ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر۱۸۰)
طاعون اور احمدی
فرمایا:’’…جو چاہتاہے کہ عمر زیادہ ہو اور اس قہری نشان میں ایک امتیاز پیدا کرے اس کو لازم ہے کہ وہ کامل الایمان ہو اور اپنے وجود کو قابل قدر بناوے اور اس کی یہی صورت ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچاوے اور دین کی خدمت کرے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:وَاَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد : ۱۸) یہ خوب یاد رکھو۔ کہ عمر کھانے پینے سے لمبی نہیں ہوسکتی بلکہ اس کی اصل راہ وہی ہے جو میں نے بیان کی ہے۔بہت سے لوگ ہیں جو صرف کھانے پینے کو ہی زندگی کی غرض و غایت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ زندگی کی یہ غرض نہیں۔سعدی کہتا ہے ؎
خوردن برائے زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
جب انسان کا ایک اصول ہو جاوے کہ زیستن از بہر خوردن است۔اس وقت اس کی نظر ذکرپر نہیں رہتی بلکہ وہ دنیا کے کاروبار اور تجارت ہی میں منہمک ہو جاتا ہے۔اورخداتعالیٰ کی طرف توجہ اور رجوع کا خیال بھی نہیں رہتا۔اس وقت اس کی زندگی قابل قدر وجود نہیں ہوتی۔ایسے لوگوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُمۡ۔(الفرقان : ۷۸)یعنی میرا رب تمہاری پروا کیا رکھتا ہے۔اگر تم اس کی بندگی نہ کرو۔(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ ۱۶۲،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تفصیل: اس حصہ ملفوظات میں آمدہ شعر شیخ سعدی کا ہےجو کہ گلستان سعدی کے تیسرے باب میں ایک حکایت کے آخر پر اس طرح آیاہے۔
حکایت :اردشیر بابکان کی سوانح حیات میں مذکور ہے کہ عرب کے ایک حکیم سے لوگوں نےپوچھا کہ ایک دن میں کس قدر کھانا کھانا چاہیے۔اس نے کہا کہ انتیس تولہ کی بقدر کافی ہوگا۔پوچھا گیا یہ مقدار کیا قو ت پہنچائے گی ؟اس نے جواب دیا یہ مقدار تجھے اٹھائے گی اور اگر اس سے زیادہ کھائے گا تو اسے تو اٹھائے پھرے گا۔یعنی یہ مقدا رتو تجھے کھڑا رکھے گی اور اگر اس سے تو بڑھائے گا تو تُو اس کا بوجھ بردار ہوگا۔
خُوْرْدَنْ بَرَائے زِیْستَنْ وذِکْرْکَرْدَنْ اَسْت
تُوْمُعْتَقِدْ کِہْ زِیْستَنْ اَزْبَہْرِخُوْرْدَنْ اَسْت
ترجمہ:کھانا تو جینے او ر یادِ خدا وندی کے لیے ہے۔ تو اس کا معتقد ہے کہ زندگی محض کھانے کے لیے ہے۔