خطاب حضور انور

سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ جرمنی 2021ء کے اختتامی اجلاس سے براہِ راست معرکہ آرا،بصیرت افروز اور دل نشیں خطاب

’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور
ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

جلسہ سالانہ کا مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اپنی اصلاح کے لیے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیےایک جگہ جمع ہونا ہے۔ روحانی ماحول میں رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کرنا ہے۔ اگر یہ نہیں تو جلسہ کا انعقاد بے مقصد ہے

جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والا ہر جرمن احمدی چاہے اس نے جلسہ گاہ میں آ کر جلسہ سنا یا گھر میں بیٹھ کے جلسہ سنا، اس نے اپنے لیےایک سال کا روحانی مائدہ جمع کر لیا ہے۔ اب اس کی جگالی کرنا اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہر احمدی کاکام ہے

ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا دعویٰ کرتے ہیں اگر حقیقت میں ہم نے اس بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ جڑ اپنے دلوں میں لگانی ہو گی تا کہ تقویٰ کے شیریں ثمر ہمارے ہر عمل کو لگیں ورنہ ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہوں گی تو ایمان کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی ورنہ شیطان کے حملوں کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے

’’جب انسان جذباتِ نفس سے پاک ہوجاتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے۔ اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کے منشاء کے موافق ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ اسے اپنا فعل ہی قرار دیتا ہے۔‘‘(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

پہلی اور بنیادی چیز تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کا حق ادا کریں اور اس کی عبادت کا حق ادا کرتے ہوئےاپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے والے بنیں پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں ان پر بھی چلنے کی کوشش کریں

’’حقیقی راحت اور لذت کا مدار تقویٰ پر ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

اپنی زندگیوں کو ہمیں یونہی نہیں ضائع کر دینا چاہیے بلکہ ہمارا ہر قول اور عمل ہمیں صحیح راستے پر ڈالنے والا ہونا چاہیے

ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں، اس کا خون، اس کی آبرو اور اس کا مال(الحدیث)

زندگی میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو ہماری کوئی پروا نہیں ہے۔ جس طرح حق اللہ یا عبادت کا حق ادا نہ کرنے والے کی اللہ پروا نہیں کرتا حق العباد ادا نہ کرنے والے کی بھی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا

ایک حقیقی مومن وہی ہے جو انتہائی عاجز ہے اور یہ عاجزی اسے تقویٰ پر قائم کرتی ہے۔ اور جن دلوں میں تقویٰ ہو وہ اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں، معاشرے کے امن کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں

آج یہاں سے اس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ بیعت کا حق ادا کرنے کی پوری طرح کوشش کرنی ہے اور توبہ کا جو حق ہے اس طرح توبہ کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر جھک جانا ہے تاکہ ہمارا شمار بھی اللہ تعالیٰ کے محبوںمیں ہو

’’خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا ‘‘(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

قرآنِ کریم، احادیثِ نبویہؐ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں تقویٰ کی اہمیت و افادیت نیز متقی کی نشانیوں کے متعلق پُرمعارف بیان

(فرمودہ مورخہ 9؍ اکتوبر 2021ء بروز ہفتہ بمقام ایوان مسرور (اسلام آباد) ٹلفورڈ۔ یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

گذشتہ سال کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے حکومت کی طرف سے جو پابندیاں تھیں اس وجہ سے جرمنی میں اور دنیا کے بہت سے ممالک میں جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ پابندیاں آہستہ آہستہ نرم ہو رہی ہیں اور اس لیے جماعت جرمنی کو بھی جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ گو اس جلسہ کی وسعت اتنی تو نہیں ہے جتنی عمومی طور پر جلسہ کی ہوا کرتی ہے لیکن پھر بھی اس سے کچھ حد تک روحانی پیاس بجھانے کے سامان ہوں گے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور بار بار سنتے ہیں کہ

جلسہ سالانہ کا مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور اس کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اپنی اصلاح کے لیے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہونا ہے۔ روحانی ماحول میں رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کرنا ہے۔ اگر یہ نہیں تو جلسہ کا انعقاد بے مقصد ہے۔

انسان کو یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور ہر سال جلسہ کے انعقاد اور تین دن ایک دینی اور روحانی ماحول میں گزارنے سے، اپنے بھائیوں بہنوں کو ملنے اور ان کی نیک باتوں سے ان کے ساتھ نیک باتوں کا تبادلہ کرنے سے دینی اور روحانی جلا پیدا ہوتی ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اس سال کا جلسہ جو صرف دو دن کے لیے تھا ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دو دن آپ نے گزارے ہوں گے۔ اگر میری یہ امید سچ ثابت ہوئی تو یقیناً ہم نے اس مقصد کو پا لیا جو جلسہ سالانہ کے انعقاد کا مقصد ہے۔

جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والا ہر جرمن احمدی چاہے اس نے جلسہ گاہ میں آ کر جلسہ سنا
یا گھر میں بیٹھ کے جلسہ سنا اس نے اپنے لیے ایک سال کا روحانی مائدہ جمع کر لیا ہے۔ اب اس کی جگالی کرنا اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہر احمدی کاکام ہے۔

پس ہر ایک کو اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جس تقویٰ اور پاک تبدیلی کے حصول کے لیے ہم جلسہ میں شامل ہوئے تھے اس کے حصول کی ہم کوشش کر رہے ہیں۔

آج مَیں بھی

تقویٰ کے حوالے سے چند باتیں

کروں گاتا کہ جب آپ یہاں سے جائیں تو تقویٰ کی اہمیت ذہنوں میں قائم رہے۔

تقویٰ کیا ہے؟

اس کا ذکر بےشمار جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ پس اگر ہم اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کی روح کو سمجھ لیں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جائیں گے اور ہماری دنیا و آخرت سنورنے کے سامان ہو جائیں گے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کو مانا ہے جنہوں نے بار بار اور بےشمار جگہ ہمیں اس قرآنی حکم کے مطابق تقویٰ کی اہمیت اور اس پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک شعر کا یہ مصرعہ بنایا کہ

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

تو آپؑ کو الہاماً اللہ تعالیٰ نے یہ مصرعہ عطا فرمایا کہ

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

(ماخوذ از تذکرہ صفحہ 334 ایڈیشن چہارم 2004ء)

پس

ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا دعویٰ کرتے ہیں اگر حقیقت میں ہم نے اس بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ جڑ اپنے دلوں میں لگانی ہو گی تا کہ تقویٰ کے شیریں ثمر ہمارے ہرعمل کو لگیں ورنہ ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں۔

ہمارے ایمان بھی تبھی مضبوط ہوں گے جب ہمارا اندر اور باہر، اندرونہ اور بیرونہ ایک ہو جائیں گے۔جب ہمارے قول اور عمل ایک جیسے ہوں گے۔ پس

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہوں گی تو ایمان کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی ورنہ شیطان کے حملوں کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔

شیطان تو حملہ کرتا رہے گا۔ یہ بات اس نے روز اول سے جب سے کہ آدم پیدا ہوا ہے کہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ میرے وہ بندے جو تقویٰ پر چلتے رہیں گے شیطان کے حملے سے بچتے رہیں گے۔

آجکل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان کوئی حیلہ نہیں جانے دیتا جب وہ انسان کو دین سے دور لے جانے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ ایمان سے دور لے جانے۔ تقویٰ سے دور لے جانے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔ پس اس حقیقت کو ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے اور کس طرح ہم نے شیطان کے حملوں سے بچ کے رہنا ہے، اپنے دین اور ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کرنی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بار بار اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اور اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے بےشمار جگہ قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے اور تم نے کس طرح اس پر چلنا ہے۔ وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے تم تقویٰ پر چل سکتے ہو۔ اس بارے میں جو خاص طور پر زور دے کر قرآن کریم کے حکم کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بتایا ہے وہ یہ ہے کہ

تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرو کیونکہ یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور
یہی تمہیں تقویٰ میں بڑھانے والی چیز ہے بشرطیکہ عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے عبادت کی جائے نہ یہ کہ صرف سر سے بھار اتارنے کے لیے نمازیں ادا کی جائیں۔

اور جو انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں برکت عطا فرماتا ہے۔ پس آجکل کے زمانے میں جبکہ دنیاوی خواہشات اور چکاچوند نے ہر انسان کو گھیرا ہوا ہے اور شیطان ہر طرف سے حملے کی کوشش کر رہا ہے اور اسے خدا تعالیٰ سے دور لے جانے کی کوشش کر رہا ہے ایک احمدی کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرے اور اس کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہ کرنا تو کافروں کا شیوہ ہے اور
ان کی زندگیاں اس حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے جانوروں کی زندگی ہے۔

پس ایک مومن کو اور اس شخص کو جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے کا اقرار کر کے اپنے ایمان کی مضبوطی کا دعویٰ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے حق کی ادائیگی کی خاص طور پر کوشش کرنی چاہیے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’سورة عصر میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور مومنوں کی زندگی کے نمونے بتائے ہیں کفار کی زندگی بالکل چوپاؤں کی سی زندگی ہوتی ہے۔ جن کو کھانے اور پینے اور شہوانی جذبات کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ يَاْكُلُوْنَ كَمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ ‘‘ اس طرح کھاتے ہیں جس طرح کہ جانور کھا رہے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’مگر دیکھو اگر ایک بیل چارہ تو کھالے لیکن ہل چلانے کے وقت بیٹھ جائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ یہی ہو گا کہ زمیندار اسے بوچڑ خانے میں جاکر بیچ دے گا۔‘‘ ذبح کرنے کے لیے بیچ دے گا۔ ’’اسی طرح ان لوگوں کی نسبت (جو خداتعالیٰ کے احکام کی پیروی یا پرواہ نہیں کرتے اور اپنی زندگی فسق وفجور میں گذارتے ہیں) فرماتا ہے۔ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یعنی میرا رب تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے اگرتم اس کی عبادت نہ کرو۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہ امر بحضورِ دل یادرکھنا چاہئے۔‘‘خاص طور پر یاد رکھو اس کو دل میں بٹھا لو ’’کہ خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے محبت کی ضرورت ہے اور محبت دوقسم کی ہوتی ہے۔ ایک محبت تو ذاتی ہوتی ہے اور ایک اغراض سے وابستہ ہوتی ہے۔ یعنی اس کا باعث صرف چند عارضی باتیں ہوتی ہیں جن کے دُور ہوتے ہی وہ محبت سرد ہو ‘‘جاتی ہے، ’’کر رنج وغم کا باعث ہوجاتی ہے مگر ذاتی محبت سچی راحت پیداکرتی ہے ‘‘، فرمایا ’’چونکہ انسان فطرتاً خداہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا: مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہواہے اور مخفی درمخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ

خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔

مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سورہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں۔‘‘ ان کو خدا تعالیٰ کا فضل نہیں ملتا ’’اور خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔ وہ زندگی جو ذمہ داری کی زندگی ہے۔ یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ پرایمان لاکرزندگی کا پہلوبدل لے۔‘‘ فرمایا ’’موت کا اعتبار نہیں ہے۔ سعدیؒ کا ایک شعر‘‘ہے۔ بڑا ’’سچا ہے۔‘‘ فرمایا کہ

’’مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ رُوزگار‘‘

ناپائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر۔ اپنے آپ کو زمانے کی چالوں سے محفوظ نہ سمجھ۔

اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ عمر ناپائیدار پر بھروسہ کرنا عقلمند کا کام نہیں ہے آپؑ فرماتے ہیں۔’’عمر ناپائیدار پر بھروسہ کرنا دانشمند کا کام نہیں ہے۔ موت یونہی آ کر لتاڑ جاتی ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا۔ جب کہ انسان اس طرح پر موت کے پنجہ میں گرفتار ہے پھر اس کی زندگی کا خدا تعالیٰ کے سوا کون ذمہ دارہوسکتا ہے؟اگر زندگی خدا کے لئے ہو تو اس کی حفاظت کرے گا۔ بخاری میں ایک حدیث ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ سے محبت کارابطہ پیدا کر لیتاہے خدا تعالیٰ اس کے اعضاء ہوجاتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کی دوستی یہانتک ہوتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ حتیٰ کہ اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’اصل بات یہ ہے کہ

جب انسان جذباتِ نفس سے پاک ہوجاتا ہے اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے۔ اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کے منشاء کے موافق ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ اسے اپنا فعل ہی قرار دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 181-182۔ ایڈیشن1984ء)

یعنی کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک متقی کا کام جو ہے وہ ایسا ہی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا اپنا فعل ہے۔

انسانی پیدائش کی غرض عبادت ہے

پچھلی وضاحت کے بعد اس بارے میں حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں کہ’’پس کس قدر ضرورت ہے کہ تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیداکرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کروا ور اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔ میں اس لئے باربار اس ایک امرکو بیان کرتا ہوں کہ

میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے
اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہوکر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست او رہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مواخذہ ہو گا۔‘‘ یعنی ایک زمیندار ہے، اس کی زمین ہے اور اس پہ وہ صحیح طرح کام نہیں کر رہا تو تب بھی اس کی جواب طلبی ہو گی۔ ’’پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہوجائے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو۔ اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضاء مقصود ہو اور اس کے ارادہ سے باہرنکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو۔‘‘ کام کرو لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو، اس کے حکموں پر چلتے ہوئے کام کرو۔ صرف دنیا داری میں نہ پڑ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے جو حق ہیں وہ بھی ادا کرو اور یہی تقویٰ ہے۔ فرمایا ’’پس اگر انسان کی زندگی کا یہ مدعا ہوجائے کہ وہ صرف تنعم کی زندگی بسر کرے اور اس کی ساری کامیابیوں کی انتہا خورد و نوش اور لباس و خواب ہی ہو اور خدا تعالیٰ کے لئے کوئی خانہ اس کے دل میں باقی نہ رہے تو یہ یاد رکھو کہ ایسا شخص فطرۃ اللہ کا مقلب ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فطرت اس کی بنائی ہے اس کے الٹ کام کرنے والاہے۔ ’’اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے قویٰ کو بیکار کر لے گا۔ یہ صاف بات ہے کہ جس مطلب کے لئے کوئی چیز ہم لیتے ہیں اگر وہ وہی کام نہ دے تو اسے بیکار قرار دیتے ہیں۔ مثلاً ایک لکڑی کرسی یا میز بنانے کے واسطے لیں اوراس کام کے ناقابل ثابت ہو تو ہم اسے ایندھن ہی بنالیں گے۔ اسی طرح پر انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادتِ الٰہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کوخارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کر کے بیکار کرلیتا ہے تو خداتعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے: قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جنگل میں کھڑا ہوں۔ شرقاً غرباً اس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے۔ اس نالی پر بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پر مسلط ہے‘‘کھڑا ہے ’’ہاتھ میں چھری ہے۔ جوانہوں نے ان کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہو اہے۔ مَیں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں۔ میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں تو میں نے یہی آیت پڑھی۔ قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفورچھریاں چلادیں اوریہ کہا کہ تم ہوکیا۔آخرگوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۔ غرض خدا تعالیٰ متقی کی زندگی کی پروا کرتا ہے اور اس کی بقاء کو عزیز رکھتاہے اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پروا نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے اس لئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے۔

جیسے کلورافارم نیند لاتاہے اسی طرح پرشیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 183 تا 185۔ ایڈیشن1984ء)

پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھیں اور اس کو سمجھ کر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادتوں کو سنواریں۔ یہاں یورپ یا ترقی یافتہ ملکوں کی جوآسائشیں ہیں ہمیں ہمارے مقصدِ پیدائش سے غافل نہ کریں۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہے تو پھر ہم نے اپنی بیعت کا حق ادا نہیں کیا۔ پس

پہلی اور بنیادی چیز تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے خدا کا حق ادا کریں اور اس کی عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے والے بنیں پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں ان پر بھی چلنے کی کوشش کریں۔

اصل میں تو اس عبادت کی حقیقت کو انسان سمجھ لے تو باقی فرائض تو وہ خود ہی ادا کرنے والا بن جائے گا۔ تاہم

تقویٰ کے حصول کے لیے بعض اور باتوں کا ذکر

بھی میں کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بیان فرمائی ہیں۔

اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ

متقی کون ہے؟

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’درحقیقت

متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور
اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہوتا ہے۔‘‘

آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ’’……متقیوں کا ایک نشان بتاتا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتاہے یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’…… یادرکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت کبھی بھی ناپاکوں اورفاسقوں کو نہیں مل سکتی۔ اس کاانحصار تقویٰ ہی پر ہے۔ خدا کی اعانت متقی ہی کے لئے ہے۔پھرایک اور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتاہے اور حاجات مختلف رکھتا ہے۔ ان کے حل اور روا ہونے کے لیے بھی تقویٰ ہی کو اصول قراردیا جائے۔ معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہِ نجات تقویٰ ہی ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ’’فرمایا۔ مَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ خدا متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مخرج پیدا کر دیتا ہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے۔ اس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہ لگے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اب غور کر کے دیکھ لو کہ انسان اس دنیا میں چاہتا کیا ہے۔ انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کو سکھ اور آرام ملے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں اور یا اس کا نام صراطِ مستقیم رکھتے ہیں۔‘‘فرمایا ’’کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں۔‘‘ بلکہ زیادہ ہوتے ہیں ’’اور وہ اپنی عیش و عشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں۔‘‘فرمایا ’’میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ کرتا ہوں۔‘‘ اور واقعی انسان جب غور کرے اور دیکھے بعض ایسے لوگوں کو ملے تو پتہ لگتا ہے کہ دولت نے ان کو سکون نہیں دیا بلکہ دولت نے ان کے اندر ایک اور آگ لگائی ہوئی ہے اور کوئی سکونِ دل ان کو حاصل نہیں ہے۔ فرمایا کہ میں ان کے قلب پر نگاہ رکھتا ہوں۔ ’’وہ ایک سعیر اور سلاسل و اغلال میں جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘ایک آگ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ طوق ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ فرمایا ’’وہ ایک سعیر اور سلاسل واغلال میں جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ’’جیسے فرمایا ہے۔ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ سَلٰسِلَا۠وَاَغۡلٰلًا وَّسَعِیۡرًا وہ نیکی کی طرف آہی نہیں سکتے۔ وہ ایسے اغلال ہیں کہ خدا کی طرف ان اغلال کی وجہ سے ایسے دبے پڑے ہیں کہ حیوانوں اور بہائم سے بھی بد تر ہو جاتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہر وقت دنیا ہی کی طرف لگی رہتی ہے اور زمین کی طرف جھکتے جاتے ہیں۔ پھر اندر ہی اندر ایک سوزش اور جلن بھی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اگر مال میں کمی ہو جائے یا حسبِ مراد تدبیر میں کامیابی نہ ہو تو کڑھتے اور جلتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات سودائی اور پاگل ہو جاتے ہیں یا عدالتوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔‘‘ یہ کوئی پرانی باتیں نہیں۔ آج بھی ایسے ہی ہو رہا ہے۔ جب دیوالیہ ہوتے ہیں دولت مند لوگ تو پاگل خانے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ فرمایا ’’یہ واقعی بات ہے۔‘‘ یقینی بات ہے یہ ’’کہ

بے دین آدمی سعیر سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘

آگ سے خالی نہیں ہوتا، وہ آگ میں جلتا ہی رہتا ہے۔ دنیا کمانے کی کسی نہ قسم کی آگ اس کے دل میں لگی ہی رہتی ہے اور یہی اس کو تکلیف پہنچا پہنچا کے پھر پاگل کر دیتی ہے۔ ’’اس لئے کہ اس کو قرار اور سکون نصیب نہیں ہوتا جو راحت اور تسلی کا لازمی نتیجہ ہے۔ جیسے شرابی ایک جام شراب پی کر ایک اور مانگتا ہے اور مانگتا ہی جاتا ہے اور ایک جلن سی لگی رہتی ہے۔ ایسا ہی دنیا دار بھی سعیر میں ہے۔ اس کی آتش ِآز ایک دم بھی بجھ نہیں سکتی۔‘‘ حرص اور ہوس کی آگ جو ہے وہ بجھ نہیں سکتی۔ ’’سچی خوشحالی حقیقت میں ایک متقی ہی کے لئے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اس کے لئے دو جنت ہیں۔‘‘اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔

پھر اس بات کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے کہ

’’حقیقی راحت اور لذت کا مدار تقویٰ پر ہے۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں پا سکتا ہے جو دنیادار اور حرص وآز کے پرستار کو رفیع الشان قصر میں بھی نہیں مل سکتی۔‘‘ ایک متقی جو ہے اس میں قناعت ہوتی ہے۔ وہ ایک جھونپڑی میں بھی رہتا ہے تب بھی خوش ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو مل گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو سکون عطا فرما دیا ہے جبکہ ایک دنیا دار جو ہے حرص اور ہوس جس کے دل میں ہے وہ بڑے بڑے محلوں میں رہتا ہے، محلات میں رہتا ہے بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہتے ہیں، بڑی بڑی کاریں ان کے پاس ہیں، بزنس بھی اچھے ہیں تب بھی سکونِ قلب نہیںہے۔ میں بعض ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی یہی مثالیں ہیں۔ فرمایا کہ ’’جس قدردنیا زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ سامنے آجاتی ہیں۔ پس یاد رکھو کہ حقیقی راحت اور لذت دنیادار کے حصہ میں نہیں آئی۔ یہ مت سمجھو کہ مال کی کثرت عمدہ عمدہ لباس اور کھانے کسی خوشی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ہر گز نہیں بلکہ ان کا مدار ہی تقویٰ پر ہے۔‘‘

تقویٰ ہے تو یہ سب نعمتیں بھی اللہ تعالیٰ کی جو ہیں ان سے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر تقویٰ نہیں تو یہی نعمتیں جو ہیں اس کو آگ میں جلانے کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک دنیا دار انسان کہے گا یہ باتیں سن کے کہ عجیب باتیں ہیں کہ ان دنیاوی چیزوں میں خوشی نہیں ہے۔ ہم تو اسے ہی خوشی سمجھتے ہیں۔ دنیا دار انسان نے تو یہی کہنا ہے کیا باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن ان سے اگر کہا جائے کہ تم اپنے دل کو ٹٹولو۔ کیا تم سچ کہہ رہے ہو تو پھر وہ یہی کہیں گے کہ مزید دولت اور آسانیوں کی خواہش ہے جو بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پس یہی آگ ہے جو ان کو جلا رہی ہے۔ بہرحال مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں: ’’جبکہ ان ساری باتوں سے معلوم ہو گیا کہ

سچے تقویٰ کے بغیر کوئی راحت اور خوشی مل ہی نہیں سکتی

تو معلوم کرنا چاہئے کہ تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘ مکڑی کے جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ’’تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد زبان اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے۔‘‘ انسان کی جتنی خصوصیات ہیں، ان کے عقیدے ہیں، زبان ہے، اخلاق ہے، ساری باتیں ہیں، قویٰ ہیں ان سب سے متعلق تقویٰ کا حکم ہے، ان سب کو تقویٰ کے مطابق چلانا ہے۔ فرمایا کہ

’’نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔‘‘

زبان ہوئی اور تقویٰ نہ ہو تو یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ ’’بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا‘‘ اس نام نہاد حاجی کو ’’کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تُو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیا ناس کر دیا۔‘‘ دکھاوا اور دنیا داری تھی۔ تیرا یہ حج دنیاداری اور دکھاوےکے لئے ہے۔ ’’تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کا اظہار کرے کہ تو نے تین حج کئے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ زبان جو ہے بڑی سوچ سمجھ کر استعمال کرنی چاہیے اور عقل کا استعمال بھی انسان کرے پھر اس کے ساتھ زبان کو چلائے۔ آ پؑ فرماتے ہیں ’’اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بیہودہ، بے موقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے۔‘‘

فرمایا ’’دیکھو اللہ تعالیٰ نے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے۔ اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دور ہو جاتا۔ اس لئے ساتھ ہی اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں ہر گز نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ فرمایا کہ ’’اور پھر اِیَّاکَ اَعْبُدُ یا اِیَّاکَ اَسْتَعِیْنُ نہیں کہا۔ اس لئے کہ اس میں نفس کے تقدم کی بو آتی تھی۔‘‘ اس میں مَیں آجاتی ہے اور فرمایا کہ ’’اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔ تقویٰ والا کُل انسانوں کو لیتا ہے۔‘‘ جو تقویٰ پر چلنے والا ہے وہ نیکیوں کے لیے دعا بھی کرتا ہے تو کل انسانوں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے۔ زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آ جاتی ہیں اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیان بہت جلد پیدا ہوتا ہے۔‘‘ عمل کیے، نیک عمل کیے اور ظاہر کر دیے تو ریا کاری ہو گئی، دکھاوا ہو گیا جیسے اس حاجی کا واقعہ ہے جس نے تین حج کیے اور طشتری لانے کے لیے تینوں حجوں کا اظہار بھی کر دیا بتانے کے لیے۔ یہ ریا کاری ہے۔ فرمایا ’’اور زبان کا زیان بہت جلد پیدا ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ فرماتے ہیں ’’حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قولِ زور۔‘‘ جھوٹ جتنا نقصان پہنچاتا ہے حرام خوری اتنا نقصان نہیں پہنچاتی۔ لیکن اس کی وضاحت کر دی ساتھ ہی فرمایا کہ ’’اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔ یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے۔‘‘ فرمایا کہ ’’میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھا لے تو یہ امر دیگر ہے۔‘‘ قرآن شریف نے بھی اجازت دے دی ہے کہ مجبوری کی حالت میں بھوکا مررہا ہے تو سؤر بھی کھا لیتا ہے تو کوئی بات نہیں ہے یہ اور بات ہے اس کی اجازت ہے ’’لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دُور نکل جاتا ہے۔‘‘ لیکن اگر زبان سے یہ فتویٰ دے دے کہ سؤر کھانا جائز ہے، کوئی حرام نہیں ہے تو وہ اسلام سے دور نکل جاتا ہے، یہ مراد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجبوری میں عمل ایک کیا وہ تو مجبوری تھی لیکن جو فتویٰ دے دیتے ہو وہ تمہیں اسلام سے دور لے جاتا ہے جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام کر دیا تم اس کو حلال کس طرح ٹھہرا سکتے ہو اس لیے تم اسلام سے دور نکل گئے۔ ’’غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 420 تا 423۔ ایڈیشن1984ء)

پس یہ ہیں وہ معیار جو ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے روز مرہ کے معاملات میں ہم کیا کرتے ہیں یہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا بولنا ہماری باتیںکرنا ہمارا ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرنا ہمارا ایک دوسرے سے کسی کاروبار میں یا کسی بھی وجہ سے جو interaction ہے، بات چیت ہے اس کو ہم کس طرح کر رہے ہیں۔ اگر ہماری زبانوں کے غلط استعمال ہیں تو ہم اسلام کی تعلیم سے دور جا رہے ہیں، تقویٰ سے دور جا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کیا اور کس حد تک حق ادا کر رہے ہیں۔ عبادت کا حق ادا کر رہے ہیں تو ساتھ دوسرے حقوق بھی دیکھنے ہوں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے تبھی تقویٰ کی صحیح راہوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ آپس میں کس حد تک ہم محبت اور پیار سے رہ رہے ہیں۔ تکبر سے بچنے کی ہم کس حد تک کوشش کر رہے ہیں۔ عاجزی کی راہوں کو ہم کس حد تک اپنا رہے ہیں۔ اپنے عہدوں کو کس حد تک پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سچائی کے قیام کے لیے ہم کیا کوشش کر رہے ہیں کیونکہ سچائی کا قیام ہی ہے جو ہمیں شرک سے بھی پاک کرتا ہے۔ اپنی اولادوں اور اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لیے ہماری کیا کوشش ہے کہ تقویٰ ان میں جاری رہے اور وہ بھی اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ پس اس حوالے سے ہمیں ہر چیز کو دیکھنا ہو گا کہ جو بھی نیکیاں ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے ہم کر رہے ہیں اور جو بھی برائیاں ہیں جن کے رکنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے ان سے رک رہے ہیں۔ اگر تو یہ ٹھیک ہے تو پھر ہم یقیناً تقویٰ پر چلنے والے کہلا سکتے ہیں۔ پس

اپنی زندگیوں کو ہمیں یونہی نہیں ضائع کر دینا چاہیے
بلکہ ہمارا ہر قول اور عمل ہمیں صحیح راستے پر ڈالنے والا ہونا چاہیے۔

ہماری آپس کی محبت ایسی ہو جو ایک مومن کو دوسروں سے ممتاز کرنے والی ہو۔ گھر کے ماحول سے لے کر معاشرے کے عمومی تعلقات تک ہم اس کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والے ہوں اور یہ نظر آنی چاہئیں ورنہ نہ ہی گھر میں امن و سکون رہتا ہے، نہ ہی معاشرے میں اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بدظنی کی وجہ سے ہی امن اور سکون برباد ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک بہت بڑی برائی بدظنی بھی ہے۔ بعض فتنہ انگیز بدظنی کی بات دل میں پیدا کر دیتے ہیں کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں جس سے بدظنی دل میں پیدا ہو جائے اور جلد باز انسان بغیر سوچے سمجھے اس بات پہ یقین بھی کر لیتے ہیں یا آپس میں صحیح طرح ایک دوسرے کی بات کو سمجھا نہ سکنے کی وجہ سے بدظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لیے

اللہ تعالیٰ نے بدظنی کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ
اس وجہ سے معاشرے کا امن و سکون برباد ہوتا ہے

اور اس حکم کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے اور ایک دوسرے کے عیب نکالنے کی جستجو میں نہ رہو۔ ایک دوسرے کے خلاف تجسس نہ کرو اور پھر اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی برائیوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان سے بچو کیونکہ یہ معاشرے کا امن برباد کرتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو۔ کسی کے پاس اچھی چیز دیکھو تو اسے فوری طور پر اپنے قبضے میں لینے کی حرص نہ کرو۔ حسد نہ کرو۔ کسی کی اچھی چیز دیکھ کے یا ترقی دیکھ کر تمہارے میں حسد نہیں پیدا ہونا چاہیے۔ مسابقت کی رو ح بےشک ہو، آگے بڑھنے کی روح بےشک ہو لیکن حسد کرتے ہوئے پھر تم اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہو اس لیے حسد نہ کرو۔ آپس میں دشمنیاں نہ رکھو۔ جائزہ لے لیں تو دشمنیاں بھی بدظنیوں کی وجہ سے عموماً پیدا ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے سے بےرخی نہ برتو۔ آپؐ نے فرمایا ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب تحریم الظن والتجسس … حدیث 6536)اللہ تعالیٰ کے بندے بننے کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ حقیقی عباد الرحمٰن بنو اور عبادالرحمٰن تو وہی ہو سکتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والا ہو اور اس کے حکموں پر چلتے ہوئے مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والا ہو۔

پس جب انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ بننے کی کوشش کرے گا تو اس سے برائیاں سرزد ہو ہی نہیں سکتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اس پر ظلم نہیں کرتا اسے رسوا نہیں کرتا۔ اسے حقیر نہیں جانتا۔ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ ایک تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ حقیقی تقویٰ سب سے بڑھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطہر دل میں ہی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تقویٰ یہاں ہے سے مراد یہ بھی ہے کہ مقام تقویٰ دل ہے۔ جس کو اس بات کی سمجھ آجائے کہ دل کو تقویٰ سے بھرنا ہے اسے پھر یہ خیال آ ہی نہیں سکتا کہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے جس سے دلوں کی رنجشیں پیدا ہوں ایک دوسرے کے حق غصب کرنے کا خیال آئے۔ پس ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہمارے دلوں میں تقویٰ ہے یا صرف ہمارے مونہوں کی باتیں ہیں۔ اگر ہمارے دل میں دوسرے کا احترام نہیں ہے، اس کا حق ادا کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ہمارے دل تقویٰ سے خالی ہیں۔ ہم لاکھ نمازیں پڑھنے والے اور عبادت کرنے والے ہوں پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں تقویٰ پر چلنے والے نہیں کہلا سکتے اگر یہ باتیں ہم میں نہیں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کس باریکی سے اس بارے میں نصیحت فرمائی ہے کہ فرمایا کہ ایک مسلمان کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔

آپؐ نے فرمایا کہ ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں،
اس کا خون، اس کی آبرو اور اس کا مال۔

(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب تحریم الظن والتجسس … حدیث 6536، باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ …6541)

آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہی تین باتیں مسلمانوں میں بہت سوں نے اپنے اوپر حلال کی ہوئی ہیں بلکہ اپنے آپ کو دینی علم کا علمبردار سمجھتے ہیں اور پھر بھی یہ حرکتیں کرتےچلے جاتے ہیں۔ دوسرے کا مال کھانا تو اکثریت کا شیوہ ہے لیکن پھر بھی ان کا یہی دعویٰ ہے کہ ہم ہی پکے مسلمان ہیں لیکن ایک حقیقی مسلمان کو، ایک حقیقی احمدی کو، جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کرنے کی توفیق پائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر احسان کیا کہ اس کو اس کی توفیق دی اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہیے۔ اگر ہم میں سے کوئی باقی برائیاں نہ بھی کرے اور مال کے بارے میں ہی خیانت کرے تو وہ بھی گناہگار ہے اور تقویٰ سے دور ہے۔ پس

بہت خوف کا مقام ہے۔ زندگی میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو ہماری کوئی پروا نہیں ہے۔ جس طرح حق اللہ یا عبادت کا حق ادا نہ کرنے والے کی اللہ پروا نہیں کرتا حق العباد ادا نہ کرنے والے کی بھی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی خوبصورتی کو نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کو اورنہ تمہارے اموال کو۔ اس کی نظر تمہارے دلوں پر ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ … حدیث 6542-6543)

پس ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ اس میں کیا ہے۔ کیا خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہے یا دنیا کی خواہشات اور اس کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع سے بھی ان خواہشات کو حاصل کرنا ہے؟ اگر دل مکمل طور پر پاک نہیں ہیں اور اپنی ذات کو ہم دوسروں پر ترجیح دیتے ہوئے ان کے حق ادا نہیں کرتے تو ہم تقویٰ سے دُور ہیں اور اس کا نتیجہ پھر یہ نکلے گا کہ معاشرے کا امن برباد ہو گا۔ پس

اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے معاشرے کا امن برباد کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والوں میں اپنا شمار کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والوں میں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی حاصل کرنے والوں کی ایک یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔

تکبر ایک بہت بُری بیماری ہے جس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اگر ہم تکبر کی وجوہات تلاش کریں تو ایک بہت بڑی وجہ فخر کرنا نظر آتا ہے۔ اپنے آپ کو کچھ سمجھنا، اپنی ذات پر فخر ہے، اپنی قومیت پر فخر ہے، اپنی دولت پر فخر ہے، اپنے علم پر فخر ہے، اپنی اولاد پر فخر ہے یا زیادہ اولاد ہونا یا اس کا لائق ہونا اور اس طرح کی مختلف چیزیں ہیں اور یہ فخر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا یا تکبر کا بیج بوتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ چیزیں نہ انسان کے لیے فخر کی جگہ ہیں نہ بہتر سمجھنے کا معیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ۔ (الحجرات: 14) یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ پس یہ دنیاوی چیزیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہونے کا معیار نہیں ہیں۔ پھر کس بات پر فخر ہے اگر یہ معیار نہیں ہیں۔ پس سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو چیز کسی انسان کو معزز بناتی ہے وہ تقویٰ ہے اور جو تقویٰ پر چلنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے کبھی یہ سوچے گا بھی نہیں کہ میں معزز ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ کا خوف اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی تڑپ ہر وقت اس خیال میں ہی ڈالے رکھے گی کہ میں کب اور کس طرح اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کروں۔

انسان کو اگر فخر ہے بھی تو کس بات پر؟ ہے تو وہ اس زمین کی رہنے والی ایک مخلوق کا ایک فرد اور اس زمین کی حیثیت کائنات میں ایک چھوٹے سے ذرے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ پھر انسان کس بات پر فخر کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے؟

پھر زمین پر ہی اگر ہم دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جو نظارے ہمیں نظر آتے ہیں ان تک بھی انسان نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۔ (بنی اسرائیل:38) اور زمین میں اکڑ کر نہ چل تو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔

آسمانی آفات جب آتی ہے تو کیا انسان اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ تکبر کرنے والے لوگ بھی بچوں کی طرح بلبلا رہے ہوتے ہیں اس وقت جب ان کو تکلیفیں پہنچتی ہیں۔ گذشتہ دنوں بارشوں نے ہی جرمنی کے بعض علاقوں میں تباہی مچا دی تھی بڑے بڑے قد کاٹھ کے لوگ ان کو میں نے دیکھا ہے ٹی وی پہ آتے تھے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے آرام سے رہ رہے ہیں اور ہمیں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی انہیں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اصل ذات میری ہے۔ وہی لوگ جو لوگوں کو کھانا کھلانے کا ذریعہ بن رہے تھے خود لائن میں لگے ایک روٹی کے ٹکڑے کے لیے بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر تکبر کس بات کاہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ تمہارے اندر کوئی بڑائی نہیںہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہمیشہ ایک احمدی کو سامنے رکھنا چاہیے کہ اپنے اندر عاجزی پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس سے تم میری محبت حاصل کرنےو الے بھی بنو گے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تکبر کرنے والے کو بڑا انذار فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل ہونے نہیں دے گا۔ سوال کرنے والے نے کہا کہ انسان چاہتا ہے کہ دنیا کی اچھی اچھی چیزوں کو استعمال کرے۔ کشائش اگر اللہ تعالیٰ نے دی ہے تو پھر ان کو استعمال بھی کرے اور اپنے ظاہر کو بھی سنوار کر رکھے کپڑے بھی اچھے پہنے۔ آپؐ نے فرمایا تکبر یہ نہیں۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر و بیانہ حدیث 265)

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا استعمال کرنا، احسن رنگ میں کرنا
اور اپنے اوپر اس کا اظہار کرنا یہ تکبر نہیں ہے۔

فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو خود خوبصورت ہے اور خوبصورت چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ صفائی ستھرائی، حسن کو پسند کرتا ہے اس لیے ان چیزوں سے تمہیں نہیں روکا جا رہا۔ یہ نہ سمجھو کہ ان چیزوں سے تمہیں روکا جا رہا ہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ حق کا انکار کرو، سچی بات ہے اس کا انکار کرو اپنی انا اور ضدوں میں پڑ جاؤیا اپنی بڑائی تمہارے اندر ہو جس کی وجہ سے ایک ضد پیدا ہو جائے۔ لوگوں کو ذلیل سمجھو اور ان کو کمتر سمجھ کر حقارت کی نظر سے دیکھو، ان سے بری طرح پیش آؤ، یہ تکبر ہے، یہ چیز تمہارے میں نہ ہو۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مزید کھول کر بیان فرماتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’ایک شخص جو اپنے بھائی کے ایک غلط لفظ کی تکبر کے ساتھ تصحیح کرتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔‘‘ اب یہ چھوٹی سی بات ہے کہ کسی لفظ کی ،کسی فقرے کی تصحیح کر دی لیکن اگر اس تصحیح میں اس کو ٹھیک کرنے میں تکبر کی بو ہے تو وہ متکبر کہلائے گا اپنی بڑائی کی بو ہے تو وہ متکبر کہلائے گا۔ فرمایا ’’ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے‘‘ توجہ سے اور انکسار سے ’’سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 403)غور سے بات نہیں سنتے تب بھی تکبر ہے۔

پس یہ ہے باریکی تکبر کی۔ پس اپنے ہر عمل کو ہمیں بہت باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس گہرائی میں جا کر اپنی حالتوں کو نہیں دیکھ رہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جنت سے دُور جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔

ایک حقیقی مومن وہی ہے جو انتہائی عاجز ہے اور یہ عاجزی اسے تقویٰ پر قائم کرتی ہے۔ اور جن دلوں میں تقویٰ ہو وہ اپنی اور اپنی نسلوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں، معاشرے کے امن کو قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔

میاں بیوی کے تعلقات میں بھی یہی تکبر ہے جو گھروں میں فساد پیدا کرتا ہے۔ خاوند کہتا ہے کہ بیوی نے مجھ سے اس رنگ میں بات کی، اسے ایسی جرأت کس طرح ہوئی میرے سامنے بولے۔ بیوی ہے تو اسے اپنی کسی بات پر یا خاندان پر یا دولت پر فخر ہے، وہ کہیں نہ کہیںکوئی بات جتا دیتی ہے۔ غرض کہ

جب تک عاجزی اور انکساری اور غور سے ایک دوسرے کی بات سننے کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تعلقات میں پیار اور محبت پیدا نہیں ہو سکتے۔

ایک دوسرے کی باتوں کو نظر انداز کرنے کی عادت نہ ہو تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ ایک دوسرے کے حقوق کی طرف توجہ تبھی پیدا ہو گی جب عاجزی پیدا ہو گی اور تکبر سے نفرت اور دوری پیدا ہو گی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے اخلاق کی بہتری اور ایک دوسرے کے معاشرتی حقوق ادا کرنے کی طرف بہت توجہ دلائی ہے اور یہ چیز معاشرے کے امن اور سلامتی کی بھی ضمانت ہے۔

اس وقت سب تو بیان نہیں ہو سکتے۔ چند باتیں میں نے بیان کی ہیں۔ اس وقت مَیں صرف

ایک بات اور کہوں گا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اور وہ ہمارے دین اور ایمان اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بہت ضروری ہے اور وہ ہے اپنے عہدوں کو پورا کرنا۔

اس زمانے میں ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ایک عہد کیا ہوا ہے اور اس عہد کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے اور یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بَلٰى مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ وَ اتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۔ (آل عمران:77) ہاں کیوں نہیں جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے۔

پس متقی کی ایک بہت بڑی نشانی اپنے عہد کو پورا کرنا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد نہ پورا کرنے والے کو بہت بڑا انذار فرمایا ہے۔ ایک حدیث ہے جس میں بہت سی برائیوں کا ذکر ہے جو کسی شخص کو منافق بناتی ہیں اور ان میں سے ایک اپنے عہد کی پابندی نہ کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں یہ چار باتیں پائی جاتی ہیں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس میں ان میں سے ایک بھی ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جاتی ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ پھر آپؐ نے ان چار باتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ دوسری بات یہ کہ جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے اور تیسری بات یہ کہ جب کوئی عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو گالی گلوچ سے کام لے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب علامۃ المنافق حدیث 34)

پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ آپس کے معاہدوں اور عہدوں کی پابندی سے لے کر اپنے عہد بیعت کی پابندی تک ہر جگہ غور سے جائزے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اپنے عہدوں کی پابندی کر رہے ہیں۔ روز مرہ کے کاروباروں میں ہم اپنے وعدے کس حد تک نبھا رہے ہیں۔ وعدے نہ نبھانے والے جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ ہر روز ایک نیا وعدہ کر کے اس سے مکر جاتے ہیں۔ اسی طرح امانتوں میں بھی خیانت کرنے والے ہیں وہ بھی وعدہ خلافی کر رہے ہوتے ہیں اور جب عہد پورا نہ کریں تو جھگڑے کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ قضا میں، عدالتوں میں یہ معاملات اس لیے جاتے ہیں کہ عہدوں کی پابندی نہیں کی، امانت میں خیانت کی پھر اپنی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولا۔ وعدوں پر وعدے کرتے رہے تا کہ معاملہ لٹکتا رہے اور ٹلتا جائے۔ ایسے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک منافق ہیں اور اس فیصلہ کے بعد کسی اور فتویٰ کی ضرورت نہیںہے۔ پھر ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عہدِ بیعت باندھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ہم عہدِ بیعت نبھا رہے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایسے عہد شکنی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا کیونکہ ان میں تقویٰ نہیں ہے۔ پس اگر ہم غور کریں تو ہمارے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم ہر برائی کو بیزار ہو کر ترک کریں اور ان راہوں پر چلنے کی کوشش کریں جو نیکی اور تقویٰ کی راہیں ہیں۔

عہدوں کے پورا کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا ارشادفرماتے ہیں؟ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ

روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خداکی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210)

باریکی سے دیکھے کہ ان پر عمل کرنا ہے۔ عہد بھی ایک امانت ہے۔ فرمایا پس اللہ تعالیٰ اور بندوں کے تمام عہد پورے کرنا اور امانتوں کی ادائیگی ہی ہے جو تقویٰ کی حقیقی راہوں پر چلاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ اَور فرماتے ہیں ’’کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں ا ور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے۔ ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا۔ وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19-20)

پس کتنے خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ لوگ جو اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنے دلوںکو پاک کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے ہیں۔ اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت کر کے آپ سے ایک عہد کیا ہوا ہے اور اصل میں آپ کی بیعت میں آ کر اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم تیرے بھیجے ہوئے کی بیعت میں آ کر اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں اور اس کے لیے ہم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ دنیاوی خواہشات اور لالچوں کو چھوڑنے کا ہم عہد کرتے ہیں۔ اپنے دلوں کو تقویٰ سے بھرنے کا ہم عہد کرتے ہیں۔ پس ہر احمدی کو اس سوچ کے ساتھ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور جائزہ لینا چاہیے۔

عہد بیعت کوئی معمولی عہد نہیں ہے، اپنے آپ کو بیچنے کا عہد ہے، کیا حقیقت میں ہم نے اپنے آپ کو بیچ دیا ہے؟ اگر نہیں تو ہم ابھی تقویٰ کے وہ معیار حاصل نہیں کر سکے جو ایک مومن کے لیے ضروری ہیں۔

اگر ہم نے بیعت کا حق ادا کر دیا تو ایک انقلاب ہم بہت جلد دنیا میں بپا ہوتا دیکھ لیں گے لیکن بعض لوگ اپنی مرضی کی بات نہ ہو تو میں نے دیکھا ہے خلیفہ وقت کی باتوں کو بھی ردّ کر دیتے ہیں کجا یہ کہ اپنے عہدِ بیعت کو پورا کریں۔ گذشتہ یوکے کے جلسہ پر جب میں نےعورتوں کے حقوق کی بات کی تو مجھے پتہ لگا کہ بعض خاندانوں نے یہ کہا کہ یہ کہاں سے انہوں نے فتوے نکال لیے حالانکہ جو باتیں میں نے کیں وہ قرآن، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق تھیں کہ عورتوں کے کیا حقوق ہیں۔ تو اس طرح کے اختلاف رکھنے والے جو ہیں وہ کس طرح حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں۔

ایک موقع پر بیعت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایاکہ بیعت میں جاننا چاہیے کہ کیا فائدہ ہے اور کیوں اس کی ضرورت ہے؟ جب تک کسی شے کا فائدہ اورقیمت معلوم نہ ہو تو اس کی قدر آنکھوں کے اندر نہیں سماتی۔ فرمایا جیسے گھر میں انسان کے کئی قسم کا مال واسباب ہوتا ہے۔ مثلاً روپیہ ہے پیسہ ہے کوڑی ہے لکڑی ہے وغیرہ۔ توجس قسم کی جوشے ہے اسی درجہ کی اس کی حفاظت کی جاوے گی۔ ایک کوڑی کی حفاظت کے لیے وہ سامان نہ کرے گا جو پیسہ اور روپیہ کے لیے اسے کرنا پڑے گا اور لکڑی وغیرہ کو تویونہی ایک کو نہ میں ڈال دے گا۔ علی ہذالقیاس جس کے تلف ہونے سے اس کا زیادہ نقصان ہے اس کی زیادہ حفاظت کرے گا۔ اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے۔ جس کے معنی رجوع کے ہیں۔ تو یہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بودوباش مقرر کر لی ہے۔ تو

توبہ کے معنی یہ ہیں کہ اس وطن کو چھوڑنا اور یعنی گناہوں کو چھوڑنا
اور رجوع کے معنی پاکیزگی کو اختیار کرنا۔

ا ب و طن کوچھوڑنا بہت بڑا گراں گزرتا ہے۔ بہت بڑی بات ہے وطن کو چھوڑنا، آسان کام نہیں ہے اور ہزاروں تکلیفیںہوتی ہیں۔ ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر اسے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کو چھوڑنے میں تواس کو سب یار دوستوں سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کو مثل چارپائی فرش وہمسائے وہ گلیاں کوچے بازار سمیت چھوڑنا پڑتا ہے یعنی یہ مثالیں دی ہیں یہ چیزیں جو ہیں تمہاری ان سب کو چھوڑنا پڑتا ہے بازاروں کو کوچوںکو گلیوں کو سب کو چھوڑ کے آ جاتے ہو اپنے گھر کے سامان کو بھی۔ ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس سابقہ وطن میں کبھی نہیں آتا۔ اس کا نام توبہ ہے۔ تو بہ یہ ہے کہ پچھلی چیز کو بالکل چھوڑ دیا۔ جس طرح ایک انسان ایک ملک سے دوسرے ملک میں مائیگریٹ (migrate) کر جاتا ہے۔ معصیت کے دوست اور ہوتے ہیںاور تقویٰ کے دوست اور۔ اسی تبدیلی کو صوفیا نے موت کہا ہے جو توبہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ وہ جب تک اس کُل کا نعم البدل عطانہ فرما دے نہیں مارتا۔ یعنی انسان جب اتنی بڑی قربانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بڑا فضل فرماتا ہے۔ فرمایا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ۔ میں یہی اشارہ ہے کہ وہ توبہ کر کے غریب بیکس ہو جاتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اورپیار کرتا ہے اور اسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے۔ اور دوسری قومیں خدا کو رحیم و کریم خیال نہیں کرتیں۔ فرمایا کہ عیسائیوں نے خدا کو ظالم جانا اور بیٹے کورحیم کہ باپ تو گناہ نہ بخشے اور بیٹا جان دے کر بخشوا لے۔ بڑی بیوقوفی ہے کہ باپ بیٹے میں اتنا فرق ہے والد مولود میں مناسبت اخلاق عادات کی ہوا کرتی ہے یہاں تو بالکل ندارد۔ اگر اللہ تعالیٰ رحیم نہ ہوتا تو انسان کا ایک دم گزارہ نہ ہوتا۔ جس نے انسان کے عمل سے پیشتر ہزاروں اشیاء اس کے لیے مفید بنائی ہیں توکیا یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ اورعمل کوقبول نہ کرے گا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 2-3) اگر کوئی توبہ کر رہا ہے نیک عمل کر رہا ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے۔

پس آج یہاں سے اس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ بیعت کا حق ادا کرنے کی پوری طرح کوشش کرنی ہے اور توبہ کا جو حق ہے اس طرح توبہ کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر جھک جانا ہے تاکہ ہمارا شمار بھی اللہ تعالیٰ کے محبوںمیں ہو۔

آخر میں ایک اور اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا پیش کرتا ہوں۔ آپؑ ہمارے تقویٰ کا کیا معیار دیکھنا چاہتے ہیں اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔

دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی ہے اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے۔ تم ریاکاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے۔ کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ۔ اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریاءہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکا دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے کیونکہ

خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے اور
وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا

تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کاٹا جائے گا کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو تا تم بخشے جاؤ۔ نفسانیت کی فربہی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)

اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کے یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہماری باتیں صرف باتیں ہی نہ ہوں بلکہ دنیا کو نظر آئے کہ جو یہ کہتے ہیں ان کے عمل بھی اس کے مطابق ہیں۔ یہ دنیا ہمیں یہ کہنے والی بنے کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنی ہر بات پر مقدم ہے اور خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے یہ لوگ ہیں اور یہ باتیں جہاں غیروں کو اسلام کی حقیقت بتانے والی ہوں گی وہاں ہمارے گھروں کے سکون قائم کرنے والی بھی ہوں گی اور ہماری نسلوں کو سنوارنے والی اور ان کی عاقبت سنوارنے کا بھی باعث بنیں گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خواہشات کے مطابق حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button