بيوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے
ایک شخص کا سوال حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے۔اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب، نان و نفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یا کہ نہیں؟ یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟
فرمایا: بيوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکاح کا حکم ہے۔چونکہ بعض قومیں بيوہ عورت کا نکاح خلافِ عزت خيال کرتے ہيں اور يہ بد رسم بہت پھیلی ہوئی ہے۔اس واسطے بيوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے۔ ليکن اس کے يہ معنے نہيں کہ ہر بيوہ کا نکاح کيا جائے۔ نکاح تو اسی کا ہوگا جو نکاح کے لائق ہے اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے۔ بعض عورتيں بوڑھی ہو کر بيوہ ہوتی ہيں۔ بعض کے متعلق دوسرے حالات ايسے ہوتے ہيں کہ وہ نکاح کے لائق نہيں ہوتيں۔ مثلاً کسی کو ايسا مرض لاحق ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہيں يا ايک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ايسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہيں کرسکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے۔ ايسی صورتوں ميں مجبوری نہيں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑ کر خاوند کرايا جائے۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دينا چاہیے کہ بيوہ عورت کو ساری عمر بغير خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۴۲۹، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)