اللہ تعالیٰ کی خشیت انسان کو حقیقی عالم بنا دیتی ہے
حقیقی اسلام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے جو اس زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہودؑنے ہمیں کھول کر بتایا ہے اور سکھایا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں حاصل کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کی حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ علماء صرف ایک طبقے کا نام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو محدود ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہر انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے تشریف لائے تھے۔ انسانوں کو باخدا انسان بنانے کے لئے تشریف لائے تھے اور انسان باخدا انسان نہیں بن سکتا جب تک کہ اُس میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا نہ ہو۔ اسلام میں آ کر تو بڑے بڑے چور ڈاکو صرف اس لئے ولی بن گئے کہ اُن میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کا فہم و ادراک پیدا ہو گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ارشادات میں بہت جگہ پر تذکرۃ الاولیاء کے واقعات بھی بیان فرماتے ہیں، کئی جگہ ذکر آتا ہے۔ ایک مثال میں اس وقت تذکرۃ الاولیاء کی لیتا ہوں۔ فُضَیل بن عَیاض کے متعلق تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ’ہرات‘میں کوئی قافلہ آ کر ٹھہرا اور اس میں ایک شخص یہ آیت تلاوت کر رہا تھا کہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِاللّٰہِ (الحدید: 17) یعنی کیا اہل ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خوفزدہ ہو جائیں۔ اس آیت کا فضیل کے قلب پر ایسا اثر ہوا جیسے کسی نے تیر مار دیا ہو اور آپ نے اظہار تأسف کرتے ہوئے کہا کہ یہ غارتگری کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور وقت آ چکا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں چل پڑیں۔ لکھا ہے کہ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رو پڑے اور اس کے بعد سے ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ پھر ایک ایسے صحراء میں جا نکلے جہاں کوئی قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور اہل قافلہ میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ اس راستے میں فضیل ڈاکے مارتا ہے۔ لہٰذا ہمیں راستہ تبدیل کر دینا چاہئے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اب قطعاً بے خوف ہو جاؤ۔ اس لئے کہ مَیں نے راہزنی سے توبہ کر لی ہے۔ پھر ان تمام لوگوں سے جن کو آپ سے اذیتیں پہنچی تھیں، معافی طلب کر لی۔ پھر یہی ڈاکے ڈالنے والے’رحمۃ اللہ علیہ‘کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ (ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ صفحہ 74-75مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
(خطبہ جمعہ ۳؍ اگست ۲۰۱۲ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۴؍ اگست ۲۰۱۲ء)