………٭………٭………٭………
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ صاحبزادی شوکت جہاں صاحبہ اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ بعض خوبیاں ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی سوچتا ہے کہ کاش یہ خوبیاںمیرے میں بھی پیدا ہو جائیں۔ اُمّی کے مزاج کی نرمی بھی ایسی ہی تھی۔کبھی کوئی سخت بات بھی سُنا جاتا تھا تو پلٹ کر جواب نہ دیتی تھیں۔ مہمان نواز اور سادہ مزاج تھیں۔کوئی نہ کوئی گھر میں آیا ہی رہتا تھا،ابّا کا اکثر ہی دفتر سے فون آجایا کرتا تھا کہ آج اتنے آدمی میرے ساتھ ہوں گے کھانے کا انتظام کرلو۔ امی کے ساتھ اکثر مَیں بھی لگ جاتی۔اُس وقت ابھی بڑے فریزر نہیں آئے تھے یا شاید ابھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا اور ربوہ کے بازار میں بھی ریڈی میڈکھانا نہیں ملتا تھا۔ لیکن ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ کرکے انتظام کر ہی لیتے تھے۔ کئی دفعہ دوپہر کو جب ملازم آرام کے لیے اپنے کوارٹروں میں چلے گئے تو مَیں اُمّی کو کبھی کہتی تھی کہ آپ ملازموں کو کیوں نہیں بُلواتیں؟ اکیلی ہی لگی ہوتی ہیں۔ تو کہتی تھیں کہ اُنہیں آرام کرنے دو، وہ صبح سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
بہت غریب پرور تھیں۔ لوگوں کے کام بڑی خوشی سے آتی تھیں۔ کبھی کسی کا جہیز بن رہا ہے۔ کوئی عورت کہہ جاتی تھی کہ میرے بچے کی شادی ہے مگر میرے لیے مشکل ہے کہ لاہور وغیرہ جاکر کپڑے زیور وغیرہ بنوائوں۔ اُمّی لاہور کے پھیرے لگاتیں اور جہیز اور بری وغیرہ تیار کرتیں ۔ بہت دل لگا کر دوسروں کے کام کرتی تھیں۔ Tasteبھی بہت اچھا تھا اور سامان تیار ہو جاتا تھا تو بہت خوبصورت پیکنگ کرکے سجا سنوار کے دیا کرتی تھیں۔ ہم بڑے شوق سے جہیز کو پیک کرتے اور وصول کرنے والوں کے چہروں کی خوشی دیکھتے۔
امی کی طبیعت بہت پُرمزاح تھی۔اس سے بعض لوگوں کو یہ تاثر پیدا ہوتا کہ ایسے ہی لاپروا سی ہیں لیکن حقیقت بالکل بر عکس تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ابّا کی خلافت کا پہلا سال تھا، میں ربوہ گئی تو اُمّی بہت تھکی ہوئی اور اُداس لگ رہی تھیں۔ پوچھنے پر کہنے لگیں کہ لوگوں کے غم سُن سُن کر تو مَیں بیمار پڑگئی ہوں،کئی دفعہ راتیں جاگتے گزرتی ہیں۔
خلافت سے پہلے بھی ابّا کی بہت اطاعت کرتی تھیں۔ جو بات ابّا کو پسند نہ ہوتی تھی ہمیں روکتی تھیںکہ یہ بات یا حرکت نہ کرو تمہارے ابّا کو پسند نہیں،یہاں تک کہ کھانے میں بھی اگر اُمّی کو کوئی چیز پسند تھی مگر ابّا زیادہ شوق سے نہیں کھاتے تھے تو وہ ہمارے گھر میں نہیں بنتی تھی۔ جب ابّا کبھی ربوہ سے باہر گئے ہوتے تو تب بنوا لیتی تھیں۔
جب ہجرت کرکے لندن آئے تو کچھ سالوں کے بعد ابّا نے محسوس کیا کہ اُمّی شاید پاکستان کے لیے بہت اداس ہیں۔ اُداس تو خیر ابّا بھی بہت ہوتے تھے، مگر ابّا کو ہمیشہ اپنے سے زیادہ لوگوں کے جذبات کا ہی خیال رہتا تھا۔ بہرحال ابّا نے اُمّی کو کہا کہ مَیں تو مجبور ہوں اور جا نہیں سکتا مگر تم تو جا سکتی ہو۔ تم کچھ عرصہ کے لیے پاکستان ہو آئو، سب سے مل کر اور اپنا گھر دیکھ کر دل بہل جائے گا۔ مگر اُمّی نے انکار کر دیا۔ مَیں نے بعد میں اُمّی کو کہا کہ جب ابّا بھی کہہ رہے ہیں تو آپ ہو آئیں۔ توکہنے لگیں کہ نہیں، اگر میں ایک دفعہ بھی ہو آئی تو ابّا کو پاکستان نہ جاسکنے کا زیادہ احساس ہو گا، اس لیے میں نے نہیں جانا۔
وہ میری ماں ہی نہیں بلکہ دوست اور رازداں بھی تھیں۔ اپنے بچوں کے ساتھ اُمّی کا سلوک ہمیشہ دوستوں والا رہا۔ اگرچہ مَیں نے اپنی ماں ہی نہیں بلکہ اپنی عزیز دوست بھی کھو دی۔ پر آفرین ہے ابّا پر کہ بےانتہا کاموں کے با وجود صرف باپ کی طرح ہی نہیں بلکہ ماں کی طرح بھی ہماراخیال رکھا اور ہم میں ہنستے مُسکراتے جینے کا حوصلہ پیدا کیا۔
………٭………٭………٭………
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ ثریا مقصود صاحبہ حضرت سیّدہ آصفہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ آپ بےشمارخوبیوں کی مالک تھیں۔ بہت امیر خاندان سے تعلق رکھنے اور خلیفۂ وقت کی حرم محترم ہونے کے باوجود آپ کے مزاج میں عاجزی و انکساری بےانتہا تھی۔ کبھی امیر و غریب کا فرق روا نہیں رکھتی تھیں۔ خانساماں موجود ہونے کے باوجودبارہا کھانا خود بنالیتیں اور بہت سے دوسرے کام خود کرلیا کرتی تھیں۔
مجھ پر آپ کے بہت احسانات ہیں۔جب آپ نے حضورؒ کے ہمراہ قادیان تشریف لے جانا تھاتو مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا اور فرمایا: وہاں بی بی حکمی صاحبہ بھی آئی ہوں گی اُن سے بھی مل لیں گے۔چونکہ آپ اُن کو بہت عزیز رکھتی تھیں اس لیے خاص طور پر اُن کا ذکر فرمایا۔ لیکن میرا پروگرام نہ بن سکا تو آپ نے مجھ سے فرما یا کہ تمہاری بیٹی کے لیے شاد ی کے کپڑے مَیں وہاں سے لے آؤں گی۔ چنانچہ میںنے کچھ پیسے آپ کوبھجوادیے۔ قادیان جاکر آپ کافی بیمار ہوگئیں اورآپ کو جلد ہی واپس آنا پڑا۔لیکن آپ پھر بھی میری بیٹی کے لیے وہاں سے کافی چیزیں خرید کر لائیں۔ آپ کی بیماری کا سن کر مَیں لندن آئی۔ یہ آپ سے آخری ملاقات تھی۔ کچھ عرصے کے بعد جب میں نے اور بی بی فائزہ صاحبہ نے سوٹ کیس کھولے تو میری چیزوں کے علاوہ اَوروں کی بھی امانتیں تھیں۔
لندن میں حضورؒ کے گھر پرخدمت کرنے ایک سادہ مزاج خاتون بھی اپنے شوق سے آتیں۔ اُن کے بیٹے کی شادی تھی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ کوئی نہیں جواس موقع پر خریداری اور بَری بنانے میں میری مدد کر ے۔ اس پرحضرت بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ فکر نہ کریں مَیں مدد کردوں گی۔ چنانچہ آپ نے نہ صرف شاندار ملبوسات اور زیورات بنوا کر دیے بلکہ نہایت مناسب قیمت میں دوسری چیزیں بھی تیار کروادیں۔ ایک ٹوکری پر گوٹاکناری اورکپڑا لگا کر دیا کہ یہ دُلہن کی سنگھار میز کے لیے ہے اس میں زیور اور چھوٹی موٹی چیزیں رکھ لیاکرے۔ جو یہ ٹوکری دیکھتا تعریف کیے بغیر نہ رہتا۔
غرض کونسا کام ایسا تھا جو آپ نہ جانتی تھیں۔ کھانا پکانا، گھر کو سجانا، خریداری کرنا۔ آپ نے سلائی کاکورس بھی کیا ہوا تھا اور بہت شاندار سلائی کرتی تھیں۔جب جرمنی تشریف لاتیں تو خاکسار آپ کے ساتھ خریداری کے لیے جاتی، سلیقے سے خریداری کرنا میں نے آپ سے ہی سیکھا ہے۔
………٭………٭………٭………