اختتامی خطاب امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ یوکے فرمودہ 15ستمبر 2019ء
کیا ہم انصار اللہ کہلاتے ہوئے اپنی زندگیاں حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد میں ترقی کے ساتھ مجلس انصار اللہ کی بھی ترقی ہو رہی ہے اور اعدادو شمار کے مطابق مختلف پروگراموں میں اور مختلف ایکٹویٹیز میں مجلس انصار اللہ کے ممبران کی نمائندگی بھی بڑھ کر نظر آتی ہے لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ انصار اللہ کو یا مجلس انصار اللہ کے ممبران کو جو حقیقی جائزہ اپنا لینا چاہیے وہ اس پر لینا چاہیے کہ کیا ہم انصار اللہ کہلاتے ہوئے اپنی زندگیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ جب تک ہم ایک فکر کے ساتھ اس بات کی تلاش نہیں کریں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کی روشنی میں جو حقیقتاً قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اپنا لائحہ عمل ترتیب دے کر بار بار اس کا جائزہ نہیں لیں گے ہم اپنی زندگیاں اس تعلیم کی روشنی میں ڈھال نہیں سکتے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ بار بار ہمارے سامنے ایک ہی طرح کی بعض باتیں دہرائی جاتی ہیں۔ بعض دفعہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض حوالے بار بار پیش کرتا ہوں۔ اس سے شاید کوئی یہ خیال کرے بلکہ بعض یہ خیال کرتے بھی ہیں کہ کیا ان حوالوں سے باہر ہمیں نکلنا بھی ہے کہ نہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ہر مضمون پر بے شمار لکھا۔ ہر قسم کے حوالے موجود ہیں۔ قرآن کریم کی ایک تفسیر ہے جو آپؑ کے ارشادات میں ہمیں ملتی ہے، آپؑ کی کتب میں ملتی ہے لیکن بعض باتیں ایسی ہیں جو بنیادی ہیں اور جنہیں بار بار ہمیں اپنے سامنے لاتے رہنا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ کیا ہم میں سے اسّی فی صد نے ان باتوں پر عمل کرنا شروع کر دیا ہےجو آپ کے سامنے بار بار لائی جاتی ہیں؟ ا ور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھال رہے ہیں جو مختلف مواقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جن کی بار بار ہمیں نصیحت فرمائی اور جو ہمارے سامنے پیش فرمائے؟ یا اسّی فی صد تو بڑی بات ہے ساٹھ فی صد یا پچاس فی صد یا چالیس فی صد بھی اس پر عمل ہو رہا ہے جو ہم باتیں سنتے ہیں کہ ان پر عمل کریں۔ صرف اگر ہم باجماعت نماز کوہی لے لیں تو وہاں بھی ہمارے معیار جو ہیں بہت پیچھے ہیں بلکہ عہدیداروں کے بھی معیار بہت پیچھے ہیں۔ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو باوجود انصار اللہ کہلانے کے ہماری حالت قابل فکر ہے۔ آپ علیہ السلام تو ہر فردِ جماعت سے اعلیٰ معیار چاہتے ہیں کجا یہ کہ انصار اللہ کہلا کر اس طرف توجہ نہ دیں جو توجہ کا حق ہے۔ ہمارے نمونے ہی ہیں جو نوجوانوں کے لیے بھی صحیح سمت متعین کرنے والے ہوں گے۔ ہمارے نمونے ہی ہیں جو ہمارے بچوں کے لیے بھی رہ نما ہوں گے۔ ہمارے نمونے ہی ہیں جو معاشرے میں تبدیلیاں لانے والے ہوں گے۔ ہمیں اپنی عبادتوں کے معیاروں کو بھی دیکھنا ہو گا اپنے اخلاق کے معیاروں کو بھی دیکھنا ہو گا اور پھر عہدیداروں کو، ہر سطح کے عہدیداروں کو، ایک حلقے کے عہدیدار سے لے کے، ریجن کے عہدیداروں سے لے کے مرکزی عہدیداروں تک اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا جو انصار اللہ کا نام ہے ہم حقیقت میں اس نام کا پاس رکھ رہے ہیں؟ حقیقت میں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں؟ پس ہر ناصر خود اپنے یہ جائزے لے سکتا ہے۔ اب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں جو مزید ہمیں اس طرف توجہ دلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
‘‘میں کھول کر کہتا ہوں کہ جب تک ہر بات پر اللہ تعالیٰ مقدم نہ ہو جاوے اور دل پر نظر ڈال کر وہ نہ دیکھ سکے کہ یہ میرا ہی ہے۔’’ یعنی ایسا مقدم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ ذکر کرے کہ یہ بندہ جو ہے یہ میرا ہی ہے اور میرے احکام کی پیروی کر رہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا ‘‘اس وقت تک کوئی سچا مومن نہیں کہلا سکتا۔ ایسا آدمی تو آل (عُرف ِعام) کے طور پر مومن یا مسلمان ہے۔ جیسے چوہڑے کو بھی مصلی یا مومن کہہ دیتے ہیں۔’’ فرماتے ہیں ‘‘مسلمان وہی ہے جو اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ کا مصدا ق ہو گیا ہو۔ وَجْه منہ کو کہتے ہیں مگر اس کا اطلاق ذات اور وجودپر بھی ہوتا ہے۔ پس جس نے ساری طاقتیں اللہ کے حضور رکھ دیں ہوں وہی سچا مسلمان کہلانے کا مستحق ہے۔’’ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘مجھے یاد آیا کہ ایک مسلمان نے کسی یہودی کو دعوت اسلام کی کہ تو مسلمان ہو جا۔’’مسلمان جو تھا وہ فرمایا کہ ‘‘مسلمان خود فسق وفجور میں مبتلا تھا۔’’ برائیوں میں مبتلا تھا۔ ‘‘یہودی نے اس فاسق مسلمان کو کہا کہ تو پہلے اپنے آپ کو دیکھ’’ مجھے جو تبلیغ کر رہا ہے ‘‘اور تو اس بات پر مغرور نہ ہو کہ تو مسلمان کہلاتا ہے۔ خدا تعالیٰ اسلام کا مفہوم چاہتا ہے نہ نام اور لفظ۔ یہودی نے اپنا قصہ بیان کیا’’ اس مسلمان کو ‘‘کہ میں نے اپنے لڑکے کا نام خالد رکھا تھا مگر دوسرے دن مجھے اسے قبر میں گاڑنا پڑا۔’’ دوسرے دن فوت ہو گیا۔ خالد کا مطلب ہمیشہ رہنے والا ہے۔ کہنے لگا کہ ‘‘اگر صرف نام ہی میں برکت ہوتی تو وہ کیوں مرتا۔ اگر کوئی مسلمان سے پوچھتا ہے کہ کیا تو مسلمان ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے۔الحمد للّٰہ۔’’ لیکن صرف نام کے مسلمان۔ پس آپؑ نے اپنی جماعت کو فرمایا کہ تم نام کے مسلمان نہ بنو۔
پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ لفّاظی کہیں کام نہیں آتی، باتیں کام نہیں آتیں بلکہ عمل ہیں جو کام آتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘پس یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لَسّانی کام نہیں آسکتی جب تک کہ عمل نہ ہو۔ محض باتیں عندا للہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے
كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ ۔‘‘
(الصف:4)(ملفوظات جلد اول صفحہ 76-77)
کہ اللہ کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا جو تم کرتے نہیں بہت ناپسندیدہ بات ہے۔
پس ہمیں اس بات کے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے قول و فعل برابر ہیں، نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰهِ یعنی ہم اللہ کے انصار ہیں کا دعویٰ ہمارے عمل سے ثابت ہے یا نہیں؟ہم اسلام کو دنیا میں پھیلانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کو پورا کرنے کے لیے ہماری اپنی کوشش اور حالت کیا ہے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
‘‘اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہو تو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو اور پھر تم اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو’’ تمہیں اس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے قلعہ میں آؤ۔ فرمایا کہ ‘‘تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو۔’’تم تو بڑے دعوے کرتے ہو، مسلمانوں کی حالت آج کل تو اَور بھی زیادہ باہر ظاہر ہو رہی ہے۔ فرمایا کہ اگر تم احمدی ہو کے بھی یہی رہے تو پھر تو خاتمہ ہی سمجھنا۔ فرمایا کہ ‘‘تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاویں۔ بد کاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔’’ فرمایا کہ بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمان جو ہیں وہ تو اسلام کو داغ لگانے والے ہیں۔ فرمایا ‘‘کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قَے کرتا پھرتا ہے۔ پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔ موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔ پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔ اس کا ایسا خلاف شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفس اسلام تک پہنچتا ہے۔’’ ایک شخص کا عمل جو ہے وہ اسی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات پھر اسلام تک پہنچتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ مسلمان ہے دعویٰ یہ کرتا ہے عمل یہ کرتا ہے۔ فرمایا ‘‘……اپنی بداعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں۔’’ پھر فرمایا ‘‘…… پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفار کو بھی تم پر (جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 77-78)
پھر اپنے اخلاق اور عملی حالتوں کو بہتر کرنے کی نصیحت فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
‘‘اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاحِ دارَین حاصل ہو’’ ہمیشہ کی فلاح حاصل ہو، دونوں جہانوں کی فلاح حاصل ہو ‘‘اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو، عقل سے کام لو اور کلامِ الٰہی کی ہدایات پر چلو۔’’ کلامِ الٰہی کی ہدایات پر چلنے کے لیے، ان کو حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کو پڑھنا ضروری ہے۔ اسے سمجھنا ضروری ہے۔ نہ صرف ترجمہ بلکہ تفسیر جاننا بھی ضروری ہے۔ فرمایا کہ ‘‘خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ تب البتہ کامیاب ہو جاؤ گے۔کسی نے کیا اچھا کہا ہے ’’کہ ع
سخن کز دل بروںآید نشیند لاجرم بَر دل
کہ دل سے نکلی ہوئی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ فرمایا کہ ‘‘پس پہلے دل پیدا کرو۔ اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔’’ بڑی اہم بات ہے فرمایا کہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور انسانی قوت صرف باتیں یا کوئی اَور طاقت جو ہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ زبان سے قیل وقال کرنے والے تو لاکھوں ہیں۔ بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیا قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں کہتے ہیں کہ تکبر، غرور ، بد کاریوں سے بچو مگر جو ان کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں’’ وہ ایسی باتیں ہیں فرمایا کہ اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو ان نصیحت کرنے والوں کی باتوں کا اثر نہیں ہوتا ۔ اس لیے ہم میں سے ہر ایک کے لیے آپؑ نے فرمایا کہ تم نے اگر واعظ بننا ہے، تم نے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے تو ہر ایک کو اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہو گا تا کہ پھر دنیا پر بھی ہم اپنا اثر قائم کر سکیں۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں‘‘ اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے’’ جو یہ نصیحتیں کرتے ہیں اگر ان کی عملی طاقت بھی ہوتی ‘‘اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن شریف میں
لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔
(الصف:3)کہنے کی کیا ضرورت پڑتی؟ یہ آیت بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 67)
لیکن جو اللہ تعالیٰ کی نصیحتوں پر عمل کریں گے ان کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔ اپنی باتوں اور نصیحتوں پر عمل کرنے اور عقل اور کلامِ الٰہی سے کام لینے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
‘‘میری یہ باتیں اس لیے ہیں کہ تا تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو ان باتوں پر عمل کرو اور عقل اور کلامِ الٰہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندرپیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو۔ اس لیے کہ آج کل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے۔ اس لیے لازم ہواکہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں تا کہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 68)
آپ علیہ السلام نے بارہا نصیحت فرمائی کہ جو آپ علیہ السلام کی باتوں پر عمل کرنے و الے ہیں ان سے خدا تعالیٰ کا ترقی کا وعدہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ میرے ماننے والے علم و معرفت میں ترقی کریں گے۔ فرمایا یہ ان سے وعدہ ہے جو عمل کرنے والے ہیں نہ کہ ہر ایک جو کہے کہ میں مسیح موعود کی بیعت میں آگیا ہوں اور عمل نہیں ہے اس سے وعدہ ہرگز نہیں ہے۔ اگر عمل نہیں تو وعدہ بھی پورا نہیں ہو گا۔ ایک جگہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے
وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (آل عمران:56)۔
یہ تسلی بخش وعدہ ناصرت میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابنِ مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انھی الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وُہ وُہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجے میں پڑے ہوئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ انھیں کافروں پر فوقیت دے گا اور قیامت تک ان پر فوقیت دے گا جو صحیح اتباع کرنے والے ہیں۔ جو نہیں اتباع کرنے والے ان کو نہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدہ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کاربند ہیں؟ جن کے دل چھوٹی برائیوں اور بڑی برائیوں میں مبتلا ہیں ان کی اصلاح نہیں ہورہی۔ فرمایا نہیں، ہر گز نہیں۔ فرمایا کہ یہ وعدہ تو ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے۔ آپؑ فرماتے ہیں یاد رکھو اور دل سے سن لو۔ میں پھر ایک بار ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثرنہ صرف میری ذات تک بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس بر گزیدہ انسان کامل کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ہی ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پرواہ تھی مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صورت اور حالت میں تم خود دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو کہ قیامت تک تم فوقیت حاصل کرو کافروں پر اور اتنی بڑی کامیابی کہ قیامت تک کافرین پر غالب رہو گے اس کی سچی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی میں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ برائی ہوتی بھی ہے تو دل اس پے ملامت کرنا چاہیے اور پھر کوشش ہونی چاہیے اس کے لیے اور پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس وقت وہاں تک پہنچنا ہے جہاں اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو۔ اپنی نیکی اور تقویٰ کے معیار کو بڑھانا ہو گا، اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق ہمیں پیدا کرنا ہو گا۔ یہ نہیں کہ پانچ نمازیں بھی وقت پر نہ پڑھ سکیں اور اپنے کام کی مصروفیت کا بہانہ ہم کر دیں۔ آپؑ فرماتے ہیں اس سے زیادہ اور میں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تاکہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 103 تا 105)
ایک موقعےپر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ ہر احمدی کو تقویٰ کی راہ اختیار کرنی چاہیے کیونکہ شریعت کا خلاصہ ہی یہ تقویٰ ہے آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘چاہیے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغز شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں لیکن اگر طالب صادق ہو کر ابتدائی مراتب اورمراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ۔(المائدہ:28)
گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں۔’’ یعنی اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں ‘‘تخلّف نہیں ہوتا۔’’ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا ۔ ‘‘جیسا کہ فرمایا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۔ (الرّعد:32)
پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر منفکّ شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔’’ تقویٰ تو شرط ہے اور اگر انسان غافل ہو اور پھر کہے میں نےقسمت سے آج ایک دعا کر لی تھی۔ آج میں نے بڑا لمبا سجدہ کر لیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں کیا تو اس کو کیا کہیں گے۔ فرمایا احمق اور نادان ہے وہ، بےوقوف ہے پاگل ہے۔ فرمایا ‘‘لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 108-109)
پھر تزکیہ نفس اور تقویٰ اختیار کرنے کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں وہ ضائع کرنے کے لیے نہیں دئیے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے۔’’ ان کو ٹھیک طرح صحیح موقع پر استعمال کرنا اور جائز اس کا استعمال کرنا یہی اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ ‘‘اسی لیے اسلام نے قوائے رجولیت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی۔’’ انسان کے مرد عورت کے تعلقات کے جو قویٰ ہیں ان کو ضائع کرنے کے لیے نہیں کہا یا آنکھ کو نکالنے کے لیے نہیں کہا کہ بدنظری نہ کرو ‘‘بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کروایا جیسے فرمایا
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المومنون:2)
اور ایسے ہی یہاں بھی فرمایا۔ متّقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا
وَاُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔(البقرہ:6)
یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں۔ ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ نماز ڈگمگاتی ہے پھر اسے کھڑا کرتے ہیں۔ خدا کے دئیے ہوئے سے دیتے ہیں۔ باوجود خطراتِ نفس بلا سوچے گذشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جا رہی ہے۔’’پس یہ یقین پیدا کرنا ہو گا جو آگے تک لے جاتا چلا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہو گا۔ ایمان بالغیب کرنا ہو گا ۔‘‘اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے۔’’ پھر کامیابیاں حاصل ہو جائیں گی ۔ فرمایا ‘‘پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں۔ اس لیے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دئیے۔
سو ہماری جماعت یہ غم کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے۔’’ فرمایا سو ہماری جماعت یہ غم یعنی تقویٰ حاصل کرنے کا غم، اللہ تعالیٰ سے ملنے کا غم، فکر ،غم سے مراد ہے فکر، کل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے ‘‘کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں۔’’ پس آپ علیہ السلام ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف اس میں توجہ دلا رہے ہیں اور ہم یہ خود ہی اپنے جائزے لے سکتے ہیں۔ پھر اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ تقویٰ والے کون لوگ ہیں اور جس کے دل میں تقویٰ ہو اسے اپنی زندگی کس طرح بسر کرنی چاہیے فرماتے ہیں:
‘‘اہلِ تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔‘‘فرمایا ’’عجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔’’نخوت یا تکبر اور غرور جو ہے یہ غضب سے، غصہ میں جو انسان آتا ہے اس وقت پیدا ہوتا ہے ‘‘اور ایسا ہی کبھی خود غضب ،عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔’’ یہ بڑی قابل غور بات ہے۔ فرمایا کہ ‘‘بعض آدمی بڑوں کومل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں۔’’ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بڑوں سے مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں، بڑی عزت کرتے ہیں، بڑا احترام کرتے ہیں۔ فرمایا ‘‘لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔’’اصل بڑائی تو یہ ہے کہ کمزور اور کم طاقت والا جو ہے اس کی بات کو سنو ،غریب کی بات کو سنو ،مسکین کی بات کو سنو۔ فرمایا کہ یہی جڑ ہے عاجزی کی اور یہی بنیاد ہے عاجزی کی۔ اس پے قائم ہو گے تو تبھی کہہ سکتے ہیں کہ تقویٰ پیدا ہوا ہے اور اس کے لیے آپؑ نے فرمایا کہ غریب کی بات سنو ‘‘اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (الحجرات:12)
تم ایک دوسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فساق و فجار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چِڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ۔‘‘
(الحجرات:14)۔(ملفوظات جلد اول صفحہ 35-36)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو زیادہ متقی ہے۔ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف سے رجوع کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔ اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نورِ الٰہی سے دیکھتا ہے۔ صحیح فراست اور حقیقی دانش …… کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو۔’’
فرمایا ‘‘اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو ۔تو عقل سے کام لو ۔فکر کرو ۔سوچو ۔تدبر اور فکر کے لیے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں۔ کتاب مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پارسا طبع ہو جاؤ۔ جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ (آل عمران:192)
تمہارے دل سے نکلے گا اس وقت سمجھ میں آ جائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں۔’’ جو تم نے بنایا ہے یہ جھوٹ نہیں ہے، بے فائدہ نہیں بنایا ‘‘بلکہ صانعِ حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تا کہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 66)
پس تقویٰ ہو گا تو دینی علوم کے ساتھ دنیوی علوم کے بھی راستے کھلیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی راستے دکھائے گا۔ ان کا بھی ادراک حاصل ہو گا اور اس سے پھر علم و معرفت میں بھی ترقی ہو گی۔ راستبازی اور تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘ذرا سوچو اورسمجھو خدا کے واسطے عقل سے کام لو اور اس لیے کہ عقل میں جودت اور ذہانت پیدا ہو راستباز اور متقی بنو۔پاک عقل آسمان سے آتی ہے اور اپنے ہمراہ ایک نور لاتی ہے لیکن وہ جو ہر قابل کی تلاش میں رہتی ہے۔ اس پاک سلسلہ کا قانون وہی قانون ہے جو ہم جسمانی قانون میں دیکھتے ہیں۔ بارش آسمان سے پڑتی ہے لیکن کوئی جگہ اس بارش سے گلزار ہوتی ہے اور کہیں کانٹے اور جھاڑیاں ہی اگتی ہیں اور کہیں وہی قطرہ بارش سمندر کی تہہ میں جا کر ایک گوہر شہوار بنتا ہے۔ بقول کَسے ع
در باغ لالہ روید در شورہ بُوم خس‘‘
کہ وہ (بارش) باغ میں تو پھول اگاتی ہے اور بنجر میں گھاس پھوس اگاتی ہے۔ پھر اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اگر زمین قابل نہیں ہوتی تو بارش کا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ الٹا ضرر اور نقصان ہوتا ہے۔ اسی لیے آسمانی نور اترا ہے اور وہ دلوں کو روشن کرنا چاہتا ہے۔ اس کے قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہو جاؤ تا ایسا نہ ہو کہ بارش کی طرح کہ جو زمین جوہر قابل نہیں رکھتی۔’’ جس میں خاصیت ہی نہیں جو بنجر زمین ہے ‘‘وہ اس کو ضائع کر دیتی ہے۔ تم بھی باوجود نور کی موجودگی کے تاریکی میں چلو۔’’ بارش تو ہو رہی ہے لیکن اگر زمین اچھی نہیں تو تاریکی میں چلو گے۔ نور موجود ہے، نور سے فائدہ نہیں اٹھا سکو گے ‘‘اور ٹھوکر کھا کر اندھے کنوئیں میں گر کر ہلاک ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ مادرِ مہربان سے بھی بڑھ کر مہربان ہے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی مخلوق ضائع ہو۔ وہ ہدایت اور روشنی کی راہیں تم پر کھولتا ہے مگر تم ان پر قدم مارنے کے لیے عقل اور تزکیہ نفوس سے کام لو۔ جیسے زمین کہ جب تک ہل چلا کر تیار نہیں کی جاتی تخم ریزی اس میں نہیں ہوتی اسی طرح جب تک مجاہدہ اور ریاضت سے تزکیہ نفوس نہیں ہوتا پاک عقل آسمان سے اتر نہیں سکتی۔
اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور اپنے دین اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت کھا کر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا۔’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اپنے بارے میں کہ میں وہ انسان ہوں جو اللہ تعالیٰ نے غیرت کھا کر بھیجا ہے ‘‘تاکہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے لیے جس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر’’ ہے۔ ہر طرف دائیں بائیں ہر جگہ دیکھو اسلام کو ختم کرنے کی فکر میں، معدوم کرنے کی فکر ‘‘میں جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں۔’’ فرماتے ہیں ‘‘مجھے یاد ہے اور براہین احمدیہ میں بھی مَیں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑکتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں۔’’ فرمایا کہ ‘‘عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ ’’ ہے۔ اُس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد چھےکروڑ تھی۔ ‘‘اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر ہے۔ اگر اس زیادتی تعداد کو جو اب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔’’ اور اب تو صرف کتابیں نہیں بلکہ ہر قسم کے میڈیا کے ذریعہ سے اسلام کو بدنام اور ختم کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس لیے اب ہماری سب سے بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اسلام کو سمجھیں اپنی حالتوں کو بہتر کریں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں اور حقیقی اسلام دنیا کو دکھانے کے لیے میدان میں اتریں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت میں نہ ہوتا اور اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ اس کا وعدہ صادق نہ ہوتا تو یقینا ًسمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا۔ اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا مگر نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے۔’’اسلام کی حفاظت کر رہا ہے۔ فرمایا ‘‘مجھے افسوس اور رنج اس امر کا ہوتا ہے کہ لوگ مسلمان کہلا کر ناطے بیاہ کے برابر بھی تو اسلام کا فکر نہیں کرتے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 72-73)
اپنے اخلاق کو عمدہ اور اعلیٰ معیار پر لے جانے کی نصیحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لیے کوشش کرنے والے ہوں۔ یہ ایک امرِ واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑکو جگہ سے ہٹا سکے۔ نہیں نہیں۔ اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیلِ اخلاق پر مقدرت پاوے۔ پس یادرکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیلِ اخلاق میں صَرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 140)
فرمایا کہ‘‘ بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی جو حقیقی خوشی کا موجب ہے حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عارضی تکلیفیں برداشت نہ کی جاویں۔ خدا ٹھگا نہیں جا سکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو رضائے الٰہی کے حصول کے لیے تکلیف کی پروا نہ کریں کیونکہ ابدی خوشی اور دائمی آرام کی روشنی اس عارضی تکلیف کے بعد مومن کو ملتی ہے۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 76)
توبہ اور عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘اس لیے اس سےپیشتر کہ عذاب الٰہی آکر توبہ کا دروازہ بندکردے توبہ کرو۔ جب کہ دنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں۔ جب بلا سر پر آپڑے تو اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے۔اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی باتوں سے توبہ کریں۔ توبہ سے یہ مراد ہے کہ ان تمام بد کاریوں اور خدا کی نارضا مندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔ عادات انسانی کو شائستہ کریں۔ غضب نہ ہو۔ تواضع اور انکسار اس کی جگہ لے لے۔ اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔
یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا الخ (الدھر:9)
یعنی خدا کی رضا کے لیے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔
قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے۔’’(ملفوظات جلد اول صفحہ 208)
پھر فرمایا (انصار اللہ کے لیے خاص طور پر)
‘‘راتوں کو اٹھواور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے ایک کسان کی تخم ریزی کی طرح تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آب پاشی کی۔ آپؐ نے ان کے لیے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آب پاشی سے پھل عمدہ نکلا ۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو تہجد میں اٹھو ۔دعا کرو ، دل کو درست کرو ۔کمزوریوں کوچھوڑ دو۔ اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول وفعل کوبناؤ۔ یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو ورد بنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے گا اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائیگا ۔اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا ۔اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔ خدا تعالیٰ سے ناامیدمت ہو۔
بر کریماں کارہا دشوار نیست۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 45)
کہ نیک لوگوں کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا۔ پھر بڑے درد سے نصیحت کرتے ہوئے اور آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
‘‘پس میں پھر پکار کر کہتا ہوں اور میرے دوست سن رکھیں کہ وہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں اور ان کوصرف ایک قصہ گویا داستان کی کہانیوں ہی کا رنگ نہ دیں بلکہ میں نے یہ ساری باتیں نہایت دل سوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہے کی ہیں۔ ان کو گوش دل سے سنو اور ان پر عمل کرو!
ہاں خوب یاد رکھو اور اس کو سچ سمجھو کہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے۔ پس اگر ہم عمدہ حالت میں یہاں سے کوچ کرتے ہیں تو ہمارے لیے مبارکی اور خوشی ہے ورنہ خطر ناک حالت ہے۔’’
انصار کی عمر تو ایسی ہوتی ہے کہ ان کو تو بڑی فکر رہنی چاہیے۔ فرمایا: ‘‘یاد رکھو کہ جب انسان بری حالت میں جاتا ہے تو مکان بعید اس کے لیے یہیں سے شروع ہو جاتا ہے یعنی نزع کی حالت ہی سے اس میں تغیر شروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰى ۔ (طٰہٰ :75)
یعنی جو شخص مجرم بن کر آوے گا اس کے لیے ایک جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔ یہ کیسی صاف بات ہے۔ اصل لذّت زندگی کی راحت اور خوشی ہی میںہے۔’’
اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَنَّمَ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰى۔
جو مجرم بن کے آئے گا اس کے لیے ایک جہنم ہے اس میں نہ مرے گا نہ زندہ رہے گا۔ فرمایا کہ کیسی صاف بات ہے اصل لذت زندگی کی راحت اور خوشی ہی میں ہے ‘‘بلکہ اسی حالت میں وہ زندہ متصور ہوتا ہے جبکہ ہر طرح کے امن و آرام میں ہو۔ اگر وہ کسی درد مثلاً قولنج یا درد دانت ہی میں مبتلا ہو جاوے تو وہ مردوں سے بد تر ہوتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ تو مردہ ہی ہوتا ہے اور نہ زندہ ہی کہلا سکتا ہے۔ پس اسی پر قیاس کر لو۔’’ اسی کو سامنے رکھو جو ظاہری بیماریاں دنیا میں ہوتی ہیں اسی کو سامنے رکھ کر دیکھو ‘‘کہ جہنم کے درد ناک عذاب میں کیسی بری حالت ہو گی۔’’
(ملفوظات جلد اول صفحہ 142-143)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آپؑ کی خواہشات کے مطابق آپؑ کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے ہوں۔ حقیقی انصار اللہ بننے کی توفیق اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرمائے اور اپنی نسلوں کے لیے نیک نمونے چھوڑ کر جانے کی توفیق ہمیں اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہم حاصل کرنے والے ہوں۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)
(دعا کے بعد حضورِ انو رنے فرمایا) اجتماع کی حاضری کے بارے میں بتا دوں۔اس دفعہ کی حاضری جو ہے کُل انصار کی حاضری تین ہزار ایک سو سات ہے اور مہمان ایک ہزار پانچ سو پندرہ ہیں اس طرح کل حاضری یہاں اس وقت چار ہزار چھ سو بائیس (4622)ہے۔ انصار کی حاضری میں تیئس پرسنٹ کا اضافہ ہے اور لجنہ کی حاضری اُس وقت ان کے پاس پوری آئی نہیں تھی ، وہاں اعلان نہیں کیا تھا تو لجنہ کی حاضری جو اس وقت حاضری کے فائنل figure ہیں پانچ ہزار آٹھ سو بائیس 5822 ہے اور پچھلے سال سے یہ بھی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لجنہ نے بھی کافی کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بھی آگے بڑھنے کی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ۔
٭…٭…٭