یادِ رفتگاں

محترم خان زادہ محمد سلیم احمد صاحب

میرے نانا جان محترم خانزادہ محمد سلیم احمد صاحب کا تعلق پشاور کے ایک نواحی گائوں شیخ محمدی سے تھا۔ آپ کی پیدائش ۱۹۲۹ء میں ملک عبد القیوم خان صاحب رئیس شیخ محمدی کے گھر ہوئی۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا ملک محمد ایوب خان صاحب کے ذریعہ سے ہوا۔ آپ کے دادا نے حضرت مولانا غلام حسن خان نیازی صاحبؓ  کی دعوت و تبلیغ سے احمدیت قبول کی۔ آپ کے دادا نے جنوری ۱۹۱۲ء میں بذریعہ تحریر بیعت کی۔ (اخبار بدر قادیان ۴؍جنوری ۱۹۰۲ء)

آپ کے دادا کو دشمنان احمدیت نے مارچ ۱۹۱۲ء میں شہید کردیا۔ ۱۹۲۵ءمیں آپ کے تایا ملک عبد الرؤف صاحب کو بھی شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد آپ کے والد صاحب کو ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں پھنسایا گیا۔ اس مقدمے میں آپ کے والد صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی لیکن خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے معجزانہ طور پر رہائی ملی۔

آپ کے والد صاحب کی رہائی میں حضرت مولانا غلام حسن خان نیازی صاحبؓ اور آپ کے چچا پروفیسر عبداللطیف صاحب کی خدمات قابل تحسین ہیں۔

آپ کے خاندان پر آزمائش کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ والد صاحب کی رہائی کے کچھ عرصہ بعد آپ کے سب سے چھوٹے چچا عبد القدوس صاحب کو اغوا کر لیا گیا۔ جن کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔ ۱۹۴۸ء میں میٹرک کرنے کے بعد پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ جب آپ زیارت میں تعینات تھے تو محمد علی جناح صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جو علاج کے سلسلے میں زیارت ریذیڈنسی میں رہائش پذیر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد جب حضرت مصلح موعودؓ نے لنڈی کوتل کا دورہ فرمایا تو آپ بھی حضورؓ کے قافلے میں شامل تھے۔

آپ کی شادی ۱۹۵۸ء میں صاحبزادہ سیف الرحمان صاحب جو اپنے علاقے کے جید عالم تھے، کی چھوٹی صاحبزادی محترمہ زکیہ بیگم سے ہوئی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا فرمائیں۔ ایک بیٹی بچپن میں فوت ہوگئیں۔۱۹۶۰ء کے اوائل میں پاک فوج سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد واپڈا میں ملازمت اختیار کی۔ واپڈا سے آپ ۱۹۸۹ء میں ریٹائر ہوئے۔

آپ ایک مخلص اور نڈر احمدی تھے۔ آپ نے ہمیشہ احمدیت کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آپ نے ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کا پرآشوب زمانہ دیکھا لیکن احمدیت پر ثابت قدم رہے۔ خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق تھا۔ پاکستان بننے کے بعد تقریباً ہر جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ آپ کو ۱۹۸۹ء میں جماعت احمدیہ کے صد سالہ جوبلی جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی انگلستان ہجرت سے کچھ عرصہ پہلے حضورؒ سے فیملی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ جماعتی لٹریچر کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ خاکسار نے جب بھی مذہبی یا جماعتی حوالے سے کوئی سوال کیا تو ہمیشہ مدلل اور جامع جواب دیا۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی جس نے خاکسار کو متاثر کیا وہ آپ کی سادگی تھی۔ آپ کو نمود و نمائش سے سخت نفرت تھی۔ ۷۰؍سال کی عمر تک آپ باقاعدگی سے سائیکل چلاتے رہے۔ اسی طرح آپ نے ۷۰؍سال کی عمر تک باقاعدگی سے ورزش بھی کی۔ آپ کا عبادت میں شغف قابل رشک تھا۔ آپ نے ۱۳؍اپریل ۲۰۱۰ء کو وفات پائی اور جماعت احمدیہ کے قبرستان پشاور میں آپ کی تدفین ہوئی۔ وفات کے وقت آپ کی عمر ۸۰؍برس کے قریب تھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کی اولاد کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(‘شان عبد الرحمٰن’)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button