صحت

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (امراض نسواں کےمتعلق نمبر ۴) (قسط۹۱)

(ڈاکٹر رغیبہ وقار بسرا)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

کلکیریا آرس

Calcarea ars

اس میں لیکوریا زرد رنگ کا ہو گا جو کاٹنے والا تیزابی مادہ رکھتا ہے۔ بعض دفعہ لیکوریا عورتوں کے لیےتکلیف کا باعث بننے کے علاوہ نفسیاتی الجھنیں بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اس قسم کے لیکوریا میں کلکیریا آرس کے علاوہ کالی فاس اور آرسینک بھی مفید دوائیں ہیں جو سخت بدبودار اور سوزش والے لیکوریا کا توڑ ہیں۔ رحم کے کینسر میں اگر مسلسل ہلکا ہلکا خون جاری رہے اور وہ تیزابی اور بدبودار ہو تواس میں بھی کلکیریا آرس بہت فائدہ بخش ہے۔(صفحہ۱۹۰)

کلکیریا کارب

Calcarea carb

کلکیریا کارب مردوں اور عورتوں دونوں کی اندرونی کمزوریاں دور کرنے کے لیےبھی استعمال ہوتی ہے۔ رحم کے نیچے کی طرف گرنے کے رجحان کو روکتی ہے۔ یہ ماہواری نظام کی خرابیاں بھی دور کرتی ہے اور عادتاً بہت زیادہ خون جاری ہونے کی بہت اہم دوا ہے۔ یہ صرف بلیڈنگ (Bleeding) ہی نہیں روکتی بلکہ اندر جو غدودیں وغیرہ بڑھ جاتی ہیں ان کا بھی علاج کرتی ہے۔ جہاں کسی ایک دوا کی واضح تشخیص نہ ہو سکے حسب ذیل تین دوائیں ملا کر دی جائیں تو حیض کے دوران زیادہ خون جاری ہونے کا اکثر مؤثر علاج ثابت ہوتی ہیں۔ وہ دوائیں یہ ہیں۔ کلکیریا کارب، میوریکس (Murex) اور سائنا۔ 30 طاقت میں چند مہینے تک دی جائیں، شروع میں تین دفعہ روزانہ، پھر فائدہ ہونے پر صرف ایک دفعہ روزانہ کافی ہے۔ رحم کی رسولیوں کا بھی یہ مؤثر علاج ہے۔ کلکیر یا مزاج کی عورتوں کو بعض دفعہ بہت گاڑھا ہر وقت رہنے والا لیکوریا لاحق ہوتا ہے۔ اگر ایسی مریضہ میں بار بار حمل ضائع ہونے کا رجحان بھی ہو تو کلکیریا کارب بہت قیمتی دوا ثابت ہوتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ ایک ایسی ہی مریضہ کو یہ دوا دی جس نے اتنا اچھا اثر دکھایا کہ اسے اگلے حیض سے پہلے ہی حمل ٹھہر گیا اور بچے کی پیدائش تک اسقاط کی تکلیف نہیں ہوئی حالانکہ اس سے پہلے کئی حمل ضائع ہو چکے تھے۔ اسقاط حمل سے بچاؤ کے لیےصحیح دوا کی معین تشخیص بہت ضروری ہے۔ فیرم فاس، کلکیریا فاس اور کالی فاس جو عمومی کمزوری اور خون کی کمی کو دور کرتی ہیں۔ یہ دوران حمل بھی اسقاط کے خلاف اچھا اثر دکھاتی ہیں۔ دوسری مددگار دوا جو اسقاط میں بہت مفید ہے کولو فائیلم ہے۔ لیکن اگر مریض کی ساخت کلکیریا کارب والی ہو تو اسے بلا تردد کلکیریا کارب ہی دیں پھر کسی اور دوا کی غالبا ً ضرورت پیش نہیں آئے گی۔(صفحہ۱۹۷-۱۹۸)

کلکیریا فلوریکا

Calcarea fluorica

(Fluoride of Lime)

عورتوں کے سینے میں سخت گلٹیاں بنتی ہیں۔ یہ اور دوسری ہر قسم کی گلٹیاں جن میں کینسر بننے کا رجحان ہو ان میں کلکیر یا فلور استعمال کرنی چاہیے۔ میرے مشاہدہ میں کئی ایسے مریض آئے ہیں جن کی کلائی کے غدود پھول کر سخت ہو گئے تھے۔ (صفحہ۱۹۹)

رحم کے غدودوں کے نسخہ میں دیگر دواؤں کے علاوہ کلکیر یا فلور بھی ضرور شامل کرنی چاہیےبسا اوقات یہ اکیلی ہی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ۱۹۹)

مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء کی تکلیفوں سےبھی اس کا تعلق ہے بعض اوقات اعضائے رئیسہ میں خون کی نیلی رگ بن جاتی ہے جس سے خون نکلنے لگتا ہے۔ اس کے لیےکلیر یا فلور کے علاوہ برائٹا کا رب بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔(صفحہ۲۰۰)

کلکیریا آیوڈائیڈ

Calcarea iodide

(Iodide of Lime)

کلکیریا آیوڈائیڈ میں رحم کی رسولیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

کلکیریا فاس

Calcarea phosphorica

کلکیریا فاس میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ عورتوں کی بہترین دوست دوا ہے اور اس کی بہت سی علامتیں ایسی ہیں جو عورتوں کی روز مرہ بیماریوں میں ملتی ہیں۔ ان میں کلکیریا فاس کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ جب بچیوں میں بلوغت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو کئی قسم کی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں۔ حیض کے ایام بہت تکلیف دہ ہوں، خون زیادہ آئے یا ایام میں کمی بیشی ہو تو کلکیریا فاس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر اس ابتدائی دور میں سردی لگنے کی وجہ سے ایام میں بےقاعدگی پیدا ہو جائے تو ساری عمر کا روگ لگ جاتا ہے اور اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک کلکیریا فاس استعمال نہ کی جائے۔

حیض کے ایام میں پیدا ہونے والی ہر بے قاعدگی کو فوراً وقتی طور پر پیدا ہونے والی علامتوں سے پہچاننا بہت مشکل ہے جب تک بیماری کے پورے پس منظر سے واقفیت نہ ہو۔ اگر بڑی عمر میں جا کر ایسی تکلیفیں ظاہر ہوں تو علاج کرتے ہوئے عموماً خیال نہیں آتا کہ بچپن میں کیا بد احتیاطی ہوئی تھی۔ اس لیےضروری ہے کہ بیمار خواتین سے ان کے آغاز جوانی میں واقع ہونے والے اندرونی عوارض کی تفصیل پوچھی جائے اور پتا کیا جائے کہ بیماری کا آغاز کب اور کیسے ہوا تھا؟

اگر حیض کے ایام میں سردی لگ جائےاور حیض کی بےقاعد گی شروع ہو جائے تو کلکیریا فاس کو فوراً استعمال کروانا چاہیے۔ اس کے استعمال کے بعد یہ تکلیفیں خدا کے فضل سے دوبارہ نہیں ہوں گی۔ کلکیر یا فاس اور سیمی سی فیوجا میں یہ علامت مشترک ہے کہ حیض کے آغاز میں رحم میں اینٹھن، درد اور تشنج ہوتا ہے لیکن ایک پہچان ایسی ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیتی ہے وہ یہ کہ سیمی سی فیوجا میں جوں جوں خون کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے اینٹھن درد اور تکلیف بڑھتی ہے جب کہ کلکیریا فاس میں خون شروع ہونے سے پہلے درد اور سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن جب خون جاری ہو جائے تو آرام محسوس ہوتا ہے اور دوران حیض کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ کلکیریا فاس کی یہ علامت اسے دوسری دواؤں سے ممتاز کرتی ہے۔ عام طور پر میگنیشیا اس تشنج کی بہترین دوا سمجھی جاتی ہے اور صرف رحم میں ہی نہیں بلکہ سارے جسم کے تشنج میں کام آسکتی ہے۔ اگر تشنج کو گرمی پہنچانے سے آرام محسوس ہو تو میگنیشیا فاس دیں لیکن اگر سردی سے آرام آئے تو بیلاڈونا، ایپس، سیکیل اور پلسٹیلا بھی اچھی دوائیں ہیں۔ کلکیر یا فاس کے تشنج میں بھی گرمی پہنچانے سے آرام آتا ہے۔ کلکیر یا فاس عورتوں کے جنسی اعضاء میں تشنج کی بہترین دوا ہے۔ اگر جنسی خواہشات ضرورت سے زیادہ ہو جائیں جو ایک طبعی کیفیت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بیماریوں کے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں تو کلکیریا فاس کے علاوہ پلاٹینا، گریشیولا اور اوری گینم (Origanum) بھی کام آ سکتی ہیں۔ اگر پیشاب کرتے ہوئے رحم باہر آجائے تو فوراً کلکیریا فاس دینی چاہیے۔ کلکیریا فاس میں عموماً کالے رنگ کے خون کے لوتھڑے آتے ہیں جب کے کلکیریا کارب اور فاسفورس میں سرخ رنگ کا خون آتا ہے۔حیض عموماً وقت سے پہلے جاری ہو جاتا ہے۔ اگر جلدی خون شروع ہو جائے تو وہ سرخ ہو گا لیکن اگر دیر ہو جائے تو خون سیاہی مائل ہو گا۔ بعض دفعہ شروع میں سرخ پھرسیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ کلکیریا فاس میں لیکوریا انڈے کی سفیدی کی طرح ہوتا ہے۔ صبح کے وقت علامات شدت اختیار کر لیتی ہیں۔ دودھ پلانے والی عورتوں کا دودھ نمکین ہوجاتا ہے اور بچہ دودھ پینے سے انکار کر دیتا ہے۔(صفحہ۲۰۵-۲۰۶)

کیمفر

Camphora

(Camphor)

اگر رحم کے انفیکشن کے نتیجہ میں بخار ہو تو پائیرو جینم اور سلفر کے علاوہ کیمفر بھی اچھی دوا ہے۔ اگر جسم ٹھنڈا ہو تو کیمفر سے علاج شروع کرنا چاہیے۔ بعض اوقات بخار دب جاتا ہے اور جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس وقت سلفر کی بجائے کیمفر ضروری ہے۔ جب وہ بخار کو باہر نکال لائے تو سلفر اور پائیروجینم ملا کر دینی چاہیے۔(صفحہ۲۱۸)

عورتوں کی ادھیڑ عمر میں جب حیض بند ہونے کا وقت آئے تو بسا اوقات کئی قسم کی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں۔ چہرے پر گرمی کی لہریں محسوس ہوتی ہیں۔ اس میں دوسری دواؤں کے علاوہ کیمفر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ایسی عورتیں جو کیمفر سے آرام محسوس کرتی ہیں کپڑا اتار دیں تو سخت ٹھنڈ محسوس کرتی ہیں اور کپڑا اوڑھیں تو پسینہ سے تربتر ہو جاتی ہیں۔(صفحہ۲۱۹)

کینیبس انڈیکا

Cannabis indica

کینیبس انڈیکا میں حیض دب جاتا ہے اور حمل ضائع ہونے کا رجحان بھی ہوتا ہے۔(صفحہ۲۲۵)

کینتھرس

Cantharis

عورتوں کی علامتوں میں حیض کی یہ مخصوص علامتیں شامل ہیں کہ حیض جلد اور بہت زیادہ آتے ہیں۔ سیاہی مائل خون کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر بچے کی پیدائش کے بعد آنول (Placenta) اندر رہ جائے تو سیکیل کی طرح کینتھرس کی مریضہ میں بھی رحم میں گینگرین بننے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ بیماری اس حد تک نہ بھی بڑھی ہو تو رحم عموماً سوزش کا شکار رہتا ہے اور گندی رطوبت کا مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے۔ بیضتہ الرحم (Ovaries) میں بھی شدید درد اور جلن پائے جاتے ہیں۔ (صفحہ۲۳۱)

کاربو انیمیلس

Carbo animalis

عورتوں کے رحم کے منہ پر کینسر ہو جائے تو معالجین رحم نکالنے کا مشورہ دیتے ہیں حالا نکہ یہ علاج بھی کارگر نہیں ہوتا۔ اگر کاربو انیمیلس آغاز میں ہی دے دی جائے تو شفابخش ثابت ہوتی ہے۔ عام سوزش اور دردوں میں بھی مفید ہے۔ رحم کے منہ پر زخم ہو جائے تو لیکوریا بھی جاری ہو جاتا ہے جس میں بہت جلن ہوتی ہے۔ کاربو ویج میں بھی ایسی ہی جلن کی علامت ہوتی ہے لیکن صرف اندرونی طور پر، بیرونی سطح پر ٹھنڈک کا احساس رہتا ہے۔ رحم سے جلن دار لیکوریا کا اخراج ہو تو فوراً کاربو انیمیلس استعمال کروانی چاہیے۔ اگر تاخیر ہو جائے تو علامتیں بڑھ کر کینسر میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ حمل کی متلی کی بھی اچھی دوا بتائی جاتی ہے اور اس کی خاص علامت یہ ہے کہ رات کے وقت متلی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر دودھ پلانے کے زمانے میں سخت کمزوری واقع ہو جائے اور اعصاب جواب دے جائیں تو کاربوایمیلس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فم رحم کی طرح رحم کےعمومی کینسر کی بھی دوا ہے۔اس کی خاص علامت یہ ہے کہ غدود یں پھول جاتی ہیں۔ ہونٹوں اور گالوں کا رنگ نیلا ہو جاتا ہے۔ کاربو انیمیلس میں حیض عموماً جلد اور مقدار میں زیادہ اور لمبا چلنے والا ہوتا ہے۔ حیض کے دوران مریضہ سخت کمزور ہو جاتی ہے۔ سیپیا سے مشابہ ناک کے اوپر سیاہی مائل نشان بن جاتا ہے جو رخساروں کے اطراف میں گالوں پر اترتا ہے۔ سیپیا سے یہ نشان دور نہیں ہوتا کیونکہ سیپیا کا اپنا ایک خاص مزاج ہے۔ جب تک وہ نہ ہو سیپیا سے فائدہ نہیں ہوتا۔ عورتوں کی جسمانی کیفیت اور ساخت سیپیا کی پہچان ہے، وہ نسبتاً پتلی ہوتی ہے، اپنوں سے اجنبیت محسوس کرنے لگتی ہے، محبت کے جذبات میں کمی آ جاتی ہے۔ خصوصاً خاوند اور بچوں کو دلی محبت کے باوجود پسند نہیں کرتی اور بیزار ہو جاتی ہے۔ اگر ایسی عورت کے ناک پر نشان ہو تو سیپیا دینی چاہیے، فائدہ نہ ہو تو کار بو انیمیلس ضرور دیں۔ میرا تجربہ ہے کہ وضع حمل کے بعد ہونے والی تکلیفوں میں کاربو انیمیلس بہت موثر ہے۔ اس سے ناک کا نشان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ کاربو انیمیلس حمل کی متلی میں بھی مفید ہے۔ اگر مریضہ میں اس کی دیگر علامات موجود ہوں تو یہ سینے میں سختی اور درد کےلیےبھی اچھی دوا ہے۔(صفحہ۲۳۸-۲۳۹)

(نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button