شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے
عام طور پر شہید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو جائے۔ بیشک ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتا ہے، شہید کا مقام پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ لیکن شہید کے معنی میں بہت وسعت ہے۔ یہ معنی بہت وسعت لئے ہوئے ہے، اور بھی اس کے مطلب ہیں۔…
جب انسان اللہ تعالیٰ کی لا محدود اور کبھی نہ ختم ہونے والے حسن کو دیکھتا ہے، اُس کی صفات پر یقین رکھتا ہے، اُس کی عبادت کی طرف توجہ رہتی ہے تو پھر اُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو اور جب یہ صورت ہو تو پھر یہ شہید کا مقام ہے۔
آپؑ نے شہید کی یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جب یہ تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے تو پھر استقامت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ پھر انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اُس راہ کی جو مشکلات ہیں اُن میں بھی سکون ملتا ہے، وہ بھی تسکین کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہر مشکل کے آگے سینہ تان کر مومن کھڑا ہو جاتا ہے۔ کوئی خوف یا غم یا حسرت دل میں نہیں ہوتی کہ اگر میں نے یہ نہ کیا ہوتا، اگر میں نے فلاں مخالفِ احمدیت کی بات مان لی ہوتی، اُن کی دھمکیوں سے احمدیت چھوڑ دی ہوتی تو اِس وقت جن تکلیفوں سے مَیں گزر رہا ہوں ان سے بچ جاتا۔ یہ کبھی ایک مومن سوچ ہی نہیں سکتا اگر وہ حقیقی معنوں میں ایمان لاتا ہے۔ بلکہ ایمان کی مضبوطی، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ان تکلیفوں میں بھی اُسے آرام اور راحت اور خوشی پہنچا رہا ہوتا ہے۔ پس یہ ہے شہید کا مقام۔… ۔ بعض لوگ جب اُن سے خدمت نہیں لی جاتی تو بے چینی کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اس کی ایک مثال دی ہے کہ جیسے کوئی فقیر یا مانگنے والا اگر کسی کے پاس جائے تو اکثر اُس فقیر کو کوئی دنیا دار جس کے پاس وہ جاتا ہے، کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے۔ لیکن اُس میں عموماً دکھاوا ہوتا ہے، لیکن شہید کا یہ مقام نہیں۔ شہید یہ نیکی اس لئے کر رہا ہوتا ہے کہ اُس کی نیک فطرت اُسے نیکی پر مجبور کرتی ہے اور فطرتی نیکی کی یہ طاقت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی نیکی کے کرنے، کسی خدمت کے کرنے پر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ مَیں نے کوئی بڑا کام کیا ہے، مجھے ضرور اُس کا بدلہ یا خوشنودی کا اظہار دنیا والوں سے ملنا چاہئے۔ کیونکہ جماعت کی خدمت کی ہے تو ضرور مجھے عہدیداران اُس کا بدلہ دیں۔ نہیں۔ بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہونا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۴؍ دسمبر ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۴؍ جنوری ۲۰۱۳ء)