مکتوب افریقہ(اکتوبر۲۰۲۴ء)
(بر اعظم افریقہ تازہ حالات و واقعات کا خلاصہ)
گھانا میں سونے کی غیر قانونی کان کنی یعنی Galamsey سے ماحول اور پانی کو شدید خطرات
گھانا میں لاکھوں لوگ سونے کی غیرقانونی کان کنی میں ملوث ہیں۔ اس کو مقامی طور پر Galamsey کہتے ہیں۔ اس غیر قانونی کاروبار میں مقامی اور غیر ملکی لوگ شامل ہیں۔ یہ طریقہ کار ماحول اور دریائی پانی کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ گھانا میں ایک تحقیقاتی اور ماحولیاتی صحافی کے مطابق اس وقت ملک کے تمام دریا زہریلے کیمیکل مادوں سے انتہائی آلودہ ہیں۔ غیر قانونی کان کنی سے گھانا کی زرعی پیداوار اور صحت عامہ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گھانا کے فرانزک پیتھالوجسٹ پروفیسر پال پوکو سمپین چھوٹے پیمانے پر کان کنی کی تمام اقسام پر پابندی لگانے کے حامی ہیں۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ غیر قانونی کان کنی سے ہونے والا نقصان بد سے بدترہوتا جا رہا ہے۔بعض علاقوں میں سروے سے حاملہ خواتین کے رحم میں سائنائیڈ، سنکھیا اور پارے جیسی بھاری دھاتوں کی موجودگی کا پتا لگا ہے، جن کی وجہ سے بچے پیدائشی نقائص کا شکار ہو جاتے ہیں۔قومی سطح پر اس کے خلاف آوازیں اٹھائے جانے کے باوجود غیر قانونی کان کنی جاری ہے۔ملکی صدر Nana Akufo-Addo نے ۲۰۱۷ء میں عہدہ سنبھالنے کے بعد Galamsey ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن متعدد حکومتی اقدامات کے باوجود غیر قانونی کان کنی روکنےکے حوالے سے اقدامات کا نفاذ کمزور ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والے طاقتور سیاسی اور حکومتی حلقے اس میں ملوث ہیں۔
مئی میں ایک سوئس این جی او نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہر سال اربوں ڈالر مالیت کا سونا افریقہ سے اسمگل کیا جاتا ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ دبئی کے ذریعے دنیا بھر میں منتقل کیا جاتا ہے۔ دبئی افریقی سونے کی تجارت کا بین الاقوامی مرکز ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ۳۲۱؍ٹن سے لے کر ۴۷۴؍ٹن تک افریقی سونا، جو چھوٹے پیمانے پر غیرقانونی کان کنی کے نتیجے میں حاصل کیا جاتا ہے، دبئی کے ذریعہ غیراعلانیہ طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔اس کی مالیت ۲۴؍ سے ۳۵؍بلین ڈالر تک بنتی ہے۔ این جی او کے مطابق افریقی سونے کی اسمگلنگ ۲۰۱۲ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور یہ مزید بڑھ رہی ہے۔۲۰۲۲ء میں افریقہ سے متحدہ عرب امارات میں درآمد کیا گیا ساڑھے چھیاسٹھ فیصد (۴۰۵؍ٹن) سونا افریقی ممالک سے اسمگل کیا گیا تھا۔یو اے ای سونے کی ریفائنریوں اور ہزاروں قیمتی دھاتوں اور قیمتی پتھروں کے تاجروں کا مرکز ہے۔
تیونس میں انتخابات
تیونس میں ۶؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو صدارتی انتخابات ہوئے۔ ۲۰۲۲ء کے نئے آئین کے نفاذ کے بعد یہ پہلے صدارتی انتخابات تھے۔زیادہ ترملکی سیاسی جماعتوں نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا۔ Independent High Authority for Elections نے موجودہ صدر قیس سعید کے اہم سیاسی مخالفین سمیت متعدد امیدواروں کو الیکشنز میں حصہ لینے سے روکتے ہوئے صرف تین امیدواروں کو اجازت دی تھی۔ جس میں قیس سعید،زوہیر مغزوئی (Zouhair Magzhaoui) اور آیا چی زمل (Ayachi Zammel) شامل ہیں۔ انتخابات سے چند روز قبل ہی موخرالذکر کو مقدمات کی وجہ سے قید کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ ملک کےسترہ سیاستدانوں کو الیکشن اتھارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ تین امیدواروں نے الیکشن اتھارٹی کے خلاف مقدمہ جیت لیا مگر حکومت نے ان کے حق میں فیصلہ دینے والی انتظامی عدالت کے اختیارات کوایک متنازعہ آئینی ترمیم کے ذریعہ ختم کرتے ہوئے،مخالفین کو الیکشن میں شامل ہونے سے روک دیا۔ حکومتی اقدامات کے خلاف لوگوں نے احتجاج بھی کیا۔ مبصرین اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق یہ تمام اقدامات موجودہ صدر کی جیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔ ان انتخابات کو عوام متنازعہ اور غیر شفاف قرار دے رہی ہے۔صدارتی انتخابات میں ووٹوں کی شرح نہایت کم تھی۔ ٹرن آؤٹ تقریباً ۲۸؍فیصد تھا جو کہ گذشتہ انتخابات میں ۵۵؍فیصد تھا۔صدر قیس سعید نے ۹۱؍فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔
موزنبیق میں انتخابات
۹؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو موزنبیق میں قومی انتخابات منعقد ہوئے جن میں حکمران جماعت فریلیمو(Frelimo) نے کامیابی حاصل کی۔ موزنبیق نے ۱۹۷۵ءمیں پرتگال سے آزادی حاصل کی تھی۔ فریلیمو جماعت کے ۴۷؍سالہ ڈینیئل چاپو ملک کے پانچویں صدر کے طور پر حلف اٹھائیں گئے۔ موجودہ صدر فلپ نیوسی اپنی دوسری صدارتی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔انتخابی کمیشن کے مطابق چاپو نے ۷۰؍فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ پوڈیموس پارٹی کے حمایت یافتہ ویننسیو مونڈلین ۲۰؍فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ کئی مبصرین نے کہا ہے کہ ۹؍اکتوبر کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھے۔ یورپی یونین کے ایک مشن نے مقامی اور ضلعی سطح پر گنتی اور نتائج میں ردّوبدل اور بےضابطگیوں کی اطلاع دی۔ حکمران جماعت فریلیمو، ۱۹۹۴ءسے ہی تمام صدارتی انتخابات جیتتی چلی آ رہی ہے۔
ڈی آر کانگو میں کشتی حادثے میں ۷۸؍افراد جاں بحق
۳؍اکتوبر کو ڈی آر کانگو میں Kivu جھیل کے ساحل کے قریب ۲۷۸؍مسافروں کو لے جانے والی فیری الٹنے سے کم از کم ۷۸؍افراد ڈوب گئے اور بہت سے لوگ لاپتا ہیں۔ یہ کشتی ۸۰؍مسافروں کو لے جانے کے لیے بنائی گئی تھی۔جب یہ کشتی گوما بندرگاہ کے قریب پہنچی تو یہ حادثہ پیش آیا۔ حادثہ پر قریبی لوگوں نے ڈوبنے والوں کی مدد کی لیکن بہت سے افراد کو نہیں بچایا جا سکا۔ حادثہ کشتی میں تعداد سے زیادہ لوگ بٹھانے کے باعث پیش آیا۔کانگو کے دریاؤں میں اس طرح کے بہت سے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
نائیجیریا میں آئل ٹینکر حادثہ۔۱۵۸؍لوگ ہلاک
شمالی نائجیریا کی ریاستJigawa کے ایک شہر میں آئل ٹینکر کے حادثے میں ۱۵۸؍سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق ۱۵؍اکتوبر کو Majiya شہر میں ٹریفک حادثے کے نتیجے میں ایک آئل ٹینکر الٹ گیا اور اس میں سے تیل نکل کر سڑک پر بہنے لگا۔ لوگوں نے موقع پر پہنچ کر تیل جمع کرنا شروع کر دیا کہ اسی اثنا میں ایک زور دار دھماکا ہوا اور آگ لگ گئی۔ اس کے نتیجہ میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد جھلس کر ہلاک ہو گئے اور ایک سو سے زائد زخمی ہیں۔ واقعہ پر پورے علاقے میں شدید رنج و غم ہے۔ ایک ماہ قبل نائیجیریا کی ایک اور ریاست میں ایسے ہی حادثہ میں ۴۸ لوگ جان کی بازی ہار گئے تھے۔
نائیجر سے یورینیم کی کان کنی والی فرانسیسی کمپنی بے دخل
فرانس میں بجلی کی پیداوار کا۶۸ فیصد حصہ ایٹمی بجلی گھروں کا ہے۔اس لیے فرانس بڑی مقدار میں یورینیم برآمد کرتا ہےجس میں سے بیس فیصد یورینیم نائیجر سے حاصل کی جارہی تھی۔ فرانسیسی کمپنی Orano نائیجر میں گذشتہ پچاس سال سے کام کر رہی ہے اور تین بڑی کانوں میں کام کرنے کا لائسینس رکھتی تھی۔ستمبر میں Oranoنے کہا کہ وہ نائیجر میں انتہائی خراب صورتحال کی وجہ سے ۳۱؍اکتوبر ۲۰۲۴ء سے یورینیم کی پیداوار روک رہی ہے۔ نائیجر کی فوجی حکومت کے سربراہ نے اس سے قبل واضح کر دیا تھا کہ وہ غیرملکی کمپنیوں کےخام مال کی کان کنی کے ٹھیکوں کو ریگولیٹ کرنےوالے قوانین پر نظر ثانی کرے گی۔فرم کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے فوج سے مذاکرات کی کوشش کی ہے مگر انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔Oranoکو شمالی نائیجر میں Imouraren کان پر کام کرنے کا لائسنس دیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں دو لاکھ ٹن دھات کے ذخائر موجود ہیں۔نائیجر دنیا میں یورینیم کی پیداوار کے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ Imouraren میں سال ۲۰۱۵ء میں کان کنی شروع ہونی تھی مگر جاپان میں ایک حادثہ کے نتیجے میں عالمی سطح پر یورینیم کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے یہاں سے کان کنی روک دی گئی۔
زیمبیا میں بجلی کا شدید بحران
زیمبیا شدید خشک سالی کی وجہ سے اپنی تاریخ میں بجلی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ زیمبیا کے اہم ڈیم کریبا میں ہائیڈرو الیکٹرک ٹربائن چلانے کے لیے پانی ناکافی ہے۔کریبا ڈیم کی جھیل حجم کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی انسان ساختہ جھیل ہے، جوزمبابوے کی سرحد پر زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا سے دو صد کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ دریائے زمبیزی پر یہ ڈیم ۱۹۵۰ء کی دہائی میں تعمیر کیا گیا جو زیمبیا اور زمبابوے دونوں کو بجلی فراہم کر رہا ہے۔ زیمبیا اپنے زیر استعمال بجلی میں سے اسّی فیصد سے زائد کریبا ڈیم سے حاصل کرتا رہا ہے۔ناکافی پانی کی وجہ سے اب بمشکل چند گھنٹے بجلی میسر آ رہی ہے۔ ڈیم کی چھ ٹربائنوں میں سے صرف ایک کام کر رہی ہے اور بجلی کی پیداوار دس فیصد سے بھی کم ہے۔ اسی سال مارچ میں زیمبیا نے طویل خشک سالی پر ہنگامی حالت کا اعلان کیا تھا۔ اس صورتحال سے قبل بھی ملک کی نصف سے کم آبادی کو ہی بجلی کی فراہمی میسر تھی تاہم اب مزید لاکھوں لوگ مشکل کا شکار ہیں۔ ماہر اقتصادیات نے خبر دار کیا ہے کہ اگر بجلی کا بحران اسی طرح برقرار رہا تو زیمبیا کی معیشت ڈرامائی طور پر سکڑ جائے گی اور غربت کی سطح میں مزید اضافہ ہوگا۔
چاڈ میں بارشوں سے سیلاب۔ مالی میں سیلاب سے سکولوں کا شیڈول متاثر
چاڈ میں شدید بارشوں کے نتیجے میں سیلاب سے تقریباً ۲۰؍لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ملک بھر میں ۵۷۶؍افراد جاں بحق ہو گئے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کے تمام ۲۳؍صوبے اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔حکومتی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ چونسٹھ ہزار گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ ۷۰؍ہزار کے قریب جانوروں کی اموات ہوئی ہیں اور چھ لاکھ چالیس ہزار ایکڑ فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح کے اضافے سے متعدد ملحقہ علاقے زیر آب آ گئے۔چاری دریا کی سطح میں اضافے سے دارالحکومت بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
مالی حکومت نے ملک میں بارشوں کی وجہ سے سال ۲۰۲۴ء اور ۲۰۲۵ء کے تعلیمی سال کے آغاز کو ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تعلیمی سال اکتوبر میں شروع ہونا تھا مگر غیرمعمولی سیلابی صورتحال کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہوگئی ہے۔سکول ہزاروں لوگوں کے لیے عارضی پناہ گاہ بن گئے۔سیلاب سے دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے ۷۰؍فیصد خواتین اور بچے ہیں۔سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں ۷۶؍اموات ہوئی ہیں۔ سینکڑوں لوگ زخمی بھی ہیں۔ ۵۳۰۰؍ایکڑ فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔۷۰؍ہزار کے قریب کسان براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔
مراکش کی گاڑیوں کی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ
مراکش کی کار سازی کی صنعت نے دو دہائیوں سے بھی کم عرصہ میں بہت ترقی کی ہے۔ مراکش یورپ کوسالانہ چین،بھارت اور جاپان سے زائد کاریں فراہم کر رہاہے۔اس صنعت میں سالانہ سات لاکھ گاڑیاں بنانے کی صلاحیت ہے۔اس وقت ۲۵۰؍سے زائد کار ساز اور ان کےپرزہ جات بنانے والی کمپنیاں مراکش میں کام کر رہی ہیں۔آٹو انڈسٹری ملکی برآمدات میں چودہ بلین ڈالرز سالانہ شامل کر رہی ہے۔ اس وقت فرانسیسی کار ساز کمپنی رینالٹ، مراکش میں کام کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ مراکش کی بندرگاہوں پر سہولیات، سڑکوں، ریل نیٹ ورک، مواصلات کے نیٹ ورک میں اضافے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے والی پالیسیوں نے اس صنعت کو ترقی دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ حکومت نے مینوفیکچررز کو Tangiers شہر کے باہر دیہی علاقوں میں فیکٹریاں لگانے کے لیے ۳۵؍فیصد تک سبسڈی کی پیشکش کی ہے۔ مراکش میں ٹیکس میں چھوٹ اور سستی لیبر ملنے کی وجہ سے یورپین صنعت کاروں کا اس طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔
صحرا ئے اعظم میں نایاب بارش۔ ریگستان میں جھیل بن گئی
گذشتہ دنوں براعظم افریقہ کے صحارا ریگستان کے بعض حصوں میں موسلادھار بارش کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی۔ ریت کے ٹیلوں اور کھجور کے درختوں کے درمیان پانی کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں بن گئیں۔ صحارا کا شمار دنیا کے خشک ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ یہاں موسم گرما کے آخر میں معمولی بارش ہوتی ہے۔ستمبر میں مراکش کےجنوب مشرقی صحرائی علاقے میں ۲دن کی موسلا دھار بارش سالانہ اوسط سے کہیں زیادہ تھی۔ مراکش کے دارالحکومت رباط سے ۴۵۰؍ کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں تاكونيت میں چوبیس گھنٹوں میں ایک سو ملی میٹرسے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔بارشی سیلاب کے سبب مراکش کے زاکورہ اور ایک گاؤں طاطاکے درمیان اریقی (Iriqui) جھیل پانی سے بھر گئی۔ یہ جھیل ۱۹۲۵ء سے خشک تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی موسلادھار بارش ریگستان میں زیر زمین پانی کے بڑے آبی ذخائر کو بھرنے میں مدد کرے گی جن پر صحرائی برادریاں پانی کی فراہمی کے لیے انحصار کرتی ہیں۔ ماہرین موسمیات کے مطابق یہ ایک نایاب بارش تھی اور ممکنہ طور پر خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کا اشارہ ہو سکتا ہے۔