میرے پیارے ابا جان نثار محمد خان صاحب
میرے پیارے ابا جان نثار محمد خان،نذر محمد خان کے بیٹے اور دوست محمد خان حجانہ کے پوتے تھے جنہوں نے ۱۹۰۹ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔آپ بہت مخلص اور جوشیلے احمدی تھے۔ اپنےعلاقے کے معزز زمیندار تھے۔ ابا جان نے میٹرک تک تعلیم ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی پھر تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخلہ لیا۔ انہوں نے ربوہ سے بی ایس سی کی جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ پرنسپل تھے۔ آپ ایک ہونہار طالب علم تھے۔ کالج کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ پھر کالج ہزارہ سے ٹیلی کمونیکیشن کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کو ملازمت کے سلسلے میں اکثر سفر کرنا پڑتا۔پاکستان میں اس وقت مائیکرویو سسٹم نیا آیا تھا۔ ابا جان اس کے ماہر تھے۔ آپ نے پنجاب کے کافی شہروں میں اس کے سٹیشنوں کی تنصیب کی۔ آپ اپنے سفر میں اور کام پر بھی بہت تبلیغ کیا کرتے تھے اور قرآن کریم اوراحمدیت کا لٹریچر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ کئی دفعہ ماریں بھی کھائیں اور زخمی بھی کیے گئے، جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں مگر باز نہ آئے۔ آپ کو زندگی وقف کرنے کا شوق تھا۔ ۱۹۷۰ء میں آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں وقف کی درخواست پیش کی۔ حضورؒنے ازراہِ شفقت اس کو قبول کیا اورساتھ ہی فرمایا ابھی آپ جاب کریں جب ضرورت ہو گی بلا لیں گیں۔
آپ ایک آئل کمپنی میں ملازمت پر ایران چلے گئے اور پھر ہمیں بھی وہاں بلا لیا۔ وہاں پر مذہب کی تبلیغ پر پابندی کی وجہ سے خاموشی سے تبلیغ کرتے۔ فارسی بہت جلدی سیکھ لی۔ آپ آٹھ سال وہاں رہے۔ ہر جگہ بہت محنت اور ایمانداری سے کام کرتے۔ آپ کے افسران بھی سچائی کی وجہ سے آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ پاکستان آکرعرب آئل کمپنی میں کام کیاجنہوں نے احمدی ہونے اور تبلیغ کرنے کی وجہ سے نکال دیا۔آپ نے حضور کے مشورے سے نائیجیریا میں ایک آئل کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔ بہت بہادر تھے۔ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے۔
ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ اباجان کو بچوں سے بہت محبت تھی خاص طور پر بیٹیوں سے۔ اپنی والدہ کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور ہماری امی سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ ملازمت کے لیے سمندر میں پلیٹ فارم پر رہتے۔ ہر چار ہفتے کے بعد پاکستان آتے۔ غریب نائیجیرینز کے حقوق کے لیے کمپنی میں بہت کام کیا۔ بہت رحم دل اورغریب پرور تھے۔ ہمیشہ کمزور اور غریب کی مدد کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی ذہانت سے نوازا تھا۔ قرآن و حدیث اور کتب کے حوالے زبانی یاد تھے۔ ہوٹلوں میں قیام ہوتا تو وہاں قرآن کریم رکھ کرآتے۔ ایک دفعہ سفر کے دوران چین کے صدر ماؤزے تنگ کا اسسٹنٹ اباجان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس کو بھی تبلیغ کی نیز قرآن کریم اور لٹریچر پیش کیا۔ اس بات کا ذکر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ سے کیا تو حضورؒ بہت خوش ہوئے اور ابا جان کو از راہ شفقت ’’چلتا پھرتا مبلغ‘‘ فرمایا۔
ہر دفعہ حضور سے ملنے جاتے تو جماعت کے سب حالات سے آگاہ کرتے۔ خلافت سے بہت محبت تھی۔ ہمیشہ اس بات پر شکر ادا کرتے کہ اللہ نے ہمیں اس زمانہ میں خلافت کی بہت بڑی نعمت عطا فرمائی ہے۔
باقاعدہ تہجد پڑھتے اور ہمیں بھی فجر کے لیے جگاتے۔ تربیت کے معاملے میں سخت اور دل کے نرم تھے۔ دس سال نائیجیریا میں ملازمت کی۔مصر گئے اور الازہر یونیورسٹی کے عالموں سے ملے۔ ان سے وفاتِ مسیح پر گفتگو کی۔ان کو بھی احمدیت کا پیغام پہنچایا اور لٹریچر دیا۔
اپنا ہر قدم خلیفۂ وقت کے مشورے سے اٹھاتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکے فرمان پر سب گھر والوں کو لندن منتقل کیا۔ مسجد فضل کے قریب گھر لیا تاکہ حضور کے پیچھے نمازوں کا موقع ملے۔
جب ریٹائرڈ ہوئے تواپنی بیماری سے قبل بطور نائب سیکرٹری تربیت یو کے خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ آپ کو ایک ہارٹ اٹیک اور دو سٹروک ہوئے۔ اس کے بعد سے آپ گھر پر رہ کر خدمت دین کرتے رہے۔ رسائل میں تربیتی مضامین لکھتے۔ اور انٹرنیٹ پر بھی حسبِ توفیق علمی مباحثے اور تبلیغ کرتے۔
انگریزی بہت اعلیٰ بولتے اور لکھتے تھے۔ ایک دفعہ علماء کا ایک گروپ امریکہ کے صدر بارک اوبامہ کو ملنے جا رہا تھا۔ ان کے جا نے سے پہلے ہی اباجان نے صدربارک اوبامہ کو ای میلز بھیجنی شروع کر دیں۔ علماء کی حقیقت اور ان کی جماعت کے خلاف کارروائیاں بیان کیں اور اسلام کی اصل تصویر پیش کی۔ ان ای میلز کا جواب بھی آیا کہ آپ نے اسلام کی بہت خوبصورت تصویر و تعارف پیش کیااس پر ہم بہت شکر گزار ہیں۔ کوئی زیادتی ہوتی تو ملکہ وکٹوریہ کو، لندن کے ایم پیز کو لیٹر ضرور لکھتے تھے۔ کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ گھر میں لائبری بنائی ہوئی تھی۔ حضور کی ہومیو پیتھی کی کلاسوں کے بعد آپ نے بھی ہومیو پیتھی شروع کر دی۔ ہومیو پیتھی کی بہت سی کتابیں خرید کر پڑھیں اور ڈھیروں ادویات خرید کر لوگوں کا مفت علاج کیا۔ جب کسی کو فائدہ ہوتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ ہوتی۔ حضور کو دعائیں دیتے کہ یہ فیض ان کی بدولت ہے۔
اللہ نے بہت نوازا تھا مگر کبھی پیسے سے محبت نہ تھی بلکہ انسانوں سے محبت کرتے تھے۔ آپ موصی تھے۔ دسویں حصہ کی وصیت تھی۔ زندگی کے آخری چند سال صاحبِ فراش ہو گئے تھے مگر کبھی ناشکری نہیں کی نہ ہی اللہ سے کوئی شکوہ کیا۔ ہمیشہ پر امید رہتے اللہ پربہت توکل تھا۔ خود بھی بہت دعا گو تھے اور ہمیں بھی ہر معاملے میں دعا ئیں کرنے کا کہتے۔ امی کی بہت فکر کرتے تھے۔ آپ بہت اچھے بیٹے، بہت اچھے شوہر، اور بہت ا چھے باپ اور بہت اچھے انسان تھے۔ ہر معاملے میں تقویٰ کو مد نظر رکھتے تھے۔ میرے پیارے اباجان ۹؍مارچ ۲۰۲۴ء کوچھیاسی سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اباجان کی علالت کے آخری مہینوں میں مجھے ابا جان کے ساتھ بہت سارا وقت گزارنے کا موقع ملا۔ بیماری کے دوران اپنی نقاہت کی وجہ سے ہاتھ کے اشارے سے پیار کا اظہار کرتے اور دعا دیتے۔ پریشانی میں اگر ہماری آنکھوں میں آنسو آتے توانگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے اللہ پر توکّل کی طرف توجہ دلاتے۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت و احسان ابا جان کی خواہش کو پورا کیا اور آپ کا جنازہ پڑھایا۔ اللہ تعالیٰ ابا جان کی سب دعائیں ہمارے حق میں قبول فرمائے اور ان کو جنت کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
(ریحانہ متین۔ ناروے)