بنیادی مسائل کے جوابات (قسط ۸۶)
٭… ڈائس(Dice) سے کھیلی جانے والی گیم کے بارے میں راہنمائی
٭… کیا آدمی ہیرے کی انگوٹھی پہن سکتا ہے؟
٭…Transgender کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟
٭…امتی نبی کے متعلق دیے جانے والے ایک سوال کے جواب کے بارے میں راہنمائی
سوال: کینیڈا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میں نے ڈائس(Dice) سے کھیلی جانے والی گیم کے بارے میں ایک حدیث سنی ہے۔ اس بارے میں نصیحت اور وضاحت چاہتی ہوں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۵؍ اپریل ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ نے اپنے خط میں جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ احادیث کی کتاب سنن ابی داؤد میں حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جس نےنرد( گوٹی یا دانہ وغیرہ) کے ساتھ کوئی کھیل کھیلا اس نے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی نافرمانی کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب بَاب فِي النَّهْيِ عَنْ اللَّعِبِ بِالنَّرْدِ)
آنحضورﷺ کے اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اس قسم کی کھیلیں جوا کے طور پر کھیلی جاتی تھیں۔علاوہ ازیں اس قسم کی کھیلیں چونکہ انسان کو اس قدر اپنے اندر محو کر لیتی ہیں کہ اسے اس کے اصل کاموں اور اصل مقصد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اس لیے حضورﷺ نے اس قسم کی کھیلوں سے منع فرمایا۔ لیکن اگر ان کھیلوں میں جوا کی کسی قسم کی ملونی نہ ہو اور انسان اپنے اصل مقصد سے غافل بھی نہ ہو بلکہ کسی فارغ وقت یا سیر و سیاحت کے دوران کچھ وقت کے لیے کوئی ایسی کھیل جس میں شطرنج، چوسر، تاش اور لڈو وغیرہ شامل ہیں کھیل لے جو جوا کی آمیزیش سے کلیۃً پاک ہو تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔
اصل بات إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی ہے۔ اور اس حدیث کا مفہوم بھی بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ جنگوں میں یا شکار کرتے وقت تیرچلانے کی اجازت تھی لیکن وہی تیر جب جوا کھیلنے یا قسمت اور حصے معلوم کرنے کے لیے چلائے جاتے تھے، تو ان کی قرآن کریم اور آنحضورﷺ نے سختی سے ممانعت فرمائی۔(سورۃ المائدہ آیات ۴ و ۹۱)
پس ڈائس(Dice) وغیرہ سے کھیلی جانے والی کھیلوں کی اصل ممانعت، ان کا صرف ڈائس(Dice)سے کھیلا جانا ہی نہیں ہے بلکہ اس کھیل کا غلط استعمال ہے۔ اس لیے اس قسم کی کھیلوں کی ممانعت کا حکم صرف ڈائس (Dice) سے کھیلی جانے والی کھیلوں پر ہی لاگو نہیں ہو گا بلکہ اس حکم کا اطلاق ہر اس کھیل اور ہر اس کام پر بھی ہوگا جس میں کسی شرعی حکم کی نافرمانی ہو رہی ہو یا وہ کھیل اور وہ کام انسان کو اس کے اصل مقصد سے غافل کر دے۔ لہٰذا موجودہ زمانہ میں کمپیوٹر اور اس پر کھیلی جانے والی مختلف کھیلیں اورسوشل میڈیا کے مختلف پروگرام وغیرہ بھی اسی ممانعت کے حکم کے تابع ہوں گے، جب ان چیزوں میں انسان کا غیر معمولی انہماک اسے اس کی نمازوں اور ذکر الٰہی جیسے زندگی کے اصل مقصد سے غافل کردے۔
سوال: کینیڈا ہی سے ایک اور خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا آدمی ہیرے کی انگوٹھی پہن سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: مردوں کے لیے ہیرے کی انگوٹھی پہننے کی کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ ہیرے کو انگوٹھی میں نگینہ کے طور پر لگایا جائے اور اس میں کسی قسم کا فیشن، دکھاوا یا بڑائی کا اظہار مقصود نہ ہو۔
لیکن اگرکوئی شخص اسے فیشن، دکھاوے اور بڑائی کے اظہار کے لیے پہنےگا تو پھر یہ بھی اسی طرح ممانعت کے زمرہ میں آئے گا جس طرح آنحضورﷺ نے مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی اور ریشم وغیرہ کا لباس پہننے کی ممانعت فرمائی ہے۔(صحیح بخاری کتاب المرضیٰ بَاب وُجُوبِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ)
سوال: کینیڈا ہی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ مغرب میں Transgender کے حوالے سے مذاہب کے خلاف پراپیگنڈا کر کے نوجوان نسل کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قرآن کریم نے اس تیسری قسم کی جنس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور اسلام نے ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا۔ اس قسم کے اعتراضات کا کافی و شافی جواب کس طرح دیا جائے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۰؍اپریل ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اصل بات یہ ہے کہ تخلیق آدم سے لےکر قیامت تک شیطان نے آدم کی اولاد کو بہکانے اور اسے خدا تعالیٰ کے راستہ سے برگشتہ کرنے کا جو بیڑااٹھا رکھا ہے، اس کے تحت شیطان مختلف طریقوں سے انسانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان شیطانی حملوں سے باخبر رکھنے کے لیے ان الفاظ میں انذار فرمایا ہے۔ لَعَنَهُ اللّٰهُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۔ وَّلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّنْ دُونِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا۔ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيْهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُوْرًا۔ أُولٰٓئِكَ مَأْوٰهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُوْنَ عَنْهَا مَحِيصًا۔(سورۃ النساء:۱۱۹ تا ۱۲۲)یعنی (اس شیطان کو) جسے اللہ نے (اپنی جناب سے) دُور کر دیا ہے اور (جس نے یہ) کہا تھا کہ میں تیرے بندوں سے ضرور ہی ایک مقررہ حصہ لوں گا۔اور انہیں لازماًگمراہ کروں گا اور یقیناً (بڑی بڑی) امیدیں بھی دلاؤں گا اور ان سے باصرار یہ خواہش کروں گا کہ وہ چوپایوں کے کان کاٹیں۔ اسی طرح خواہش کروں گا کہ وہ مخلوق خدا میں تبدیلی کریں اور جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے، تو (سمجھو کہ) وہ (کھلے) کھلے نقصان میں پڑ گیا۔ وہ (شیطان) انہیں وعدے دیتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے اور شیطان ان سے بجز ظاہر فریب باتوں کے (کسی امر کا) وعدہ نہیں کرتا۔ ان لوگوں کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور وہ اس سے بھاگنے کی جگہ کہیں نہیں پائیں گے۔
اس آخری زمانہ میں شیطان نے دجالی قوتوں کا روپ دھار کر انسانوں کو گمراہ کرنے کا طریق اختیار کیا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس سے ہر نبی نے اپنے متبعین کو ڈرایا اور آنحضورﷺ نے اس کے بارے میں بہت زیادہ انذار فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن بَاب ذِكْرِ الدَّجَّالِ) اور ان شیطانی اور دجالی طاقتوں کے مقابلے کے لیے اپنے روحانی فرزند اور غلام صادق مسیح موعود و مہدی معہودؑ کی بعثت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ (صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن بَاب قَوْلُهُ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ)جس نے اپنی خداداد تائید و نصرت کے ذریعہ دلائل و براہین کے ساتھ ان دجالی قوتوں کا مقابلہ کر کے اسے انشاء اللہ ناکام و نامراد کرنا ہے۔
پس آنحضورﷺ کے عشق اور آپؐ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں مسیح محمدیؑ کے مقام پر فائز ہونے والے اس جری اللہ فی حلل الانبیاء نے شیطانی اوردجالی طاقتوں کے مقابلے کے لیے ہمیں جو دعا اور قلمی جہاد کے ہتھیار عطا فرمائے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو ان ہتھیاروں سے پوری طرح لیس کر کے ان شیطانی اور دجالی قوتوں کا مقابلہ کر کے خود کو اور اپنی آئندہ نسل کو ان کے حملوں سے محفوظ کریں۔ لیکن اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم آپؑ کی دی ہوئی تعلیمات کو حرز جان بنا کر ان پر عمل پیرا ہوں۔
باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ Transgenderیا خنثیٰ کا ذکرقرآن کریم میں نہیں آیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تخلیق کی یہ قسم بھی دراصل الذَّکَرَ وَالۡاُنۡثٰۤی یعنی نر و مادہ کی ہی ایک بیمار شکل ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم نے مختلف بیماریوں میں مبتلا مرد و خواتین مثلاً ہونٹ کٹے ہوئے، یا آنکھ سے محروم یا ٹانگوں سے اپاہج انسان کا الگ ذکر نہیں فرمایا، اسی طرح خنثیٰ کا بھی ذکر نہیں کیا جو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں فرماتے ہیں:فرماتا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی خوابیدگی غالب رہتی ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو استفاضہ کی قوت اپنے (اندر) رکھتے ہیں وہ انثیٰ ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثیٰ ہوتے ہیں۔ ان سے دنیا میں کبھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا۔ فرماتا ہےوَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی۔ ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر نر اور مادہ آپس میں نہ ملیں تو نسل انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے۔
بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی یعنی خدا تعالیٰ نے ذَکر اور انثیٰ کو پیدا کیا ہے مگر اس نے خنثیٰ کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے۔ مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خنثیٰ ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ بہر حال یا ذَکر ہے یا انثیٰ ہے اس سے باہر نہیں۔ یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خنثیٰ کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے… اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذَکر یا انثیٰ کے خنثیٰ پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا۔ خنثیٰ کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالیٰ آنکھیں دیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بیہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے۔ مجھے تو حیرت آتی ہےکہ ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالیٰ نے ذَکراور انثیٰ کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثیٰ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ خنثیٰ ہونا تو ایسے ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں۔ کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں۔ اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دےدیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی۔ دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالیٰ نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پید اہو جاتے ہیں جن کو آپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو آپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں۔ پس خالی خنثیٰ کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیے تھے اور کہنا چاہیے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر، ایک ہی قلب، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں، حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذَکراور انثیٰ کا نام لیا ہے خنثیٰ کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے۔ اور مفسرین کو چاہیے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے، کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے۔ دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں، ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذَکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیں تب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں۔(تفسیر کبیر جلد ۱۳ صفحہ ۷۹تا ۸۱، مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء)
پس Transgenderکا لفظ پیدائشی جنسی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو اپنی پیدائشی جنس کے برعکس جنس والے جذبات یا کسی اور قسم کی جنس کے جذبات اپنے ذہن میں محسوس کرتا ہو۔ یہ دوسری قسم کی بیماری اگر معاشرتی بے راہ رویوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سوچ اور دماغی خرابی کے نتیجہ میں انسان کے ذہن میں آتی ہےتو یہ بھی غلط ہے اور پھر ایسی سوچ والا شخص جب عملاً اپنی جنس تبدیل کرنا چاہتا ہے تو یہ سب امور اسی انذار کے تحت آئیں گے، جس کا اوپر قرآن کریم کے حوالے سے ذکرکیا گیا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی سوچ اور اس کے نتیجہ میں ایسا عمل مخلوق خدا میں تبدیلی کے مترادف ہے جس کی اسلام نے ہرگز اجازت نہیں دی۔
Transgenderچونکہ ایک قسم کی پیدائشی جنسی بیماری یا ذہنی جنسی بیماری ہے، لہٰذا جس طرح ہم دوسری بیماریوں کا علاج کرواتے ہیں،اسی طرح اس بیماری کا بھی علاج ہونا چاہیے۔ نیز اس بیماری میں مبتلا لوگوں کو ہم اس طرح بُرا نہیں سمجھتے کہ انہیں اپنے سے دُور کرنے کے لیے دھتکار دیں، اور ان سے نفرت کریں۔بلکہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سےہر معاشرہ اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کی جائز ضروریات کو پورا کرے، اگر ان کا علاج ہو سکتا ہو تو انہیں علاج کی سہولت بہم پہنچائے۔ اس بیماری کی وجہ سے انہیں ہر اس بُرائی میں مبتلا ہونے سے بچانے کی کوشش کرے، جس میں اس بیماری کے شکار افراد کا شیطان کے بہکاوے میں آ کر مبتلا ہونے کا امکان ہو۔ اور ان کی اصلاح کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
سوال: یوکے سے ایک دوست نے ایم ٹی اے کے پروگرام راہ ہدیٰ میں امتی نبی کے متعلق دیے جانے والے ایک سوال کے جواب کے بارے میں لکھا کہ یہ جواب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر کے خلاف ہے۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۰۶؍مئی ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایت فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ کی بات درست ہے کہ راہ ہدیٰ کے پروگرام میں اس سوال کا جو جواب دیا گیا ہے وہ کنفیوژن پیدا کرتا ہے۔ اس لیے متعلقہ شعبہ کو آئندہ پروگرام میں اس سوال کی درج ذیل درست وضاحت کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امتی نبی کا مقام صرف اور صرف آنحضورﷺ کی کامل پیروی اور آپؐ کے افاضہ کمال کے نتیجہ میں پایا ہے۔ اور ایسا افاضہ کمال آنحضورﷺ سے پہلےکبھی کسی نبی کے حصہ میں نہیں آیا۔ اور امتی نبی کا یہ مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں ہوا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھو کہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرتﷺکے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لیے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپؐ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا اس لیے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی اور میری نبوت آنحضرتﷺ کی ظلّ ہے نہ کہ اصلی نبوت۔ اِسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام اُمتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہرایک کمال مجھ کو آنحضرتﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے۔(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۴حاشیہ)
اسی طرح اپنے ایک الہام’’خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ وحی الٰہی کہ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے اور خدا کی مہر نے یہ کام کیا کہ آنحضرتﷺ کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ اُمتی ہے اور ایک پہلو سےنبی کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرتﷺ کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی وجہ سے آپؐ کا نام خاتم النبیین ٹھیرا یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ علماء اُمّتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر اُن کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موھبت تھیں حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا اسی وجہ سے میری طرح اُن کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست اُن کو منصب نبوت ملا۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۹۔۱۰۰حاشیہ )
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ جس رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں پہلی امتوں میں یہ مقام کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:حضرت ابراہیمؑ کا ذکر لوطؑ کے ذکر کے ابتداء میں اس لیے کیا ہے کہ حضرت لوطؑ حضرت ابراہیمؑ پر ایمان لانے والوں میں سے تھے اور ان کے تابع نبی تھے۔ جس طرح حضرت اسحاق ؑاور اسماعیلؑ ان کے تابع تھے۔ یا ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے تابع تھے۔ گو امتی نہ تھے۔ کیونکہ اس وقت نبوت براہ راست ملا کرتی تھی نہ کہ نبی متبوع کے فیض سے۔ اس قسم کی نبوت صرف رسول کریمﷺ کی امت میں جاری ہے کہ تابع نبی ایک لحاظ سے نبی ہوتا ہے اور دوسرے لحاظ سے امتی۔ (تفسیر کبیر جلد ۴ صفحہ۳۰۸، مطبوعہ یوکے ۲۰۲۳ء)
اسی طرح ایک جگہ قتل انبیاء کے مضمون کے ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ امتی نبی کے آنے کو ایک دلیل کے رنگ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کہیں کہ رسول کریمﷺ سے پہلے کبھی کوئی امتی نبی نہیں ہوا تو کوئی شخص ہمارے ان الفاظ کو لے اڑے اور کہنا شروع کر دے کہ صاف اقرار کر لیا گیا ہے کہ کبھی کوئی امتی نبی نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص اسے کہے گا کہ یہاں تو یہ ذکر ہے کہ رسول کریمﷺ سے پہلے کبھی کوئی امتی نبی نہیں ہوا۔ یہ تم نے کہاں سے نکال لیا کہ بعد میں بھی کوئی امتی نبی نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہاں یہ لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک کسی نبی کا قتل بنی اسرائیل سے ثابت نہیں۔(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان نمبر۲۰۳، جلد۲۶، مورخہ ۳؍ستمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۲)
٭…٭…٭