مرد کی نیکی و بدی کا اثر عورت پر پڑتا ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’مرد اگر پارسا طبع نہ ہو توعورت کب صالحہ ہوسکتی ہے۔ ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے۔ قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہیئے بلکہ فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ عورت تو درکنار اَور بھی کون ہے جو صرف قول سے کسی کی مانتا ہے۔
اگر مرد کوئی کجی یا خامی اپنے اندر رکھے گا تو عورت ہر وقت کی اس پر گواہ ہے۔ اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہےتو میں کیوں حرام کہوں۔ غرضکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اُسے خبیث اور طیب بناتا ہے۔ اسی لیے لکھا ہے: اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَالۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَالطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ (النور:۲۷)
اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزار ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا۔ ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے۔ بھلا جب خاوند رات کو اُٹھ اُٹھ کر دعا کرتا ہے۔ روتا ہے تو عورت ایک دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اسے بھی خیال آوے گا اور ضرور متاثر ہوگی۔ عورت میں متاثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں اُن کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہوجاتی ہیں۔ ان کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کرسکتا جتنا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے۔ خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی کچھ اثر اس پر نہیں ہوتا۔
خدا نے مرد عورت دونو کا ایک ہی وجود فرمایا ہے۔
یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں۔ ان کو چاہیئے کہ عورتوں کو ہرگز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکریں مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اسے مل ہی نہ سکے۔ تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو سمجھتی ہے۔
مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو کس قدر بداثر پڑنے کی امید ہے۔ مرد کو چاہیئے کہ اپنے قویٰ کو برمحل اور حلال موقعہ پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہوکر گفتگو نہ کرے۔
مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں۔ جیسے سخاوت۔ حلم۔ صبر اور جیسے اسے پرکھنے کا موقعہ ملتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا۔ اسی لئے عورت کو سارق بھی کہا ہے۔کیونکہ یہ اندر ہی اندر اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کرلیتی ہے۔
ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ عیسائی ہوا تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہوگئی۔ شراب وغیرہ اول شروع کی پھر پردہ بھی چھوڑ دیا۔ غیر لوگوں سے بھی ملنے لگی۔ خاوند نے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا تو اس نے بیوی کو کہا کہ تو بھی میرے ساتھ مسلمان ہو۔ اس نے کہا کہ اب میرا مسلمان ہونا مشکل ہے۔ یہ عادتیں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑ گئی ہیں یہ نہیں چھوٹ سکتیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۰۷-۲۰۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)