خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ فروری 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ22؍ فروری 2019ء بمطابق22؍تبلیغ 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
آج کل جماعت میں یوم مصلح موعود کے حوالے سے جلسے ہو رہے ہیں یعنی اس پیشگوئی کے حوالے سے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک موعود بیٹے کی خبر دی تھی۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اس بیٹے کو وہ خاص خصوصیات کا حامل بنائے گا۔ وہ دین کا خادم ہو گا۔ لمبی عمر پائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے چلائے گا۔ یہ پیشگوئی 20؍فروری 1886ء کی ہے۔ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور آپؑ کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے۔ چنانچہ جو عرصہ اس بچے کی پیدائش کا دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق 12؍جنوری 1889ء (eighteen eighty-nine) کو وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ رکھا گیا جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے وصال کے بعد خلافت کی ردا پہنائی۔
اس وقت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے کچھ واقعات اور آپؓ کا اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کے بارے میں کچھ بیان کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اس پیشگوئی کی اہمیت اور سچائی کے بارے میں جو آپ نے ارشاد فرمایا ہے پیش کرتا ہوں۔ یہ پیشگوئی ایک بیٹے کی پیدائش کی نہیں تھی بلکہ ایک ایسے عظیم الشان فرزند کی ولادت کی پیشگوئی تھی جس کے آنے سے ایک روحانی انقلاب کی داغ بیل ڈالی جانے والی تھی۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے معترضین کو جو جواب دیا ہے جیسا کہ میں نے کہا وہ پیش کرتا ہوں۔ وہ آپؑ کے الفاظ میں ہی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ‘‘اس جگہ آنکھیں کھول کر دیکھ لینا چاہیے کہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جل شانہ نے ہمارے نبی کریم رؤوف و رحیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے۔ اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اَولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے کیونکہ مردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جنابِ الٰہی میں دعا کر کے ایک روح واپس منگوایا جاوے۔ اور ایسا مردہ زندہ کرنا حضرت مسیح اور بعض دیگر انبیاء علیہم السلام کی نسبت بائبل میں لکھا گیا ہے جس کے ثبوت میں معترضین کو بہت سی کلام ہے۔ اور پھر باوصف ان سب عقلی و نقلی جرح و قدح کے یہ بھی منقول ہے کہ ایسا مردہ صرف چند منٹ کے لئے زندہ رہتا تھا۔ اور پھر دوبارہ اپنے عزیزوں کو دوہرے ماتم میں ڈال کر اس جہاں سے رخصت ہو جاتا جس کے دنیا میں آنے سے نہ دنیا کو کچھ فائدہ پہنچتا تھا نہ خود اس کو آرام ملتا تھا اور نہ اس کے عزیزوں کو کوئی سچی خوشی حاصل ہوتی تھی۔ سو اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا سے بھی کوئی روح دنیا میں آئی تو درحقیقت اس کا آنا نہ آنا برابر تھا۔ اور بفرضِ محال اگر ایسی روح کئی سال جسم میںباقی بھی رہتی، تب بھی ایک ناقص روح کسی رذیل یا دنیا پرست کی جو اَحَدٌ مِنَ النَّاسِ ہے دنیا کو کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی؟ مگر اس جگہ…’’آپؑ پیشگوئی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر پہلے ان انبیاء کی روحیں واپس آتی رہیں۔ کسی مردے کو زندہ کیا تو ایک عارضی تھیں اور وہ لوگ ایک عام آدمی ہوتے تھے لیکن آپؑ فرماتے ہیںکہ ‘‘…اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہ و ببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم، خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیائے موتیٰ کے برابر معلوم ہوتا ہے۔ مگر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ نشان مردوں کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ بہتر ہے۔ مردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگائی گئی ہے۔’’آپؑ نے فرمایا بچہ کے لئے جو یہ دعا کی گئی تھی کہ دعا سے ہی ایک روح منگائی گئی ہے۔ ‘‘مگر ان روحوں اور اس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔ جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مرتد ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 114 تا 115، اشتہار واجب الاظہار 22مارچ 1886ء)
تبلیغ رسالت میں آپؑ نے یہ بیان فرمایا۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کوئی معمولی روح نہیں مانگی گئی تھی بلکہ ایک نشان مانگا گیا تھا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات کے حامل بیٹے کی پیدائش کی خبر دی۔ ایک ایسے فرزند جلیل کی خبر دی گئی ‘‘جو عمر پانے والا ہو گا۔ نہایت ذکی اور فہیم ہو گا۔ صاحبِ شکوہ و عظمت اور دولت ہو گا۔ قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ کلام اللہ یعنی قرآن کریم کا نہایت گہرا فہم اس کو عطا ہو گا اور اس خدا داد فہم سے کام لے کر وہ قرآن کی ایسی عظیم الشان خدمت کی توفیق پائے گا کہ کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہو۔ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ وہ عالم کباب ہو گا یعنی اس کے دورِ حیات میں ایسی عالمگیر تباہیاں آئیں گی جو سب دنیا کو بھون کر رکھ دیں گی۔ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔’’
(سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 53 تا 54)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایسی عالمگیر تباہیاں جنگوں کی صورت میں بھی آئیں۔ دو جنگیں عالمی جنگیں ہوئیں اور آفات کی صورت میں بھی آئیں۔ پھر شہرت پانے کا جہاں تک تعلق ہے آپ نے اپنی زندگی میں نئے مشن اور تبلیغی کام کر کے دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچا کر زمین کے کناروں تک شہرت بھی پائی بلکہ اس پیشگوئی کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اب میں اس وقت حضرت مصلح موعود کی سوانح اور سیرت کے حوالے سے جیسا کہ میں نے کہا کچھ باتیں پیش کروں گا۔
جہاں تک آپ کی تعلیم کا تعلق ہے۔ ناظرہ قرآن کریم پڑھنے کے بعد آپ کو باقاعدہ سکول میں داخل ہو کر جو رائج تعلیم تھی، مروجہ دنیاوی تعلیم پانے کا موقع ملا اور اس کی بھی یہ حالت تھی کہ گھر پر بھی اساتذہ سے اردو اور انگریزی کی امدادی تعلیم حاصل کی۔ اس بارے میں حضرت پیر منظور محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ آپ کو اردو پڑھاتے رہے۔ چنانچہ جو استاد مقرر ہوئے گھر میں تعلیم دینے کے لئے ان میں پیر منظور محمد صاحب تھے جنہوں نے آپ کو کچھ عرصہ اردو پڑھائی۔بعد ازاں کچھ عرصہ مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو انگریزی پڑھائی لیکن یہ سب تعلیم کس ماحول اور کس اہتمام کے ساتھ ہوئی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے جب فضل عمر کی سوانح لکھی تو آپ لکھتے ہیں یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے جو خود حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب ہی کے الفاظ میں سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ تعلیم کا جیسا کہ میں نے کہا کیا حال تھا؟ وہ ہم حضرت مصلح موعود کی زبانی سنتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپؓ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ اس لئے آپؓ کا طریق یہ تھا کہ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت کُکرے پڑ گئے تھے (آنکھوں کی بیماری تھی) اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپؑ نے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ مجھے اس وقت یاد نہیں’’آپؓ فرماتے ہیں ‘‘مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپؑ نے کتنے روزے رکھے بہرحال تین یا سات روزے آپؑ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی آپؑ افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچا نا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں۔ لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آ سکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اس میں بھی کُکرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا کہ پڑھائی اس کی مرضی پرہو گی۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بار ہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو (یعنی حضرت مولانا نورالدین خلیفۃ المسیح الاول سے پڑھ لو) اس کے علاوہ آپؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔’’ آپؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘ماسٹر فقیر اللہ صاحب …ہمارے حساب کے استاد تھے (سکول میں) اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی۔ پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی تھی۔ اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا۔ کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا۔ ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ نہیں پڑھتا۔ کبھی مدرسہ میں آ جاتا ہے، اور کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے ’’آپؓ لکھتے ہیں کہ ‘‘مجھے یاد ہے کہ جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس یہ شکایت کی تو مَیں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ بات سنی تو آپؑ نے فرمایا کہ آپ کی بڑی ’’ماسٹر صاحب کو کہا کہ ‘‘آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسے چلا جاتا ہے۔ (یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ کبھی کبھی چلا جاتا ہے) ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہنس کر فرمایا کہ اس سے ہم نے کوئی آٹے دال کی دکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے۔ حساب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں۔ پھر فرمایا کہ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا۔ اگر یہ مدرسے میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آ گئے۔ میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ کبھی مہینے میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اَور بات تھی۔ غرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا، (جگر کے علاج کے لئے)۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی تھی۔ ریڈ آئیوڈائڈ آف مرکری (Red Iodide of Mercury)کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ (ٹانسلز کی شکایت تھی) غرض آنکھوں میں کُکرے، جگر کی خرابی، عظم طہال کی شکایت (یعنی تِلی کی بیماری) اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتااور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوںکا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا۔’’
فرماتے ہیں‘‘ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے میرا اردو کا امتحان لیا۔’’ حضرت مصلح موعودؓلکھتے ہیں کہ ‘‘میں اب بھی بہت بدخط ہوں’’۔ (یعنی میرا خط اچھا نہیں ہے۔ میری تحریر لکھائی اچھی نہیں) ‘‘مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں کہ میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔’’ آپؓ لکھتے ہیں میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں۔ میرے خط کا نمونہ صرف میری لڑکی، (اپنی ایک لڑکی کی مثال دیتے ہیں) امۃ الرشید کی تحریر میں پایا جاتا ہے۔ اس کا لکھا ہوا ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے لکھے ہوئے پر ایک روپیہ انعام مقرر کر دیا تھا کہ اگر خود امۃ الرشید بھی پڑھ کر بتا دے کہ اس نے کیا لکھا ہے تو ایک روپیہ انعام دیا جائے گا۔’’ فرماتے ہیں کہ ‘‘یہی حالت اس وقت میری تھی کہ مجھ سے بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا بھی پڑھا نہیں جاتا تھا۔’’ کہتے ہیں‘‘جب میر صاحب نے پرچہ دیکھا تو وہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو ایسا ہے جیسے لنڈے لکھے ہوتے ہیں۔ ان کی طبیعت بڑی تیز تھی۔ غصے میں فورًا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچے۔ میں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔’’ (بڑے غصے والی میر صاحب کی طبیعت تھی۔) ‘‘جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نامعلوم کیا ہو گا’’۔ فرماتے ہیں کہ ‘‘خیر میر صاحب آ گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپؑ کو ذرا بھی توجہ نہیں۔ میں نے اس کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ آپؑ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے کہ آپؑ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میرصاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا ‘‘بلاؤ حضرت مولوی صاحب کو۔’’ آپؓ فرماتے ہیں ‘‘جب حضرت مسیح موعود کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کو مجھ سے بڑی محبت تھی۔ آپؓ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘مولوی صاحب! مَیں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے۔’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا امتحان لے لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا۔ اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی۔ دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اَور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا۔ الف اور باء وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ پہلے ہی میری تعریف میں ادھار کھائے بیٹھے تھے فرمانے لگے حضور! میر صاحب کو تو یونہی جوش آ گیا ہے ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ ہمیشہ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو۔ میرے پاس آ جایا کرو میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو۔ چنانچہ انہوں نے زور دے دےکر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھا دی۔ یہ نہیں کہ آپؓ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہوبلکہ آپؓ کا طریق یہ تھا کہ آپؓ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے۔ کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے جاتے۔ آپؓ نے تین مہینے میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا۔ اس کے بعد کچھ ناغے ہونے لگ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ اوّلؓ نے پھر مجھ سے کہا کہ میاں مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو۔ دراصل میں نے آپؓ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی مَیں نے آپؓ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی گو ناغے ہوتے رہے۔ اسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر دی تھی۔ طب کا سبق میں نے اور میر اسحاق صاحب ؓنے ایک ہی دن شروع کیا تھا۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ میرصاحب کا ایک لطیفہ ہے جو ہمارے گھر میں خوب مشہور ہوا کہ دوسرے ہی دن، (جب پہلے دن کا سبق دونوں نے لے لیا تو دوسرے دن) ‘‘میر محمد اسحٰق صاحبؓ اپنی والدہ سے کہنے لگے کہ اماں جان مجھے صبح جلدی جگا دیں کیونکہ مولوی صاحبؓ دیر سے مطب میں آتے ہیں۔ میں پہلے مطب میں چلا جاؤں گا تا کہ مریضوںکو نسخے لکھ کر دوں حالانکہ ابھی ایک ہی دن ان کو طب شروع کئے ہوئے ہوا تھا۔
غرض میں نے آپؓ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی۔ قرآن کریم کی تفسیر آپؓ نے دو مہینے میں ختم کرا دی۔ آپؓ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف اور کبھی پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سنا دیتے۔ کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے۔ اسی طرح بخاری آپؓ نے دو تین مہینے میں مجھے ختم کرا دی۔ ایک دفعہ رمضان کے مہینے میں آپؓ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی میں شریک ہو گیا۔ چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپؓ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ غرض یہ میری علمیت تھی۔ مگر انہی دنوں میں جب یہ کورس ختم کر رہا تھا مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا دکھایا’’ جو آپ کے علم میں ترقی کے بارے میں تھا۔ (ماخوذ از سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 104 تا 109)
پس ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ہے آپؓ کی علمی حالت، جس طرح علم حاصل کیا لیکن آپؓ کی تقاریر، آپؓ کے خطابات، آپؓ کی تصانیف، آپؓ کی تفسیر قرآن اس بات کی گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپؓ کو پڑھایا۔ یقیناً یہ بہت بڑا ثبوت ہے اور پیشگوئی کی سچائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو 1906ء کا جلسہ سالانہ ہوا اس میں آپؓ نے پہلی پبلک تقریر کی۔ اس تقریر کے علم و معرفت کا سامعین پر جو اثر ہوا اور جو ان کی کیفیت تھی اس کا کچھ اندازہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی اور قادر الکلام شاعر حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں ‘‘بُرجِ نبوت کا روشن ستارہ، اَوجِ رسالت کا درخشندہ گوہر محمود سلمہ اللہ الودود شرک پر تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا۔ میں ان کی تقریر خاص توجہ سے سنتا رہا۔ کیا بتاؤں فصاحت کا ایک سیلاب تھا جو پورے زور سے بہ رہا تھا۔ واقعی اتنی چھوٹی سی عمر میں خیالات کی پختگی اعجاز سے کم نہیں۔ میرے خیال میں یہ بھی حضور علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے اور اسی سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ مسیحیت مآب کی تربیت کا جَوہر کس درجہ کمال پر پہنچا ہوا ہے۔ آپؓ نے روحانی کمالات پر عجیب طرز سے بحث کی۔ ’’(الحکم۔ 10جنوری 1907ء جوبلی نمبر 1939ء)(ماخوذ از سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 121-122)
اس زمانے میں دینی سرگرمیاں اور جوش اور ذہنی و روحانی نشوونما یہ بتا رہی تھی کہ پیشگوئی کے الفاظ کہ وہ جلد جلد بڑھے گا کے مصداق بننے والے آپؓ ہی ہیں ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی دینی جوش کو محسوس فرمایا۔ چنانچہ آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ‘‘میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں۔’’(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 26)
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہیں۔ یقیناً یہ دعا اس لئے ہوئی اور یہی کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہی بیٹا بنا دے جس کی خبر دی گئی تھی اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش کو تیز تر کر دے اور تمام خوشخبریاں اس کے حق میں پوری ہوں۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ؒنے جو سیرت لکھی ہے اس میں ایک جگہ آپؒ خلیفۃ المسیح الرابعؒ لکھتے ہیں کہ ‘‘خلافت اولیٰ کی ابتدا میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی عمر 19 سال کی تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت آپؓ اپنی عمر کے 26ویں سال میں داخل ہو چکے تھے۔ اس نو عمری میں آپؓ کی تقریر و تحریر کا جو رنگ تھا اس کے چند نمونے، کہتے ہیں مَیں پیش کرتا ہوں۔ آپ کے خیالات اور افکار میں ایک بزرگ مفکر کی سی پختگی آ چکی تھی۔ آپ کے الفاظ اثر اور جذب اور خلوص اور گداز میں گوندھے ہوئے تھے۔ کلام تصنع سے ناآشنا تھا اور تحریر تکلف سے پاک تھی۔ تقریر میں ایک طبعی روانی تھی اور تحریر سلاست کا ایک بہتا ہوا دریا تھی۔ دونوں ہی قرآنی علوم اور عرفان کے پانی سے لبریز اور دل و دماغ کو بیک وقت سیراب کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 19سال کی عمر میں آپؓ نے جو پہلی تقریر کی اس کے متعلق ایک صاحب علم و فضل بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘ایک اَور واقعہ جس کا میں اس مضمون میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ حضور رضی اللہ عنہ کی پہلی تقریر ہے۔ یعنی (مولوی صاحب ؓکے زمانے میں تو زندہ تھے،) حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی پہلی تقریر ہے جو حضورؓنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پہلے سالانہ جلسہ کے موقع پر کی۔ یہ جلسہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں منعقد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور کے دائیں طرف سٹیج پر رونق افروز تھے۔ سٹیج کا رخ جانب شمال تھا۔ اس تقریر کے متعلق دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ مولوی شیر علی صاحب لکھتے ہیں۔ اوّل عجیب بات یہ تھی کہ اُس وقت آپؓ کی آواز اور آپؓ کی ادا اور آپؓ کا لہجہ اور طرزِ تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز اور طرز تقریر سے ایسے شدید طور پر مشابہ تھے کہ اس وقت سننے والوں کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ،جو ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا ہم سے جدا ہو ئے تھے ،یاد تازہ ہو گئی اور سامعین میں سے بہت ایسے تھے جن کی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس آواز کی وجہ سے جو ان کے پسر موعودؓکے ہونٹوں سے اس وقت اس طرح پہنچ رہی تھی جس طرح گرامو فون سے ایک نظروں سے غائب انسان کی آواز پہنچتی ہے آنسو جاری ہو گئے اور اُن آنسو بہانے والوں میں ایک خاکسار بھی تھا۔ اگر یہ کہنا درست ہے کہ انسان کی روح دوسرے پر اترتی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح آپ پر اتر رہی تھی اور اس بات کا اعلان کر رہی تھی کہ یہ ہے میرا پیارا بیٹا جو مجھے بطور رحمت کے نشان کے دیا گیا تھا اور جس کی نسبت یہ کہا گیا تھا کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔
دوسری بات جو اس تقریر کے متعلق قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ جب تقریر ختم ہو چکی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کی ساری عمر قرآن شریف پر تدبر کرنے میں صرف ہوئی تھی اور قرآن کریم جن کی روح کی غذا تھی فرمایاکہ میاںؓنے بہت سی آیات کی ایسی تفسیر کی ہے جو میرے لئے بھی نئی تھی۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ آپؓ کی پہلی تقریر تھی جو آپؓ نے جماعت کے سامنے کی اور اس پہلی تقریر میں قرآن شریف کے وہ معارف، یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد وہ معارف بیان فرمائے ہیں جن کی نسبت حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے عالم قرآن نے یہ اعتراف فرمایا کہ یہ ان کے لئے بھی جدید معارف ہیں۔ پس یہ معارف اس نوجوان کو کس نے سکھائے؟ یہ حکمت اور یہ علم آپ کو اس زمانہ جوانی میں کس نے دیا۔ اسی نے جو قرآن شریف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے۔ وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(یوسف:23) اور جب وہ اپنی مضبوطی کی عمر کو پہنچا تو اُسے ہم نے حکمت اور علم عطا کیا اور اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپؓ نے صرف عام طور پر دانائی اور حکمت کی باتیں بیان نہ فرمائیں بلکہ قرآن شریف کے اچھوتے معارف بیان فرمائے اور اللہ تعالیٰ قرآن شریف کے متعلق فرماتا ہے لَا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ(الواقعہ:80) ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ کوئی اسے چھو نہیں سکتا سوائے پاک کئے ہوئے لوگوں کے۔ کہتے ہیں کہ پس لڑکپن کی خلوت سے نکلتے ہی آپ کا لوگوں کے سامنے قرآن شریف کے جدید اور لطیف معارف بیان فرمانا اس بات کی ایک بیّن شہادت ہے کہ آپؓ نے اپنا لڑکپن اللہ تعالیٰ کی خاص تربیت میں گزارا اور آپؓ بچپن میں ہی مطہرین کی جماعت میں داخل تھے۔
(ماخوذ از سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 217 تا 219)
آپؓ کی سیرت سے متعلق ایک غیر از جماعت صحافی کے تاثرات ہیں۔ یہ بیان کرنے سے پہلے انہوں نے صحافی کے تعارف میں لکھا ہے کہ:
‘‘مارچ 1913ء میں ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب امرتسر سے قادیان آئے اور چند دن قیام کر کے واپس چلے گئے۔ انہوں نے جماعت کا نہایت قریب سے مطالعہ کرنے کے بعد اپنے تاثرات پر ایک تفصیلی بیان دیا۔ اس نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے متعلق لکھا (حضرت) صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب سے بھی مل کر ہمیں از حد مسرت ہوئی۔ صاحبزادہ صاحب نہایت ہی خلیق اور سادگی پسند انسان ہیں۔ علاوہ خوش خلقی کے کہیں بڑی حد تک معاملہ فہم و مدبر بھی ہیں۔ علاوہ دیگر باتوں کے جو گفتگو صاحبزادہ صاحب موصوف اور میرے درمیان ہندوستان کے مستقبل پر ہوئی اس کے متعلق صاحبزادہ صاحب نے جو رائے اقوام عالم کے زمانۂ ماضی کے واقعات کی بنا پر ظاہر فرمائی وہ نہایت ہی زبردست مدبرانہ پہلو لئے ہوئے تھی۔’’یہ خلافت سے پہلے کی بات ہے۔ 1913ء کا ذکر ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانے کی بات ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ‘‘صاحبزادہ صاحب نے مجھ سے ازراہِ نوازش بہت کچھ مخلصانہ پیرایہ میں یہ خواہش ظاہر فرمائی کہ مَیں کم از کم ایک ہفتہ قادیان میں رہوں۔ اگرچہ بوجوہ چند در چند میں ان کے ارشاد کی تعمیل سے قاصر رہا مگر صاحبزادہ صاحب کی اس بلند نظرانہ مہربانی و شفقت کا از حد مشکور ہوں ۔ صاحبزادہ صاحب کا زُہد و تقویٰ اور ان کی وسعت خیالانہ سادگی ہمیشہ یاد رہے گی۔’’
(سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 324)
آپؓ کی عبادتوں کے معیار کی بچپن میں ہی کیا حالت تھی اس بارے میں ‘‘حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بھی جو آپؓ کے بچپن کے اساتذہ میں سے تھے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔’’فرماتے ہیں کہ ‘‘چونکہ عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت 1890ء کے آخیر میں کر لی تھی اور اس وقت سے ہمیشہ آمد و رفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا۔ میں حضرت اولوالعزم مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ… کو اُن کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیااور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی کاموں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا۔ نمازوں میں اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے۔’’فرماتے ہیں کہ ‘‘ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب آپؓ کی عمر 10 سال کے قریب ہو گی آپ مسجد اقصی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے۔ بچپن سے ہی آپؓ کو فطرۃً اللہ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ خاص تعلق محبت تھا۔ ’’
(سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 116 تا 117)
پھر ایک اور واقعہ ہے آپ ؓکی گریہ و زاری کرنے کا اور سجدوں میں دیر تک پڑے رہنے کا جس سے بڑوںکو بھی بڑا تعجب ہوا کرتا تھا اور ایسی حالت میں جبکہ ظاہری طور پر بڑوں کو یہ بھی پتہ ہو کہ کوئی صدمہ بھی نہیں ہے ایسا یا فکر کی کوئی بات بھی نہیں ہے تو اس وقت جب بڑے آپ کی گریہ و زاری دیکھتے تھے تو ان کو بڑا تعجب ہوتا تھا اور سوال اٹھتا تھا کہ آخر اس بچے پہ کیا بیتی ہے جو راتوں کو چھپ چھپ کر اٹھتا ہے اور بلک بلک کر اپنے رب کے حضور روتا ہے اور اپنے معصوم آنسوؤں سے سجدہ گاہ کو تر کر دیتا ہے۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب سوانح لکھی تو آپؒ لکھتے ہیں کہ یہی تعجب شیخ غلام احمد صاحب واعظ رضی اللہ عنہ کے دل میں بھی پیدا ہوا جو ایک نَومسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہوئے تھے اور اخلاص اور ایمان میں ایسی ترقی کی کہ نہایت عابد و زاہد اور صاحبِ کشف و الہام بزرگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ شیخ غلام احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ‘‘ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولیٰ سے جو چاہوں گا مانگوں گا’’کہتے ہیں ‘‘مگرجب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا اور میں نے دعا کی کہ یا الٰہی! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے’’۔ فرماتے ہیں کہ ‘‘مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپؓ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ ہیں۔ میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الٰہی! مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے۔ اسلام کی فتح کا دن دیکھنے کی یہ بےقرار تمنا جو اس نوعمری میں آپؓ کے دل میں تھی اور آپؓ کی نوعمری میں ہی وہ پھر پھل بھی لانے لگی جب آپؓ کو جوانی میں ہی اللہ تعالیٰ نے خلافت کی رداپہنائی۔ (ماخوذ از سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 151)
حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ نے ‘تشحیذ الاذھان’میں اپنی ایک دعا کا ذکر کیا ہے جو 1909ء میں آپؓ نے لکھا۔ اس مضمون میں رمضان کی برکات کا ذکر کرنے کے بعد آپؓ نے لکھا کہ:
‘‘میں رسالہ تشحیذ الاذھان کے لئے اپنی میز میں سے ایک مضمون تلاش کر رہا تھا کہ مجھے ایک کاغذ ملا جومیری ایک دعا تھی جو میں نے پچھلے رمضان میں کی تھی۔ مجھے اس دعا کے پڑھنے سے زور سے تحریک ہوئی کہ اپنے احباب کو بھی اس طرف متوجہ کروں۔ نامعلوم کس کی دعا سنی جائے اور خدا کا فضل کس وقت ہماری جماعت پر ایک خاص رنگ میں نازل ہو۔ میں اپنا دردِ دل ظاہر کرنے کے لئے اس دعا کو یہاں نقل کر دیتا ہوں کہ شاید کسی سعید الفطرت کے دل میں جوش پیدا ہو اور وہ اپنے رب کے حضور میں اپنے لئے اور جماعت احمدیہ کے لئے دعاؤں میں لگ جائے جو کہ میری اصل غرض ہے۔ وہ دعا یہ ہے۔
‘‘اے میرے مالک میرے قادر خدا۔ میرے پیارے مولیٰ میرے رہنما۔ اے خالق ارض و سماء۔ اے متصرفِ آب و ہوا۔ اے وہ خدا جس نے آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک لاکھوں ہادیوں اور کروڑوں رہنماؤں کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ اے وہ علی و کبیر جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول مبعوث کیا۔ اے وہ رحمان جس نے مسیح سا رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں پیدا کیا۔ اے نور کے پیدا کرنے والے، اے ظلمات کے مٹانے والے! تیرے حضور میں، ہاں صرف تیرے ہی حضور میں مجھ سا ذلیل بندہ جھکتا اور عاجزی کرتا ہے کہ میری صدا سن اور قبول کر کیونکہ تیرے ہی وعدوں نے مجھے جرأت دلائی ہے کہ مَیں تیرے آگے کچھ عرض کرنے کی جرأت کروں۔ میں کچھ نہ تھا تو نے مجھے بنایا۔ میں عدم میں تھا تو مجھے وجود میں لایا۔ میری پرورش کے لئے اربعہ عناصر بنائے اور میری خبر گیری کے لئے انسان کو پیدا کیا جب میں اپنی ضروریات کو بیان تک نہ کر سکتا تھا۔ تو نے مجھ پر وہ انسان مقرر کئے جو میری فکر خود کرتے تھے۔ پھر مجھے ترقی دی اور میرے رزق کو وسیع کیا۔ اے میری جان! ہاں اے میری جان! تو نے آدم کو میرا باپ بننے کا حکم دیا اور حوا کو میری ماں مقرر کیا۔ اور اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو جو تیرے حضور عزت سے دیکھا جاتا تھا، اس لئے مقرر کیا کہ وہ مجھ سے ناسمجھ اور نادان اور کم فہم انسان کے لئے تیرے دربار میں سفارش کرے اور تیرے رحم کو میرے لئے حاصل کرے۔ میں گناہگار تھا تو نے ستاری سے کام لیا۔ میں خطا کار تھا تو نے غفاری سے کام لیا۔ ہر ایک تکلیف اور دکھ میں میرا ساتھ دیا۔ جب کبھی مجھ پر مصیبت پڑی تُو نے میری مدد کی اور جب کبھی میں گمراہ ہونے لگا تُو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ باوجود میری شرارتوں کے تُو نے چشم پوشی کی۔ اور باوجود میرے دور جانے کے تُو میرے قریب ہوا۔ میں تیرے نام سے غافل تھا مگر تُو نے مجھے یاد رکھا۔ ان موقعوں پر جہاں والدین اور عزیز و اقرباء اور دوست و غمگسار مدد سے قاصر ہوتے ہیں تُو نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا اورمیری مدد کی۔ میں غمگین ہوا تو تُو نے مجھے خوش کیا۔ میں افسردہ دل ہوا تو تُو نے مجھے شگفتہ کیا ۔میں رویا تو تُو نے مجھے ہنسایا۔ کوئی ہو گا جو فراق میں تڑپتا ہو، مجھے تو تُو نے خود ہی چہرہ دکھایا۔ تُو نے مجھ سے وعدے کئے اور پورے کئے اور کبھی نہیں ہوا کہ تجھ سے اپنے اقراروں کے پورا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہو۔ میں نے بھی تجھ سے وعدے کئے اور توڑے مگر تُو نے اس کا کچھ خیال نہیں کیا۔ میں نہیں دیکھتا کہ مجھ سے زیادہ گنہگار کوئی اور بھی ہو اور میں نہیں جانتا کہ مجھ سے زیادہ مہربان تُو کسی اور گنہگار پر بھی ہو۔ تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔’’اللہ تعالیٰ کو فرماتے ہیں ‘‘تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ جب میں تیرے حضور میں آ کر گڑگڑایا اور زاری کی تُو نے میری آواز سنی اور قبول کی۔ میں نہیں جانتا کہ تُو نے کبھی میری اضطرار کی دعا ردّ کی ہو۔ پس اے میرے خدا! میں نہایت درد دل سے اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور میں گرتا اور سجدہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میری دعا کو سن اور میری پکار کو پہنچ۔ اے میرے قدوس خدا! میری قوم ہلاک ہو رہی ہے اسے ہلاکت سے بچا۔ اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو مجھے ان سے کیا تعلق جب تک ان کے دل اور سینے صاف نہ ہوں اور وہ تیری محبت میں سرشار نہ ہوں۔ مجھے ان سے کیا غرض؟ سو اے میرے ربّ! اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کو جوش میں لا۔ اور ان کو پاک کر دے۔ صحابہ کا سا جوش و خروش ان میں پیدا ہو۔ اور وہ تیرے دین کے لئے بے قرار ہو جائیں، ان کے اعمال ان کے اقوال سے زیادہ عمدہ اور صاف ہوں۔ وہ تیرے پیارے چہرہ پر قربان ہوں اور نبی کریمؐ پر فدا۔ تیرے مسیح کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوں اور اس کی پاک اور سچی تعلیم ان کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اے میرے خدا! میری قوم کو تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا اور قسم قسم کی مصیبتوں سے انہیں محفوظ رکھ۔ ان میں بڑے بڑے بزرگ پیدا کر۔ یہ ایک قوم ہو جائے جو تُو نے پسند کر لی ہو۔ اور یہ ایک گروہ ہو جس کو تُو …اپنے لئے مخصوص کر لے۔ شیطان کے تسلط سے محفوظ رہیں اور ہمیشہ ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا رہے۔ اس قوم کو دین و دنیا میں مبارک کر، مبارک کر۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔’’
(سوانح فضل عمرؓ جلد 1 صفحہ 309 تا 312)
یہ دعا جیسا کہ میں نے کہا 1909ء کی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی خلافت کے وقت میں جبکہ آپؓ کی عمر صرف 20 سال تھی، اس وقت بھی آپؓ کے دل میں دین کے لئے اور قوم کے لئے ایک درد تھا۔ اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے آپ کی روح پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور آپؐ کے غلام صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے رات دن ایک کر کے اور اپنے عہد کو پورا کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئی اور ہمیں آپ کی اس درد بھری دعا کو سمجھنے اور کرنے اور احمدی ہونے کے مقصد کو پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭