حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قرآن و حدیث سے حضرت عیسیٰؑ کی وفات ثابت ہوتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ تَوَفِّیْ کا لفظ آیا ہے ان تمام مقامات پر تَوَفِّیْ کے معنی موت ہی لئے گئے ہیں۔ پھر ایک جگہ آپؑ بڑے زور دارا لفاظ میں حضرت عیسیٰؑ کی وفات کا قرآن شریف سے ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اگر حضرت عیسیٰؑ حقیقت میں موت کے بعد پھر جسم کے ساتھ اٹھائے گئے تھے تو قرآن شریف میں عبارت یوں ہونی چاہئے تھی کہ یَاعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ثُمَّ مُحْیِیْکَ ثُمَّ رَافِعُکَ مَع جَسَدِکَ اِلَی السَّمَآءِ یعنی اے عیسیٰ !میں تجھے وفات دوں گا پھر زندہ کروں گا، پھر تجھے تیرے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھا لوں گا۔ لیکن اب بجز مجرد رَافِعُکَ کے جو مُتَوَفِّیْکَ کے بعد ہے کوئی دوسر الفظ رَافِعُکَ کا تمام قرآن مجید میں نظر نہیں آتا۔ جو ثُمَّمُحْیِیْکَ کے بعد ہو۔ اگر کسی جگہ ہے تو وہ دکھلانا چاہئے۔ فرمایا مَیں بدعویٰ کہتا ہوں کہ اس ثبوت کے بعد کہ حضرت عیسیٰ فی الحقیقت فوت ہو گئے تھے یقینی طور پر یہی ماننا پڑے گا کہ جہاں جہاں رافِعُکَ یا بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ ہے اس سے مراد ان کی روح کا اٹھایا جانا ہے۔ جو ہر یک مومن کے لئے ضروری ہے۔ ضروری کو چھوڑ کر غیر ضروری کا خیال دل میں لانا سراسر جہل ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۳۵)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جیسا کہ مَیں نے کہا فرمایا کہ قرآن کریم اول سے آخر تک اسی بات سے بھرا پڑا ہے۔ تئیس (۲۳)آیات درج فرمائی ہیں۔ جہاں توفی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور وہاں وفات ہی مرادلی گئی ہے۔

پھر ازالہ اوہام میں ہی ایک جگہ آپؑ نے ۳۰ آیات سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وفات پا گئے ہیں۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۲۳-۴۳۸)

غرض کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک وسیع لٹریچر چھوڑا ہے جس میں قرآن و حدیث سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات ثابت کی ہے۔ سو یہ مسلمانوں کے لئے بڑے کھلے کھلے اور واضح ثبوت ہیں۔ دلیل کے ساتھ۔ اور عیسائیوں کے لئے ان کی کتاب سے حضرت عیسیٰؑ کا انسان ثابت کرکے اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ ہونے کی حیثیت سے ان کے رفع روحانی کو ثابت کیا ہے، نہ کہ خدا یا خداکا بیٹا ہونا۔ جس نے عیسائیت کو شرک میں مبتلا کر دیا ہے۔

(خطبہ جمعہ۳؍جولائی۲۰۰۹ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍جولائی ۲۰۰۹ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button