الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب کے قلم سے درج ذیل تین شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
مکرم سلطان عالم صاحب شہید
مکرم سلطان عالم صاحب 26؍نومبر 1922ء کو پیدا ہوئے۔ 1938ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے درجہ اول میں میٹرک پاس کیا۔اس عرصہ میں تحریک جدید بورڈنگ ہائوس میں داخل رہے۔ اس چھوٹی سی عمر میں ہی باقاعدہ تہجد گزار تھے۔ بعدازاں گجرات سے امتیاز کے ساتھ ایف اے پاس کیا اور CMA کے مقابلہ کے امتحان میںکامیاب ہو کر ملازم ہو گئے۔ 1942ء میں وصیت کی پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے حکم پراپنی جائیداد وقف کر دی۔ جون 1947ء میں آ پ کو مہمان خانے میں معاون ناظرضیافت کے طور پر تعینات کیا گیا۔ یہ چونکہ وقف کر کے آگئے تھے اس لیے معاون ناظر ضیافت کے طور پر اپنی ذمہ داری بڑی جانفشانی سے ادا کی۔19؍ستمبر 1947ء کو مرحوم نے اپنے گھر پر خط میں لکھا: ‘‘حضور کا حکم ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھیج دو اور خو ب ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ ہم تو حضور کے حکم کے مطابق خون کا آخری قطرہ بہانے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔’’
4؍اکتوبر 1947ء کو کرفیو اٹھنے کے بعد جب بیرونی محلوں میں رہنے والے بعض احمدی اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لیے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پرجو ریتی چھلہ سے ملتاہے عین دن دہاڑے برسربازار سات احمدیوں کوگولی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں میاں سلطان عالم صاحب بھی تھے اورجب بعض لوگ شہید احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھے تو ان کوبھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں ان شہداء کو نور ہسپتال کے قریب گڑھے میں دفن کردیا گیا۔ بعد میں وہاں کتبہ بھی نصب کردیا گیا۔ شہید کے پسماندگان میں بوڑھے والدین، بیوہ اور دو بیٹے شامل تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس ضمن میں مزید فرمایا کہ شہید کے مزید تعارف کے طورپر مَیں بیان کر رہا ہوں کہ یہ مکرم پیرعالم صاحب واقف زندگی کے حقیقی بھائی تھے۔ پیرعالم صاحب میرے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ہمہ وقت خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ رات بارہ بجے یا ایک بجے تک ہماری بعض علمی مجالس رہی ہیں بعض دفعہ دو بجے تک، سب لوگ چھٹی کر جاتے تھے مگر پیر صاحب نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ صبح ہمارے مختلف کارکنوں کے آنے سے پہلے میں اپنے دفتر پہنچ جاتاہوں اورکبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں پہنچا ہوں اور پیر صاحب موجود نہ ہوں۔ اللہ کے فضل سے اِن کا بھائی تو شہادت کا رتبہ پا گیا لیکن پیر صاحب نے بھی جیتے جی وقف کا حق ادا کرکے اللہ کے حضور یقینا ًبہت رتبے پائے ہیں۔
مکرم ماسٹر غلام حسین صاحب شہید
محترم ماسٹر غلام حسین صاحب ولد عبدالکبیر بٹ صاحب اکتوبر 1967ء میں شہید کیے گئے۔ آپ 1949ء یا 1950ء میں ترک پورہ بانڈی پورہ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے گلگت آگئے تھے۔ یہاں چند سال بعد سکول ماسٹر کے طور پربھرتی ہوئے۔ گلگت سے آ پ کا تبادلہ چلاس میں ہوا۔ پھر غالباً 1966ء میں چلاس سے بیس پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھور نالہ میں آپ کاتبادلہ ہوا۔ احمدیت کی بِنا پر وہاں آپ کی مخالفت ہوئی اور غالباً اکتوبر 1967ء میں جب آپ سکول ہی میں رہائش پذیر تھے آپ پر رات کو حملہ کرکے نماز پڑھنے کی حالت میں جائے نماز پر ہی ذبح کردیا گیا۔ پھر حملہ آوروں نے نعش کو تھور نالہ میں بہادیا۔
مکرم خواجہ برکات احمد صاحب اُن دنوں علاقہ دارپل میں رہائش پذیر تھے۔ اطلاع ملنے پر تھورنالہ پہنچے اور مقامی نمبردار شیر غازی کے تعاون سے مرحوم کی نعش تلاش کی اور سکول کے احاطہ میں ہی آپ کی تدفین کی گئی۔ بعدہٗ ملزمان پکڑ لیے گئے مگر معمولی سزا کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ دنیا میں تو بعض اوقات معمولی سزا ہی ملتی ہے اور دنیا کی سخت سزا بھی اُس سزا سے بہت معمولی ہے جوقیامت کے دن خدا تعالیٰ کی طرف سے دی جائے گی۔
مکرم ماسٹر صاحب سادہ مزاج، نیک فطرت، نرم دل اور تہجدگزار مخلص احمدی تھے۔ آپ غیرشادی شدہ تھے۔
مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب شہید
مکرم چودھری حبیب اللہ صاحب کی تاریخ شہادت 13؍جون 1969ء ہے۔ آپ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے جس کی وجہ سے رشتہ داروں سمیت پورا گاؤں آپ کی مخالفت کرتا تھا۔ آپ کے والدین نے احمدیت قبول کرنے کے جرم میں آپ کو گھر سے نکال دیا تو ساہیوال میں آکر اپنے برادر نسبتی کے ہاں رہنے لگے جہاں آپ محنت مزدوری کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کی والدہ ان کو واپس اپنے گاؤں ‘‘چک حسن آرائیں’’ ضلع پاکپتن میں لے گئیں۔ آپ کے والد صاحب، والدہ اور دیگر اقرباء آپ پر زور دینے لگے کہ احمدیت چھوڑ دیں۔ آپ کو اس جرم میں اکثر مارا پیٹا بھی جاتا مگر آپ نے نہ بوڑھے والدین کی خدمت سے منہ موڑا، نہ احمدیت سے۔ اسی دوران آپ کے والد صاحب کی وفات ہوگئی۔ آپ نے تجہیز و تکفین کا مکمل انتظام کیا مگر اپنے غیراحمدی والد کا جنازہ نہ پڑھا جس سے آپ کے غیراحمدی چچا اور دیگر اقرباء نے بڑا شور کیا اور آپ کی مخالفت کھلے عام ہونے لگی۔ اس گاؤں کے مولوی کو آپ کئی دفعہ بحث میں لاجواب کرچکے تھے۔ اس نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور آپ کی مخالفت کی آگ خوب بھڑکائی۔ چنانچہ وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے ساتھ مل کر منصوبے بنانے لگا۔آپ نے شریعت کے مطابق اپنے والد صاحب کی زمین کا حصّہ اپنی پانچوں بہنوں کو دیا تو بھی آپ کے چچازاد برہم ہوئے اور کہنے لگے تم نے انہیں ہمارے سروں پر بٹھا دیا ہے۔ جب آپ نے قرآن و سنّت کا حوالہ دیا تو کہنے لگے کہ تم کہاں کی شریعت کی باتیں کرتے ہو تم خود تو مرزائی ہو۔
گاؤں سے قریبی قصبہ ‘قبولہ’ میں آپ کا بُک ڈپو تھا اور آپ وہاںاحمدیوں کے امام الصلوٰۃ مقرر تھے۔ 13؍جون 1969ء کو جب آپ قبولہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد واپس گاؤں میں آئے تو ان کی اہلیہ نے کہا آج زمین پر نہ جانا، میں نے سنا ہے کہ آج مخالفوں نے آپ سے لڑائی کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ مگر آپ نے کہا کہ جب میں نہیں لڑوں گا تو وہ خوامخواہ کیسے لڑیں گے۔ چنانچہ آپ خالی ہاتھ اپنی زمینوں کی طرف چل پڑے۔
پانی لگانے کی ان کی باری تھی مگر آپ کے ایک بہنوئی نے ان کا پانی اپنی زمینوں کو لگالیا۔ آپ نے جاکر دیکھا تو اپنے ایک مزارعہ کو جو برہم ہو رہا تھا کہا ‘‘یہ بھی تو اپنے ہی کھیت ہیں، انہیں پانی لگادو’’۔ پھر خود وہیں نالے پر وضو کرنے لگ گئے تاکہ نماز عصر ادا کریں۔ ابھی وضو کرکے واپس کھیتوں میں جا رہے تھے کہ ان کے چچازاد اور چند دوسرے مخالف للکارتے ہوئے لاٹھیوں سے مسلح ہوکر حملہ آور ہوئے۔ آپ چونکہ گتکے کے ماہر تھے اس لیے اُن سے ہی ایک لاٹھی چھین کر اپنا دفاع کرنے لگے۔ آپ کے ایک بہنوئی نے جب یہ دیکھا تو وہ برچھی سے ان پر حملہ آور ہؤا۔ برچھی آپ کے پیٹ میں لگی جس سے آپ شدید زخمی ہوگئے۔ آپ کے ایک کزن جو آپ کی مدد کو آئے تھے، انہیں بھی برچھی لگی۔ جب آپ زخمی ہوکر زمین پر گرے تو آپ کی برادری کی ایک منافق عورت جو گاؤں میں نیک بی بی کے نام سے مشہور تھی دودھ کا گلاس لائی اور شہید مرحوم کے منہ سے لگا دیا کہ پی لو۔ شہید مرحوم نے اس دودھ کے چند گھونٹ پی لیے۔ آپ کو ہسپتال پہنچانے کے لیے لوگ اٹھاکر شہر کی طرف لے جا رہے تھے کہ آپ رستہ میں ہی شہید ہوگئے۔ بوقت شہادت آپ کی عمر 31 سال تھی۔ بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ آپ کو دودھ میں اس بظاہر نیک بی بی نے زہر ملاکر دیا تھا۔ کیونکہ پوسٹ مارٹم میں وہ زہر نکل آیا۔ یہ عورت بعد میں پاگل ہوگئی اور لوگ اس کے نزدیک بھی نہیں آتے تھے۔ وہ اسی حالت میں مر گئی اور اس کو بغیر غسل دیے دفن کردیا گیا۔
شہید مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں جن میں سے ایک مکرم ناصر احمد مظفر صاحب فضل عمر ہسپتال ربوہ میں کیشیئر ہیں۔
………٭………٭………٭………
محترم وسیم احمد صاحب شہید
ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ جولائی 2011ء میں عزیزم ولید احمد نے اپنے والد محترم وسیم احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 28؍مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید کردیئے گئے۔
محترم وسیم احمد صاحب 1956ء میں چکوال کے گاؤں رتوچھ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک چوآسیدن شاہ سے کیا۔ برملا اپنی احمدیت کا اظہار کرتے۔ بڑے حسّاس انسان تھے۔اپنے رشتہ داروں میں ہردلعزیز تھے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا۔ بِلا تخصیص مذہب، یتیموں سے خاص طور پر محبت رکھتے اور اُن کی مدد کرتے رہتے۔
جماعت سے والہانہ محبت تھی۔ راولپنڈی میں ملازمت کے دوران اخبار الفضل میں پڑھا کہ دارالذکر لاہور کے لیے سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت ہے تو فوراً استعفیٰ دے کر لاہور چلے آئے اور ہمیشہ شکرگزار رہتے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔
28مئی کی صبح شہید مرحوم نے غیرمتوقع طور پر اپنے گھر فون کیا اور سب سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ امیر صاحب نے ان کی درخواست پر سیکیورٹی گارڈز کے لیے نئی وردیاں بنوائی ہیں اور اُس روز انہوں نے پہلی بار نئی وردی پہنی تھی۔ عموماً ان کی ڈیوٹی گیٹ کے اندر ہوتی تھی لیکن اُس روز انہوں نے درخواست کرکے گیٹ کے باہر ڈیوٹی لگوائی۔ دہشت گردوں نے آتے ہی فائرنگ کی تو ان کی ٹانگ میں گولی لگی۔ اگرچہ یہ اُس وقت باہر سے ہی اپنی جان بچاسکتے تھے لیکن انہوں نے جرأت کے ساتھ اندر جاکر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران ایک دہشت گرد نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور یہ وہیں شہید ہوگئے۔
………٭………٭………٭………
مکرم مبارک احمد طاہر صاحب شہید
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ ستمبر 2011ء میں سانحہ لاہور میں شہید ہونے والے مکرم مبارک احمد طاہر صاحب کا ذکرخیر مکرم عطاء المحسن صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم مبارک احمد طاہر صاحب محترم عبدالمجید صاحب کے بیٹے اور مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے داماد تھے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 4؍ستمبر 2015ء کے الفضل ڈائجسٹ میں آپ کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہوچکا ہے۔ چند اضافی امور درج ذیل ہیں:
محترم مبارک احمد طاہر صاحب بوقت شہادت نیشنل بنک کے شعبہ آڈٹ میں وائس پریذیڈنٹ تھے۔ بنک کی طرف سے ٹی اے ، ڈی اے ملنے کے باوجود سستے اور معمولی ہوٹل میں ٹھہرتے۔ آپ شوگر کے مریض تھے۔ اکثر زیادہ کام اور سفر کی تھکاوٹ سے طبیعت خراب ہوجاتی۔ کوئی کہتا کہ جب بینک آپ کو اچھی رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا کرتا ہے تو پھر آپ کیوں اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس پر آپ ناراضگی کا اظہار کرتے اور کہتے کہ بینک بھی تو اپنا ہے، اگر اس کی بچت ہوجائے گی تو آپ کو کیا نقصان ہوگا۔جہاں آڈٹ کے لیے جاتے وہاں پر تحائف قبول نہ کرتے۔ دورانِ ملازمت بہت سی مشکلات پیش آئیں بلکہ آپ کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوا لیکن ہمیشہ دیانتداری کو آپ نے مقدّم رکھا۔
شہید مرحوم نے اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ والد صاحب کی کم آمدنی کی وجہ سے F.A. کے بعد ملازمت شروع کی۔ جب ذاتی گھر بنایا تو اپنے والدین اور غیرشادی شدہ بھائی بہنوں کو ساتھ رکھا۔ بہنوں کی شادیاں کیں۔ والد کی بیماری میں چھٹیاں لے کر دن رات ہسپتال میں رہے اور اُن کی وفات کے بعد اپنی والدہ اور بھائی بہنوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھا۔
آپ نے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دی۔ سب بچے نظام وصیت میں شامل ہیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ چاروں بچے قرآن کریم حفظ کریں۔ آپ کی کوششوں سے دو بچوں نے مکمل جبکہ دو نے جزوی طور پر قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق پائی۔دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدّم رکھتے۔ ایک بیٹا F.A. کے امتحان میں صرف تین مضامین میں پاس ہوا تو آپ کی اہلیہ نے کہا کہ جماعتی کاموں میں زیادہ مشغول ہونے کی وجہ سے فیل ہوا ہے۔ آپ نے کہا کہ جماعتی کاموں میں حصہ لینے کی برکت سے تین مضامین میں پاس ہوا ہے لہٰذا پہلے سے زیادہ دینی خدمت کرنی چاہیے۔
غریبوں کا اپنے بچپن سے ہی خیال رکھتے۔ اپنے جیب خرچ سے ہی ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ گھر میں کوئی کام کے لیے آتا تو اُس کے لیے چائے پانی کا اہتمام کرتے، کھانے کا وقت ہوتا تو کھانا کھلاتے۔ چھابڑی والے غرباء سے اکثر ضرورت سے زیادہ پھل وغیرہ خریدلیتے۔ اپنے علاقے کے غرباء میں چھوٹی عید پر کیک اور بڑی عید پر گوشت خود تقسیم کرتے۔
خلیفہ وقت سے بہت تعلق رکھتے۔ پریشانی ہوتی یا کامیابی ملتی تو سب سے پہلے حضور کی خدمت میں خط تحریر کرتے۔ ان کا گھر جماعتی سرگرمیوں کا ہمیشہ نمایاں مرکز رہا۔ ہر کام کے لیے نہایت عاجزی سے خود کو پیش کردیتے۔ الغرض ایک مومن کی تمام خوبیاں آپ میں موجود تھیں۔
28؍مئی 2010ء کو مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران جب فائرنگ شروع ہوئی تو آپ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔ اسی حالت میں ایک گولی بائیں بازو سے گزر کر دل میں لگی اور آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔
………٭………٭………٭………
محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید
ماہنامہ ‘‘خالد’’ مئی 2012ء میں مکرم امجد باجوہ صاحب نے محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب 2؍اپریل 1968ء کو لویری والہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ 21؍مارچ 1997ء کو آپ کی شادی ہوئی۔ آپ کے پڑدادا حضرت میاں احمد یار صاحبؓ اور پڑدادی حضرت مہتاب بی بی صاحبہؓ تھے۔
مکرم ماسٹر صاحب باقاعدہ تہجدگزار تھے اور بچوں کو بھی نماز فجر کے لیے مسجد ساتھ لے کر جاتے۔ دورانِ اسیری بھی اپنے بیٹے سے اس وجہ سے ناراض ہوئے کہ وہ نماز پڑھے بغیر واپس چلا گیا تھا۔ شہادت سے ایک روز قبل بچوں کو صبر اور خلافت سے وابستگی کی تلقین کی اور اہلیہ کو اپنی والدہ اور بچوں کا خیال رکھنے کی نصیحت کی۔آپ نہایت ملنسار، شاکر، ہمدرد اور دعاگو انسان تھے۔ مزاج دھیما تھا اور کبھی سخت مزاجی سے پیش نہیں آتے تھے۔ اگر کوئی سخت بات کردیتا تو آرام سے اُسے سمجھاتے۔ کوئی خادم کسی کی شکایت کرتا تو بڑے آرام سے سنتے اور حکمت کے ساتھ معاملہ رفع دفع کرتے۔ حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ شکار کا شوق تھا اور شکار کے گوشت میں دوستوں کو بھی شامل کرتے۔
مکرم ماسٹر صاحب بچپن سے ہی خدمت دین میں پیش پیش رہے۔ قریباً دس سال خدام الاحمدیہ حلقہ کے زعیم رہے۔ بوقت وفات محلہ نصرت آباد کے صدر جماعت تھے اور قریباً دس سال سے حفاظتِ مرکز کے تحت سیکٹر انچارج بھی تھے۔ عطیہ خون کے ذریعہ انسانیت کی خدمت کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے۔ایک بار جب آپ کی ٹیم کشتی رانی کے فائنل میں پہنچ چکی تھی تو مقابلے سے کچھ دیر قبل کسی کو خون کی ضرورت پڑی اور وہ آپ کو ڈھونڈتا ہوا دریائے چناب کے کنارے پہنچ گیا۔ آپ نے انتظامیہ سے اجازت لی، جاکر خون کا عطیہ دیا اور واپس آکر مقابلہ میں حصہ لیا اور جیت بھی گئے۔ اس کے بعد انتظامیہ کو بتایا کہ آپ خون دینے گئے تھے۔ اس پر بعض لوگ ناراض بھی ہوئے کہ اس حالت میں مقابلے میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا۔
مکرم ماسٹر صاحب کشتی رانی کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے اور نئے آنے والوں کی تربیت بھی کرتے تھے۔پنجاب روئینگ ایسوسی ایشن کے ایسوسی ایٹ سیکرٹری تھے۔ آپ کی محنت اور تربیت سے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پنجاب کی پوری ٹیم ربوہ کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جس نے پاکستان اولمپک گیمز میں پنجاب کی نمائندگی کی۔ اس ٹیم کے مینیجر اور کوچ بھی مکرم ماسٹر صاحب مرحوم ہی تھے۔ آپ نے ایک ایسی ٹیم تیار کی ہوئی تھی جو مقابلہ جات کے علاوہ خدمت خلق کو بھی اوّلین فرض سمجھتی تھی۔ اگر کوئی ڈوب جاتا تو فوراً اپنی ٹیم کے ہمراہ چلے جاتے اور نعش ملنے تک گھر نہ لَوٹتے۔ ساتھ ساتھ لواحقین کا بھی خیال رکھتے۔ لاش ملنے پر اس کی تجہیزوتکفین کے انتظامات بھی اپنے اخراجات پر کروادیتے۔ سیلاب آتا تو بھی آپ ہر کام پس پشت ڈال کر متأثرین کی خدمت میں لگ جاتے۔ اپنے ساتھی خدام کا بھی بہت خیال رکھتے۔
آپ پیشے کے لحاظ سے ایک فرض شناس استاد تھے۔ بچوں کو کبھی سخت سزا نہ دیتے۔ پرانے شاگرد آپ کا بہت احترام کرتے اور آپ کے ساتھی بھی بھرپور عزت دیتے۔
جب آپ کو ایک مقدمے میں جھوٹے طور پر ملوّث کرکے 10؍فروری 2012ء کو گرفتار کیا گیا تو دورانِ اسیری اپنے ملنے والوں سے کہتے کہ مَیں تو یہاں اعتکاف بیٹھا ہوں، دعاؤں کا بہت موقع مل جاتا ہے۔ 17؍مارچ کو آپ کو نامعلوم مقام پر منتقل کرکے شدید اذیّتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور یہی اندرونی زخم شہادت کا باعث بنے۔ جب ہسپتال میں آپ کو خون کی بوتلیں لگائی گئیں تو آپ کہنے لگے کہ مَیں نے اہلِ ربوہ کو بہت خون دیا ہے اور آج ربوہ مجھے میرا خون واپس کر رہا ہے۔ آخر 30 مارچ کو بعدنماز جمعہ آپ کی شہادت ہوگئی۔
………٭………٭………٭………
وفائے عہد کی بے نظیر داستانیں
ماہنامہ ‘‘خالد’’ مئی 2012ء میں مکرم محمد اکرم صاحب کے قلم سے سانحہ لاہور کے چند شہداء کے ایسے کلمات بیان ہوئے ہیں جو ان شہداء کی غیرمعمولی استقامت، بے مثال صبر و وفا اور بے نظیر جرأت کی خبر دیتے ہیں اور جنہیں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات جمعہ میں بھی بیان فرمایا ہے۔
٭……موت کو سامنے دیکھ کر بھی وہاں موجود کسی احمدی نے خوف کا اظہار نہیں کیا نہ زندگی کی بھیک دہشت گردوں سے مانگی بلکہ دعاؤں میں مصروف ر ہے اور یہی کوشش رہی کہ اپنی جان دے کر دوسروں کو بچائیں۔
٭……ایک احمدی نے لکھا کہ مَیں ربوہ سے گیا تھا۔ ایک نوجوان خادم کے ساتھ مل کر لاشیں اُٹھاتا رہا توآخر میں اُس نے میرے ساتھ مل کر ایک لاش اٹھائی اور ایمبولینس تک پہنچاکر کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں۔ اور پھر یہ نہیں کہ ایمبولینس کے ساتھ چلاگیا بلکہ واپس مسجد میں جاکر اپنی ڈیوٹی میں مستعد ہوگیا۔
٭……مکرم کامران ارشد صاحب 1994ء سے MTA میں رضاکارانہ خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ فائرنگ کے وقت بھی ریکارڈنگ میں مصروف رہے اور فائرنگ کی زَد میں آکر شہید ہوگئے۔
٭……مکرم محمد آصف فاروق صاحب بھی MTA کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے اور اسی ڈیوٹی کے دوران فائرنگ کی زَد میں آکر شہید ہوئے۔ کہا کرتے تھے کہ میرا جینا اور مرنا یہیں دارالذکر میں ہے۔
٭……مکرم شیخ شمیم احمد صاحب امیر صاحب کے سامنے کھڑے رہے۔ دہشت گرد نے پوچھا کہ تیرے پیچھے کون ہے؟ انہوں نے کہا: میری بیوی، میرے بچے اور میرا خدا۔ تو دہشت گرد نے کہا کہ چل پھر اپنے خدا کے پاس۔ اور پھر گولیاں برسادیں۔
٭……مکرم محمد شاہد صاحب محراب کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ شہادت سے قبل اپنے والد صاحب اور دوستوں کو فون پر کہا کہ مَیں ان دہشت گردوں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا۔ چہرے پر ناخن لگنے کے نشان تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے۔
٭……مکرم ناصر محمود خان صاحب کی طرف دہشت گرد نے گرنیڈ پھینکا تو انہوں نے اپنے ہاتھ پر روک لیاکہ واپس اُس کی طرف لَوٹادیں۔ لیکن اتنی دیر میں وہ گرنیڈ پھٹ گیا اور اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچالی۔
٭……مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب سنتیں ادا کررہے تھے کہ شیلنگ شروع ہوگئی۔ آپ نے سلام پھیر کر اپنی بنیان اُتار کر ایک لڑکے کے زخموں کو باندھا اور اس کو تسلّی دی۔ پھر انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دہشت گرد کو پکڑ کر گرانے اور قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران دوسرے دہشت گرد نے گولیاں مارکر ان کو شہید کردیا۔
٭……مکرم نورالامین صاحب دارالذکر کے ڈش انٹینا کے پیچھے چھپ گئے اور گھر فون کیا۔ ان کی اہلیہ نے کہا کہ آپ وہاں سے نکل آئیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ یہاں بہت لوگ پھنسے ہوئے ہیں، مَیں اُن کو چھوڑ کر نہیں آسکتا۔ آخر آپ گرنیڈ لگنے سے شہید ہوگئے۔
٭…… حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘یہ شہداء تو اپنا مقام پاگئے مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلاگئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے بیٹو! میرے بچو! میری ماؤں! میری بہنو! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا۔’’
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘مصباح’’ ربوہ اگست 2011ء میں سانحہ لاہور کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
روکو گے ، ہم رُک جائیں گے ، ہرگز نہیں ہرگز نہیں
مارو گے ، ہم مر جائیں گے ، ہرگز نہیں ہرگز نہیں
کیا تم ہمیں دھمکاؤگے ، کیا تم سے ہم ڈر جائیں گے
ایسا کبھی ہوگا نہیں ، ہرگز نہیں ہرگز نہیں
خونِ شہیداں سے نئے کتنے چمن کِھل جائیں گے
ہم پر خزاں! اے کم نظر!! ہرگز نہیں ہرگز نہیں
ہم حزن میں ڈوبے رہیں گے اور عمل رُک جائے گا
ہم نے تو یہ سیکھا نہیں ، ہرگز نہیں ہرگز نہیں
اِک زندگی تازہ ملی ، ہر ہر لہو کی بوند سے
شہداء کبھی مرتے نہیں ، ہرگز نہیں ہرگز نہیں
ہم نام پر تیرے کریں ، خونریزی و فتنہ گری
اے رحمۃٌ لِّلْعَالَمِین! ہرگز نہیں ہرگز نہیں
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم بابر عطا صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:
ہمارے صبر کا لیتی رہے گی امتحاں کب تک
یہ دنیا دے گی ہم کو ہر گھڑی خزاں کب تک
محبت نُور بن کے جلد ہی اُترے گی عالم میں
چڑھے گا نفرتوں کی بھینٹ یہ اپنا جہاں کب تک
خود اپنی آگ میں جل جائیں گے ظلم و ستم ان کے
جلائیں گے یہ ظالم بے قصوروں کے مکاں کب تک
بہاروں کے حسیں منظر مری آنکھوں میں ہیں بابرؔ
خزاں کے زرد موسم میں رہے گا آشیاں کب تک
ماہنامہ ‘‘مصباح’’ ربوہ جولائی 2011ء میں شامل اشاعت سانحہ لاہور کے حوالے سے کہی جانے والی ایک نظم ہدیۂ قارئین ہے:
سناؤں تم کو عجب کہانی ، محبتوں کے پیامبر کی
کہ جرأتوں میں و دلکشی میں مثال کب ہے جہاں میں ایسی
خدا کے در پہ ہی جھکنے والے ، کوئی ہو آندھی نہ رُکنے والے
خدائے واحد کی رہ کے راہی ، دلوں کو تسخیر کرنے والے
جگہ کہیں بھی ، زمانہ کوئی ، نہ ریت بدلے نہ طَور کوئی
وہ مثلِ پروانہ یوں چلے ہیں کہ بن کے کندن امر ہوئے ہیں
ہوئے جو مولا حضور حاضر ، ڈھلے تمنّا میں ہو کے ظاہر
پِلا ہمیں جامِ وصلِ جاناں کہ پھر جئیں ہم نثار ہوکر