مکرمہ صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صاحبہ بنت حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ایک انمول ملاقات
ہر دن کی اپنی شان ہوتی ہے۔ کوئی دبے پاؤں گزرجاتا ہے،کوئی زندگی کاحاصل بن جاتا ہے۔ آج آپ کو ربوہ میں گزرے ایک یادگار دن کی کچھ دلچسپ باتیں بتاؤں گی۔ ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کو کوئی غیر معمولی شاندار چیز ملتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ اپنے پیاروں کو دکھائیں اور لطف میں سب کو شریک کریں۔ اسی طرح میری خواہش ہے کہ جو خزانہ اُس دن میرے ہاتھ لگا ہے سب میں بانٹ دوں۔ایک دفعہ کراچی سے ربوہ گئی جہاں صرف ایک ہفتہ قیام تھا۔ اس حسین بستی سے پیار کے کئی حوالے ہیں۔ قادیان سے ہجرت کے بعد تازہ بستی ربوہ ٹھکانا بنی۔ امی جان اور ربوہ کی آغوش میں بچپن، جوانی گزری۔ یہیں تعلیم حاصل کی۔ بزرگانِ سلسلہ کی شفقتوں کے مزے لوٹے۔ جامعہ نصرت میں پڑھانے اور لجنہ کی خدمت کا موقع ملا۔ یہیں سے رخصت ہو کر پیا کے دیس کراچی سدھاری۔ اس کے بعد مصروفیات نے ایسا گھیرا کہ کئی سال کے بعد ربوہ کا مختصر سا چکر لگتا۔ وفورِ شوق کا یہ عالم ہوتا کہ کسی طرح ساری بستی میں گھوم کر سہانے ماضی کا ایک ایک لمحہ یاد کروں مگر ہر دفعہ
وقت کم ہے ۔ بہت ہیں کام ۔ چلو
بس بھاگ دوڑ ہی لگی رہتی۔ ایک دفعہ ۱۹۹۴ء میں ایک ہفتے کے لیے اس سوہنی بستی میں قیام رہا۔ جماعتی کاموں کے علاوہ جلدی جلدی بہت پیاری ہستیوں سے ملاقاتیں کیں خوبصورت یادوں کا خزانہ سمیٹ کر ساتھ لے آئی۔ جس کے تاثرات پر مشتمل ایک مضمون ’دلچسپ یادیں ‘کے نام سے اگست ۱۹۹۴ءکے مصباح ربوہ میں چھپا تھا۔ آج وہی تحریر قدرے تازہ کرکے پیش کر رہی ہوں۔
ملاقاتوں کے پروگرام میں سرِ فہرست بی بی رشید صاحبہ تھیں۔ ایک دن اپنی چھوٹی بہن عزیزہ امۃالشکور ارشد کے ساتھ ان سے ملنے گئی۔ ہم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت سیّدہ امۃلحئی صاحبہ کی صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ کو بی بی رشید ہی کہتے تھے۔ آپ قادیان میں ۱۹۱۸ء میں پیدا ہوئیں۔ بہت ملنسار، خوش اخلاق اور صاحبِ ذوق خاتون تھیں۔ شادی بھاگلپور بہار کے معروف خاندان میں مکرم میاں عبد الرحیم احمد صاحب سے ہوئی۔ جامعہ نصرت میں پڑھنے اور پڑھانے کے دوران ادبی محفلوں میں اِن کی شگفتگی مجھے متاثر کرتی۔ پھر خاکسار کی شادی بھاگلپور بہار کے مکرم قریشی محمد شمس الدین صاحب کے بیٹے ناصر صاحب سے ہوئی تو جیسے پکی رشتہ داری بن گئی۔ وہ پیار محبت بانٹنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں۔ ہر ملاقات میں پیار سے اس تعلق کا ذکر کرتیں۔ جلدی گھل مل جانا ان کی خاص عادت تھی۔ اسی لیے ان سے مل کر ہمیشہ ہی مزہ آتا اور دعائیں بھی ملتیں۔ خوب صورت شخصیت سے ملنے کا تصور باندھے ہم اِن کے گھر میں لکڑی کے بہت خوبصورت دروازے سے داخل ہوئے، اندر گئے تو ایک کمرے میں فوٹو گرافر بچوں کی تصویریں کھینچ رہے تھے۔ ہم پر نظر پڑی تو بی بی رشید نے ازراہِ شفقت مسکراتے ہوئے کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ گلے لگا کر پیار کیا۔ سب عزیزوں رشتہ داروں کی خیریت پوچھی۔ابھی ہماری ملاقات سلام اور خیریت کے تبادلے سے کچھ آ گے بڑھی تھی کہ ان کی بہو بیگم ڈاکٹر ظہیر الدین منصور صاحب نے ایک چھوٹا سا ململ کا کپڑا لا کر بی بی رشید صاحبہ کو دیا کہ یہ سنبھال لیں۔ ا نہوں نے ازراہِ مہربانی یہ ململ کا کپڑا ہمیں چھونے اور آ نکھوں سے لگانے کی اجازت دی اور ساتھ ہی اس کی اہمیت بھی بتائی کہ یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس کرتے کا ٹکڑا ہے جو آپؑ نے بوقتِ وفات زیب تن کیا ہواتھا۔ آخری وقت کے پسینوں سے بھیگا ہوا یہ کرتہ حضرت اماں جان سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ؓنے بطور تبرک سنبھال لیا۔ ایک دن بی بی رشید صاحبہ کی بڑی بیٹی بیمار ہوئیں تو حضرت اماں جان ؓنے فر مایا کہ مَیں تمہیں تبرک دیتی ہوں۔ اللہ کرے اُس کی بر کت سے بچی اچھی ہو جائے۔ پھر آپ نے وہ کُرتہ نکالا۔ خود اسے گڈی کاٹ کٹوا کے اپنے دستِ مبارک سے کچے ٹانکے سے ننھا سا کرتہ سیا اور بچی کو پہنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بچی صحت یاب ہو گئی اور بی بی رشید نے یہ تبرک سنبھال لیا۔ پھر جب بھی مولا کریم نئے بچے سے نوازتا آپ محفوظ رکھا ہوا یہ قیمتی کرتہ برکت کے لیے پہنا تیں۔ پھر بچوں کے بچوں کو پہنایا۔ جس دن ہم اُن کے گھر گئے ان کی نوزائیدہ پوتی چار دن کی تھی اس کے لیے وہ تبرک نکالا گیا اور اسے پہنایا گیا تھا۔ اس طرح اس مبارک کپڑے سے بر کتیں حاصل کرنے کی تو فیق ملی۔ ہماری شان اس وقت کسی بادشاہ سے کم نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدسؑ کو خبر دی تھی کہ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ‘‘۔ ہم اس تبرک سے برکت پانے کے لیے آ نکھوں سے لگا رہے تھے۔ اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ بلکہ یوں لگا کہ اللہ میاں نے اُسے ہمارے لیے ہی تالے کھلواکے صندوق سے نکلوایا تھا۔ الحمدللہ
ہم باتیں کر رہے تھے کہ بی بی رشید صاحبہ کے میاں صاحب نے ان کو بلایا۔ وہ کچھ علیل تھے۔ وہ اُٹھ کے اندر جارہی تھیں تو میں نے عرض کی میرا سلام کہیے اور دعا کی درخواست بھی کیجیے۔ بی بی اندر سے بڑی مسرور آ ئیں کہنے لگیں مَیں نے تمہارا میکے کی طرف سے بھی اور سسرال کی طرف سے بھی تعارف کرادیا ہے۔وہ تمہیں بہت اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ایک واقعہ بھی بتا یا ہے۔
وہ واقعہ لکھنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میرے میکے اور سسرال دونوں حوالوں کا ذکر کیوں آیا۔ میکے سےتو قادیان کے اکثر لوگ واقف تھے، حضرت میاں فضل محمد صاحب ؓکی پوتی اور مکرم میاں عبدالرحیم صاحب درویشِ قادیان کی بیٹی اور سسرال میں میرے میاں مکرم ناصر احمد قریشی کے والد صاحب یعنی میرے خسر مکرم میاں محمد شمس الدین صاحب بھاگلپور کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔ اُن کو قبولِ حق کی سعادت مکرم میاں عبدا لرحیم احمد صاحب کے والد مکرم پروفیسر سعادت علی احمد صاحب کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی۔ جو واقعہ انہوں نے سنایا وہ ان کے احمدیت قبول کرنے سے پہلے کا ہے۔ بھاگلپور میں احمدیت کا پیغام لانے والوں کی شدید مخالفت ہو رہی تھی۔ ان مخالفین میں میرے خسر بھی تھے۔ ایک دن انہوں نے سوچا کہ یہ پروفیسر صاحب جو اس ’’فساد‘‘کا باعث بن رہے ہیں۔ روزانہ اپنے دفتر جانے کے لیے جس راستے سے گزرتے ہیں اُس میں ایک جنگل پڑتا ہے جو اکثر سنسان ہوتا ہے، کیوں نہ کسی دن اس جنگل سے گزرنے کے دوران ان کو مار کردوں تو جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔ چنانچہ ایک مضبوط لاٹھی لی، جنگل میں چُھپ کر بیٹھ گئے۔ جب پروفیسر صاحب زَد میں آئے دونوں ہاتھوں سے لاٹھی سر کے اوپر تک اٹھائی کہ ایک ہی وار میں کام تمام کر دیں۔ مگر ہاتھ اُٹھے کے اُ ٹھے رہ گئے وار نہ ہو سکا۔ سوچا شاید گھبراہٹ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اگلے دن پھر تاک میں بیٹھے اور عین موقعہ پر جب وار کے لیے لاٹھی اٹھائی تو ہاتھ ہوا میں رُک گئے۔ تیسرے دن بھی جب اسی طرح ہوا تو دوڑ کے جاکر پروفیسر صاحب سے عرض کی کہ جو پیغام آپ لائے ہیں مجھے بھی بتائیں اور سارا واقعہ سنایا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد ایسے ماردھاڑ والے آ دمی نہ رہے تھے بلکہ بے حد مخلص اور فدائی احمدی ہو گئے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد بی بی رشید صاحبہ نےیہ بھی بتایا کہ جب ہجرت کر کے قادیان آ گئے تو انہیں قادیان کی بزرگ ترین ہستیوں کی کار چلا نے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک دن بی بی رشید صاحبہ اور میاں احمد صاحب کو کہیں سفر کرنا تھا۔ حضرت اماں جان ؓبہت پر یشان ہو رہی تھیں کہ وہ کیسے جائیں گے۔ مکرم محمد شمس الدین صاحب نے انہیں تسلی دی اور عرض کیا کہ آپ گھبرائیں نہیں میں انشاءاللہ انہیں بحفاظت لے کر آؤں گا۔ میرے دل میں ان کا بہت احترام ہے۔ ان کے والد صاحب کے ذریعے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی صداقت کا علم ہوا اور ہمیں آپؑ کے قدموں میں قادیان آنا نصیب ہوا۔
اس کے بعد جو واقعہ انہوں نے سنایا اُسے سننے کے ساتھ ساتھ ہم ایک مشروب پی رہے تھے۔ واقعہ اتنا دلچسپ تھاکہ اگر اس وقت آپ کے ہاتھ میں بھی گلاس ہوتا تو آپ بھی ہماری طرح پینا بھول کر ہمہ تن گوش ہوجاتے۔ بی بی رشید صاحبہ کے بچپن کا بڑا مزے دار واقعہ ہے۔ اس وقت وہ نصرت گرلز سکول میں دوسری تیسری کلاس میں پڑھتی تھیں۔ سکول کے باہر ایک چھوٹی سی ’عالم کی دکان ‘بہت مشہور تھی۔ کئی ہزار بچیوں نے اُس دکان سے املی، سلیٹی، گاچنی خریدی ہوگی۔ اب وہ بچیاں اگر حیات ہوں گی تو نانیاں دادیاں ہوں گی مگر عالم کی املی کا چٹخارہ اب بھی نہیں بھولی ہوں گی۔ اُن دنوں بچوں کو زیادہ خرچی (pocket money)دینے کا رواج نہیں تھا۔ بہت کم، کبھی کبھار ایک آدھ پیسہ مل جاتا تھا۔ اُس پیسے میں سے دھیلے کی املی، دھیلے کی کوئی اَور چیز آ جاتی تھی۔ دھیلا کیا ہوتا ہے، یہ گھر میں کسی بھی بزرگ سے پوچھیں اور ساتھ ہی اُس وقت کے پیسے کی شکل بھی پوچھ لیں۔ بی بی رشید صاحبہ نے اپنے مخصوص لہجے میں مزے لے لے کر سنایا۔ جو بہت دلچسپ ہونے کے ساتھ ہمارے خاندان کے لیے بہت قیمتی بھی تھا۔ بعد میں میرے بھتیجے عزیزم آصف محمود باسط صاحب کی درخواست پر آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھی دیا۔ آپ کی تحریر پیش خدمت ہے:’’یہ واقعہ میرے بہت ہی بچپن سے تعلق رکھتا ہے۔ میں بہت چھوٹی تھی اور نیا نیا سکول جانا شروع ہوئی تھی۔ ایک دن آدھی چھٹی کے وقت ہم سب لڑکیا ں باہر کھڑی تھیں۔ وہ بہت ہی سستا زمانہ تھا۔بہت سی بچیوں کے والدین اپنی بچیوں کو ہر روز خرچ کے لیے ایک پیسہ، دو پیسے دیتے تھے۔ کئی لڑکیاں صبح ناشتہ کے بغیر ہی جلدی میں سکول آ جاتیں۔ اس طرح ایک لڑکی صبح ناشتہ کے بغیر ہی گھر سے سکول آ گئی اور پیسے لانا بھی شاید بھول گئی۔ اُس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی جوایک پیسے کے چنے خرید کر کھا رہی تھی۔ اُس لڑکی کو ساتھ کی لڑکی نے کہا جو پیسے نہیں لائی تھی کہ تمہارے پاس دو پیسے تھے ایک پیسے کے تم نے چنے لے لیے ایک پیسہ جو تمہارے پاس ہے مجھے دے دو میں پیسے لانا بھول گئی ہوں۔وہ انکار کر رہی تھی کہ میں نہیں دے سکتی۔ وہ لڑکی منت کرنے لگی کہ میں ناشتہ بھی نہیں کر کے آئی مجھے بھوک لگ رہی ہے مَیں کل تمہیں یہ پیسہ لا کر دے دوں گی۔ جب وہ کسی طرح بھی رضا مند نہ ہوئی تو اُس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ سفارش کر دیں، مجھے بھوک لگی ہے میں کل لا دوں گی۔ مجھے اُس لڑکی پر ترس آ گیا میں نے کہا دے دو یہ کل لا دے گی۔میرے کہنے پر اُس لڑکی نے اُسے پیسہ دے دیا۔وہ لڑکی ہر روز ہی جب دوسری لڑکی سے اپنا پیسہ مانگتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی۔ اس طرح ہفتوں گزر گئے۔وہ لڑکی ہر روز مجھے بھی کہتی کہ آپ نے اس کی سفارش کی تھی۔ اُن دنوں ہم بچوں کو اتنی چھوٹی عمر میں ہاتھ میں سوائے عید وغیرہ کے پیسے نہیں ملتے تھے۔ جس چیز کی ہم خواہش کرتے وہ منگو ا دی جاتی تھی۔آخر ایک دن اُس لڑکی نے مجھے کہا کہ اگر فلاں دن تک پیسہ نہ دیا تو میں حضور کو تمہاری شکایت کر دوں گی۔میں سخت گھبرائی اور بے حد پریشان ہوئی کہ سیّدنا ابا جان کو معلوم ہوگیا تو آپ کو اس بات کی سخت تکلیف ہو گی کیونکہ میں جانتی تھی کہ سیّدنا ابا جان کو قرض لینا برداشت ہی نہیں اور قرض لینے سے سخت نفرت تھی۔ تو مَیں نے رو رو کرنماز میں دعائیں شروع کر دیں اور بہت پریشان رہنے لگی۔آپا جان سیّدہ اُمِّ طاہر صاحبہ مجھے پریشان دیکھتیں اور نماز میں رو رو کر دعائیں کرتے دیکھ کر پریشان ہو جاتیں اور مجھ سے پوچھتیں کہ کیا تکلیف ہے مجھے بتاؤ لیکن مجھ پر اتنا خوف طاری تھا کہ میں اُن کو کبھی نہ بتاتی صرف اس لیے کہ اُن کو بھی بہت تکلیف ہو گی اس بات سے کہ اس نے اس لڑکی کو قرض کیوں دلوایا اور یہ ذمہ داری کیوں لی۔ اور اب تو وہ لڑکی جس نے بطور قرض کے پیسہ دیا تھا وہ مجھ سے کہنے لگی کہ اب تو مَیں ایک پیسہ نہیں لوں گی بلکہ چار آنے لوں گی اگرچار آنے نہیں دو گی تو میں حضور کو شکایت کر دوں گی۔ پھر تو کچھ نہ پوچھئے کہ میں نے کس طرح رو رو کر بلک بلک کر دعائیں کیں کہ یا اللہ تُو میری مدد کر۔ ایک دن میں سکول جانے کے لیے اپنے کمرہ میں تیار ہو رہی تھی کہ بھائی عبدالرحیم صاحب درویش کی بیگم صاحبہ میرے کمرہ میں آئیں اور مجھے ایک چونی دینے لگیں۔ میں نے انکار کیا کہ سیّدنا ابا جان نے ہمیں کسی سے بھی کوئی بھی چیز لینے سے سختی سے منع کیا ہو ا ہے۔اس پر وہ کہنے لگیں یہ میں نہیں دے رہی آپ کی امّی نے آپ کو بھیجی ہے۔
میں نے حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھا اور کہا:میری امّی نے؟ یہ کیاکہہ رہی ہیں؟اس پر اُنہوں نے مجھے بتایا کہ آج رات مَیں نے خواب دیکھا کہ آپ کی امّی بی بی امۃالحئی میرے پاس آئیں اور مجھے ایک چونّی دے کر کہنے لگیں کہ یہ میری بیٹی امۃ الرشید کو دے دینا وہ بہت پریشان ہے۔ مَیں نے وہ چونی لے کر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لی اور میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے یقین تھا سچ مچ وہ چونی مجھے دے گئی ہیں۔ میں نے تکیہ دیکھا، اپنا بستر جھاڑا لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا۔ نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر ہر روز کے معمول کے مطابق میں اپنے کمرہ میں جھاڑو دینے لگی اور دروازے کی دہلیز پر پہنچی تو وہاں پر ایک چونّی پڑی تھی اور مَیں وہ لے کر اُسی وقت آپ کے پاس آ گئی ہوں کیونکہ یہ میری نہیں۔ یقیناً یہ وہی چونّی ہے جو آپ کی امّی آپ کے لیے دے گئی تھیں۔ مَیں نے وہ چونّی لے لی اور اُس لڑکی کو جا کر دے دی اور اس طرح اپنی جان چھڑوائی۔
میراا یمان ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا تا کہ مجھ میں دعاؤں کا ذوق پیدا ہو اور قبولیتِ دُعا پر میرا ایمان اور یقین ہمیشہ کے لیے قائم ہو جائے اور یہ کہ جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگو وہ ناممکن کو ممکن میں بدل دینے والا ہے۔
اس واقعہ کے چند دن بعد ہی ہمیں بھی روز کے دو پیسے اور جمعے کے دن ایک آنہ ملنے لگ گیا۔بہت دن کے بعد یہ واقعہ میں نے آپا جان سیّدہ اُمِّ طاہر اور سیّدنا ابا جان کو بھی بتادیا۔وہ بھی اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ تم نے بہت اچھا کیا جو اپنے مولا سے مانگا اور بندوں کی طرف رجوع نہیں کیا۔‘‘ ایک ننھی بچی کے دعا پر یقین کا یہ انمول واقعہ سننے کے بعد ہم نے ان کے سامنے والی یونٹ میں رکھی ہوئی تصاویر دیکھیں۔ اُن میں سے ایک حضرت سیّدہ امّ طاہر صاحبہؓ کی تھی۔ ایک حضرت سیّدہ امۃالحئی صاحبہؓ کی تھی اور ایک حضرت اماں جانؓ کی تھی۔یہ تینوں تصاویر ہم نے پہلی دفعہ دیکھی تھیں۔ تصویر اس قدر اچھی اور نیچرل ہے کہ دیکھتے ہی جائیں اور بزرگوں کے لیے دُعا کرتے جائیں۔
ایک بات اَور بھی ہوئی تھی، وہ تھی اُن کے گھر پرپچھلے دنوں ہونے والے ڈاکے کی تفصیل جس میں انہوں نے بڑی حاضر دماغی اور بہادری کا ثبوت دیا تھا۔ اب اتنی اچھی باتیں کرنے کے بعد ڈاکے کا حال کیا بتاؤں۔
یقیناً اس ملاقات کا لطف پڑھنے والوں کو اس بات پر آمادہ کرے گا کہ وہ بھی بزرگوں سے ملنے جایا کریں۔ نیک لوگوں سے ملنا نیکی کی تحریک پیدا کرتا ہے اور اللہ پاک سے محبت بڑھتی ہے ۔ اب وہ محبت کرنے والا وجود ہم میں نہیں رہا۔ ۳۰؍ستمبر۲۰۱۳ءکو ۹۵؍سال کی عمر میں میری لینڈ میں ان کی وفات ہوگئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلائے۔ آمین۔ خاکسار کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیے اللہ تعالیٰ انجام بخیر فرمائے۔ آمین