روحانی زبان میں ’’دل‘‘ سے کیا مراد ہے؟
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ ہم جب مذہبی اور روحانی لحاظ سے ’’دل‘‘ کی بات کرتے ہیں تو کیا اس سے مراد وہی عضو ہوتا ہےجو خون کی گردش کا کام کرتا ہےیا پھر اس سے مراد روح اور دماغ ہوتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۹؍فروری ۲۰۲۱ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب ارشاد فرمایا:
جواب: عربی زبان میں عام طور پر دل کےلیے قلب اور فؤادکے الفاظ آتے ہیں اور یہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں ظاہری معنوں میں بھی استعمال ہوئے ہیں اور استعارہ کے رنگ میں بھی آئے ہیں۔ مثلاً دل پر پردہ پڑ جانا، دل میں ٹیڑھا پن ہونا، دل کا سخت ہو جانا، دل کا ایمان نہ لانا، دل میں مرض پیدا ہو جانا، دل پر مہر لگ جانا، دل پر زنگ لگ جانا، دل کا انکار کرنا، دل میں غیظ کا ہونا، دل کا شک کرنا، دل کا اندھا ہونا، دل کا گلے تک آ جانا، دل کا پھر جانا، دل کا نہ سمجھنا، دل کا نیکی اور برائی کمانا، دل کا اللہ کے ذکر سے غافل ہونا، دل کا پاک ہونا، دل کا اطمینان پانا، دل میں تقویٰ ہونا، دل کا مضبوط ہونا، دل کا ارادہ کرنا، دل میں ایمان کا داخل ہونا، دل پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہونا، دل کا فکر سے فارغ ہونا اور دل کا دیکھنا وغیرہ۔ اسی طرح احادیث میں بھی دل کو ظاہری معنوں کے علاوہ استعارہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پس قرآن و حدیث میں اس لفظ کے مختلف معانی کا استعمال بتاتا ہے کہ مذہبی اور روحانی زبان میں دل سے مراد صرف ایک جسمانی عضو نہیں ہے جو خون کی گردش کا کام کرتا ہے بلکہ مذہبی اور روحانی زبان میں اس لفظ کو استعارہ کے طور پر بھی کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس سے مرادروح، علم، فہم، عقل، نیت، طبیعت، شجاعت اور فطرت وغیرہ کئی مطالب ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قلب اور فؤاد کی لغوی تحقیق کے ضمن میں فرماتے ہیں:’’قلب…کے معنے ہیں الفُؤَادُ۔ دل…اور کبھی قلب کا لفظ عقل پر بھی بولا جاتا ہے…ا ور لفظ قلب کے ذریعہ ان کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جو روح۔ علم اور شجاعت وغیرہ اقسام کی اس کے ساتھ مخصوص ہیں …قلب کے معنے سوچنے اور تدبر کے ہیں۔ (تفسیرکبیر جلداوّل صفحہ ۱۵۳)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۳۲ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۲ء)