امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2024ء کے اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں فناہو کر پھر اس کی حقیقت بتا کر ہمیں اس عشق و محبت کے حصول کے راستے بتاتے ہیں، ہمیں مقام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا پتہ دیتے ہیں
عوام الناس اپنی کم علمی اور ان علماء پر اعتماد کرتے ہوئے اس بات کو سچ سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو دعویٰ ہی یہی ہے کہ میں نے جو کچھ پایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے پایا، آپؐ کے عشق اور محبت سے پایا اور واضح فرمایا کہ اس کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ آپؑ کی ابتدائی کتب اور مجالس سے لے کر آخری زندگی تک آپؑ کی باتوں اور کتب میں سوائے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اَور نظر ہی نہیں آتا
بےشمار موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں ڈوب کر آپؑ نے ارشادات فرمائے اور خود عملی طور پر اس کے نمونے پیش فرمائے۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے کبھی توہین رسالت کی ہو
’’میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’ہم کیا چیز ہیں اور ہماری کیا حقیقت ہے۔ ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اِسی نبیؐ کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبیؐ کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’خدا کی قسم! اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اورمیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لیے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عشق و محبت اور غیرت میں سرشار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاداتِ عالیہ کا بیان
امیر المومنین سیدنا حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ برطانیہ 2024ء کے اختتامی اجلاس سے بصیرت افروز خطاب
(فرمودہ 28؍ جولائی 2024ء بروز اتوار بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن ہمپشئر۔ یوکے)
(اس خطاب کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے حوالے سے آج کچھ کہوں گا۔ یہ سب باتیں جو میں بیان کروں گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب اور اپنی مجالس میں بیان فرمائی ہیں۔ یہ اتنی تفصیل ہے اور اس قدر ہیں کہ ایک تقریرمیں ان کا احاطہ ممکن نہیں۔ لیکن جو بھی چند حوالے پیش کروں گا وہ حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کا ہمیں صحیح فہم و ادراک دیتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں فناہو کر پھر اس کی حقیقت بتا کر ہمیں اس عشق و محبت کے حصول کے راستے بتاتے ہیں، ہمیں مقام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا پتہ دیتے ہیں۔
اللہ کرے کہ ہمارے مخالفین بھی اس پر غور کریں اور غور سے سنیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آپؑ کے دعوے کے بعد سے ہی مخالفینِ احمدیت یہ الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ علیہ السلام نے مسیح و مہدی کا دعویٰ کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے اور یہ توہین کسی صورت برداشت نہیں ہو سکتی اور آج تک جماعت احمدیہ کی مخالفت اس بات کو بہانہ بنا کر کی جاتی ہے کہ نعوذ باللہ آپ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور ہتک کرنے والے ہیں۔ اصل میں تو یہ ان نام نہاد مذہبی علماء کے اپنے مفادات ہیں جن کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر یہ اپنے منبروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور آج تک یہی الزام لگا کر یہ احمدیوں کے خلاف ہر ظلم روا رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں تا کہ ان کو ذاتی اور سیاسی مفادات ملیں نہ یہ آپ علیہ السلام کی باتوں پر غور کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی آپ کے اقوال و تحریرات پر غور کر کے اصل حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے ذاتی مفادات متاثر ہوتے ہیں اور اپنے منبر اور عوام الناس میں اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کر دیا ہے۔ اب اگر یہ لوگ اس کے خلاف کریں تو ان کے مقاصد پورے نہیں ہوتے۔ ان کے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی آرزو پوری نہیں ہوتی۔
عوام الناس اپنی کم علمی اور ان علماء پر اعتماد کرتے ہوئے اس بات کو سچ سمجھتے ہیں کہ نعوذباللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تو دعویٰ ہی یہی ہے کہ میں نے جو کچھ پایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے پایا، آپؐ کے عشق اور محبت سے پایا اور واضح فرمایا کہ اس کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں۔
آپؑ کی ابتدائی کتب اور مجالس سے لے کر آخری زندگی تک آپؑ کی باتوں اور کتب میں سوائے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اَور نظر ہی نہیں آتا۔
کہیں آپ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سب سے افضل نبی اور مربی اعظم ہیں۔ کہیں اس بات کی وضاحت ہے کہ جس طرح ہمارا خدا یکتا ہے اسی طرح ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یکتا مطاع ہے یعنی وہ ذات ہے جس کی اطاعت اور پیروی کرنے سے انسان دنیا و آخرت سنوار سکتا ہے۔ کہیں آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت اور پیروی کی برکات کا ذکر فرماتے ہیں، کہیں اس بات کا پرزور اعلان فرما رہے ہیں کہ حقیقی مُنَجِّیصرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کہیں قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی برکات کا ذکر کر رہے ہیں۔ کہیں آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانی کی عظمت کا ذکر فرمایا ہے۔ کہیں آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبول انوار الٰہیہ میں اکملیت کو اجاگر فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے انوار کی قبولیت کی جو انتہا ہے یا وہ کامل ہو سکتے ہیں تو وہ صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی کامل ہیں۔
پھر اپنی کتب اور مجالس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کا ذکر فرماتے ہیں کہ اس سے کس طرح انقلاب پیدا ہو گا۔ کہیں اس بات کا اعلان فرما رہے ہیں کہ مجھے جو کچھ ملا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا۔ کہیں اس بات کا ذکر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو اور اس کے بغیر کوئی راستہ ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے پیارے بنو گے۔ خدا تعالیٰ کا پیارا بننے کے لیے یہی ایک راستہ ہے۔
پھر اس بات کا اعلان فرمایا کہ ہر ایک فیض کا چشمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ پھر یہ کہ پاکیزگی اور تزکیہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری ہے۔ پھر اس بات کا اعلان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی رسول کاملؐ ہیں اور کوئی اور نبی کاملیت کے اس مرتبہ تک نہیں پہنچا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے ہیں۔ پھر یہ اعلان آپؑ نے فرمایا کہ تمام گذشتہ انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہیں۔ پھر یہ اعلان کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام فنا فی اللہ کا وہ مقام ہے جس تک کوئی اور پہنچ ہی نہیں سکتا چاہے وہ جو بھی ہو۔ پھر آپؑ نے یہ اعلان فرمایا اس بات پر بھی زور دیا اور اس بات کی وضاحت بھی فرمائی کہ جو نُور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا وہ کسی اَور کو نہیں ملا۔ پھر یہ اعلان کہ مسیحؑ نے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یا کسی بھی نبی نے مردوں کو زندہ کرنے کا وہ معیار نہیں پایا جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ مسیحؑ نے مردوں کو زندہ کیا بلکہ اس کا اعلیٰ و ارفع مقام صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا اور اس سے روحانی مردے مراد ہیں اور آپؐ کے اس مقام کی وجہ سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسوں کے روحانی مردوں کو زندہ فرمایا۔ پھر یہ اعلان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشقِ الٰہی کا اثر صحابہ پر بھی اس قدر پڑا کہ وہ عشقِ الٰہی میں ڈوب گئے اور اس مقام کی قوتِ قدسی کسی اور کو نہیں ملی۔ اس بات کو بار بار دہرایا کہ مجھے جو کچھ ملا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ملا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس روزہ پیروی سے وہ روشنی ملتی ہے جو اس سے پہلے دس ہزار برس کے مجاہدے سے بھی ممکن نہیں۔ پھر آپؑ اس بات کا اعلان فرماتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی توحید کی عظمت قائم کرنے والے، اس اعلیٰ معیار کی عظمت قائم کرنے والے ہیں جس کا مقابلہ ہی نہیں۔ صرف اور صرف یہ عظمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی مقام ہے جنہوں نے قائم کی۔
پھر واضح فرمایا کہ انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے نمونہ دکھانے والے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ آپؐ کی زندگی کی مثال ہی وہ کامل مثال ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں جس کے ہر پہلو سے انسانی کمالات کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر یہ اعلان فرمایا کہ عیسائیوں کا یہ دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ مَسِّ شیطان سے پاک ہیں ان کی ناسمجھی ہے۔ تمام انبیاء مَسِّ شیطان سے پاک ہیں اور سب سے بڑھ کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مَسِّ شیطان سے پاک ہیں اور آپؐ سے بڑھ کر کوئی اور نہیں۔ پھر یہ اعلان آپؑ نے فرمایا اور اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اب شفیع صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات ہے۔ آپؐ ہی کی سفارش سے نجات کے سامان ہیں۔ آپؐ ہی کو حق دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کریں۔ آپؐ کو شفیع کا مقام ملا ہے۔ پھر یہ اعلان کیا کہ ہر ایک فیضان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی پر موقوف ہے کوئی فیض آپؐ کی اتباع کے بغیر نہیں مل سکتا۔اپنے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا کہ میں نے خدا تعالیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی پایا۔
پھر آپؑ یہ بیان فرماتے ہیں اور اس کا واضح اعلان فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور خاتم الانبیاء تھے اور اس مقام تک کوئی اور نہیں۔ مخالفین پر بھی ثابت فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کا مقام بہت بلند تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور جلال کے مقام کو دنیا پر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے مقام کو دنیا پر واضح کیا کہ اب کوئی شریعت نہیں آ سکتی، کوئی نبی نہیں جو شریعت لے کر آسکے۔ شریعت آپؐ پر ختم ہو گئی اور جو اعلیٰ ارفع مقام آپؐ کو ملا ہے وہ کسی کو بھی نہیں ملا۔ یہ اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بڑے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ آپ رحمۃ للعالمین ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کے لیے آپؐ کے قلبِ مطہر سے بڑھ کر کسی کے دل میں رحمت کے جذبات نہیں۔ یہ واضح فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی دین و دنیا کی حسنات اور برکات ہیں۔ بڑے خوبصورت انداز میں یہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہرِ کامل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس بات کا اعلان فرمایا کہ ختمِ نبوت کا انکار کفر ہے۔ یہ آپ پر الزام ہے کہ آپ نے ختم نبوت کا انکار کیا۔ آپؑ فرماتے ہیں یہ ایک بہت بڑا کفر ہے۔ پھر آپؑ نے اپنے ماننے والوں کو خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی تاکید فرمائی کہ درود شریف پڑھنے کا صحیح طریق کیا ہے۔ آپؑ نے اس بات کو بڑا واضح طور پر فرمایا اور یہ طریق سکھایا کہ کس طرح درود پڑھنا چاہیے اور کس غرض سے درود پڑھنا چاہیے اور درود شریف کی برکات کیا ہیں۔
پھر خاص طور پر یہ بات بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے درود شریف پڑھنے کی ضرور ت ہے اور اس کی خاص تاکید جماعت کو فرمائی کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی برکات اس کے بغیر حاصل کر ہی نہیں سکتے جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں بھیجو گے، سلام نہیں بھیجو گے۔ نیز
بےشمار موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں ڈوب کر آپؑ نے ارشادات فرمائے اور خود عملی طور پر اس کے نمونے پیش فرمائے۔
پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے کبھی توہین رسالت کی ہو۔
یہ نام نہاد علماء کی الزام تراشی ہے جو یہ ابتدائے احمدیت سے کرتے چلے آ رہے ہیں اور عامة المسلمین کے جذبات ختم نبوت کے نام پر بھڑکا کر احمدیوں کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جو باتیں میں نے بیان کی ہیں یہ تو چند باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؑ کے عشق و محبت کے اظہار کا ثبوت ہیں۔ جماعت کے لٹریچر میں آپ علیہ السلام کی کتب میں یہ سب باتیں موجود ہیں۔
بہرحال اس وقت میں آپ علیہ السلام کے چند اقتباسات بھی پیش کروں گا جو واضح کرتے ہیں کہ کس طرح، کس قدر عشق اور محبت آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور کس قدر اس عشق و محبت کا اظہار جو آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور کس قدر غیرت عشق و محبت آپؑ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھڑکی ہوئی تھی اور کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کسی بھی طرح، کسی بھی صورت میں کوئی مخالف بھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایسی بات بھی کرے جہاں سے ہلکا سا شائبہ یا اظہار بھی ہو سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام میں کسی طرح کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
پس یہ وہ سوچ ہے جس کا اظہار آپؑ نے اپنے ہر قول و فعل سے کیا۔ یہ وہ سوچ ہے جس کا اظہار آپؑ نے اپنے کلام میں ہر جگہ کیا۔ اور یہی وہ سوچ ہے جو آپؑ نے اپنی جماعت کے دلوں اور دماغ میں بھرنے کی کوشش کی۔ پس جیسا کہ میں نے کہا اب چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا ہے اور میری کیا حیثیت ہے
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی جاری فیض ہے جسے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور مجھے جو کچھ بھی ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہی ملا ہے آپ ایک فارسی شعر میں اپنے اس عشق و محبت کا اظہار اس طرح فرماتے ہیں کہ
’’بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم‘‘
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 248)
کہ خدا کے بعد میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار ہوں۔ اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ اور اس طرح کے بہت سارے اشعار، بےشمار، بیسیوں اشعار ہیں جو اپنے شعری کلام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کہے۔ تو یہ تو آپؑ کے عشق و محبت کی حالت ہے۔ بہرحال اس کے اب بعض اقتباسات بھی پیش کرتا ہوں۔ شعر سنانے لگوں تو بےشمار شعر سنائے جائیں گے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے۔ یعنی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ عجیب ظلم ہے کہ جاہل اورنادان لوگ کہتے ہیں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہے حالانکہ زندہ ہونے کی علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پاتا ہوں۔ وہ خدا جس کو دنیا نہیں جانتی ہم نے اس خدا کو اس کے نبی کے ذریعہ سے دیکھ لیا اور وہ وحیٔ الٰہی کا دروازہ جو دوسری قوموں پر بند ہے ہمارے پر محض اسی نبی کی برکت سے کھولا گیا۔ اور وہ معجزات جو غیر قومیں صرف قصوں اور کہانیوں کے طور پر بیان کرتی ہیں ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے وہ معجزات بھی دیکھ لیے۔ اور ہم نے اس نبی کا وہ مرتبہ پایا جس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں۔ مگر تعجب کہ دنیا اس سے بے خبر ہے۔‘‘(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ287)جس بات کو مخالفین آپؑ کے خلاف بیان کرتے آئے ہیں آپؑ فرماتے ہیں یہی تو میرے نبی کی شان ہے کہ اس سے محبت کرنے والے سے خدا کلام کرتا ہے اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اضافہ کرتی ہے نہ کہ کمی۔
پھر ایک مجلس میں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی حقیقت
بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں سچ کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ کوئی شخص حقیقی نیکی کرنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا کو پانے والا نہیں ٹھہر سکتا اور ان انعام و برکات اور معارف اور حقائق اور کشوف سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا جو اعلیٰ درجہ کے تزکیہ نفس پر ملتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں کھویا نہ جائے
اور اس کاثبوت خود خداتعالیٰ کے کلام سے ملتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (اٰل عمران :32)۔ اور خدا تعالیٰ کے اس دعویٰ کی عملی اور زندہ دلیل میں ہوں۔‘‘
(الحکم مؤرخہ 17 ستمبر 1901ء جلد 5 نمبر 34صفحہ1-2)
پس آپؑ یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ خداتعالیٰ ملتا ہے اس کی محبت چاہیے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور محبت ضروری ہے۔ پس آپؑ تو اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کھوئے ہوئے ہیں۔
پھر حقیقة الوحی میں جو آپؑ کی زندگی کی آخری کتب میں سے ایک کتاب ہے آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں۔ ‘‘ بعض مخالفین کہہ دیتے ہیں کہ شروع میں آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی بعد میں نہیں، بعد میں آپؑ کے نظریات بدل گئے اور نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ تو یہ کتاب جو آخری دنوں کی ہے اس میں بھی آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’میں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے۔(ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اِس لیے خدانے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار و افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے۔‘‘یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ ’’جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔’’ فرماتے ہیں
’’ہم کیا چیز ہیں اور ہماری کیا حقیقت ہے ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی
اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ118-119)
کیا یہ الفاظ کسرِشان کرنے والے ہیں یا عقیدت و محبت کا اظہار ہیں۔ بعض مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعویٰ کر کے ختم نبوت کی مہر کو توڑا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض تو ان مخالفین پر آتا ہے جو غیر قوموں کانبی لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح کروانا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو اصلاح کریں گے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں ’’میں بڑے یقین اور دعویٰ سے کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمالات نبوت ختم ہو گئے۔ وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپؐ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتا ہے اور آپؐ کی نبوت سے الگ ہو کر کوئی صداقت پیش کرتا ہے اور چشمہ نبوت کو چھوڑتا ہے۔ میں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا آپؐ کے بعد کسی اَور کو نبی یقین کرتا ہے اور آپ کی ختمِ نبوت کو توڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آسکتا جس کے پاس وہی مہر نبوت محمدیؐ نہ ہو۔ ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نے یہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اتارتے ہیں اور میں یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور آپؐ کی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی آپؐ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپؐ کی امت میں وہی مہرنبوت لے کر آتا ہے۔ اگر یہ عقیدہ کفر ہے تو پھر میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہو گئی ہیں، جن کو نورِ نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے اور اس کو کفر قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپؐ کی زندگی کا ثبوت ہوتا ہے۔‘‘
(الحکم جلد 9 نمبر 20 مورخہ 10 جون1905ءصفحہ 2)
پھر اللہ تعالیٰ کے آپؑ یعنی مسیح موعود علیہ السلام سے کلام کرنے اور یہ مقام ملنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
میں نے جو کچھ پایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں پایا، اس کے بغیر میں کچھ بھی نہیں تھا۔
چنانچہ فرمایا ’’میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشان دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے اور میں اسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰقؑ سے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیرو ی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اِسی بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظِل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمدیہؐ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی۔‘‘یعنی اس طفیل سے مجھے امتی نبی ہونے کا اعزاز ملا۔ ’’اور چونکہ میں محض ظل ہوں اور امتی ہوں اس لیے آنجنابؐ کی اِس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔ اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے۔ اگر میں ایک دم کے لیے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 411-412)
اب یہ دعویٰ ہے اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا رہے ہیں کہ میں نے جو کچھ پایا اس طرح پایا۔ اگر میں اس کو نہ مانوں تو اللہ تعالیٰ مجھے تباہ کر سکتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور آپؐ کے لیے غیرت کے جذبات کا اظہار
کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسانِ کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ ا ور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سیدالاحیا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔‘‘آپ کی پیروی کرنے والے ہیں۔ ’’…اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی۔‘‘
(آئینہ کمالاتِ اسلام ، روحانی خزائن جلد5صفحہ160تا162)
آپؑ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا اظہار
آپؑ کے ایک خط سے ہوتا ہے جو آپؑ نے عرب کے بزرگوں اور صلحاء کے نام عربی زبان میں لکھا تھا۔ اس کا آغاز ان الفاظ میں کیا اس کے ایک ایک حرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے عشق و محبت شہد کی طرح ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: السلام علیکم۔ اے خالص عرب کے نیک اور بزرگ لوگو! سلام۔ اے نبی کریم ؐکی زمین اور بیت اللہ عظیم کے پڑوس میں رہنے والو! تم اسلام کی بہترین امت ہو اور اس بلند خدا کا سب سے بہتر گروہ ہو۔ کوئی قوم تمہاری شان کو نہیں پہنچ سکتی۔ یقیناً تم شرف بزرگی اور منزلت میں بڑھ کر ہو۔ تمہارے لیے یہی فخر کافی ہے کہ اللہ نے حضرت آدم سے جو وحی شروع کی اس کو اس نبی پر ختم کیا جو تم میں سے تھے اور تمہاری زمین ان کا وطن ان کی پناہ اور جائے پیدائش تھی۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ نبی کون ہے۔ وہ محمد مصطفی برگزیدوں کا سردار انبیاء کا فخر خاتم الرسل اور سب مخلوق کا امام ہے۔ ان کا احسان زمین پر چلنے والے ہر انسان پر ثابت ہے۔ آپ کی وحی نے رموز معانی اور بلند نکات جو گمشدہ تھے ان سب کو پا لیا۔ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین نے معارف حقائق کے راستے اور ہدایت کے طریقے جو ناپید ہو گئے تھے ان کو از سر نو زندہ کیا۔ اے اللہ !تُو ان پر اپنا اتنا درود و سلام اور برکات نازل فرما جتنے کہ زمین کے قطرے زمین کے ذرے جتنے اس میں رہنے والے زندہ اجسام اور جتنے اس میں مدفون ہیں۔ آپ کو اتنی برکتیں عطا کر جتنے آسمانوں میں ذرے جو ظاہر اور جو مخفی ہیں۔ ان کو ہماری طرف سے اتنا سلام پہنچا جس سے آسمان کے کنارے گھر جائیں۔
خوش قسمت ہے وہ قوم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جوا اپنے کندھے پر رکھ لیا۔ مبارک ہے وہ دل جو ان تک پہنچا اور ان سے مل گیا اور ان کی محبت میں فنا ہو گیا۔
اے اس سر زمین کے باسیو جس کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں نے رونق بخشی! اللہ تم پر رحم کرے اور تم سے راضی ہو اور تم کو راضی رکھے۔ میں تمہارے بارے میں ا چھا ظن رکھتا ہوں۔ اے اللہ کے بندو میری روح میں تمہاری ملاقات کے لیے بڑی تشنگی ہے۔ میں تمہارے ملکوں کی اور تمہاری جمعیت کی برکات دیکھنے کا مشتاق ہوں تا اس زمین کو دیکھیں جس کو مخلوق کے سردار کے قدموں نے چھوا اور اس مٹی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگاؤں۔ اس زمین کی صلاحیتوں اور صلحاء کو ملوں۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ419تا421)
پس کیسا عربوں کو یہ پیغام دیا اور عربوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر سکتا ہے جو عشق و محبت آپ علیہ السلام کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا اس کے تو قریب بھی یہ نام نہاد علماء اور آپ کی محبت کو یہ ظاہری دعویدار نہیں پہنچ سکتے۔
آجکل غیر اسلامی دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور قرآن کریم کی ہتک اور توہین کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے میں بھی یہ اس طرح ہوا کرتا تھا اور اس زمانے کے عیسائی پادری اس میں بہت آگے آگے تھے۔ اس پر آپؑ نے ایک جگہ بیان فرمایا۔ لوگ کہتے ہیں انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے، عیسائیوں کا خود کاشتہ پودا ہے۔ تو ان کے خلاف بھی جو آپؑ کہہ رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں جو فرما رہے ہیں وہ سنیں۔ فرماتے ہیں :’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بیشمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلقِ کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاکؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشرؐ کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔
خدا کی قسم! اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اورمیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لیے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔
پس اے میرے آسمانی آقا تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلائے عظیم سے نجات بخش۔‘‘
(ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ15 از سیرت طیبہ صفحہ 36-37)
یہ ہے وہ درد جو آپؑ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی وجہ سے تھا۔
ہمارے مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور جماعت احمدیہ بھی اس توہین کی مرتکب ہو رہی ہے۔ کیا ان مخالفین نے ہم پر الزام لگانے کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے لیے اس طرح کبھی درد کا اظہار کیا ہے یا کوشش کی ہے۔ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو مخالفین کے ان اعتراضوں کے جواب دے رہی ہے۔
پھر ایک جگہ
اسلام مخالفین کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملوں اور دریدہ دہنی کو دیکھ کر آپؑ درد کا اظہار
اس طرح فرماتے ہیں: ’’اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں۔‘‘ اس زمانے میں بھی اتنا زیادہ لٹریچر لکھا گیا تھا اب تو بہت زیادہ ہے۔ ’’اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آلِ رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمنِ رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اوردشنا م دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ51-52)
پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور آپؐ کے لیے غیرت کا اظہار
ایک جگہ آپؑ نے یوں فرمایا: ’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کرہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے بازنہیں آتے ہیں۔ ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔
خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘
(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23صفحہ459)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا ذکر
کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لیے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اِس فخر میں ہمارے نبی صلعم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔
جس قوم میں آپؐ ظاہر ہوئے آپؐ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلعم کے نصیب نہیں ہوئی۔
یہی ایک بڑی دلیل آنحضرتؐ کی نبوت پر ہے کہ آپؐ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعاً ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا اور پھر آپؐ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جب کہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے
اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور سچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا۔ وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا۔‘‘ ایمان ضائع نہیں ہونے دیا۔ ’’بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا۔ پس بلاشبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدمِ ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار وبر نہ رہی اور
ختم نبوت آپؐ پر نہ صرف آپؐ پر زمانہ کے تأخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہوگئے اور چونکہ آپ صفاتِ الٰہیہ کے مظہر اتم تھے اس لیے آپ کی شریعت صفاتِ جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی اور آپ کے دونام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اِسی غرض سے ہیں اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتدا سے تمام دنیا کے لیے ہے۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ206 – 207)
اب ہمارے مخالفین بتائیں کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کے منہ سے ایسے الفاظ نکل سکتے ہیں؟
ہاں یہ نام نہاد مذہب کے ٹھیکیدار ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جانور صفت لوگوں کو انسان اور تعلیم یافتہ انسان اور باخدا انسان بنایا اور یہ اپنی حرکتوں سے آپؐ کی لائی ہوئی خوبصورت تعلیم کو بدنام کرتے ہوئے آپؐ کے نام پر جانوروں کی طرح انسانیت کا خون کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے حقیقی علمبردار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر ایک کو بچائے۔
آریوں کے ایک جلسہ کے لیے آپؑ نے ایک مضمون لکھا جو وہاں پڑھا گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ
کو بیان کرتے ہوئے اور اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ نے اس میں فرمایا:
’’دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کانام ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (الاحزاب آیت 57) ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کاذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اوردوسرے انبیاء۔ سو
ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لیے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘
آپؑ نے فرمایا ’’…لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس
ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے … ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔
کون صدقِ دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لیے کھولا نہ گیا لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو۔‘‘(چشمہٴ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 301تا303)آپؑ نے فرمایا کہ میرے پاس آؤ میں تمہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بھی آگاہی دوں گا۔
اب ہمارے مخالفین بتائیں کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہونے والی ہیں یہ باتیں یا نعوذ باللہ توہین کرنے والے کی؟
اپنی جماعت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی طرف تلقین
جو آپؑ نے فرمائی ، فرماتے ہیں:’’نوعِ انسان کے لیے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔
نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اَور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ 13-14)
کاش کہ یہ باتیں سن کر ہمارے مخالفین کی آنکھیں بھی کھلیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
اپنے دین و اعتقاد کا اعلان
فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمدمصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے۔‘‘یہ ہمارا اعتقاد ہے ہمارا ایمان ہے ’’اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ ہمیں بجز خادمِ اسلام ہونے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے۔‘‘ہم تو صرف دعویٰ کرر ہے ہیں کہ ہم خادم الاسلام ہیں ’’اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے‘‘کہ ہم یہ نہیں کر رہے ’’وہ ہم پر افترا کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اور قرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا۔ اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلد 2صفحہ249)
پس یہ ہر احمدی کا دین اور اعتقاد ہے۔ اگر ہمارے مخالفین یہ بات سن کر بھی ہماری مخالفت اور ظلم و تعدّی سے باز نہیں آئیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بھی بچ نہیں سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ظالم کو ضرور پکڑتا ہے اور آج نہیں تو کل یہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بارے میں
ایک جگہ آپؑ نے فرمایا: ’’وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا… مگر وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبیین جناب محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ اگر یہ عظیم الشان نبی دنیا میں نہ آتا تو پھر جس قدر چھوٹے چھوٹے نبی دنیا میں آئے جیسا کہ یونس اور ایوب اور مسیح بن مریم اور ملاکی اور یحییٰ اور زکریا وغیرہ وغیرہ۔ ان کی سچائی پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں تھی اگرچہ سب مقرب اور وجیہ اور خداتعالیٰ کے پیارے تھے۔ یہ اس نبی کا احسان ہے کہ یہ لوگ بھی دنیا میں سچے سمجھے گئے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وسَلِّمْ و بَارِکْ عَلَیْہِ واٰلِہِ و اَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن و اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہ رَبِّ العٰلَمِیْن۔‘‘
(اتمام الحجۃ، روحانی خزائن جلد8صفحہ308)
یہ چند حوالے ہیں جو میں نے پیش کیے ہیں۔ آپؑ کی ہر کتاب اور ہر مجلس کی باتیں اس عشق و محبت سے بھری پڑی ہیں۔ ہمیں کسی مخالف کی سند کی ضرورت نہیں۔
ہمارے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کا ادراک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا فرمایا ہے۔ پس اس محبت کے اظہار کے لیے اپنی زبانوں کو ہمیشہ درود سے تر رکھیں۔ یہاں سے اس عزم کے ساتھ جائیں کہ ہم عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پہلے سے بڑھ کر نمونے قائم کریں گے اور درود شریف کی حقیقت اور اس کے پڑھنے کے طریق کے بارے میں پہلے سے زیادہ توجہ دیں گے اور توجہ سے پڑھیںگے اور غور سے پڑھیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس درود شریف کے بارے میں پیش کر دیتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا: ’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔‘‘
فرمایا کہ ’’جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہیے کہ جو پرہیزگاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا ورد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرورت نہیں۔ اخلاص اور محبت اورحضور اور تضرع سے پڑھنا چاہیے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 526)
پس درود شریف بھی غور سے پڑھیں اور درد سے پڑھیں جس طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا تضرع سے پڑھیں۔ ہم اس سے حقیقت میں اسی وقت فیضیاب ہو سکتے ہیں جب ہم اس طرح پڑھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس چیز کی توفیق عطا فرمائے۔
اب ہم دعا بھی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو بھی سب کو خیریت سے اپنے اپنے گھروں میں لے کر جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرنے کے لیے ہمیشہ آپ کے دلوں میں ایک جوش بھی ہو اور اس کے لیے ایک کوشش بھی کرتے رہیں اور آپؐ کے فیض سے فیض پانے کے لیے بھی حقیقتاً ہم سب کوشش کرنے والے ہوں اور یہ کوشش کریں کہ جلد سے جلد ہم آپؐ کے جھنڈے تلے دنیا کو لانے والے بنیں گے۔ اس کے لیے کوشش بھی ہو اور دعا بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اب دعا کر لیں۔ دعا
(دعا کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ نے فرمایا:)حاضری کی رپورٹ بھی سن لیں۔ اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاملین کی تعداد تینتالیس ہزار چار سو ساٹھ ہے اور ایک سو اکیس ممالک کی نمائندگی ہے اور جو مَردوں کی سکیننگ ہے اس میں اکیس ہزار سے اوپر ہے اور عورتوں کی انیس ہزار ہے۔ اس طرح جو ورکر ہیں جوسکین نہیں ہوئے چودہ سو پچاس ہیں۔ دس سال سے کم عمر کے بچےہیں وہ بھی سولہ سو سے اوپر ہیں۔ تو بہرحال تینتالیس ہزارکی تعداد ہے جو پچھلے سال سے زیادہ ہے۔
اسی طرح ایم ٹی اے کی رپورٹ یہ ہے کہ اس دفعہ لائیو سٹریمنگ انہوں نے کی تھی۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی رہے تھے دوسرے ملکوں میں بیٹھے ہوئے ہمارا جلسہ سن رہے ہیں۔ باون ممالک میں اٹھانوے سینٹرز پر لائیو سٹریم کے ذریعہ سے لوگ شامل ہوئے ہیں۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء