کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے؟ (قسط نمبر 3)
حضرت مصلح موعودؓ کا معرکۃ الآراء لیکچر
(فرمودہ 15فروری 1920ء بمقام بریڈ لا ہال لاہور)
تیسری بات جو مسیحیت نے بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ ‘‘شریر کا مقابلہ نہ کرنا ’’(متی39/5) یہ تعلیم ایسی ہے کہ بعض موقعوں کےلیے تو اچھی ہے اور بعض کےلیے بُری۔ اگرچہ یہ شرط مسیحیت نے نہیں لگائی بلکہ اسلام نے لگائی ہے کہ ایسے موقع پر مقابلہ نہیں کرنا چاہیے جہاں اصلاح مدنظر ہو۔ پھرایک اَور بات جو بہت باریک ہے اس کو مسیحیت نے معلوم نہیں کیا بلکہ اسلام نے کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ بد کا مقابلہ اور بدی کا مقابلہ ، ظلم کامقابلہ اور ظالم کا مقابلہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ باتیں ہیں اور ان میں بہت بڑا فرق ہے اور قرآن نے ان میں امتیاز قائم کیا ہے۔ چنانچہ قرآن جہاں یہ کہتا ہے کہ ظالم کو معاف کردینا چاہیے اگراصلاح مدنظر ہو وہاں یہ بھی کہتا ہے کہ ظلم کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے۔اسی طرح جہاں یہ کہتا ہے کہ بد کو معاف کردینا چاہیے بشرطیکہ بُرا نتیجہ نہ نکلتا ہو وہاں یہ بھی کہتا ہے کہ بدی کو مت پھیلنے دو۔ اور یہ ایسا فرق ہے کہ جس کو وہی سمجھ سکتا ہے جو علم النفس سے خوب واقف ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ(ھود:115) خداتعالیٰ فرماتا ہے مومن وہ ہوتے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور بدی کو نیک ذرائع سے مٹاتے ہیں۔یہ وہ تعلیم ہے جو اسلام کو تمام دنیا کے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ ہر ایک مومن کو خداتعالیٰ کہتا ہے کہ امن قائم کرنے کےلیے تمہارا یہ کام ہے کہ بدی کو مٹاؤ۔ ہم ظالم کے متعلق تو تمہیں یہ کہتے ہیں کہ کبھی اسے معاف کردو اور کبھی سزا دو اسی طرح شریر کے متعلق کہتے ہیں کہ کبھی اسے معاف کردو اور کبھی سزا دو مگر یہ حکم ہر وقت اور ہر موقع کے لیےہے جہاں ظلم اور شرارت کوپاؤ ، جہاں چوری، ڈاکا،زنا پھیلا ہوا دیکھو اس کو دور کرو۔ یہ تعلیم اَور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی ۔یہاں خداتعالیٰ نے ایک اور بات بیان فرمائی ہے اور وہ یہ کہ ہوسکتا تھا کہ بدی اور شرارت کو مٹانے کےلیے خود ایسے طریق سے مقابلہ کیا جاتا کہ وہ مقابلہ بدی ہوجاتا۔ مثلاً ایک شخص چوری کرنے سے باز نہیں آتا تو اس کے گھر میں نقب لگائی جاتی ۔ اس کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ بدی کو نیکی سے مٹانا چاہیے یعنی بدی کے مقابلہ میں بدی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ نیک ذرائع سے اس کو دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
(4) چوتھی بات مسیحیت کی یہ ہے کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلیے دعا مانگو(متی 44/5)ایک حد تک یہ تعلیم اچھی ہے گو الفاظ واضح نہیں ہیں مگر قرآن اس سے اعلیٰ تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہیں ہر ایک کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔ اس میں اور عیسائیت کی تعلیم میں ایک تو یہ فرق ہے کہ مومن کی نظر قرآن نے بہت وسیع کردی ہے اور اس کے حلقۂ ہمدردی اور خیر خواہی میں ان کو بھی شامل کردیا ہے جس کو وہ نہیں جانتا ۔ دشمن گو اس کا دشمن ہی ہوتا ہے تاہم وہ اس کو جانتا تو ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ جس کو تم نہیں جانتے اس سے بھی محبت کرو۔ چنانچہ فرماتا ہے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ(آل عمران :111)اے مسلمانو! تم سب سے اعلیٰ درجہ کی قوم ہو کیونکہ تمہارے پیدا کرنے کی غرض ہی یہ ہے کہ ساری دنیا کو فائدہ پہنچاؤ۔ورنہ تم اس لیے اعلیٰ قوم نہیں ہوکہ تمہارا نام مسلمان ہے یا اس لیے نہیں ہو کہ تم ظاہری طور پر قرآن پڑھتے ہو یا اس لیے نہیں ہوکہ نمازیں پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہو یا اس لیے نہیں کہ حج کرتے ہو بلکہ اس لیے ہو کہ تمہارے پیدا کرنے کی غرض یہ ہے کہ تم لوگوں کو فائدہ پہنچاؤ اور ساری دنیا میں گھوم گھوم کر اچھی باتیں بتاؤ۔
پس اسلام یہی نہیں کہتا کہ تم دشمن سے پیار کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ ایک اجنبی سے بھی ہمدردی کرو ۔ اس لیے فرمایا تمہارا یہ فرض ہے کہ جہاں لوگوں کو بدی اور ظلمت میں مبتلا دیکھو وہاں تم پہنچو اور لوگوں کو اس سے بچاؤ۔
(5)پانچویں بات عیسائیت یہ بتاتی ہے کہ خیرات چھپا کر کرو۔ چنانچہ انجیل کہتی ہے کہ‘‘جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے تاکہ تیری خیرات پوشیدہ رہے’’(متی 3-4/5)یہ اچھی بات ہے کیونکہ بعض اوقات خیرات کے جتانے سے بڑے بڑے فساد پیدا ہوجاتے ہیںلیکن قرآن کریم نے اس بارہ میں جو تعلیم دی ہے وہ بہت اعلی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَ النَّہَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرہ:275) کہ مومن وہ ہوتے ہیں جو اپنے اموال کو رات اور دن کو چھپا کر اور ظاہر کرکے خدا کےلیے خرچ کرتے ہیں ان کو اپنے رب کی طرف سے بہت بڑا اجر ملتا ہے اور انہیں خوف اور حزن نہیں ہوتا ۔
اب دیکھو انجیل تو یہ کہتی ہے کہ پوشیدہ خرچ کرو ظاہر نہ کرو مگر یہ کامل تعلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ پوشیدہ خرچ کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ خرچ کرنے والا دوسروںکےلیے نمونہ نہیں بن سکتا اور عام لوگ نمونہ کو دیکھ کر بہت سے کام کرنے پر آمادہ ہوجایا کرتے ہیں۔ تو پوشیدہ طور پر خدا کی راہ میں دینا اچھا ہے مگر کسی وقت ظاہر طورپر دینا بھی اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو بھی تحریک ہوتی ہے۔ پس انجیل کی یہ تعلیم اچھی ہے مگر اس میں ایک پہلو کو لے لیا گیا ہے اور دوسرے پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اس لیے قرآن نے اس بارے میں جو تعلیم دی ہے وہ بہت اعلیٰ ہے اور اس میں دونوں پہلوؤں کو لیا گیا ہے۔ پھر ظاہر طور پر خیرات دینے میں جو خطرہ تھا کہ دینے والا لینے والوں پر احسان جتلائے گا یا اس میں عُجب پیدا ہوگا یالوگوں پر اس کا ناجائز رعب بیٹھے گا اس کے متعلق فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ(البقرۃ :265) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اپنے صدقات کو باطل نہ کرو۔ کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں کہ ان لوگوں کی طرح اپنے مال کو خرچ کرے جو لوگوں کو دکھانے کے لیےکرتے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے کیونکہ تم جو کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہو وہ مفت ہی نہیں دیتے بلکہ اجر پانے کےلیے دیتے ہو اور امید رکھتے ہو کہ خدا کی طرف سے تمہیں اس کا بدلہ ملے گا ۔ پس جب یہ بات ہے تو پھر تمہارا کیا حق ہے کہ کسی پر احسان جتلاؤ۔اگر تم ایسا کروگے تو پھر ہم تمہیں اس کا کوئی بدلہ نہیں دیں گے ۔اس طرح اسلام نے ان نقائص کو دور کردیا جو ظاہری طور پر خیرات کرنے سے پیدا ہوسکتے تھے۔
(6)پھر انجیل تو صرف یہ کہتی ہے کہ خیرات دو مگر قرآن اس سے اعلیٰ تعلیم دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح دو، کب دو اور کہاں دو۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ (البقرۃ:178) پھر اس چھوٹے سے فقرہ میں تین مضمون بیان کردیےگئے ہیں۔ اول یہ کہ مومن کس لیے مال خرچ کرتے ہیں اس لیے کہ خدا کو پیارے ہوجائیں یعنی وہ لوگوں پر اپنا مال اس لیے خرچ نہیں کرتے کہ لوگ ان کی تعریف کریں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ خدا ان پر خوش ہوجائے ۔ دوم یہ کہ مومن مال دیتا ہے دین کی خاطر یعنی خدا کی راہ میں مال دینے سے اس کو محبت ہوجاتی ہے ۔اس کو صدقہ خیرات دینا بوجھ معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس سے اسے اسی طرح خوشی ہوتی ہے جس طرح عمدہ کھانا کھانے ، اچھے کپڑے پہننے اور سیر کرنے سے ہوتی ہے۔پس مومن وہ ہوتا ہے جس کو صدقہ دینے سے خوشی ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں نے فلاں کو جو مال دیا ہے تو اس پر احسان کیا ہے بلکہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے مجھ سے لے لیا ہے۔ سوم اس میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مومن وہ ہوتا ہے جو خدا کی راہ میں مال دے مال کی محبت کے ہوتے ہوئے۔ یعنی ایسا مال نہ دے کہ جس کی اسے ضرورت نہ ہو اور جس سے وہ محبت نہ رکھتا ہو بلکہ وہ مال دے جس سے اسے محبت ہو۔ اگر کوئی پھٹے پرانے کپڑے یا ٹوٹی ہوئی جوتی دے تو وہ کیا صدقہ ہوا۔ ان کو اس نے پھینک ہی دینا تھا ۔ صدقہ اصل میں اسی مال کا ہوتا ہے جس کی انسان کو خود ضرورت ہو اور اسے خدا کے رستہ میں دے۔ پھر بتایا کیا صدقہ دے۔ فرمایا مِمَّارَزَقْنٰھُمْ عام مذاہب کہتے ہیں کہ مال کا صدقہ دو مگر قرآن کہتا ہے کہ جو چیز بھی انسان کو خدا کی طرف سے ملی ہو اسے خرچ کرے۔ مال و دولت، علم و ہنر، جرأت و بہادری، حوصلہ و جوانمردی، غرضیکہ جو کچھ اسے ملا ہے اسے بنی نوع انسان کےلیے لگا دے اور سمجھے کہ میں توایک ہر کارہ ہوں جس کو یہ چیزیں دوسروں کو پہنچانے کےلیے خدا نے دی ہیں ۔
پھر اسلام نے دین میں یہ ایک خاص خصوصیت رکھی ہے کہ اپنے قریبیوں کودے۔ اس میں یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ غریب رشتہ داروں کو دے بلکہ سب کو دے۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ صرف صدقہ و خیرات ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ دوستوں کو ہدیہ دے اور یہ آپس میں محبت اور ا لفت بڑھانے کااسلام نے ایسا طریق بتایا ہے کہ جو اور کسی مذہب نے نہیں بتایا ۔
(7) پھر انجیل تو یہ کہتی ہے کہ‘‘اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو’’(متی 19/6) بتاتی ہے کہ مالدار خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوسکتا(متی 23/19) مگر اسلام کہتا ہے کہ ہر ایک کےلیے یہ حکم نہیں ہے کہ وہ مال جمع نہ کرے کیونکہ اگر ہر ایک اس طرح کرے تو دنیا کی تمام ترقیاں رک جاتی ہیں۔ یہ ریلیں ، تاریں ، ڈاک خانے اور آسائش و آرام کے دوسرے سامان اسی وقت تک قائم رہ سکتے ہیںجب تک مال پاس ہو۔ لیکن اگر تمام کے تمام لوگ مال کو چھوڑ دیں تو نتیجہ یہ ہو کہ انسان دنیا کی اس تمدنی ترقی پر ہرگز نہ پہنچ سکتا جس پر اب پہنچا ہوا ہے حالانکہ خداتعالیٰ نے یہ چیزیں پیدا ہی اس لیے کی ہیں کہ ان کے ذریعہ انسان ترقی کرے ۔ خداتعالیٰ نے بھی لوہا ، سونا ، عمدہ عمدہ غذائیں اور دوسری چیزیں کیوں پیدا کی ہیں؟ اس لیے کہ انسان ان سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن اگر انسان ان کو چھوڑ دے تو معلوم ہوا کہ ان کو خدا نے الگ پیدا کیا ہے لیکن چونکہ خداتعالیٰ کی پیدا کی ہوئی کوئی چیز لغو نہیں ہے اس لیے معلوم ہوا کہ خداتعالیٰ کا یہی منشا ہے کہ انسان ان چیزوں سے بھی تعلق رکھے اور فائدہ اٹھائے ورنہ اگر ان کو چھوڑ دے گا تو تباہ ہوجائے گا۔
دراصل اسلام نے لوگوں کے دو گروہ قرار دیےہیں۔ ایک متوکل جو تقویٰ میں بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور جن کا فرض دین کو قائم کرنا ہوتا ہے ان کا کام مال جمع کرنا نہیں ہوتا۔ اور دوسرے وہ جن کا فرض ہے کہ مال و دولت سے کام لیں۔ ایک صوفی نے اس مسئلہ کو بہت عمدگی سے حل کیا ہے۔ اس سے کسی نے پوچھا زکوٰۃ کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس نے کہا زکوٰۃ کے متعلق دو حکم ہیں۔ ایک میرے لیے اور وہ یہ کہ اگر میرے پاس چالیس روپے جمع ہوں تو میں سال کے بعد اکتالیس روپے زکوٰۃ دوں۔ اور ایک تیرے لیے کہ چالیس روپے پر سال کے بعد ایک روپیہ زکوٰۃ دے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیرا کام دنیا کمانا ہے اس لیے تجھے چالیس روپے پر ایک روپیہ دینا چاہیے مگر میرا کام اور ہے۔ اگر میں دنیا کمانے لگ جاؤں تو ایک تو جو کچھ کماؤں وہ دے دوں اور اس پر سزا کے طور پر اور بھی دوں۔
تو اسلام نے یہ فرق رکھا ہے کہ ایک فریق تو کلیۃً دین کے کاموں میں لگا رہے اور دوسرا فریق دنیا کے کاروبار بھی کرلے۔ چنانچہ عام لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا(بنی اسرائیل : 30)کہ اے شخص! اگر تیرے پاس مال ہو تو تُو نہ تو ایسا کر کہ کوئی تیرے پاس مانگنے آئے اور تو نہ دے اور نہ اپنے ہاتھوں کو اس طرح کھلا چھوڑ کہ سب کچھ خرچ کردے۔ یعنی نہ تو اسراف کر اور نہ بخیل بن۔ یہ دونوں باتیں تیرے لیے جائز نہیں ہیں۔ اس طرح اسلام نے ایک طرف تو نظام عالم کو قائم کردیا اور تمدنی ترقی کا رستہ کھول دیا اور دوسری طرف صدقہ و خیرات اور ہدیہ کا حکم دے کر آپس میں اخوت کا تعلق پیدا کردیا ۔اگر دنیا اسلام کی اس تعلیم پر عمل کرتی تو آج یہ بولشویک کا گروہ نہ پیدا ہوتا ۔لیکن اس پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب دو قسم کے لوگ پیدا ہوگئے ہیں ۔ایک تو وہ جنہوں نے مال جمع کرلیا اور دوسرے وہ جو غریب اور نادار ہوگئے۔ اس کے ماتحت یہ دو گروہ نکل آئے جن میں سے مالدار گروہ تو یہ کہتا ہے کہ سارا نفع ہم اٹھائیں اور اس کے مقابلہ میں مزدوری پیشہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ دنیا کا سب مال لوگوں کا ہے اس لیے سب خزانے حکومت کے قبضہ میں ہونے چاہئیں تاکہ وہ سب کو نفع پہنچائے اور ایک خاص گروہ سارا فائدہ نہ اٹھائے۔ ایسا کیوں ہوا ؟اسی لیے کہ اسلام کی اس تعلیم پر عمل نہ کیا گیا۔ اب جو بولشویک کہتے ہیں کہ ہم میںدنیا کے مال دار لوگوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں اسلام میں طاقت ہے اس کو قبول کرو اور پھر دیکھو مقابلہ ہوتا ہے یا نہیں ۔ اب بولشویک کیوں لڑرہے ہیں؟ اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں ساری دولت ایک خاص حلقہ میں محدود ہوگئی ہے اور باقی لوگ بھوکے مررہے ہیںلیکن اگر اسلام کی تعلیم کے ماتحت امراءصدقہ و خیرات کرتے، زکوٰۃ دیتے تو وہ کیوں ایسا کرتے ۔
(8)پھر انجیل کہتی ہے کہ تو بُری خواہش سے کسی عورت پر نظر نہ ڈال (متی 28/5) اور بدنظری کرنے والے کےلیے سزا تجویز کی گئی ہے(متی29/5)جس سے فتنہ اور شر کا سدباب ہوسکتا ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ امن قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہے مگر اسلام اس سے بڑھ کر تعلیم دیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ غیر مرد اور غیر عورت علیحدہ علیحدہ رہیں اور ایک دوسرے پر نظر ہی نہ ڈالیں ۔ دیکھو نظرِ بد تو تب بنتی ہے جب بار بار پڑتی ہے ورنہ پہلی نظر بد نہیں ہوتی۔ پہلی نظر ڈالنے والے کو کیا علم ہوتا ہے کہ جس پر اس کی نظر پڑنے لگی ہے وہ نک کٹی بدصورت عورت ہے یا خوبصورت ۔ ہاں جب ایک دفعہ نظر ڈالنے کے بعد دوسری دفعہ ڈالتا ہے تو وہ بد ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر اس کی پہلی نظر ہی نہ پڑتی تو اس کی دوسری نظر کیوںبد ہوتی۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ (النور:31)کہ مومنوں کو کہہ دے اپنی نظریں نیچی رکھا کریں ۔ یورپ پردہ پر بڑے بڑے اعتراض کرتا ہے اور موجودہ پردہ بے شک قابلِ اعتراض ہے مگر ہم کہتے ہیں یہ اسلامی پردہ نہیںہے اور میں اس کو مذہبی پردہ نہیںکہتا بلکہ سیاسی پردہ کہتا ہوں۔ وجہ یہ کہ ہم جن لوگوں کے ماتحت رہتے ہیںان کے نزدیک عفت اور عصمت کی قیمت روپیہ ہے مگر ہمارے نزدیک اس کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ اب اگر کسی کی عصمت پر حملہ ہو تو وہ سوائے اس کے کہ عدالت میں جاکر چند روپے لے لے اور کیا کرسکتی ہے۔ لیکن اگر اسلامی قانون کے مطابق اس کی سزا سنگسار کرنا ہو تو پھر عورتوںکےلیے پردہ کاوہی طریق ہے جو اسلام نے بتایا ہے۔ لیکن یہ طریق اسی وقت اختیار کیا جاسکتا ہے جبکہ ہمارے حکمران عورتوں کی عصمت کی وہی قدر قرار دیں جو اسلام نے قرار دی ہے اور اس پر حملہ کرنے والے کو وہی سزا دیں جو اسلام نے مقرر کی ہے۔ خیر ا س کو چھوڑ کر ہم اس حکم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کے ذریعہ بد نظری کے برے نتائج کا سدباب کیا گیا ہے کہ مرد اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور عورتیں اپنی آنکھیں۔ اس طرح نہ ان کی ایک دوسرے پر نظر پڑے گی اور نہ بد نظری ہوگی۔ لیکن ا س کی بجائے یہ کہنا کہ بری خواہش سے کسی عورت پر نظر نہ ڈال ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ حافظ نے کہا ہے
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
یہ کہنا کہ غیر عورت کو دیکھ تو سہی لیکن بد نظری نہ ہو ایسی ہی بات ہے جیسا کہ کسی کو کہا جائے آگ میں ہاتھ تو ڈال لیکن جلے نہ یا پانی میں تو کود پڑ لیکن ڈوبنا نہ،گیلا نہ ہونا۔ چھت پر سے تو گر پڑ لیکن چوٹ نہ کھانا۔کیونکہ جب ایک مرد غیر عورت پر نظر ڈالے گا اور اسے دیکھے گا تو اس کی نظر بد ہو جائے گی اور اس طرح فتنہ پڑے گا۔ اس کے متعلق اسلام ہی کی ایسی تعلیم ہے کہ جس پر عمل کرنے سے امن قائم رہ سکتا ہے۔
…………………………………………………(باقی آئندہ )