جس حدیث کو مامور من اللہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی
دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت ﷺ کی عملی کارروائیاں جو آپؐ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر،لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے۔ یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سَو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے۔ خدا اور رسول ؐکی ذمہ داری کا فرض صرف دو امرتھے اوروہ یہ کہ خدا نے قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہﷺکا یہ فرض تھا کہ خدا کی کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں۔ پس رسول اللہﷺنے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۶۱)
سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرتؐ کی فعلی روِش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہرہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اورسُنّت رسول اللہ ﷺ کا فعل اور قدیم سے عادۃاللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طورپر اس قول کی تفسیر کردیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپؐ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی،روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۲۰۹-۲۱۰)
میرے پاس آؤ اور میری سنو! میری حیثیت ایک معمولی مولوی کی حیثیت نہیں ہے بلکہ میری حیثیت سنن انبیاء کی سی حیثیت ہے۔مجھے ایک سماوی آدمی مانو پھر یہ سارے جھگڑے اور تمام نزاعیں جو مسلمانوں میں پڑی ہوئی ہیں ایک دم میں طے ہو سکتی ہیں۔جو خدا کی طرف سے مامور ہو کر حَکَم بن کر آیا ہے جو معنی قرآن شریف کے وہ کرے گاوہی صحیح ہوں گے اور جس حدیث کو وہ صحیح قرار دے گا وہی صحیح حدیث ہو گی۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۵، ایڈیشن ۲۰۲۲ء)