دادی جان کا آنگن

حضرت عیسیٰؑ کا سفر کشمیر

السلام علیکم دادی جان! اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ گڑیا کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔

میں ٹھیک ہوں۔ سردی ذرا بڑھ گئی ہے اس لیے اور بوڑھے لوگوں کو سردی موافق نہیں ہوتی۔ دادی جان کھانستے ہوئے بولیں۔

گڑیا: میں نے ایک بات پوچھنی ہے۔ آپ آرام کریں میں بعد میں پوچھ لیتی ہوں۔

دادی جان: آپ پوچھ لو بیٹا۔ کوئی بات نہیں۔

گڑیا: ہماری سردیوں کی چھٹیاں شروع ہوگئی ہیں۔ اس دوران آپ کو معلوم ہے کہ کرسمس بھی آتی ہے۔ ہمارا ناصرات الاحمدیہ کا پروگرام بھی ہے۔ جس میں مجھے حضرت عیسیٰ ؑ کے کشمیر کے سفر کے متعلق تقریر کرنی ہے۔

دادی جان: احمد اور محمود کو بلا لیں اور نقشہ بھی لے آئیں۔ میں آپ کو سمجھاتی ہوں۔

گڑیا فوراً گئی اور احمد اور محمود کو تفصیل بتاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔

احمد : دادی جان آپ نے پچھلے سال بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

مسیح ہندوستان میں۔ محمود فوراً بولا۔

دادی جان: شاباش بچو! چلیں آج سیکھتےہیں کہ حضرت مسیحؑ ہندوستان کیسے پہنچے؟ یہ دیکھیں یہ فلسطین ہے اور اس کے قریب یہ ناصرہ یا Nazareth ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰؑ رہے اسی وجہ سے مسیح ناصری کہا جاتا ہے۔

محمود: اور حضرت مسیح موعودؑ قادیان میں رہتے تھے اسی لیے آپؑ کے نام کے ساتھ قادیانی لکھا جاتا ہے۔

دادی جان: جی بالکل۔ مسیح کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مسح کرنے والا یا مسح کر کے شفا یا برکت دینے والا۔

محمود: جیسے وضو میں سر کا مسح کرتے ہیں؟

دادی جان: جی ہاں!اور دوسرا مطلب ہے سیاحت کرنے والا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک کتاب روضة الصفا کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانام مسیح اس واسطے رکھا گیا کہ وہ سیاحت کرتے تھے۔ ایک پشمی طاقیہ (یعنی گول اونی ٹوپی جسے اسکل کیپ بھی کہتے ہیں) ان کے سر پر ہوتا تھا اور ایک پشمی کرتہ پہنے رہتے تھے۔اور ایک عصا ہاتھ میں ہوتا تھا۔اور ہمیشہ ملک ملک اور شہر شہر کی سیاحت کرتے تھے اور جہاں رات پڑ جاتی وہیں رہ جاتے تھے۔ جنگل کی سبزی کھاتے تھے اور جنگل کا پانی پیتے اور پیادہ سیر کرتے تھے۔ ایک دفعہ سیاحت کے زمانہ میں ان کے رفیقوں نے ان کے لیے ایک گھوڑا خریدا اور ایک دن سواری کی مگر چونکہ گھوڑے کے آب و دانہ اور چارے کا بندوبست نہ ہوسکا اس لیے اس کو واپس کر دیا۔ وہ اپنے ملک سے سفر کر کے نصیبین میں پہنچے جو ان کے وطن سے کئی سو کوس کے فاصلہ پر تھا۔ اور آپ کے ساتھ چند حواری بھی تھے۔ آپ نے حواریوں کو تبلیغ کے لیے شہر میں بھیجا۔ مگر اس شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کی نسبت غلط اور خلافِ واقعہ خبریں پہنچی ہوئی تھیں اس لیے اس شہر کے حاکم نے حواریوں کو گرفتار کر لیا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بلایا۔ آپ نے اعجازی برکت سے بعض بیماروں کو اچھا کیا اوراَور بھی کئی معجزات دکھلائے۔ اس لیے نصیبین کے ملک کا بادشاہ مع تمام لشکر اور باشندوں کے آپ پر ایمان لے آیا۔ (بحوالہ مسیح ہندوستان میں۔ 66-67)

گڑیا: یعنی واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰؑ نے مشرق کی جانب سفر کیا۔

دادی جان: جی ہاں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ سیر کرتے کرتے نصیبین تک پہنچ گئے تھے اور نصیبین موصل اور شام کے درمیان ایک شہر ہے جس کو انگریزی نقشوں میں نسی بس(Nisibis) کے نام سے لکھا ہے۔ حضورؑ نے فرمایاکہ جب ہم شام سے فارس یعنی ایران کی طرف سفر کریں تو راستے میں نصیبین آتا ہے۔ جو بیت المقدس، فلسطین سے قریباً 450 کوس کے فاصلے پر ہے۔ پھر وہاں سے موصل گئے جو وہاں سے 48 میل کے فاصلے پر ہے۔ اورموصل سے فارس یعنی ایران فاصلہ 100 میل رہ جاتا ہے۔ پھر فارس یعنی ایران کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے حضرت عیسیٰؑ افغانستان پہنچے۔اور افغانستان سے درہ خیبر سے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے پنجاب سے ہوتے ہوئے نیپال اور بنارس وغیرہ کی سیر بھی کی ہو۔ اور چونکہ وہ سرد ملک کےرہنے والے تھے اسی لیے سرد موسم کے اختتام پر وہ پھر جموں یا راولپنڈی کی راہ سے کشمیر اور پھر تبت گئے ہوں۔

گڑیا: یعنی فلسطین سے نصیبین، پھر موصل، پھر ایران، پھر افغانستان اور پھر درہ خیبرپھر ہندوستان کی سیر کرتے ہوئے وہ کشمیر جا پہنچے۔

دادی جان: جی ہاں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ اگر روضۃ الصفا کی روایت پر اعتبار کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نصیبین کی طرف سفر کرنا اس غرض سے تھا کہ تافارس کی راہ سے افعانستان میں آویں اور ان گمشدہ یہودیوں کو جو آخر افغان کے نام سے مشہور ہوئے حق کی طرف دعوت کریں۔

گڑیا: دادی جان کوئی اور دلیل بھی ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ حضرت عیسیٰ ؑ ہندوستان تشریف لائے۔

دادی جان: چند روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپؑ سیر کیا کرتے تھے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کی طرف وحی بھیجی کہ اے عیسیٰ ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف نقل کرتا رہ یعنی ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف جاتاکہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے۔ پھر ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جابر کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور ایک ملک سے دوسرے ملک کی طرف سیرکرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی تو جنگل کے بقولات یعنی سبزیوں وغیرہ میں سے کچھ کھاتے تھے اور خالص پانی پیتے تھے۔

گڑیا لکھتے ہوئے : جی میں نے نوٹ کر لیا۔

دادی جان: پھر کشمیرمیں ایک بزرگ کی قبر ہے جسے شہزادہ نبی یا یوز آسف کی قبر کہا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے مختلف مقامات پر لکھا ہے کہ عیسائی اور مسلمان بالاتفاق کہتے ہیں کہ یوز آسف نبی کہ جس کا زمانہ وہی مسیح کا زمانہ تھا۔ دوردراز سفر کر کے کشمیر میں پہنچا اور نہ صرف نبی بلکہ شہزادہ بھی کہلاتا تھا اور مسیح کے ملک ہی کا باشندہ تھا۔ اسی کی تعلیم بھی مسیحی تعلیم سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض فقرے بھی انجیلوں میں اس کی تعلیم سے ملتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ قبر کشمیر کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ تقریباً انیس سو برس کی ہے۔

گڑیا:حضرت مسیح موعودؑ نے اس بارے میں تحقیق بھی کروائی تھی؟

دادی جان: حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ حکیم نورالدین بھیروی نے سری نگر میں کئی ماہ تک رہ کر یہ تحقیق کی کہ فی الواقع یہی حضرت مسیح کی قبر ہے جو یوزآسف کے نام سے مشہور ہے۔ یوز، یسوع کابگڑا ہوا ہے یا مخفف ہے اور آسف آپ کا انجیلی نام ہے۔ جس کا یہ ترجمہ ہے کہ متفرق فرقوں کو تلاش کرنے والا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کشمیر اسے عیسیٰ صاحب کی قبر بھی کہتے ہیں اور پرانی تاریخوں میں ہے کہ یہ ایک شہزادہ نبی ہے جو بلادشام کی طرف سے آیا تھا اور اب تقریباً انیس سو سال گذر چکے ہیں اور اس کے ہمراہ کچھ شاگرد بھی تھے۔ کوہ سلیمان پر عبادت کرتا تھا۔ اس کے عبادت خانہ پر ایک کتبہ بھی تھا جو سکھوں کے عہد میں مٹادیا گیا۔ اس پر یہ لفظ لکھے تھے کہ یہ ایک شہزادہ نبی ہے جو بلاد شام سے آیا ہے۔ اس کا نام یوز ہے۔ اب وہ لفظ اچھی طرح پڑھے نہیں جاتے۔ وہ قبر بنی اسرائیل کی قبروں کی طرح ہے۔ بیت المقدس کی طرف اس کا رخ ہے۔ تقریباً پانچ سو آدمیوں نے محضرنامہ پر دستخط کیے کہ صاحب قبر اسرائیلی نبی تھا۔ جیسا کہ پرانی تاریخ کشمیر سے ثابت ہے۔ کسی بادشاہ کے ظلم سے یہاں آیا تھا اور بہت بوڑھا ہوکر فوت ہوگیا۔ اس کو عیسیٰ صاحب بھی کہتے ہیں اور شہزادہ نبی بھی اور یوز آسف بھی۔(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 140)

گڑیا: یہ دیکھیں میں نے نقشہ بھی بنا لیا ہے۔ اور میری پریزنٹیشن سب سے اچھی ہوگی۔

دادی جان: ان شاء اللہ۔ گڑیا بیٹا مجھے دوا اور پانی پکڑا دیں اور پھر اب سب سونے کی تیاری کریں۔ چھٹیوں میں نماز تو معاف نہیں ہوتی ناں۔ جوباقاعدگی سے فجرکی نمازپڑھےگا اسے میں ایک سرپرائز انعام بھی دوں گی۔

محمود جلد ی سے اٹھا اور جاتے ہوئے بولا : شب بخیر دادی جان۔ میں الارم آن کر لوں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button