عورتوں کے لیے پاک دامن رہنے کے طریق
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عورتوں کو پاک دامن رہنے کے طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نا محرم مردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی اُن کی پُر شہوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے ستر کی جگہ کو پردہ میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر محرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آجائے یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پَیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں ۔یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ ۳۴۱-۳۴۲،)
بےپردگی کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ بیان فرماتے ہیں: ’’آجکل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں، لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زنداں نہیں، بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے ۔ جب پَردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۱-۲۲، ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’قرآن مسلمان مردوں اور عورتوں کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غضِّ بصر کریں ۔جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں تو محفوظ رہیں گے ۔یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔ افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنّف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے ؟ نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے ۔اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہے ۔… اسلامی پَردہ سے یہ ہر گز مُراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔ قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں ۔ وہ غیر مرد کونہ دیکھیں ۔جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدّنی امور کے لئے پڑے اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیں ہے، وہ بیشک جائیں، لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۹۷-۲۹۸، ایڈیشن ۲۰۰۳ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرما تے ہیں کہ ’’جو عورتیں بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو جا ئیں اور نکاح کے قابل نہ رہیں وہ اگر معروف پردہ چھو ڑ دیں تو جا ئزہے ہا ں خواہ مخواہ زیور پہن کر بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلیں یعنی پردہ ایک عمر تک ہے اس کے بعد پردہ کے احکام ساقط ہو جا تے ہیں ۔ہمارے ملک نے پردہ کے احکام کو ایسی بری طرح استعمال کیا ہے کہ جوان عورتیں پردہ چھو ڑ رہی ہیں…عورت کا چہرہ پردہ میں شامل ہے ورنہ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَا بَھُنَّ کے یہ معنے کرنے پڑیں گے کہ مو نہہ اور ہاتھ تو پہلے ہی ننگے تھے اب سینہ اور بازو بھی بلکہ سارا بدن بھی ننگا کرنا جا ئز ہوگیا حا لا نکہ اسے کو ئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔‘‘ (تفسیرکبیر جلد ششم صفحہ۳۹۶-۳۹۷)
پردہ کی روح حیا:سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیا کو ایمان کا جزو قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’پھر اپنے آپ کو باحیا بنانا ہے کیونکہ یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جس طرح اپنے آپ کو ڈھانپنے کا حکم دیا ہے اس طرح احتیاط سے ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ زینت ظاہر نہ ہو۔ حیا کا تصور ہرقوم میں اور ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ آج مغرب میں جو بے حیائی پھیل رہی ہے اس سے کسی احمدی لڑکی کو کسی احمدی بچی کو کبھی متأثر نہیں ہونا چاہئے۔ آزادی کے نام پر بے حیا ئیا ں ہیں، لباس، فیشن کے نام پر بے حیائیاں ہیں۔ اسلام عورت کو باہر پھرنے اور کام کرنے سے نہیں روکتا۔ اُس کو اجازت ہے لیکن بعض شرائط کے ساتھ کہ تمہاری زینت ظاہر نہ ہو۔ بے حجابی نہ ہو۔ مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب رہنا چاہئے۔ دیکھیں قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں بیان فرمایا ہے کہ جب وہ اُس جگہ پہنچے جہاں ایک کنویں میں تالاب کے کنارے بہت سے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف دو لڑکیاں بھی اپنے جانور لے کے بیٹھی ہیں تو انہوں نے جب اُن سے پوچھا کہ تمہارا کیامعاملہ ہے تو لڑکیوں نے جواب دیا کیونکہ یہ سب مرد ہیں اس لئے ہم انتظار کر رہی ہیں کہ یہ فارغ ہوں تو پھرہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں۔ تو دیکھیں یہ حجاب اور حیا ہی تھی جس کی وجہ سے اُن لڑکیوں نے اُن مَردوں میں جانا پسند نہیں کیا۔ اس لئے یہ کہنا کہ مَردوںمیںmix upہونےمیں کوئی حرج نہیں ہے یا اکٹھیgatheringکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ علیحدگی فضول چیزیں ہیں۔ عورت اور مرد کا یہ ایک تصور ہمیشہ سے چلاآرہا ہے۔ عورت کی فطرت میں جو اللہ تعالیٰ نے حیا رکھی ہے ایک احمدی عورت کو اُسے اور چمکانا چاہئے، اُسے اور نکھارنا چاہئے، پہلے سے بڑھ کر باحیا ہونا چاہئے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے تعلیم بھی بڑی واضح دے دی ہے اس لئے بغیر کسی شرم کے اپنی حیااور حجاب کی طرف ہر احمدی عورت کو ہر احمدی بچی کو ہر احمدی لڑکی کو توجہ دینی چاہئے۔‘‘(خطاب بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے ۲۰؍نومبر ۲۰۰۵ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۲؍مئی ۲۰۱۵ءصفحہ ۱۵)
واقفات نو کی کلاس میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں یہ نہیں کہتا کہ گُھٹ کر بیٹھ جائو اور کہیں ایسی frustration نہ پیدا ہو جائے کہ کہیں اپنے جذبات کو نہ نکال سکو ۔لیکن ان کی ایک limit ہونی چاہیے۔ اس limitکے اندر رہو اور جو مرضی کرو ۔ حیا کی حفاظت کرو ۔ حیاہمیشہ عورت کی عزت بڑھاتی ہے ۔عیسائی عورتیں بھی پہلے حیا دار ہوتی تھیں لباس بھی ان کے لمبے ہوتے تھے جو اُن میں خاندانی ہوتی تھیں ان کے لباس اور بھی اچھے ہوتے تھے ،بازو لگے ہوئے ،اسکارف پہنے ہوئے ۔یہ تو آہستہ آہستہ عورت کی آزادی ہوئی ہے ،بلکہ انگلینڈ کی ایک عیسائی عورت نے ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ یہ مرد جو کہتے ہیں کہ عورت کو آزادی دو اور ان کے جو چاہیں پردے اتار دو ، ان کے لباس ننگے کر دو ،اصل میں یہ مرد عورت کی آزادی نہیں چاہتے بلکہ ان کی اپنی جو خواہشات ہیں ان کو پورا کرنا چاہتے ہیںاور اسی عورت نے لکھا ہے کہ عورت ا ن مردوں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتی ہے ۔ اس لئے عورت کی اپنی ایک sanctitiyہے بہرحال ایک احمدی عورت کو بڑا Chasteہو نا چاہیے۔ اس کا خیال رکھو۔‘‘(کلاس واقفات نو کینیڈا، ۱۱؍جولائی۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍ستمبر۲۰۱۲ء)