کون کرتا ہے کسی سے جتنا وہ کرتا ہے پیار
میرا دوست مجھے کہہ رہا تھا کہ مبارک صاحب آپ ہر بات پر اور ہر مجلس میں یہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بڑھ کر پیار کرنے والا، درگزر کرنے والا، احسان کرنے والا کوئی اور، اس دور میں نہیں دیکھا تو اس حوالے سے مجھے کوئی ذاتی واقعہ بتائیں۔
خاکسار اور میرا یہ دوست لندن میں کار میں سفر کر رہے تھے۔ سفر کچھ طویل تھا اور ہم دونوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقتوں کا، احسانات کا اور درگزر کا ذکر کر رہے تھے۔ یہ میرا پسندیدہ موضوع ہے کیونکہ یہ واحد موضوع ہے جس پر میں بغیر تیاری کے بھی بول سکتا ہوں۔
میں نے عرض کی کہ میں عام طور پر اپنے دوستوں کے بیان کیے گئے مشاہدات و واقعات کا ذکر کرتا ہوں۔ اپنے واقعات اس لیے کم بیان کرتا ہوں کہ کہیں کوئی قاری یا سامع یہ نہ سمجھ لے کہ اپنی تعریف بیان کر رہا ہے۔
ساتھ ہی میں نے دوست کو کہا کہ احسان یاد رکھنے والے کو کسی کی ایک مسکراہٹ بھی نہیں بھولتی خاص طور پر یہ کہ وہ شاعر بھی ہو۔ پیار ے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تو ہم سب احمدیوں پر ان گنت احسانات ہیں۔
خوشبو میں نہائے ہوئے خوابوں کی طرح ہے
وہ شخص ترو تازہ گلابوں کی طرح ہے
پوچھے جو کوئی اہلِ سخن اُس کا تعارف
کہنا وہ محبت میں نصابوں کی طرح ہے
میں نے اپنے اس دوست کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مجھ پر سینکڑوں احسانات میں سے صرف ایک مثال دی کہ ایک دفعہ میں کچھ بیمار ہوا تو پیارے حضور نے فوراً دوا بھجوائی تھی۔ میرے دوست نے اصرار کیا کہ مبارک صاحب یہ بات تفصیل سے ضرور تحریر کریں۔
آج پھر ان کا تاکید سے بھرا فون آیا کہ یہ بات ضرور تحریر کریں۔ انہیں تو میں نے یہ بات شاید دو منٹ میں بتائی تھی لیکن اب ان کی تحریک پر لکھنے بیٹھا ہوں۔ میرے دوستوں اظہر اقبال صاحب اور وسیم باری صاحب نے بھی ایک دفعہ ان باتوں کو لکھنے کی تحریک کی تھی۔سو آج اس ایک شفقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے۔پھر بھی بہت اختصار سے عرض کرتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں بسنے والے احمدیوں سے اس قدر پیار کرتے ہیں، اس قدر پیار کرتے ہیں، اس قدر پیار کرتے ہیں کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ پھر وہ احمدی چاہے دنیا کے لحاظ سے بہت بڑا آدمی ہو بڑے رتبے پر فائز ہو یا مجھ جیسا ناکارہ شخص ہو حضور سب سے یکساں پیار کرتے ہیں اور معجزہ یہ ہے کہ ہراحمدی یہی کہتا ہے کہ حضور سب سے زیادہ شفقت مجھ سے فرماتے ہیں۔ ایسا صرف اور صرف تائیدِ الٰہی سے ہی ممکن ہے۔
حضور کی تمام تر مصروفیات کے باوجود حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہر ہر احمدی پر شفقت کی نظر ہوتی ہے۔ حضور سب کے لیے دعا کرتے ہیں اور حضور کو یاد ہوتا ہے کہ اس کارکن کے اب کیا حالات ہیں۔
دنیا بھر کے احمدیوں کے پاس حسن و احسان کی ایسے بہت سی مثالیں ہوں گی۔ میں ایک بات عرض کرتا ہوں جو میں نے مختصر طور پر اپنے اس دوست کو دوران سفر بتائی تھی۔اس بات کو تین چار سال ہونے کو آئے ہیں۔ میں انتخابِ سخن پیش کرنے بیت الفتوح پہنچا۔ایم ٹی اے کے سٹوڈیو میں ایک بجے پہنچنا ہوتا ہے کیونکہ دو بجے پروگرام لائیو شروع ہو جاتا ہے۔ ایم ٹی اے کا سٹوڈیو بیت الفتوح میں واقع ہے۔ حسبِ معمول میں نے گاڑی پارکنگ میں لگائی۔ قریب سے وقفے وقفے سے انتخاب سخن ٹیم کے ممبران محترم نثار صاحب، محترم وجاہت صاحب، محترم بصیر صاحب گزرے، سب سے سلام دعا ہوئی۔ مَیں نے سب سے کہا میں چند منٹ میں حاضر ہوتا ہوں۔ پروگرام شروع ہونے میں کوئی بیس منٹ رہ گئے تھے۔ آج نہ جانے کیوں مجھ سے کار سے باہر نہیں نکلا جا رہا تھا۔ سینے میں بائیں جانب اور بائیں ہاتھ اور بازو میں سخت درد تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ دل اور برین آف ہو رہے ہیں۔ مجھے علم تھا کہ ایمبولینس چاہیے لیکن ایک تو شروع سے صحت کے بارے میں لاپروا واقع ہوا ہوں دوسرے ہسپتال جانے سے سخت گھبراتا ہوں۔ پروگرام شروع ہونے میں پندرہ منٹ رہ گئے تھے کہ پروڈیوسر وجاہت صاحب بلانے آئے۔ میں نے کہا بس چند منٹ اور اجازت دے دیں۔ طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے لیکن میں چند منٹ میں سٹوڈیو پہنچتا ہوں۔ پھر صرف دس منٹ رہ گئے۔ بصیر صاحب اور نثار صاحب گھبرائے ہوئے بلانے آئے کہ صرف چند منٹ میں لائیو ہونا ہے آپ کیوں نہیں آرہے؟ میں نے بمشکل کہا دل میں کچھ درد سا ہورہا ہے۔ دونوں نے کہا ایمبولینس بلائیں؟ میں نے کہا نہیں صرف گھر جا کر آرام کرتا ہوں۔یہ کہہ کر گاڑی گھر کی طرف چلانے لگا۔ مسجد میں ہی مجھے ڈاکٹر مقبول ثانی صاحب ملے۔ میری حالت دیکھ کر فوراً ایک سپرے دیا کہ یہ ایسی ایمرجنسی کے لیے ہے۔ مجھے علم نہیں گھر کیسے پہنچا۔ راستے میں محترم آصف باسط صاحب کی کال آئی کہ جہاں ہیں وہیں گاڑی پارک کر دیں ایم ٹی اے کے کسی بندے کو کہتا ہوں کہ آپ کو گھر چھوڑ آئے۔ میں نے کہا آصف بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں بس دعا کر دیا کریں۔ گھر پہنچتے ہی صوفے پر گر گیا۔ آنکھ کھلی تو سینٹ جارجز ہسپتال میں ڈاکٹروں کی آوازیں کانوں میں پڑیں۔ سخت ہارٹ اٹیک ہے… blood clotting ہو رہی ہے…جلدی جلدی… زیادہ وقت نہیں ہے… پھر مجھے علم نہیں کہ کب پروسیجر کے بعد میں ریکوری روم میں تھا۔ ڈاکٹرز سرہانے کھڑے بتا رہے تھے کہ اگر ذرا اَور دیر کر دیتے تو بالکل ہی دیر ہو جاتی۔ دل میں سٹنٹ تو ہم نے ڈال ہی دیے ہیں لیکن blood clotting روکنے کے لیے ہم ابھی بھی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ خون کیوں منجمد ہو رہا ہے۔
کچھ دیر کے بعد میرے موبائل فون سے ہی میری گھر بات کروائی گئی۔ میں نے کہا کسی طرح حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست بھجوا دیں۔
یہ اوپر سب تو مَیں نے اپنی صحت کی تفصیل لکھ دی لیکن اب مَیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سینکڑوں شفقتوں میں سے ایک موقع پر شفقت کا ذکر کرتا ہوں اور ہر ہر شفقت ایسی کہ میں عمر بھر اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔
ڈاکٹروں کے جانے کے شاید کوئی آدھے گھنٹے کے بعد میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھانے کی ہمت نہیں تھی لیکن نام پڑھا تو جھٹ فون اٹھایا۔ دوسری طرف مکرم و محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کی آواز تھی۔ میری موجودہ صورتحال کا پوچھنے کے بعد کہنے لگے ہولڈ رکھیں پھر پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی پیاری سی آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں خوشی کے مارے تقریبا ًاٹھ کر بیٹھ گیا۔ جو blood clotting کی وجہ سے درد ابھی باقی تھا خدا ہی جانتا ہے کہ وہ درد کیسے جاتا رہا۔ پیارے آقا نے جب میری کمزور سی آواز سنی تو فرمایا آپ بولیں نہیں صرف سنتے جائیں۔ پیارے حضور نے بہت قیمتی نصائح فرمائیں، بہت تسلی دی اور فرمایا میں آپ کے لیے دعا کر رہا ہوں فکر نہ کریں۔اور پھر فرمایا کسی کے ہاتھ دوائی بھجوا رہا ہوں۔
اے مِرے خدا مِرے چارہ گر اُسے کچھ نہ ہو
مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر اُسے کچھ نہ ہو
کسی مہرباں کی نوازشیں مجھے یاد ہیں
سو دعا دعا ہوں میں چشمِ تر اُسے کچھ نہ ہو
تِرے پاوں پڑ کے دعا کروں سرِ دشت میں
مِرے سر پہ ہے وہی اک شجر اُسے کچھ نہ ہو
دو دن بعد جب میں ہسپتال سے گھر آیا تو پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے بھجوائی گئی دوائی وہاں پہلے سے موجود تھی۔
حضورِانور کی مصروفیات آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ساری بات بتاتے بتاتے بیچ میں عرض کرتا چلوں کہ ایک دفعہ میں نے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا انٹرویو لیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ روزانہ آنے والے خطوط اور فیکسز کی تعداد دو اڑھائی ہزار تک پہنچ جاتی ہے اور جس دن پاکستان سے بھی اکٹھے خطوط آتے ہیں تو اس دن خطوط کی تعداد پانچ ہزار بھی ہو سکتی ہے۔ پھر روزانہ حضور انور سے ملاقات کرنے والے احباب کثیر تعداد میں آتے ہیں۔ ساتھ ساتھ دنیا بھر سے اہم فیکسز آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے جس میں بعض عہدیداروں کو فوری راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر پانچوں وقت کی نمازوں کی امامت ہے، پھر شعبہ جات کے سربراہان مختلف امور پر حضور کی راہنمائی حاصل کرنے کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔ پھر دو سو سے زائد ممالک کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت اور فلاحی منصوبہ جات سے متعلق قدم قدم پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز راہنمائی عطا فرماتے ہیں۔ ایسی مصروف ترین زندگی میں بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دنیا بھر میں ہر ہر احمدی کی فکر ہوتی ہے۔
میرے ہسپتال سے گھر آنے کے چند روز بعد محترم منیر احمد جاوید صاحب نے فون کر کے صحت کا پوچھا اور بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دریافت فرما رہے تھے۔ پھر اس کے بعد شاید کوئی ایک سال گزر گیا ہوگا۔ میری اہلیہ یا بہو نے دعا کے لیے لکھا اور ساتھ لکھا کہ ڈاکٹروں نے انہیں دوائیاں روزانہ کھانے کو کہا ہے لیکن یہ بالکل دوائی نہیں کھاتے۔ اگلے روز ہی محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا کہ حضور کا پیغام ہے کہ آج سے باقاعدگی سے ادویات کھانی ہیں۔ اس کے بعد سے الحمدللہ روزانہ دوائی کھاتا ہوں۔
میں عرض یہ کرتا ہوں کہ اتنی زیادہ مصروفیات میں بھی پیارے حضور سب کو یاد رکھتے ہیں۔اس بات کو شاید تین برس گزر گئے ہوں گے۔ ایک روز مجلس شوریٰ کے بعد ناصر ہال میں کھانا تھا۔ ہماری خوش بختی کہ حضور بھی ہم سب کی حوصلہ افزائی کے لیے اسی ہال میں تشریف فرما تھے۔ میں ہال میں بہت پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ ہر چند کہ گذشتہ بیس سالوں میں پیارے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے ایک بار بھی نہیں جھڑکا اور ہمیشہ ہمیشہ شفقت ہی فرمائی ہے اور میری سب کوتاہیوں کے باوجود نہایت ہی نرمی سے مسکراتے ہوئے ہر معاملے میں راہنمائی فرمائی ہے لیکن سچ یہ ہے میں آج بھی حضور کے قریب کھڑے ہو کر لرزتا رہتا ہوں۔ پیارے امام کا ادب و احترام عقیدت و محبت ہر ہر احمدی کے دل میں ہے اس لیے میری یہ صورتحال سمجھنا آپ سب کے لیے آسان ہوگا۔ آج بھی میں ہال میں کافی پیچھے بیٹھ گیا تھا۔ محترم شمس صاحب جو کہ جنرل سیکرٹری آفس میں ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بہت بہت جزا دے میرے پاس آئے، کہنے لگے مبارک صاحب اِدھر آئیں میرے ساتھ آگے ایک کرسی خالی ہے۔ انہوں نے مجھے اگلی لائن میں جا کر بٹھا دیا جہاں سے میں حضور کو دیکھ سکتا تھا۔
دل کسی کے پیار میں سرشار تھا ایسا کہ بس
اور پھر وہ بھی گل و گلزار تھا ایسا کہ بس
آئینے رکھے ہوں جیسے چاندنی کے شہر میں
روبرو میرے وہ حُسن یار تھا ایسا کہ بس.
کھانا شروع ہوا۔ میں چونکہ چاول نہیں کھاتا اس لیے میں نے سفید آٹے کا بنا ہوا نان کھانا شروع کر دیا۔ پیارے حضور کھانا تناول فرماتے ہوئے ازراہِ شفقت وقفے وقفے سے ہال میں موجود افراد کو دیکھ بھی رہے تھے۔ کچھ دیر میں محترم عبدالخالق تعلقدار صاحب جو کہ پرائیویٹ سیکرٹری آفس میں ہوتے ہیں میرے پاس آئے۔ کہنے لگے حضور فرما رہے ہیں کہ جسے دل کا مسئلہ ہو چکا ہو اسے سفید نان نہیں کھانا چاہیے۔ اللہ اکبر! تین سال میں مَیں اپنا مسئلہ بھول چکا تھا، پیارے حضور کو ابھی تک یاد تھا کہ میں کس مرحلے سے گزرا تھا۔ میں نے فوراً نان ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ پھر اگلے ہی لمحے حضور نے محترم خالق صاحب کے ہاتھ مجھے ایک گرما گرم براؤن آٹے کی وہ روٹی بھجوائی جو بطور خاص صرف پیارے حضور کے لیے بنوائی جاتی ہے۔
عاشق ہے وہ جو یار کی چوکھٹ سے نہ اٹھے
دلبر جو اک نگاہ سے کر دے عطا غزل
جاتا تھا کوئے یار کو اک شخص باوضو
لکھتا تھا حُسنِ یار پہ کر کے دعا غزل
میری ٹیبل پر امریکہ سے آنے والے کچھ مہمان بیٹھے تھے۔ وہ یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ ایک ڈاکٹر صاحب بھی تھے لاس اینجلس کے۔ میں اس وقت ان کا نام بھول رہا ہوں شاید ڈاکٹر حمید صاحب، وہ سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔ مَیں نے انہیں اور ٹیبل پر موجود سب دوستوں میں اس روٹی کا ایک ایک چھوٹا سا ٹکڑا بطور تبرک تقسیم کیا اور باقی روٹی میں نے خود کھائی۔
میری ایک نظم ہے:
وہ سمندر بخش دے اُس کا اگر ہو اختیار
کون کرتا ہے کسی سے جتنا وہ کرتا ہے پیار
خاکسار تو مربی اور واقفِ زندگی بھی نہیں ہے۔ ایک انتہائی ادنیٰ بلکہ ادنیٰ ترین کارکن ہے۔ لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مربیان کرام سے، واقفینِ زندگی سے، خدمتِ دین کرنے والوں سے جتنا پیار کرتے ہیں اس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسے احباب سے جب مَیں حضور کی شفقتوں کے واقعات سنتا ہوں تو دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔
ایک اَور بات عرض کرتا چلوں۔ ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر کو بھی سب ممبران سے واقفیت نہیں ہوتی جبکہ پیارے حضور دنیا کے دو سو ممالک کے کروڑوں احمدیوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے حضور سب کو جانتے ہیں۔ چند ماہ قبل جب میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو میں نے خدمتِ خلق کے حوالے سے بتایا کہ حضور ہمارے ریجن میں ایک بزرگ ہیں کوئی نوّے پچانوے سال کے ہیں، اکیلے رہتے ہیں۔ انہیں ہم کبھی کبھی پکا پکایا کھانا بھجواتے ہیں۔ مَیں نے نام بتاتے ہوئے عرض کی کہ شاید وہ اکیلے رہتے ہیں ان کا کوئی رشتے دار یہاں قریب نہیں ہے۔ پیارے حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اچھا کرتے ہیں جاری رکھیں لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے اتنے بیٹے ہیں، اتنی بیٹیاں ہیں۔ پیارے حضور نے ان کے بیٹوں کے نام بتائے اور یہ بھی بتایا کہ ان کی ملازمتیں کیا کیا ہیں۔ پھر پیارے حضور نے ان کے پوتے اور نواسوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان کا فلاں نواسہ بہت خدمت دین کرنے والا ہے اسے میں اکثر ڈیوٹی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ میں حیران و ششدر کہ ہم اپنے قرب و جوار کے لوگوں سے لاعلم ہوتے ہیں اور پیارے حضور دنیا بھر کے احمدیوں سے واقفِ حال ہیں۔
میرے ساتھ بہت دفعہ ایسے ہوا کہ کسی ایک دوست کا نام لیا تو پیارے حضور نے مجھے اس دوست کی مصروفیات اور اس کے عزیزوں کے نام بتا دیے۔
مجھے مختلف ممالک میں جانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ احمدی احباب پیارے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقتوں کے، محبتوں اور قبولیت دعا کے ایسے ایسے واقعات سناتے ہیں کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کے روپ میں کیسی عظیم نعمت عطا کی ہوئی ہے۔
دعا کی قبولیت سے یاد آیا ایک طالبعلم جس نے تعلیم کے شعبے میں بہت نام کمایا ہے۔ اس کے والدین نے مجھے بتایا کہ پرائمری سکول میں اساتذہ نے کہا تھا پڑھائی اس کے بس کی بات نہیں۔ پھر ہم نے حضور کو دعائیہ خطوط لکھنے شروع کیے، خدا کے فضل سے حضور کی دعاؤں سے آجکل وہی طالب علم آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں کینسر ریسرچ پر ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں بیت الفتوح میں ایک ہنستا مسکراتا نوجوان ملا جس نے احمدیت قبول کی اور سخت مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہا۔ بتانے لگا کہ بار بار خواب میں اسے حضور کی تصویر نظر آئی کہ یہ اس زمانے کا امام ہے اسے ڈھونڈو۔ پھر کسی جگہ لاہور میں ملازمت ملی۔ ایک دن باس کے کمرے میں کہیں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کو دیکھا۔ پوچھا یہ کون بزرگ ہیں۔باس نے تفصیل بتائی اور پھر ابرار نے اپنی کہانی سنائی۔
مجھے ایک عرب دوست ملے۔ کہنے لگے ایک دن چینل بدلتے بدلتے مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب سننے کا موقع ملا اور صرف ایک خطاب سننے کے بعد میں نے احمدی ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پھر چند ہفتے قبل ہی کینیڈا میں ایک محترم دوست کے گھر ناشتے پر ملاقات ہوئی۔ انہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد جو اپنے عزیزوں سے تکالیف اٹھائیں وہ ایک لمبی داستان ہے اور حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ان کی محبت اور عقیدت قابل رشک ہے۔ باتیں بہت سی ہیں۔ لیکن نثر یہاں ختم کرتا ہوں۔
ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں اور اپنے اردگرد احمدی نوجوانوں کے دلوں میں بھی خلافت سے محبت اور عقیدت کی شمع روشن کریں تاکہ ہمارے بعد ہمارے بچے بھی اسی عافیت کے حصار میں رہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا قدم قدم پر حافظ و ناصر رہے آمین۔ اب باقی باتیں نظم میں۔
وہ جو ہے محوِ دعا سب کے لیے لیل و نہار
جس کی صورت دیکھتے ہی دل کو آ جائے قرار
جس کے آنے سے چلے نوروں دُھلی بادِ بہار
منتظر جس کے رہیں عشاق سب دیوانہ وار
کون کرتا ہے کسی سے جتنا وہ کرتا ہے پیار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
رہنما جس کا خدا ہے پیشوا قرآن ہے
خامشی جس کی دعا ہے گفتگو اذان ہے
جس کے سینے میں محمد مصطفیٰ ہر آن ہے
وہ جو اِس جنگ و جدل میں امن کی پہچان ہے
آنکھ جس کو دیکھ کر بولے کہ دیکھو بار بار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
سو خطائیں ایک دن میں درگزر کرتا ہے وہ
پیار سب سے اور ہم سے خاص کر کرتا ہے وہ
بے ثمر اجڑے ہوؤں کو باثمر کرتا ہے وہ
جب ملو سو سو دعائیں ہمسفر کرتا ہے وہ
وہ چنیدہ برگزیدہ ہے سراپا انکسار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
با ادب اور باوضو جانا وصالِ یار کو
اُس کے کوچے میں بھلا دینا غمِ اغیار کو
چشمِ تر قدموں میں رکھنا اِس دلِ نادار کو
دیکھنا سو سو عقیدت سے گُل و گُلزار کو
وہ مسیحا ہے ہمارا باعثِ رضوانِ یار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
ہاں وہی جس نے مِرے آنسو بھی گوہر کر دیے
سب خزاں موسم مِرے اُس نے معطر کر دیے
در بدر کتنے ہی تھے اُس نے سِکندر کر دیے
اُس نے دنیا دار شاعر بھی قلندر کر دیے
وہ سمندر بخش دے اُس کا اگر ہو اختیار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
دل میں کتنے غم چھپائے مسکراتا شخص وہ
غمزدہ لوگوں کو سینے سے لگاتا شخص وہ
نور کی شمعیں جلاتا جگمگاتا شخص وہ
بُت کدوں کے شہر میں قرآں سناتا شخص وہ
وہ مجسم گلعذار و بردبارو و غمگسار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
ہم امیر کارواں کی اقتدا میں ایک ہیں
ہر قدم ہر ابتلا ہر کربلا میں ایک ہیں
شہر ظلم و جبر میں صبرو رضا میں ایک ہیں
فجر سے لے کر عشاء کی ہر دعا میں ایک ہیں
ظلمتوں کے دشت میں وہ روشنی کی آبشار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
عہد کرتے ہیں امام وقت سے ہم باوضو
ہم تری طاعت کریں گے صف بصف اور کوبکو
لاکھ مقتل ہوں رہیں گے ہم ہمیشہ سرخرو
رائیگاں جانے نہ دیں گے ہم شہیدوں کا لہو
جان و مال و آبرو قدموں پہ اس کے ہوں نثار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار
ہے دعا میری رہے وہ کامیاب و کام گار
وہ نہ آئے دن کبھی دیکھوں اُسے میں سوگوار
وہ جدھر جائے فرشتے ساتھ ہوں خدمت گزار
اس پہ پھولوں کی کرے برسات وہ پروردگار
جان و مال و آبرو قدموں پہ اُس کے ہیں نثار
ہیں درندے ہر طرف وہ عافیت کا ہے حصار