متفرق مضامین

قرآن مجید اور کاپی رائٹ (قسط دوم)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

عربی رسم الخط میں سب سے پہلا قرآن مجید ۱۱۱۳ہجری میں ہیمبرگ المانیا میں طبع ہوا۔
قرآن مجید کا یہ مطبوعہ نسخہ دارالکتاب العربیہ قاہرہ مصر میں موجود ہے

اسلام اور قرآن کی حیثیت و عالمگیریت

قرآن مجید کسی انسان کی تخلیق ہے نہ اختراع۔ نعوذ باللہ یہ ڈرامہ ہے نہ دستاویزی فلم۔ اس کے نزول میں کسی انسانی کاوش کاکوئی عمل دخل نہیں۔ قرآن تو ایک ضابطہ حیات ہے۔ایسا کلام ہے جو زبان و بیان کی قوت عطا کرنے والے ربِّ رحمٰن نے خود اپنےعبد کامل کو سکھایا۔یہ تو خالق اور اس کے عاشق صادق کا آپس کا معاملہ ہے۔ دیگر مخلوق اوربندے کیسے اس کے کاپی رائٹ کے حقدار ہو سکتے ہیں۔

اسلام خالق کون و مکاں کی رضا سے مرصع ایک کامل و اکمل دین ہےجو رنگ، نسل اور علاقے کے فرق کے بغیر کُل عالم کے لیےکامل ہدایت اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ اور قرآن مجید بھی رشد و ہدایت کا وہ سر چشمہ ہے جو روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے حیات جاودانی کا مژدہ جانفزا ہے۔ قرآن مجید اس صداقت کو یوں آشکار کرتا ہے۔

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَاۣالَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۔(الاعراف:۱۵۹)تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا۔(الفرقان:۲)۔بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس نے اپنے بندے پر فرقان اُتارا تا کہ وہ سب جہانوں کے لیے ڈرانے والا بنے۔

اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ ؕ وَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۔ (البقرہ:۱۲۲)وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی درآنحالیکہ وہ اس کی ویسی ہی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو (درحقیقت) اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والےہیں۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَلَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا۔(النساء :۸۳)پس کیا وہ قرآن پر تدبّر نہیں کرتے؟ حالانکہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الرَّسُوۡلُ بِالۡحَقِّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ فَاٰمِنُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ وَاِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ۔( النساء: ۱۷۱)اے لوگو! تمہارے پاس تمہار ے ربّ کی طرف سے حق کے ساتھ رسول آ چکا ہے۔ پس ایمان لے آؤ (یہ) تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ پھر بھی اگر تم انکار کرو تو یقیناً اللہ ہی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَاَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا۔(النساء: ۱۷۵)اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک بڑی حجت آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک روشن کر دینے والا نُور اُتارا ہے۔

قَدۡ جَآءَکُمۡ بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنۡ اَبۡصَرَ فَلِنَفۡسِہٖ ۚ وَمَنۡ عَمِیَ فَعَلَیۡہَا۔(الانعام:۱۰۵)یقیناً تم تک تمہارے ربّ کی طرف سے بہت سی بصیرت کی باتیں پہنچ چکی ہیں۔ پس جو بصیرت حاصل کرے تو خود اپنے ہی نفس کے لیے کرے گا اور جو اندھا رہے تو اُسی (نفس) کے (مفاد کے) خلاف اندھا رہے گا۔

وَہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوۡہُ وَاتَّقُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔(الانعام :۱۵۶)اور یہ بہت مبارک کتاب ہے جسے ہم نے اتارا ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم رحم کئے جاؤ۔

وَالَّذِیۡنَ یُمَسِّکُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُصۡلِحِیۡنَ۔(الاعراف :۱۷۱)اور وہ لوگ جو کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں، ہم یقیناً اصلاح کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کیا کرتے۔

کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔(الاعراف:۳) (یہ) ایک عظیم کتاب ہے جو تیری طرف اتاری گئی ہے۔ پس تیرے سینے میں اس سے کوئی تنگی محسوس نہ ہو کہ تُو اس کے ذریعہ اِنذار کرے اور مومنوں کے لیے یہ ایک بڑی نصیحت ہے۔

وَاِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ۔(التوبۃ:۶)اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلامِ الٰہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچا دے۔ یہ (رعایت) اس لیے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَہُدًی وَّرَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔( یونس:۵۸) اے انسانو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت کی بات آچکی ہے اِسی طرح جو (بیماری) سینوں میں ہے اس کی شفا بھی۔ اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت بھی۔

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَیُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا۔(بنی اسرائیل:۱۰) یقیناً یہ قرآن اس (راہ) کی طرف ہدایت دیتا ہے جو سب سے زیادہ قائم رہنے والی ہے اور اُن مومنوں کو جو نیک کام کرتے ہیں بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر (مقدر) ہے۔

فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَتُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا۔(مریم:۹۸)پس یقیناً ہم نے اِسے تیری زبان پر رواں کر دیا ہے تاکہ تو متقیوں کو اس کے ذریعہ خوشخبری دے اور جھگڑا لو قوم کو اس کے ذریعہ ڈرائے۔

وَاَنۡ اَتۡلُوَا الۡقُرۡاٰنَ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَقُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ۔(النمل :۹۳) اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں۔پس جس نے ہدایت پائی تو وہ اپنی ہی خاطرہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوا تو کہہ دے کہ میں تو محض ڈرانے والوں میں سے ہوں۔

نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَمَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ۔ (ق:۴۶)ہم اُسے سب سے زیادہ جانتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اور تُو ان پر زبردستی اصلاح کرنے والا نگران نہیں ہے۔ پس قرآن کے ذریعہ اُسے نصیحت کرتا چلا جا جو میری تنبیہ سے ڈرتا ہے۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (محمد:۲۵) ۔پس کیا وہ قرآن پر تدبر نہیں کرتے یا دلوں پر اُن کے تالے پڑے ہوئے ہیں؟

یہ احکام خداوندی اور فرمودات ِقرآن ببانگ دہل یہ اعلان کررہے ہیں کہ یہ کلام اور یہ صحیفہ ہر ایک کی دسترس میں ہونا چاہیے، ہر ایک کو میسر ہونا چاہیے، ہر ایک کا مطمح نظر اور نصب العین ہونا چاہیے۔ ہر صاحب ایمان اور ذی شعور مسلمان کو نہ صرف اس کی تلاوت کرنی چاہیے بلکہ اس کلام پاک کی حقیقت اس کے فیوض و برکات غیروں تک بھی پہنچانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔

اشاعتِ قرآن

لوح محفوظ میں موجود رشد و ہدایت کے اس خزانے کو احسن الخالقین نے اشرف المخلوقات تک پہنچانے کے لیے اس قلب اطہر کو چنا جو محمد عربی ﷺ کے پاکیزہ سینے میں دھڑک رہا تھا، اس تسلی اور وعدے کے ساتھ کہ فصیح و بلیغ عربی زبان کا یہ مکرّم صحیفہ تاابد قائم دائم رہے گا، اور اس کا فیض تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَقُرۡاٰنَہٗ۔(الْقِیٰمَۃِ:۱۷ ،۱۸)تُو اس کی قراءت کے وقت اپنی زبان کو اس لیے تیز حرکت نہ دے کہ تُو اسے جلد جلد یاد کرے۔ یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے۔

وَاِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕنَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ۔بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ۔ (الشُّعَرَآءِ:۱۹۳۔۱۹۶)اور یقیناً یہ تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے اتارا ہوا (کلام) ہے۔جسے روح الامین لے کر اُترا ہےتیرے دل پر۔ تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہوجائے۔کھلی کھلی عربی زبان میں (ہے)۔

تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ خلیفہ راشدحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں قرآن مجیدکی کاپیاں باقاعدہ طور پر دوسرے ممالک کو بھجوائی گئیں۔ درج ذیل روایات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ، أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ، فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ، فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وعَبْدَ اللّٰهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ: إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ، فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ، فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ، وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ۔ (صحيح البخاري كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ بَابُ جَمْعِ الْقُرْآنِ حدیث نمبر: ۴۹۸۷) حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اُس وقت وہ آرمینیا کےفتح کرنے کے لیے شام والوں سے اور آذربائیجان کے فتح کرنے کے لیےعراق والوں سے جنگ کر رہے تھے۔ حذیفہؓ  قرآن مجید کی قراءت کے اختلاف کی وجہ سے بہت پریشان اور فکر مند تھے۔ آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا:’’یا امیر المومنین ! اس امت کو سنبھا لیں پیشتر اس کے کہ وہ کتاب میں اس طرح اختلاف کرنے لگیں جس طرح یہود و نصاریٰ نے اختلاف کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو کہلابھیجا کہ ہمارے پاس مصحف بھیج دیں۔ تاکہ ہم دوسرے مصاحف میں (سورتوں) کو نقل کروا لیں۔ پھر آپ کو واپس کر دیں گے۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیے اور آپؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت سعید بن العاصؓ،حضرت عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کر لیں۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس جماعت کے تین قریشی صحابیوں سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں زید بن ثابت سے اختلاف ہو تو اسے قریش ہی کی زبان کے مطابق لکھ لیں کیونکہ قرآن مجید بھی قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ اوراق حضرت حفصہؓ کو واپس کردیے۔ اور اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور حکم دیا کے اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ حُذَيْفَةَ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّامِ وَأَهْلَ الْعِرَاقِ وَفَتَحَ أَرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ، فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةُ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ كَمَا اخْتَلَفَ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَبَعَثَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ: أَنْ أَرْسِلِي الصُّحُفَ لِنَنْسَخَهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ، فَبَعَثَتْ بِهَا إِلَيْهِ، فَدَعَا زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَنْسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ لَهُمْ: مَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ، فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، فَإِنَّهُ نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ، وَكَتَبَ الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، وَبَعَثَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا، وَأَمَرَ مِمَّا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أنْ يُّمْحٰى أوْ يُحْرِقَ (صحيح ابن حبان كتاب السير باب في الخلافة والإمارة ذِكْرُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْإِمَامِ اتِّخَاذُ الْكَاتِبِ لِنَفْسِهِ لِمَا يَقَعُ مِنَ الْحَوَادِثِ وَالْأَسْبَابِ فِي أُمُورِ الْمُسْلِمِينَ)حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہؓ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے سلسلے میں شام کے غازیوں کے لیے جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھے، تاکہ وہ اہل عراق کو ساتھ لے کر جنگ کریں۔حضرت حذیفہؓ اس حوالے سے پریشان تھے کہ لوگوں کاقراءت میں اختلاف ہو رہا ہے۔ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا اے امیرالمومنین آ پ اس امت کی خبر لیجئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب اللہ کے بارے میں اسی طرح اختلاف کا شکار ہو جائیں جس طرح یہودیوں اور عیسائیوں میں اختلاف ہو گیا تھا۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا کہ آپ اپنا مصحف مجھے بھجوائیے تاکہ ہم اس کی مختلف نقلیں تیار کریں۔ پھر اصل ہم آپ کو لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ تو آپؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت سعید بن العاصؓ کو بلوایا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کی چند نقلیں تیارکر لیں۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: جہاں تمہارے اور زید بن ثابت کے درمیان کسی لفظ کے بارے میں اختلاف ہو توتم لوگ اسے قریش کے محاورے کے مطابق لکھوکیونکہ قرآن مجید انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف نقول تیار کرواکےاپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور یہ حکم دیا کہ اس کےعلاوہ قرآن جس بھی صحیفے اور مصحف کی شکل میں موجود ہے اسے مٹادیا جائے یا جلا دیا جائے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن کریم کی سات کاپیاں کرکے سات ملکوں میں بھیجی گئی تھیں اور ہر ملک کے لوگ ان کاپیوں سے نقل کرکے اپنے لئے قرآن کریم کے نسخے تیار کرتے تھے۔‘‘ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۲۷۰۔ ایڈیشن۲۰۱۰ء، نظارت نشرو اشاعت قادیان)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و سوانح کی ایک کتاب میں لکھا ہے:’’کتب سیر کی بعض روایات میں منقول ہے کہ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا جس نے قرآن مجید کی ہر آیت کو دو گواہوں کی شہادت کے ساتھ قلمبند کیا۔ جب قرآن مجید مکمل ہو گیا تو ایک بار پھر اس کی تصدیق کی گئی۔ پھر اس کمیٹی نے اس کی مستند نقلیں تیار کیں۔ پھر اس کے بعد ان نسخہ جات سے پہلے کے موجود تمام نسخہ جات کو ختم کر دیا گیا۔ اور ان نقلوں کو عرب کے تمام علاقوں ملکِ شام، ملکِ عراق، ایران، یمن، بحرین، شمالی افریقہ، ترکستان اور دیگر علاقوں میں بھجوادیا گیا۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں قرآن مجید جس رسم الخط میں تحریر کیا گیا وہ رسم الخط عثمانی کے نام سے مشہور ہوا۔ اور قرآن مجید کی تحریر عرصہ دراز تک اسی رسم الخط میں ہوتی رہی۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں تجمیع قرآن و تحفظ قرآن کی یہ تحریک ۲۵ہجری کے اوائل میں مکمل ہوئی۔‘‘ (سیرت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، از محمد حسیب القادری صفحہ۶۰ ،۶۱۔ ناشراکبر بک سیلرز اردوبازار لاہور)

پس ہادی کاملﷺ کے جانشین اور خلیفہ راشد ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشیت ایزدی کے تحت جو قرآن مجید کل عالم کے لیے چھوڑا وہ آج کرہ ارض کے ہرگوشے میں موجود ہے۔اور اس کے کاپی رائٹ کسی ملک قوم گروہ یا فرقے کو نہیں دیے گئے ہیں۔وہ کل عالم کے لئے تھا،ہے اور رہے گا۔

عصر حاضر میں اشاعت قرآن

قرآن مجید وہ بے نظیر کتا ب ہے جس میں قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی پیش خبریاں موجود ہیں۔ اسی مقدس صحیفے میں پرنٹنگ پریس اور اشاعت کے جدید ذرائع پیدا ہونے کی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں۔اور جیسے جیسے زمانہ ترقی کی جانب گامزن ہوا قرآن مجید کی اشاعت کے ذرائع بھی جدت اختیار کرتے چلے گئے۔ قرآن مجید کی ابتدائی چھپائی کی مختصر تاریخ پیش ہے۔ غور و فکر اور تدبر کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے یہ حقائق بھی توجہ طلب ہیں کہ اس کتاب مقدس کی باقاعدہ چھپائی کا آغاز غیر مسلم لوگوں کے ذریعہ ہوا۔

The Paganini Quran or the ‹First Printed Quran› is the only surviving copy of Quran printed on a movable type printer by Italian printer Paganino Paganini. The first complete Arabic Quran said to have been printed by movable type appeared in Venice in 1537. It was thought to have been completely lost until a copy showed up in the 1980s, displaying a very faulty text. It is believed to be one of the most notable historical Qurans.

Between 1537 and 1538 Paganini and his son published what was probably the first printed edition of the Quran in Arabic. This work was likely intended for export to the Ottoman Empire, with which Venice had extensive trade ties. In the end, the venture was unsuccessful; the entire print run is reported by various contemporaries to have been lost, though the explanations for the disappearance vary widely. However, one copy of this printed Quran was found in 1987 in a monastery in Isola di San Michele (Venice). https://madainproject.com/paganini_quran

خلاصہ :’’پگنینی قرآن(Paganini Quran)یا پہلا مطبوعہ قرآن قرآن مجید کا واحد بچ جانے والا نسخہ ہے جسے اطالوی پرنٹر Paganino Paganini نے حرکت پذیر قسم کے پرنٹر پر چھاپا۔ پہلا مکمل عربی قرآن جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حرکت پذیر پریس میں چھاپا گیا، وینس (Venice)میں اگست ۱۵۳۷ء سے اگست ۱۵۳۸ء کے درمیان پگنینی اور اس کے بیٹے نے عربی زبان میں شائع کیا۔ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ طبع شدہ قرآن مجید مکمل طور پر مفقود ہو گئے ہیں، مگر ۱۹۸۰ء کی دہائی میں اس قرآن مجید کی نمائش کی گئی۔یہ قرآن مجید کا انتہائی اہم اور تاریخی نسخہ سمجھا جاتاہے۔

وینس میں اگست ۱۵۳۷ء سے اگست ۱۵۳۸ء کے درمیان پگنینی اور اس کے بیٹے نے عربی زبان میں جو قرآن مجید شائع کیا اس منصوبے کا اصل مقصد سلطنت عثمانیہ کو برآمد کرنا تھا، جس کے ساتھ وینس کے وسیع تجارتی تعلقات تھے۔ مگر انجام کار یہ منصوبہ ناکام رہا۔بعدازاں اس قرآن کے گم ہونے کی خبر مشہور ہوگئی اور مختلف لوگوں نے اس کے ضائع ہونے کی مختلف توجیہات پیش کیں۔ تاہم ۱۹۸۷ ء میں اس مطبوعہ قرآن کا ایک نسخہ اسولا دی سان مشیل (Isola di San Michele) وینس کی ایک خانقاہ سے ملا تھا۔‘‘

تاریخ القرآن میں لکھا ہے:’’ عربی رسم الخط میں سب سے پہلا قرآن مجید ۱۱۱۳ہجری میں ہیمبرگ المانیامیں طبع ہوا۔ قرآن مجید کا یہ مطبوعہ نسخہ دارالکتاب العربیہ قاہرہ مصر میں موجود ہے۔‘‘ (تاریخ القرآن صفحہ ۱۶، تالیف محمد طاہر بن عبد القادر۔ مطبوعہ ۱۳۶۵ہجری،جدہ)

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں لکھا ہے:’’طباعت قرآن مجید کا آغاز:خط عربی میں سب سے پہلا قرآن مجید ۱۱۱۳ھ؍ ۱۷۰۱ء میں ہیمبرگ،المانیا (موجودہ جرمنی ) میں طبع ہوا۔ قرآن مجید کا یہ مطبوعہ نسخہ دارالکتاب العربیہ مصر قاہرہ میں موجود ہے۔ یہ بھی منقول ہے کہ ۹۲۲ھ؍ ۱۵۱۶ء کے بعد بندقیہ (اٹلی) میں قرآن مجید کی طباعت ہوئی۔سب سے پہلے ہیمبرگ اور بندقیہ میں قرآن مجید کی طباعت اس لئے عمل میں آئی کہ بلاد اسلامیہ میں مطابع بہت بعد میں قائم کئے گئے اور یورپی ممالک میں اس کا آغاز بہت پہلے ہو گیا تھا۔‘‘ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱۶۔ صفحہ ۳۵۸،مرتبہ پنجاب یونیورسٹی لاہورپاکستان۔ ایڈیشن مارچ ۲۰۰۴ء)

آج جو لوگ اس آسمانی صحیفے پر اپنی دعویداری جتا رہے ہیں ان کے اسلاف کا طرز عمل کیا تھا، ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ ترکیہ میں سلطان احمد ثالث کے زمانے میں مطبع قائم ہواتو وہاں کے مشائخ نے اگرچہ اس کے استعمال کے جواز کا فتوٰی دے دیا تھا مگر قرآن مجید کی طباعت کو ممنوع قرار دیا۔ پھر دولت عثمانیہ قائم ہوئی تو مطبع کو ممنوع ٹھہرایا گیا۔ بعد ازاں سلطان عبد الحمید اوّل کے دور میں پھر قیام مطابع کی اجازت دے دی گئی۔صحاح الجوھری پہلی کتاب تھی جو آستانہ میں طبع کی گئی۔ کہتے ہیں ۱۱۲۹ھ؍۱۷۱۸ء میں شیخ الاسلام عبداللہ آفندی نے آستانہ میں غیر دینی کتابوں کی طباعت کا فتویٰ دیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ فتویٰ ۱۱۰۲ھ میں دیا گیا تھا۔اس کے بعد ۱۱۴۱ھ ؍ ۱۷۲۷ء میں عربی، ترکی اور فارسی زبانوں میں لغت، ادب اور تاریخ کے موضوعات پر اہم کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔پھر کتب دینی کی طباعت اور قرآن مجید کی اشاعت وتجلید کا فتویٰ بھی جاری کر دیا گیا۔‘‘ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد ۱۶۔ صفحہ ۳۵۸،مرتبہ پنجاب یونیورسٹی لاہورپاکستان۔ ایڈ یشن مارچ ۲۰۰۴ء)

تحریری اسلوب

مختلف ادوار میں قرآن مجید مختلف رسم الخط میں لکھا گیا، مثلا عربی رسم الخط،کوفی رسم الخط، مغربی رسم الخط، محقق رسم الخط،نستعلیق رسم الخط وغیرہ۔ مہدی دوراں کے ایک جلیل القدرصحابی پیر منظور احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ نے خط منظور کے نام سے کلام پاک کا نیا تحریری اسلوب متعارف کروایا، جو انتہائی دیدہ زیب اور پڑھنے میں بہت سہل ہے۔خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنی نمایاں خصوصیات کی وجہ سے یہ اسلوب تحریر قبول عام کی سند حاصل کرچکا ہے اور اب جماعتی کارکنان کی کاوشوں کی بدولت ایک فونٹ کی صورت میں انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے اور قادیان دارالامان سےقرآن مجید کے متعدد کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

قرآن مجید کےاسلوب تحریر کے بارے میں نام نہاد مسلمانوں کا خیال کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:’’ قرآن مجید کی معروف کتابت کو رسم عثمانی یا رسم الخط کہا جاتا ہے۔تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق لکھنا واجب اور ضروری ہے،اور اس کے خلاف لکھنا ناجائز اور حرام ہے۔لہٰذا کسی دوسرے رسم الخط جیسے ہندی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، تمل، پنجابی، بنگالی، تلگو، سندھی، فرانسیسی، انگریزی،حتی کہ معروف وقیاسی عربی رسم میں بھی لکھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ درحقیقت کتاب اللہ کے عموم و اطلاق، نبوی فرمودات، اور اجماع صحابہ و اجماعِ امت سے انحراف ہے۔‘‘ https://kitabosunnat.com/kutub-library/Qurani-Imla-Aur-Rasam-ul-Kha

(باقی آئندہ)

گذشتہ قسطـ: قرآن مجید اور کاپی رائٹ (قسط اوّل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button