متفرق مضامین

حقیقی غلام احمد ﷺ کا مثالی نمونۂ صبر

(ن الف ناصر)

حضرت مسیح موعودؑ نے کثیر التعداد مصائب و آلام میں صبر و استقامت کا کما حقہ اعلیٰ نمونہ دکھایا جسے بغور مشاہدہ کرنا اور اپنے دماغوں میں تازہ رکھنا ہم سب کو ایک نئی تازگی اور ہمت بخشتا ہے تا ہم اپنے عہدوں اور وعدوں سے نہ ڈگمگائیں

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتاریخ ۱۲؍جون ۲۰۲۲ء آسٹریلیا کے خدام کے ساتھ ورچوئل ملاقات میں جماعت احمدیہ کی ترقی کے بارے میں فرمایا:’’یقیناً ایسے واقعات پیدا ہوں گے جس کے بعد پھر ان شاءاللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی ہو گی اور جہاں جہاں ایسے واقعات ہوتے جاتے ہیں، وہاں بعض دفعہ ایک عارضی breakthrough چھوٹے سے علاقے میں ہوتا ہے، پھر رک جاتا ہے۔ لیکن ایک بڑے پیمانے پر breakthrough ہوگا وہ کسی نہ کسی طرح اس قسم کے واقعات ہوں گے۔ تبھی ہو گا۔ کب ہو گا؟ کس زمانے میں ہو گا؟ اللہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ کی جو پیشگوئی ہے اس کے مطابق ۳۰۰ سال ابھی نہیں گزریں گے کہ اس سے پہلے ہو جائے گا اور ۱۳۳؍سال تو ہو چکے ہیں۔ یہی میں نے کہا ناں کہ اگلے بیس، پچیس سال جماعت احمدیہ کے لیے بڑے crucial ہیں۔ پھر اس میں کس حد تک پھیلتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو عرصہ ہو گا وہ پھیلنے کا ہی عرصہ ہو گا۔ ان شاءاللہ۔‘‘

بین السطور جہاں کئی اشارات ہیں وہیں بالبداہت علمی و تربیتی اور تبلیغی معیار کو بہترین کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت اہم پہلو مخالفت میں ایک حد تک شدت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ الٰہی جماعتوں کی مخالفت ان کی ترقی کا باعث ہوتی ہے اور مخالفت ،تکالیف و مصائب میں صبر و استقامت اخلاق جمعیہ میں ماتھے کا جھومر ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ العنکبوت بھی اندرونی و بیرونی آزمائشوں اور ابتلاؤں کے بارے میں مکمل راہنمائی کرتی ہے جسے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےعملی زندگی کے سانچے میں ایسے ڈھالا کہ عرش بریں سے تمام انسانیت کے لیے اسوہ قرار پائے۔ اور موجودہ زمانے میں قولی و فعلی قرآن کو آپﷺ کے عاشق ِصادق حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے مکمل اتباع کے ساتھ دکھا کر زندہ خدا، زندہ نبی اور زندہ کتاب سے روشناس کروایا۔ چونکہ تازہ نمونہ ایمان و ایقان کو بڑھانے کا موجب بنتا ہے اور فی زمانہ حضرت مسیح موعودؑ نے کثیر التعداد مصائب و آلام میں صبر و استقامت کا کما حقہ اعلیٰ نمونہ دکھایا جسے بغور مشاہدہ کرنا اور اپنے دماغوں میں تازہ رکھنا ہم سب کو ایک نئی تازگی اور ہمت بخشتا ہے تا ہم اپنے عہدوں اور وعدوں سے نہ ڈگمگائیں۔

اعمال حسنہ میں سے خدا تعالیٰ کو پسندیدہ ترین وہ اعمال ہیں جن پر مداومت اختیار کی جائے اگرچہ تھوڑے ہی ہوں لیکن ان میں تسلسل کے ٹوٹنے کی ایک وجہ ابتلا، دکھ، تکلیف اور مصائب ہوتے ہیں اور ان ابتلاؤں اور دکھوں کے وقت جزع فزع اور تکلیف کے ایسے اظہار سے بچنا جس سے گھبراہٹ اور ناامیدی پیدا ہو نیز اچھی نیک باتوں پر قائم رہنا اور بری باتوں سے اپنے آپ کو روکنا صبر کہلاتا ہے۔ اسی لیے اخلاق میں صبر یعنی ثابت قدمی اور استقلال کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

دکھ اورتکلیف ایک بشری تقاضا ہے۔ سب سے زیادہ ابتلا اور مصائب انبیاءؑ پر آتے ہیں اشد الناس بلاء الانبیاء لیکن وہ صبر جمیل کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں جبکہ اکثر لوگ رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں یا ناپسندیدہ امور اور باتوں سے اپنے آپ کو روک نہیں پاتے جبکہ ایک کثیر تعداد تو نیکیوں پر بھی مشکل سے ہی قائم رہ پاتی ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں زندہ جاوید صبر کا اعلیٰ ترین نمونہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات بابرکات میں ملتا ہے جبکہ بوجہ مخالفت عوام الناس سے لے کر نام نہاد علماء اور گدی نشین بھی آپؑ کو تکالیف اور دکھ دینے میں پیش پیش رہتے تھے۔ آپؑ نے جانی اور جسمانی مصائب دیکھے جبکہ بڑے بڑے مجموں اور جلسوں میں انتظامی بد نظمی کی صورتحال پیش آتی تھی حتی کہ پتھر بھی برسائے گئے۔ مالی مصائب سے دوچار رہے، عزت پر حملے کیے گئے اور قسما قسم کی تضحیک اور استہزا کی اذیت بھی برداشت کرنا پڑی، نازیبا الفاظ اور بالمشافہ و بذریعہ خطوط بدزبانی سے لے کر کوڑا کرکٹ اور حکومت اور طاقت رکھنے والی دونوں قومیں عیسائی اور ہندوحتی کہ مسلمان بھی مقدمات میں سزا دلوانے، جرمانے کروانے یا قید کروانے تک مختلف جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے رہے۔ یہ تو کھلے اور ظاہر دشمن کی طرف سےتکالیف اور مصائب تھے مگر بعض لحاظ سے زیادہ خطرناک مصائب و ابتلا چھپے ہوئے دشمن کی طرف سے آتے ہیں جو منافقین کہلاتے ہیں۔ جن کا آپؑ نے جس جوانمردی اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

جماعتی کاموں کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور احتیاطی خوف کی ذہنی تکلیف جیسے مناسب خوراک کا بندوبست، مکان، دفتر اور کام سہولت سے ہونے کے مختلف سامان کی کمی وغیرہ۔ آپؑ کے مشقت آمیز سفر اور موسم کی شدت کے ساتھ ساتھ قیمتی وقت کے ضیاع کا دکھ نیز بار بار جسمانی بیماریوں کے باوجود للہی سرگرمیاں جاری رکھنا ثابت کرتا ہے کہ ابتلاؤں کے میدان اور دکھوں کے جنگل میں آپ کو ایک خاص طاقت دی گئی تھی۔

قارئین !انسان بعض اوقات اپنا دکھ برداشت کر لیتا ہے لیکن اپنے عزیزوں پیاروں کو دکھ کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ جبکہ آپ نے اپنے والد محترم کو پریشان حالت میں دیکھا، مشفق والدین اور پیاری اولاد کی جدائی کا غم سہا، اپنے اقرباء کا غیر مناسب رویہ برداشت کیا، عزیزوں کی شہادتیں، معاشی بائیکاٹ اور جسمانی اذیتیں دیکھیں، پیاروں کے بھوکا سوجانے کی تکلیف اور مناسب خوراک کے بندوبست کے فکر کی ذہنی اذیت دامن گیر رہی۔ دینِ اسلام اور حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی ذات بابرکات پر نازیبا حملے، مقامات مقدسہ کی بے حرمتی اور خدائےواحد کے مقابل پر مٹی اور پتھر کے بتوں کو عبادت کے لائق ٹھہرانا آپ کے حساس دل کے لیے ایک قلبی آزمائش اور دکھوں کے ابتلا سے کم نہ تھا۔

اس قدر متنوع اور متعدد ذہنی، قلبی اور جسمانی ابتلاؤں اور مصائب کے باوجود آپ کے قدم نہ رکے، نہ پیچھے ہٹے بلکہ مضبوطی کے ساتھ نیکیوں میں آگے سے آگے بڑھےاورصبر جمیل کا اعلیٰ نمونہ چھوڑا۔ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کا منصبی فریضہ کماحقہ سر انجام دیا۔ عبادتوں اور اخلاق کے بے نظیر اعلیٰ معیار قائم فرمائے صبر و استقامت کے ساتھ کسی ایک قرآنی حکم کو بھی نہ چھوڑنے کا ارشاد فرمایا جو سب کے لیے ایک راہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔

خدا تعالیٰ ہمیں بھی اپنے اخلاق میں صبر کو کما حقہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button