فیچر کہانی

بلند عزم و ہمّت

فراز کو ابھی اس محلہ میں آئے ہوئےتین سال ہی ہوئے تھے مگر ہر سال کی طرح امسال بھی اُسی کو مثالی خادم کا انعام دیا جارہا تھا۔ محلہ میں یہ انعام ایسے خادم کو دیا جاتا تھا جو باجماعت نماز میں سب سے زیادہ باقاعدہ ہو۔ خدام میں فراز سے اس میدان میں کوئی آگے نہ تھا۔ چاہے بارش ہو یا شدید گرمی، یہاں نماز کا وقت ہوتا اور وہاں فراز مسجد میں داخل ہو جاتا۔ جب شدید سردی میں اکثر خدام سے اپنی رضائیوں سے نکلنا مشکل ہو جاتا، فراز باقاعدگی سے اور بر وقت اٹھتا، ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا اور مسجد پہنچ جاتا۔گرمی کی شدید تپش بھی اس کو مسجد کا رخ کرنے سے نہ روک پاتی۔ بعض خدام تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اس دوڑ میں فراز سے آگے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔یہی وجہ تھی کہ امسال قائد صاحب نے فراز سے درخواست کی تھی کہ وہ محلہ والوں کے سامنے کچھ نصائح بیان کرے، خاص طور پر یہ بتائے کہ اس نے اپنے اندر نماز کی اس عاد ت کو اتنا پختہ کیسے کر لیا؟

سب اس انتظار میں تھے کہ فراز سٹیج پر آکر بتائے کہ آخر وہ کون سا الارم ہے جو پورا سال باقاعدگی سے فراز کو مسجد بھیج دیتا ہے۔ فراز نے اپنی تقریر کا آغاز یوں کیا ’’میں آپ کے محلہ میں چند سال پہلے ہی شفٹ ہوا ہوں، آپ میں سے اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے نماز کا عادی ہوں۔ آپ میں سے بعض نے مجھے یہ تک کہا ہے کہ تم تو شائد اگر کسی روز نماز پر نہ آؤ تو ہم یہی سمجھیں گے کہ کسی حادثہ میں تم زخمی ہوگئے ہو۔ مگرآپ میں سےکوئی ایک لڑکا بھی یہ نہیں جانتا کہ چار سال کا عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ میرے سابقہ محلہ میں ایک میٹنگ میں یہ بات ہورہی تھی کہ ہمیں ہر خادم کو نماز پر لانے میں کامیابی ہوئی مگر فراز کو مسجد لاناناممکن ہے‘‘۔

یہ سن کر محلہ والے حیران رہ گئے۔فراز مزید بتانے لگا کہ میٹنگ میں یہ بات ہورہی تھی کہ ہر ایک عاملہ ممبر اپنے طور پر کوشش کر چکا ہے مگرفراز کسی صورت بھی نمازپر آنے کے لیے راضی نہیں ہوتا۔ ایک ممبر کہنے لگا کہ میرے خیال میں اب ہمیں فراز کو قابل اصلاح خدام کی فہرست میں سے بھی نکال دینا چاہیے کیونکہ اب اس کی اصلاح ممکن ہی نہیں۔یہ سن کر خالدجو عاملہ کا ہی ایک رکن تھا بول پڑا کہ ’’نہیں یہ صحیح نہیں !‘‘۔ آخر فراز ہمارا ہی بھائی ہے، ہم اس طرح اس کو الگ نہیں کر سکتے۔ اگر اس میں کوئی کمزوری ہے تو ہمارا کام ہے کہ ہم اس کی اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ خالد مزید کہنے لگا کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو میں اس کام کی ذمہ داری لیتا ہوں مگر مجھے کم از کم ایک سال کی مہلت دی جائے۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا اور اگر اللہ نے چاہا تو فراز ضرور نماز پر آنا شروع ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ کام اسی کے سپرد کیا گیا۔

خالد اگلے ہی روز فجر سے قبل فراز کےگھر پہنچ گیا اور دروازے پر دستک دی۔فراز نے دروازہ کھولا اور پوچھا کہ صبح صبح کیوں تنگ کرنے آئے ہو؟ خالد نے کہا کہ نماز کا وقت ہے تمہیں لینے آیاہوں۔ فرازنے اس کو ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ تم جاؤ میں خود آجاؤں گا۔ اس پر خالد چلا گیا مگر فراز نماز پر نہ گیا۔ اگلے روز پھر خالد نے دستک دی۔ فرازنے وہی جواب دیا۔ خالد نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں کہا کہ گذشتہ روز بھی تم نے یہی کہا تھا، اس لیے آج میں تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گا بلکہ فراز کا جواب سن کر اسی طرح اکیلا ہی مسجد چلا گیا۔ اگلے ایک ہفتے تک یہی ہوتا رہا مگر ایک روز بھی فراز نما ز پر نہیں گیا۔

ایک دن آخر تنگ آکر فراز نے خالد سے پوچھ لیا کہ تمہیں سمجھ نہیں آرہی کہ میں نہیں آؤں گا۔پھر کیوں روز اپنا وقت برباد کرتے ہو؟ اس پر خالد کہنے لگا کہ اس میں وقت برباد ہونے کی کیا بات ہے؟ تم میرے بھائی ہو تمہیں اچھی باتوں کی طرف توجہ دلانا میرا کام ہے۔ آگے اللہ کی مرضی کہ وہ تم میں یہ بہتری پیدا کرے یا نہ کرے۔ فراز اس روز بھی نماز پر نہیں گیا۔

اسی طرح ایک اور ہفتہ گزر گیا۔فراز بتانے لگا کہ بعض دفعہ وہ دروازہ بھی نہ کھولتا جبکہ بعض مرتبہ خالد کو جھڑک دیتا مگر خالد اسی طرح باقاعدگی سے صبح فجر سے قبل فراز کے گھر پہنچ جاتا۔ جب دو ماہ گزر گئے تو فراز کو بہت غصہ آیا اور اس نے سوچا کہ یہ تو میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتا،آج میں اس سے ضرور پوچھوں گا کہ یہ چاہتا کیا ہے؟ خالد نے فراز کے استفسار پر میٹنگ کی ساری بات بتادی اور پھر کہنے لگا کہ دیکھو میں نے تو پکا ارادہ کر لیا ہے،اب تم چاہے مجھے جتنا برا بھلا کہو میں روزانہ اسی طرح تمہارے گھر آتا رہوں گا اور کوشش کرتا رہوں گا۔ فراز، جو پہلے سے ہی غصہ میں تھا،اس کو میٹنگ کی بات سن کر اور بھی زیادہ غصہ آگیا۔ اس نےسوچا کہ اب میں خالد کی دستک پر دروازہ کھولوں گا ہی نہیں، آخر کب تک آتا رہے گا؟ اگلے پورے ایک ماہ تک فراز نے دروازہ نہ کھولا مگر خالد باقاعدگی سے دستک دیتا رہا۔ فراز کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ آخر خالد کس مٹی کا بنا ہے؟ اتنا عزم اپنی زندگی میں اس نے پہلےکسی میں نہیں دیکھا تھا۔ ایک ماہ گزرنے کے بعد اس کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کے بعد دونوں کی روٹین کچھ اس طرح ہو گئی کہ خالد دستک دیتا، فراز دروازہ کھولتا اور کہہ دیتا کہ تم جاؤ میں آجاؤں گا مگر وہ نہ جاتا۔ اسی طرح کرتے کرتے چھ ماہ گزر گئے۔

ایک دن فراز بیٹھا سوچنے لگا کہ خالد تو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ آخر اس میں اس کا کیا فائدہ ہے؟اس نے بہت سوچا مگر ہر بار اسی نتیجہ پر پہنچتا کہ نماز پر جانے سے خالد کا نہیں بلکہ اسی کا فائدہ ہے۔ اس احساس نےاس کو بہت شرمندہ کیا۔ اگلے روز جب خالد فراز کے گھر دستک دینے پہنچا تو فراز پہلے سے ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ خالد سے کہنے لگا کہ تم بہت مضبوط عزم و ہمت والے لڑکے ہو۔میں تم سے ہار مانتا ہوں۔ اللہ تمہیں بہترین جزا دے مگرخود ہی بتاؤ کہ میں جس نے عرصہ دراز سے مسجد کو دیکھا تک نہیں وہ اب نمازی کیسے بن سکتا ہے؟تم نےجتنی کوشش کرنی تھی کر لی، تمہیں بہت ثواب ہوگامگر میں کمزور ہوں اور نماز کا عادی نہ بن پاؤں گا۔

خالد آگے سے کہنے لگا کہ دیکھو اگر میں تمہارے فائدہ کے لیے اتنا مضبوط عزم پیدا کر سکتا ہوں، تو کیا تم اللہ کی خاطر اور اپنے فائدہ کے لیےاُتنا ہی عزم پیدا نہیں کرسکتے؟ فراز کو با ت سمجھ آگئی۔ وہ کہنے لگا کہ میں سب سےپہلے اللہ سے اور پھر تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد میں نماز نہیں چھوڑوں گا۔ خالد یہ سن کر خاموشی سے مسجد کے لیے روانہ ہوگیا اور جب نماز ختم ہوئی تو اس کو یہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی کہ فراز نے مسجد میں نماز پڑھی ہے۔ اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا مگر وہ فراز کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیےفراز سے اس نے کچھ نہ کہا۔ اگلے روز خالد فراز کے گھرنہیں گیا۔ لیکن فراز جو اب پکا ارادہ کرچکا تھا وہ خود ہی مسجد پہنچ گیا۔ خالد کے مضبوط عزم و ہمت کو دیکھ کر فراز میں بھی یہ یقین پیدا ہو گیا تھا کہ اگر ارادہ مضبوط ہو، عزم پکا ہو تو کوئی کام بھی نا ممکن نہیں۔ بعض اوقات ایسا کام جو آپ کے اپنے بس میں بھی نہ ہو،ممکن ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فراز کامسجد آنا خالد کے ہاتھ میں نہ تھا مگر اس کا عزم اتنا مضبوط تھا کہ فراز میں بھی تبدیلی پیدا کر گیا۔ پس فراز نےخدام سے اپنی بات کا اختتام ان الفاظ میں کیا کہ ’’وہ دن تھا اور آج کا دن ہے کہ میں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی‘‘ فراز کی بات سن کر خدام میں بھی یہ یقین پیدا ہورہا تھا کہ وہ بھی اگر چاہیں تو فراز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ (م۔ط۔ بشیر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button