تہجد میں خاص کراُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو
تہجد میں خاص کراُٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو۔درمیانی نمازوں میں بہ باعث ملازمت کے ابتلا آجاتا ہے۔ رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ نماز اپنے وقت پر ادا کرنی چاہیے۔ ظہر و عصر کبھی کبھی جمع ہو سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ضعیف لوگ ہوں گے۔ اس لئے یہ گنجائش رکھ دی۔ مگر یہ گنجائش تین نمازوں کے جمع کرنے میں نہیں ہو سکتی۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ہم یہ کہتے ہیں کہ جو خدا تعالےٰ کے حضور تضرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود و احکام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلال سے ہیبت زدہ ہوکر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصہ لےگا۔ اس لئے ہماری جماعت کو چاہیئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اُس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں۔ جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار کب ہو سکتا ہے؟ پس اس وقت کا اٹھنا ہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اورسوز دل میں نہیں کیونکہ نیند تو غم کو دُور کر دیتی ہے لیکن جبکہ نیند سے بیدار ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ کوئی درد اور غم نیند سے بھی بڑھ کر ہے جو بیدار کر رہا ہے۔
(ملفوظات جلد۳صفحہ ۲۴۵، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے۔ اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہوگیاہے ۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں۔ ناپاک دل کے لوگ ان کوکافر کہتے ہیں۔ اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔
(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ ۳۱۵ حاشیہ)