سابقون الاولون سپاہی
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍مارچ ۱۹۸۹ءکو فرمایا کہ ’’ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اُس تاریخ کو اُن کی بڑائی کے لیے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطاکرنے کے لیے۔ اُن کی مثالوں کو زندہ کرنے کے لیے، ان کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آباءو اجداد تھے۔ کن حالات میں کس طرح وہ لوگ خدمت دین کیا کرتے تھے، کس طرح وہ چلا کرتے تھے، کس طرح بیٹھا کرتے تھے، اوڑھنا بچھونا کیا تھا، اُن کے انداز کیا تھے۔‘‘
اسی مقصد کے حصول کے لیے خاکسار نے آج قلم اٹھایا ہے تاکہ اپنے چند بزرگان کے حالات اور خاندانی تعارف پیش کر سکوں۔ میرے ننھیال میں احمدیت میرے پڑنانا یعنی میری والدہ محترمہ امۃالمتین کے دادا محترم عبدالکریم رازی کے ذریعے آئی جو جلد ہی احمدیت سے تعلق میں بڑھ گئے اور اپنے اہل و عیال سمیت تحریک جدید کے دفتر اوّل یعنی پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہو گئے۔
وہی مجاہدین جن کے بارے میں حضرت مصلح موعوؓدفرماتے ہیں کہ’’جیسا کہ پہلے بھی میں نے بتایا ہے۔پہلے دُور والوں اور دوسرے دُور والوں میں مَیں نے فرق رکھا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سابقون الاولون ہیں۔ اور۱۹سال کے بعد ان کے نام چھپوا کر لائبر یریوں میں رکھے جاویں۔ جماعتوں کے اندر پھیلائے جاویں۔ خود ان کے پاس بطور یادگار بھیجے جاویں۔ تا وہ اپنی زندگی میں بطور یادگار اپنے پاس رکھیں۔ اور اپنےبعد اپنی نسلوں کے لیے یادگار کے طور پر چھوڑ جائیں‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍دسمبر ۱۹۵۳ء)
ایک اَور جگہ حضرت مصلح موعودؓ اسلام کے ان سپاہیوں کے بارے میں یہ تاریخی کلمات فرماتے ہیں کہ’’وہ لوگ جو متواتر حصہ لیتےرہیں گے۔ وہ وہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس کشف کے پورا کرنے والے ہیں۔جو اللہ تعالیٰ نےحضورعلیہ السلام کو۱۸۹۱ء میں دکھایا تھا۔جس میں پانچ ہزار سپاہی کا دیا جانا ظاہر کیا گیا تھا۔ پس مبارک ہیں وہ جو اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان پانچ ہزار سپاہیوں کا نام ادب و احترام سے تاریخ اسلام میں ہمیشہ زندہ رہے گا‘‘۔
’’تحریک جدید کا جہاد کبیر وہ شان رکھتا ہے۔ کہ اس میں اخلاص سے حصہ لینے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا مقام عطا فرمائے گا۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں۔ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء کے لیے اور اس کے جھنڈے کے بلند رکھنے کے لیے اس میں حصہ لیا۔ اور یہی وہ پانچ ہزاری فوج ہے۔ جو حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے پورا کرنے میں حصہ لے رہی ہے‘‘۔(تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین: مرتبہ چوہدری برکت علی خان صاحب۔ صفحہ۱۶تا۲۱)
خاندانی پس منظر
ماسٹر عبد الکریم صاحب کے والد میاں امام دین صاحب ولد میاں الٰہی بخش اندازاً ۱۸۲۷ءکےلگ بھگ ہندوستان کی ریاست پنجاب کے ضلع جالندھر کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’گہلن‘‘میں پیدا ہوئے اور یہیں ۱۹۱۷ءمیں بعمر نوّے سال وفات پائی۔ گہلن تحصیل، نکودر سے بائیس کلومیٹر، جالندھر سے چھیالیس کلومیٹر اور قادیان سے تقریباً ایک سو ۲۹ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آپ گو خود احمدیت قبول کرنے کا شرف حاصل نہ کر سکے لیکن حضرت مسیح موعودؑسے بدرجہا محبت رکھتے تھے۔اپنے ہاتھ سے خاص کپڑا بنا کر کپورتھلہ اپنے عزیزوں کے ہاں لےجاتے تھے جو وہاں رہائش پذیر تھے اور کپورتھلہ کے احمدیوں کے ہاتھ یہ کپڑا حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بطور تحفہ بھجواتے تھے۔شاید اسی عقیدت کا اجر تھا کہ بعد میں آپ کی زوجہ اور نسل کو بفضلہ تعالیٰ احمدیت قبول کرنےکی سعادت حاصل ہوئی۔ طاعون کے زمانہ میں اس خاندان کے کسی بھی فرد کو خواہ اُس نے بعد میں احمدیت قبول کی یا محروم رہا باوجود طاعون کی گلٹیاں نکلنے کے موت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ آپ نے تین یا چار شادیاں کی تھیں لیکن اولاد صرف محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ سے ہوئی جنہیں ۱۹۲۰ء کے ابتدائی سالوں میں اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ قبول احمدیت کی توفیق ملی اور نظام وصیت میں بھی شمولیت کی توفیق ملی۔ آپ جنوری۱۹۳۴ء میں بعمر نوّے سال بمقام گہلن وفات پا گئیں،بوجوہ جنازہ قادیان نہ لے جایا جا سکا لیکن یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب ہے۔ میاں الٰہی بخش اور محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کو اللہ نے تین بیٹوں میاں عبد الرحیم صاحب، منشی عبدالکریم رازی صاحب اور حافظ محمد عبداللہ صاحب سے نوازا اور سب کو حضرت مصلح موعودؓکے ابتدائی دورمیں قبول احمدیت کی توفیق ملی جبکہ ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی جن کے کوائف معلوم نہیں ہیں ماسوائے اس کے کہ ان کی شادی ایک مولوی صاحب سے ہوئی تھی لیکن یہ قبول احمدیت سے محروم رہیں اور یوں یہ باقی خاندان سے کٹ گئیں۔ خاندان میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق سب سے چھوٹے بیٹے حافظ محمد عبد اللہ صاحب کو ملی جنہوں نے ۱۹۱۸ء میں بیعت کی۔ آپ موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ سب سے بڑے بیٹے میاں عبدالرحیم صاحب وجیہ اور لمبے قد کے تھے اور دونوں چھوٹے بھائیوں کی طرح زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بہت عبادت گزار اور پرہیز گار تھے اور زمیندارہ کر کے گزر بسر کرتے تھے۔گاؤں کے سب لوگوں کو گو معلوم تھا کہ یہ احمدی ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی آپ کے پاس دم کروانے آتے رہتے تھے۔ آپ ۱۹۵۳ء میں اوکاڑہ شہر میںفوت ہوکر وہیں مدفون ہوئے ۔
ماسٹر عبدالکریم رازی ولدمیاں امام الدین ولد میاں الٰہی بخش (پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۳):قوم شیخ انصاری، ۱۸۸۸ءمیں گہلن ضلع جالندھرمیں پیدا ہوئے۔ روایت ہے کہ آپ کے آباءو اجداد عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان میں قیام پذیر ہوئے اس لیے شیخ انصاری کہلائے۔ ۱۹۱۲ء میں آپ کی شادی محترمہ فتح بی بی کے ساتھ ہوئی جو کہ آپ کے رشتہ داروں میں سے تھیں۔ آپ کے والد کی وفات کے بعد آپ کی والدہ نے باقی عمر آپ کے پاس ہی گذاری نیز اپنے والد کی وفات کے بعد تمام خاندان کی کفالت کی ذمہ داری بھی آپ کے ذمہ رہی۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی کو قرآن کریم حفظ کرنے، پڑھائی مکمل کرنے اور بعد ازاں عملی زندگی شروع کرنے میں بہت سہولت بہم پہنچائی۔ چھوٹے بھائی حافظ محمد عبد اللہ صاحب کے ذریعے احمدیت خاندان میں آ چکی تھی نیز والد صاحب کی حضرت مسیح موعودؑ سے عقیدت کی وجہ سے احمدیت کا تعارف تو پہلے سے تھا ہی غالباًان اثرات سےنیز خاندان کی روایات کے مطابق محترم ابو العطاء صاحب جالندھری کی تبلیغ سے، جن کے ساتھ آپ کا بہت اچھا تعلق تھا، اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی میاں عبد الرحیم صاحب اور بیوی بچوں سمیت اندازاً ۱۹۲۰ء کے ابتدائی سالوں میں حلقہ بگوشِ اسلام احمدیت ہوئے۔ آپ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک رہے اور مقامی سکول میں سکول ٹیچر تھے۔
خلافت اور قادیان سے محبت
بچوں کی تربیت کے خیال کا یہ عالم تھا کہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے قادیان بھجواتے تھے۔ آپ کے ہاں نو بچوں کی ولادت ہوئی جن میں سے سب سے بڑا بیٹا بچپن میں بعمر گیارہ سال فوت ہو گیا اس کے علاوہ دو جڑواں بہنوں میں سے ایک پیدائش کے بعد فوت ہو گئی نیز تین بچوں کی اکٹھی پیدائش ہوئی جن میں سے دو جانبر نہ ہو سکے۔ جب ۱۹۳۴ءمیں احراری فتنوں کے مقابل حضرت مصلح موعودؓ نے الٰہی منشا پر تحریکِ جدید کی بنیاد رکھی تو محترم ماسٹر عبد الکریم صاحب اپنی اہلیہ فتح بی بی صاحبہ اور اپنی سب زندہ اولاد ’’صوبیدار عبدالحمید رازی‘‘، ’’برکت النساء ‘‘، ’’سردار محمد رازی‘‘،’’مولانا عبدالرشید رازی مربی سلسلہ‘‘ و ’’مجید الدین رازی‘‘ کے ہمراہ اس بابرکت تحریک میں شامل ہو گئے۔ احمدیت اور خلیفۂ وقت حضرت مصلح موعودؓ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا اور خدمتِ دین کے لیے ہر دم تیار رہتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی خلافت سے محبت و اطاعت نیز تحریکِ جدید میں قربانیوں کے باعث ایک مکتوب میں آپ کو ’’رازی‘‘ نام عطا فرمایا یعنی جو راز سمجھ گیا ہو۔ یہ نام آپ نے بطور سعادت آخرتک اپنے نام کے ساتھ استعمال کیا اور آپ کے سب بیٹوں نے بھی اور اب اگلی نسلیں بھی ’’رازی‘‘ کو اپنے نام کے ساتھ لگاتی ہیں۔
تحریکِ جدید کے ابتدا ئی دس سال ختم ہو ئے تو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دفتر اول کے مجاہدین کو اپنے دستخط سے مطبوعہ اسناد عطا فرما ئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد ہشتم۔ صفحہ ۱۰۳)
خاندان کے پاس۱۹۴۴ءمیں جاری کردہ پہلے دس سال مکمل ہونے پر تمام سالوں کے چندہ ادا ئیگی پر موصول سرٹیفکیٹ موجود ہیں جس پر حضرت مصلح موعودؓکے ثبت شدہ دستخط کے علاوہ آپؓ کی طرف سے دعا ئیں موجود ہیں۔
’’۲۲ نبوت۱۳۲۳ء ھش
حبی فی اللہ عبدالکریم صاحب اول مدرس بھلّووال۔حلقہ جالندھر
السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے تحریک جدید کے دور اول کے پہلے دس سال کا چندہ بہ تمام و کمال ادا کر دیا ہے جس کی تفصیل دفتر کے ریکارڈ کے رُو سے مندرجہ ذیل ہے۔…
اس پر میں آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو جزا ئے خیر دے اور آپ نے تبلیغ اسلام کی مستقل بنیاد رکھنے میں جو قربانی کی ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما ئے اور اسلام اور احمدیت کے لیے جن اہم قربانیوں کی آئندہ ضرورت پیش آ ئےاللہ تعالیٰ ان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی آپ کو توفیق بخشے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ آپ کے اور آپ کی نسل کے ساتھ رہے۔ آمین۔ والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی‘‘
محترمہ فتح بی بی صاحبہ اہلیہ ماسٹر عبدالکریم رازی صاحب (پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۳): آپ اپنے شوہر کے ہمراہ ہی داخلِ سلسلہ ہو ئیں اور ان کے ساتھ ہی خلیفہ وقت کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے تحریک جدید کے ابتدا ئی مجاہدین میں شامل ہو ئیں، آپ کو اپنی ساس صاحبہ جو کہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے بیٹے محترم ماسٹر صاحب کے ساتھ رہیں کی بہت خدمت کی توفیق ملی نیز آپ نے اپنے جیٹھ کی زوجہ کے اپنے بچوں کی چھوٹی عمر میں ہی وفات پا نے کے بعد ان کے بچوں کو ماں کی طرح پالا۔ آپ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ۱۹۶۷ء میں وفات کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہو ئیں۔
صوبیدار عبدالحمید رازی صاحب(پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۷): خاکسار کے نانا جان جو کہ ماسٹر عبدالکریم صاحب کے سب سے بڑے بیٹے تھے کی پیدائش ۱۹۱۷ءمیں ہوئی۔جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو آپ اس وقت اپنی بیگم محترمہ امۃالسلام صاحبہ (وصیت نمبر ۷۶۰۲، مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ)اور اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ کلکتہ میں تعینات تھے۔آپ کو فوج کی طرف سے کمیشن کی پیشکش اس شرط کے ساتھ کی گئی کہ آپ کو مشرقی پاکستان بھیجا جا ئے گا۔آپ نے یہ پیشکش اس لیے قبول نہیں کی کہ آپ کے والدین، بہن بھا ئی و دیگر عزیز و اقارب مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر میں مقیم تھے اور یہ علاقہ بھارت کا حصہ بننے والا تھا۔ آپ فوج سے چھٹی لے کر اپنے آبا ئی علاقہ میں آ ئےاور ان تمام لوگوں کی پاکستان بحفاظت منتقلی کا انتظام کیا۔ آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو عزیز رشتہ داروں سے حسن سلوک تھا، ان کی راولپنڈی کی رہائش گاہ میں شاید ہی کو ئی رشتہ دار ہو جو تھوڑا یا زیادہ عرصہ مقیم نہ رہا ہو۔ آپ کو اللہ نے تین بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا جو الحمدللہ سب حیات ہیں اور آجکل دنیا کے مختلف حصوں میں آباد ہیں۔ آپ نے ۱۹۸۹ء میں کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد وفات پائی اور احمدیہ قبرستان اسلام آباد میں دفن ہو ئے۔
برکت النساء صاحبہ بنت ماسٹر عبدالکریم صاحب(پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۵): آپ ۱۹۲۲ءمیں گہلن میں ایک اَور لڑکی رحمت النساء کے ساتھ جڑواں پیدا ہو ئیں لیکن وہ پیدائش کے کچھ عرصہ بعد فوت ہو گئی۔ آپ کی شادی ۱۹۴۲ء میں صادق پور ضلع جالندھر میں چودھری رحمت اللہ صاحب سے ہوئی اور پاکستان بننے کے بعد کراچی میں رہا ئش پذیر ہو ئیں۔ آپ کی پہلی بیٹی پیدائش کے تین سال بعد فوت ہو گئی جبکہ دوسری بیٹی کی پیدا ئش تب ہو ئی جب تمام خاندان پاکستان کی جانب ہجرت کر رہا تھا اور راستے میں نامساعد حالات کے باعث بیٹی جانبر نہ ہو سکی۔ آپ موصیہ تھیں، لیکن ۱۹۶۱ء میں آپ کی وفات کے بعد بوجوہ آپ کو تدفین کے لیے ربوہ نہیں لے جایا جا سکا، اور یوں آپ کراچی میں ہی مدفون ہیں، جبکہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں یادگاری کتبہ نصب ہے۔
سردار محمد رازی صاحب(پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۶): آپ ۱۹۲۶ءمیں پیدا ہو ئے اور ۱۹۹۰ء میں کو ئٹہ میں فوت ہوکر احمدیہ قبرستان کو ئٹہ میں ہی دفن ہو ئے۔ آپ کے ساتھ دو اور لڑکوں کی پیدا ئش بھی ہو ئی تھی مگر نسبتاً سب سے کمزور ہونے کے باوجود آپ حیات رہے اور باقی دو کی وفات ہو گئی۔ آپ کی انوری بیگم صاحبہ سے شادی ہو ئی جن سے آپ کے ہاں تین بیٹوں اور ایک بیٹی کی ولادت ہو ئی۔
مولانا عبد الرشید رازی صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ (پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۸): آپ ۱۹۳۲ءمیں جالندھر میں پیدا ہوئے اور والد صاحب نے پرائمری تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے قادیان بھجوا دیا۔ آپ نے آٹھویں جماعت کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات سےمتاثر ہو کر اپنے والد ماسٹر عبدالکریم صاحب کو خط لکھا کہ میں زندگی وقف کرنا چاہتا ہوںآپ مجھے آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل کروا دیں۔ والد صاحب نے جنہیں قادیان اور حضرت مصلح موعودؓ سے عشق تھا، بخوشی ان کی خواہش پوری کی۔ ۱۹۵۲ء میں آپ جامعۃ المبشرین سے شاہد کر کے باقاعدہ میدان عمل میں آ ئے۔آپ دسمبر ۱۹۵۷ء میں اپنی پہلی بیرون ملک تقرری پر گھاناروانہ ہو ئے۔ دوسری تقرری آپ کی تنزانیہ میںہوئی جہاں آپ اپنی اہلیہ حمیدہ بیگم صاحبہ بنت حافظ محمد عبداللہ صاحب کے ہمراہ گئے، اپنے سات سالہ قیام کےدوران سواحیلی زبان سیکھی نیز اپنی سماجی خدمات کے اعتراف میں حکومت تنزانیہ کی طرف سے تین سال تک جسٹس آف پیس مقرر ہوتے رہے۔ آپ ۱۹۷۴ءمیں تین سال کے لیے فجی متعین رہے نیز ایک لمبا عرصہ ۱۹۸۱ء تا۱۹۹۱ء آپ کو آ ئیوری کوسٹ میں بطور امیر و مشنری انچارج خدمات بجال لانے کی توفیق ملی۔
حضورِانور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ان کا ذکر کرتے ہو ئے فرمایا ’’دو وفاتوں کی افسوسناک اطلاع ہے جن کے جنازے ابھی مَیں جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا…دوسرے بھی ہمارے واقفِ زندگی مبلغ مکرم عبدالرشید رازی صاحب جو ۲۹؍ستمبر کو آسٹریلیا میں ۷۶ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ بھی تحریکِ جدید میں اور آئیوری کوسٹ، تنزانیہ، فجی اور گھانا میں مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے۔ بڑے سادہ مزاج آدمی تھے اور تقریباً سال پہلے ہی اپنے بیٹے کے پاس آسٹریلیاجا کر آباد ہونے کا خیال تھا۔ ابھی ان کامعاملہ پراسس میں ہی تھا کہ وفات ہو گئی۔ ان کو اچانک ایک کینسر ڈائیگنوز (Diagnose) ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کو صبر اور حوصلہ دے۔ ان کی تدفین سڈنی میں ہی عمل میں آئی ہے۔‘‘
مجید الدین رازی صاحب(پانچ ہزاری کوڈ۳۹۱۹): آپ ۱۹۳۴ءمیں نکودر ضلع جالندھرمیںپیدا ہوئے اور ۲۰۰۳ءمیں وفات پا کر احمد باغ( احمدیہ قبرستان راولپنڈی) میں مدفون ہو ئے۔ آپ کی رشیدہ بیگم صاحبہ سے شادی ہو ئی جن سے آپ کے ہاں تین بیٹیوں کی ولادت ہو ئی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام مجاہدین کی اولادوں اور نسلوں کو قیامت تک خلافت سے وابستہ رکھے اور ان کا متکفل ہو اور دین اسلام احمدیت کا خادم بنائے ۔ آمین
نوٹ: خاکسار اپنے ماموں عبد القادر رازی صاحب کا بہت شکر گزار ہے جن کےپاس موجود تاریخی خاندانی روایات و معلومات نے اس مضمون کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔